معاشی بحران اور روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات
پاکستان آجکل شدید معاشی بحران میں نظر آرہا ہے۔ روپے کی قدر میں دن بدن کمی یہ تاثر بنا رہا ہے کہ حکومت معاشی بحران کو حل کرنے میں بے بس ہے۔عام آدمی مہنگائی سے تنگ ہے۔ زندگی مشکل سے مشکل ہوتی جا رہی ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل پر بھی تنقید نظر آرہی ہے۔لوگ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
میرے نزدیک زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشی بحران کا حقیقی ذمے دار کون؟ کیا ہم تین ماہ کی موجودہ حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دے سکتے ہیں؟ یا اس کی اصل وجوہات کچھ اور ہیں جنھیں سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ آج پاکستان کے معاشی بحران اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر اور وہاں سے قسط جاری ہونے میں تاخیر نظر آر ہی ہے۔
ایسے میں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے دوبارہ معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور آج آئی ایم ایف کی قسط میں اس قدر تاخیر کیوں ہے؟ جب پاکستان کا انحصار آئی ایم ایف پر ہے تو آئی ایم ایف سے معاملات کس نے اس قدر خراب کر دیے ہیں کہ آج قسط ملنے میں اس قدر مشکل پیش آرہی ہے۔ جہاں معاشی بحران پر بات کرنی ضروری ہے وہاں اس کی وجوہات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت بھی اب سیاست ہی بن گئی ہے۔ معاشی ماہرین بھی سیاسی ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر معاشی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے تجزئیے میں وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو ان کے سیاسی بیانیے کے ساتھ بہتر نظر آتی ہے۔
پاکستان میں نیوٹرل اور A Politicalمعاشی ماہرین کی بھی شدید کمی نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بطور معاشی ماہر اقتدار کے ایوانوں میں بھی سرنگ لگ جاتی ہے اور زیادہ تر معاشی ماہرین اسی سرنگ کی تلاش میں معاشی تجزئیے کرتے نظر آتے ہیں۔
ٹی وی اینکرز ایک لمحے سیاسی امور کا ماہر ہوتا ہے،دوسرے لمحے معاشی اور مالیاتی امور کا ماہر بن جاتا ہے اور ساتھ ہی پہلو بدل کر کھیل، صحت، ڈنگی، کورونا وغیرہ کا ماہر بن جاتا ہے، یہی حال تجزیہ کاروں کا ہے،اکثر تجزیہ کار تو نیوز پیپرز تک نہیں پڑھتے لیکن دنیا کے ہر ایشو پر بولتے نظر آتے ہیں، اس لیے غیر جانبدار اور پرمغز اور گہرا سیاسی تجزئیہ کار تلاش کرنا بھی مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
معاشی ماہر عاطف میاں نے اپنے حالیہ کے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے اپنے معاملات خراب کر کے اس معاشی بحران کو خود دعوت دی ہے۔ ان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان حکومت کا پٹرول کی قیمت کم کرنا، آئی ایم ایف کے معاہدے سے مکمل انحراف تھا۔ اسی طرح بجلی کی قیمت کرنا بھی آئی ایم ایف سے مکمل انحراف تھا۔ ان کے مطابق اس وقت جب عالمی دنیا میں تیل اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔
دنیا بھر میں تیل کی قیمتیںبڑھ رہی تھیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پٹرول پر لیوی لگانے کا معاہدہ کیا ہوا تھا۔ یہ معاہدہ عمران خان کی حکومت نے کیا ہوا تھا۔ لیکن جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی اور انھیں یہ یقین ہوگیا کہ اب ان کے اقتدر کے جانے کا وقت آگیا ہے تو انھوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے سے انحراف کر دیا۔ حالانکہ آئی ایم ایف کسی ایک حکومت نہیں ریاست پاکستان سے معاہدہ کرتا ہے، اس لیے آنے والی حکومتیں بھی جانے والی حکومتوں سے کیے گئے معاہدوںکی پابند ہوتی ہیں۔
عمران خان کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے آج پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ قسط کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے معاہدے سے انحراف کر کے آئی ایم ایف سے معاملات کو خطرناک حد تک خراب کر دیا۔جس کی قیمت آج پاکستان چکا رہا ہے کیونکہ معاہدہ پاکستان کے ساتھ تھااور آج پاکستان اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور معاشی عدم استحکام اسی کی وجہ سے ہے اور اوپر سے سیاسی بحران حالات کو خراب کررہا ہے۔
ماضی میں بھی ہم نے عالمی معاہدوں کو توڑ کر ان سے سبق نہیں سیکھا۔ ریکوڈک ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے اس معاہدے سے بھی ایسے ہی انحراف کیا جیسے آئی ایم ایف سے انحراف کر دیا ہے۔ ریکوڈک نے پاکستان کو عالمی سطح پر بہت شرمندگی دی۔
ہمیں جرمانہ ہوا۔ دنیا نے ہمیں عالمی معاہدوں کی پاسداری کا حکم دیا۔ لیکن پاکستان کی رولنگ کلاس نے کچھ نہیں سیکھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست نے ریکوڈک کا معاملہ خراب کر کے پاکستان کو مشکلات میں دھکیلنے والوں کا کوئی احتساب نہیں کیا تھا۔ پاکستان کی عالمی عدالتوں میں سبکی ہوتی رہی جب کہ اس سبکی کے ذمے دار لوگ پاکستان میں معتبر اور پرتعیش زندگی گزارتے رہے۔
