معیشت پر منفی بیان بازی سے پرہیز کیا جائے

وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا اجلاس بدھ کو وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں کئی فیصلے کیے گئے ہیں۔ اجلاس میں وزارت توانائی کی جانب سے پاور سیکٹر کے لیے ٹیرف ریشنلائزیشن سے متعلق پیش کردہ سمری کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

اس سمری میں تجویزکیا گیا ہے کہ حکومت نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی 2021 کے تحت کے الیکٹرک اور سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے یکساں صارف کے آخر میں ٹیرف برقرار رکھ سکتی ہے، ای سی سی نے سمری کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ملک کے دیگر حصوں کی طرح کے الیکٹرک کے لیے ٹیرف ریشنلائزیشن کی منظوری دیدی۔ اس کے علاوہ ٹریڈنگ کارپوریشن کو مزید 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدنے کی اجازت دیدی۔ ای سی سی نے2 لاکھ ٹن یوریا درآمد کرنے کی بھی منظوری دیدی۔

ای سی سی نے یہ فیصلے ملک کی موجودہ اقتصادی صورتحال اور ضروریات کو سامنے رکھ کیے ہیں۔ گندم اور یوریا کی سپلائی کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ نئی فصل آنے سے ایک دو ماہ قبل گندم کی قلت پیدا ہوجاتی ہے، اسی طرح کھاد کی سپلائی میں تسلسل بھی انتہائی ضروری ہے،ملک میں جو معاشی عدم استحکام نظر آرہاہے ،اس حوالے سے بھی حوصلہ افزاء اشارے مل رہے ہیں۔

اسٹیٹ بینک حکام کے حوالے سے ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا کیونکہ آئی ایم ایف اور امداد دینے والے ملک ہمارے ساتھ ہیں۔ بلاشبہ رواں مالی سال2022-23 پاکستان سمیت عالمی معیشت کی لیے بہت مشکل سال ہے، عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے جس کے اثرات پاکستان پر بھی ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکام نے کہا روپے کی قدر مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

ملکی معیشت اب بہت سنبھل چکی ہے، غیر ضروری درآمدات میں کمی کی گئی ہے، تمام مشکل فیصلے کر لیے گئے ہیں، اب مشکل حالات نہیں ہیں اور مستقبل اچھا ہے۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی ہے اور بڑی مشکل سے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطح کا معاہدہ طے پاگیا ہے اور معاہدے کی تمام مشکل چیزیں کرلی ہیں۔ کوشش کریں گے مہنگائی کو ہدف سے زیادہ نہ بڑھنے دیا جائے۔ اسٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ حالیہ ضمنی الیکشن کے بعد ایک مرتبہ پھر عدم استحکام کا سامنا ہے، روپیہ پر دباؤ، بڑھتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور درآمدی بل کے باعث ہے۔ درآمدی بل کو فوراً کم کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاسی عدم استحکام کی صورت میں آئی ایم ایف کو نگران حکومت سے بھی مذاکرات کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، اب صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے اورپاکستان کے دوست ممالک بھی امداد کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر معیشت کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے وہ کوویڈ سے زیادہ خطرناک ہے۔ عالمی سطح پر مہنگائی گزشتہ چالیس سال میں سب سے زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف کی اگست میں چھٹیاں ختم ہونے جا رہی ہیں اور چھٹیاں ختم ہونے کے بعد فوری دستیاب تاریخ پر آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہوگا جس میں پاکستان کے اقتصادی جائزہ کی منظوری دی جائے گی اور ساتھ ہی پاکستان کو قرضے کی قسط بھی جاری ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف کی اس حوالے سے کوئی پیشگی شرط نہیں ہے کہ ڈالر کو کس ریٹ پر لے کر جانا ہے۔

یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ ملک کی معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے جس کمک کی ضرورت تھی ، وہ پاکستان کو مل چکے ہیں اور آیندہ دنوں میں صورتحال بہتر ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔


ادھر وزیراعظم شہباز شریف روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کو روکنے کے لیے آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کا جلد انعقاد چاہتے ہیں تاکہ بیل آؤت پیکیج کی منظوری دی جا سکے، میڈیا کی اطلاع کے مطابق انھوں نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو ایک اجلاس میں ہدایت کی ہے کہ عالمی ادارے سے درخواست کی جائے کہ وہ یکم اگست کو سالانہ تعطیلات پر جانے سے قبل پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دے،یہ بات مذکورہ اجلاس میں شریک اہم افراد نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتائی،وزیراعظم نے یہ اجلاس مفتاح اسماعیل اورا سٹیٹ بینک حکام کی جانب سے میڈیا کو روپے کی قدر میں مسلسل تیسرے روز گراوٹ کی وجوہات بتانے کے فوری بعد بلایا تھا۔