اسی وجہ سے عمران خان کو آئی ایم ایف سے معاہدے سے انحراف کا حوصلہ ملا۔ پاکستان میں ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ عالمی معاہدوں سے انحراف کوئی جرم نہیں ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کو گروی رکھنے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ آج ہم جس مشکل میں ہیں، اس کے ذمے داران کو بھی کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ وہ تو ہیرو بن کر روز ہمارے سامنے آرہے ہیں اور جو حکومت ان کے بوئے ہوئے کانٹے چن رہی ہے، وہ گالیاں کھا رہی ہے۔
کیا ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں ریاست پاکستان کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے عالمی معاہدوں کو دائر پر لگا دیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا ہے کہ عمران خان پہلے سیاستدان ہیں جنھوں نے یہ کیا ہے، ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو چور کہنے کی رٹ نے پاکستان میں عالمی معاہدوں کا احترام ختم کردیاہے۔
حکومت آتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے سب معاہدے ختم کر دے۔ چاہے اس کا پاکستان کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔عالمی مالیاتی اداروں کے عہدیدار سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں معاشی تسلسل نہیں ہے، ساورن معاہدوں سے انحراف کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، یوں عالمی اداروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔
آج بھی یہی صورتحال ہے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے اس شک کا اظہار کر ہے ہیں کہ اگر ملک میں انتخابات ہو گئے تو کیا نئی حکومت ان معاہدوں کو مانے گی۔ اس ابہام کا شاید پاکستان میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ آج ہمارے معاشی بحران کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم عالمی اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
میں یہاں ماضی کا ایک وقعہ دلیل کے طوپر لکھنا چاہتا ہوں، جب معین قریشی کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ تب پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت تھی۔ لیکن آئی ایم ایف نے معین قریشی کے ساتھ معاہدہ کرنے سے انکا رکر دیا تھا۔ آئی ایم ایف کا موقف تھا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو نئی حکومت آئے گی وہ اس معاہدہ کو مانے گی۔
جس کی وجہ سے اس وقت کے سیاسی حریف نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کے مفاد میں ذاتی طور پر یہ گارنٹی لکھ کر دی تھی کہ اگر انتخابات کے بعد ان میں سے کسی کی بھی حکومت بن گئی تو وہ معین قریشی کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے پر عمل کریں گے۔ تب ملک میں دو جماعتوں کے درمیان ہی مقابلہ تھا، اس لیے دونوں کی گارنٹی مان لی گئی۔اب تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ملک میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔
اس لیے آئی ایم ایف کس کس سے یہ گارنٹی مانگے کہ وہ اس معاہدے کو مانے گا۔ اس لیے عالمی ادارے شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے روپے کی قدر گر رہی ہے اور معاشی بحران سنگین سے سنگین ہو رہا ہے۔ لیکن ملک کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کچھ سیکھ نہیں رہے۔ وقت کی ضرورت اکٹھے بیٹھنے کی ہے۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوئے بیٹھے ہیں اور ریاست کمزور ہورہی ہے۔
میرے نزدیک زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشی بحران کا حقیقی ذمے دار کون؟ کیا ہم تین ماہ کی موجودہ حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دے سکتے ہیں؟ یا اس کی اصل وجوہات کچھ اور ہیں جنھیں سامنے لانا بھی ضروری ہے۔ آج پاکستان کے معاشی بحران اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر اور وہاں سے قسط جاری ہونے میں تاخیر نظر آر ہی ہے۔
ایسے میں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے دوبارہ معاہدے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے اور آج آئی ایم ایف کی قسط میں اس قدر تاخیر کیوں ہے؟ جب پاکستان کا انحصار آئی ایم ایف پر ہے تو آئی ایم ایف سے معاملات کس نے اس قدر خراب کر دیے ہیں کہ آج قسط ملنے میں اس قدر مشکل پیش آرہی ہے۔ جہاں معاشی بحران پر بات کرنی ضروری ہے وہاں اس کی وجوہات پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت بھی اب سیاست ہی بن گئی ہے۔ معاشی ماہرین بھی سیاسی ہو گئے ہیں۔ زیادہ تر معاشی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے تجزئیے میں وہی تصویر پیش کرتے ہیں جو ان کے سیاسی بیانیے کے ساتھ بہتر نظر آتی ہے۔