آئی ایم ایف بورڈ کے جلد اجلاس ممکن نہیں اور اس حوالے سے وزیراعظم کی جاری ہدایت قبل از وقت ہے کیوں کہ تاحال پاکستان نے عالمی ادارے کی وہ پیشگی شرائط پوری نہیں کیں جو بورڈ اجلاس کے انعقاد سے مشروط ہیں،وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ بجلی نرخوں میں اضافے کا نوٹی فکیشن اور یکم اگست سے پٹرول پر 10 روپے فی لٹر اور ڈیزل پر 5 روپے فی لٹر لیوی عائد کرنے کا فیصلہ تعطل کا شکار ہے،مزید برآں پاکستان نے دوست ممالک سے 4 ارب ڈالر کی فنانسنگ کی بھی یقین دہانی حاصل نہیں کی جو پیشگی شرائط میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی جانب سے تمام شرائط پر عمل درآمد کی تفصیلات پر مبنی آئی ایم ایف کے ایم ڈی کے نام مراسلہ بھی تاحال نہیں بھیجا گیا،اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان کے پاس آیندہ دو ماہ کے لیے ڈیزل اور فرنس آئل کا ذخیرہ موجود ہے،جس سے ایکسچینج ریٹ پر دباؤ اور درآمدات میں کمی لانے میں مدد ملے گی،اس مشکل وقت میں حکومت نے پرائیویٹائزیشن کے مسابقتی عمل کو روک کر آیندہ چند دنوں میں دو ایل این جی پاور پلانٹ متحدہ عرب امارات کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

معاشی بحران میں کمی کے لیے حکومت ایک ارب ڈالر کے عوض یو اے ای کو بلیو چِپ کمپنیوں میں نشست دینے کے لیے بھی تیار ہے،جس کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کی ضرورت پیش آئے گی،دریں اثنا وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے، اب اس میں کوئی رکاوٹ نہیں، اب صرف رسمی کارروائی ہونا باقی ہے، آئی ایم ایف کے بعد عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی پیسے آنا شروع ہوجائیں گے،رواں مالی سال میں دوست ممالک سے آٹھ ارب ڈالر ملنے کی بھی توقع ہے، معاشی کے بجائے سیاسی ہلچل روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ ہے۔

اگست میں چیزیں ہموار اور سیاسی صورتحال نارمل ہوجائے گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ درآمدات کو برآمدات اور ترسیلات زر کے برابر کرنے کی کوشش کررہے ہیں، بہت سی اشیا کی درآمد پرپابندی لگانے کا فائدہ ہوا تاہم کچھ پر نہیں ہوا، ہم نے پچھلے تین ماہ میں کوشش کی کہ درآمدات کم کریں، انھوں نے کہا خوشی کی بات ہے کہ اس ماہ اقدامات کا ثمر آیا ہے، جولائی میں 26 لاکھ ڈالر کی درآمدات ہوئیں، 70 کروڑ ڈالر کا تیل درآمد ہوا،توانائی کی درآمد میں کمی آئی ہے،اس وقت پاکستان میں 60 دن کا ڈیزل موجود ہے۔

مجموعی طور پر رواں مالی سال 8 ارب ڈالر حاصل ہونگے، ڈالرکی اڑان صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہے، ڈالر سب کرنسیوں کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے ،دنیا میں 22 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے میں دو دن میں سیاسی صورت حال کا بڑا ہاتھ تھا۔

ملک میں یومیہ بنیادوں پر معاشی چیلنجز میں اضافے، کمرشل بینکوں کی جانب سے آئل امپورٹ لیٹر آف کریڈٹس زرمبادلہ کی مہنگی لاگت پر کھولنے کی خبروں کے باعث منگل کو بھی ڈالر کی تیز رفتار پرواز جاری رہی جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ ملکی تاریخ میں پہلی بار 224روپے سے تجاوز کرگئے۔

مارکیٹ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ سٹے باز منفی افواہیں پھیلاکر ڈالر میں سٹے بازی کررہے ہیں جب کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے عوامل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحرک مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کے نظام کے تحت جاری کھاتے کی صورتحال، متعلقہ خبروں اور اندرونی بے یقینی مل کر یومیہ بنیادوں پر روپے کی قدر میں تبدیلی کا سبب بن رہی ہے۔ مرکزی بینک کا موقف ہے کہ ڈالر کی قدر امریکی فیڈرل ریزرو کی جانب سے افراط زر پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں جارحانہ اضافے کا بھی نتیجہ ہے۔

پاکستان کو معیشت کو درست ٹریک پر ڈالنے کے لیے پالیسی میں تسلسل پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو معیشت پر منفی سیاست سے گریز کرنا چاہیے بلکہ پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے اور معیشت اور مالیاتی اداروں کے بارے میں منفی بیانات دینے پر پابندی عائد کردی جائے اور اگر کوئی سیاستدان، ماہرمعیشت یا کوئی دوسرا شخص معیشت اور عالمی مالیاتی اداروں کے بارے میں بلاثبوت ایسی بیان بازی کرے جس سے معاشی اور مالیاتی عدم استحکام پیدا ہو،اس کے خلاف ریاستی ادارے قانونی کارروائی کا اختیار رکھتے ہوں۔
Load Next Story