پاکستان میں نیوٹرل اور A Politicalمعاشی ماہرین کی بھی شدید کمی نظر آرہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بطور معاشی ماہر اقتدار کے ایوانوں میں بھی سرنگ لگ جاتی ہے اور زیادہ تر معاشی ماہرین اسی سرنگ کی تلاش میں معاشی تجزئیے کرتے نظر آتے ہیں۔
ٹی وی اینکرز ایک لمحے سیاسی امور کا ماہر ہوتا ہے،دوسرے لمحے معاشی اور مالیاتی امور کا ماہر بن جاتا ہے اور ساتھ ہی پہلو بدل کر کھیل، صحت، ڈنگی، کورونا وغیرہ کا ماہر بن جاتا ہے، یہی حال تجزیہ کاروں کا ہے،اکثر تجزیہ کار تو نیوز پیپرز تک نہیں پڑھتے لیکن دنیا کے ہر ایشو پر بولتے نظر آتے ہیں، اس لیے غیر جانبدار اور پرمغز اور گہرا سیاسی تجزئیہ کار تلاش کرنا بھی مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
معاشی ماہر عاطف میاں نے اپنے حالیہ کے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے اپنے معاملات خراب کر کے اس معاشی بحران کو خود دعوت دی ہے۔ ان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان حکومت کا پٹرول کی قیمت کم کرنا، آئی ایم ایف کے معاہدے سے مکمل انحراف تھا۔ اسی طرح بجلی کی قیمت کرنا بھی آئی ایم ایف سے مکمل انحراف تھا۔ ان کے مطابق اس وقت جب عالمی دنیا میں تیل اور توانائی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔
دنیا بھر میں تیل کی قیمتیںبڑھ رہی تھیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے پٹرول پر لیوی لگانے کا معاہدہ کیا ہوا تھا۔ یہ معاہدہ عمران خان کی حکومت نے کیا ہوا تھا۔ لیکن جب ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آگئی اور انھیں یہ یقین ہوگیا کہ اب ان کے اقتدر کے جانے کا وقت آگیا ہے تو انھوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے سے انحراف کر دیا۔ حالانکہ آئی ایم ایف کسی ایک حکومت نہیں ریاست پاکستان سے معاہدہ کرتا ہے، اس لیے آنے والی حکومتیں بھی جانے والی حکومتوں سے کیے گئے معاہدوںکی پابند ہوتی ہیں۔
عمران خان کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے آج پاکستان کو آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ قسط کے رکنے کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے معاہدے سے انحراف کر کے آئی ایم ایف سے معاملات کو خطرناک حد تک خراب کر دیا۔جس کی قیمت آج پاکستان چکا رہا ہے کیونکہ معاہدہ پاکستان کے ساتھ تھااور آج پاکستان اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور معاشی عدم استحکام اسی کی وجہ سے ہے اور اوپر سے سیاسی بحران حالات کو خراب کررہا ہے۔
ماضی میں بھی ہم نے عالمی معاہدوں کو توڑ کر ان سے سبق نہیں سیکھا۔ ریکوڈک ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے اس معاہدے سے بھی ایسے ہی انحراف کیا جیسے آئی ایم ایف سے انحراف کر دیا ہے۔ ریکوڈک نے پاکستان کو عالمی سطح پر بہت شرمندگی دی۔
ہمیں جرمانہ ہوا۔ دنیا نے ہمیں عالمی معاہدوں کی پاسداری کا حکم دیا۔ لیکن پاکستان کی رولنگ کلاس نے کچھ نہیں سیکھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست نے ریکوڈک کا معاملہ خراب کر کے پاکستان کو مشکلات میں دھکیلنے والوں کا کوئی احتساب نہیں کیا تھا۔ پاکستان کی عالمی عدالتوں میں سبکی ہوتی رہی جب کہ اس سبکی کے ذمے دار لوگ پاکستان میں معتبر اور پرتعیش زندگی گزارتے رہے۔
اسی وجہ سے عمران خان کو آئی ایم ایف سے معاہدے سے انحراف کا حوصلہ ملا۔ پاکستان میں ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ عالمی معاہدوں سے انحراف کوئی جرم نہیں ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کو گروی رکھنے کی کوئی سزا نہیں ہے۔ آج ہم جس مشکل میں ہیں، اس کے ذمے داران کو بھی کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ وہ تو ہیرو بن کر روز ہمارے سامنے آرہے ہیں اور جو حکومت ان کے بوئے ہوئے کانٹے چن رہی ہے، وہ گالیاں کھا رہی ہے۔
کیا ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں ریاست پاکستان کی قربانی دی جا سکتی ہے۔ یہ کیسی حب الوطنی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے عالمی معاہدوں کو دائر پر لگا دیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا ہے کہ عمران خان پہلے سیاستدان ہیں جنھوں نے یہ کیا ہے، ماضی میں بھی پاکستان کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو چور کہنے کی رٹ نے پاکستان میں عالمی معاہدوں کا احترام ختم کردیاہے۔
حکومت آتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کی حکومتوں کے سب معاہدے ختم کر دے۔ چاہے اس کا پاکستان کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے۔عالمی مالیاتی اداروں کے عہدیدار سوال کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں معاشی تسلسل نہیں ہے، ساورن معاہدوں سے انحراف کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، یوں عالمی اداروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔
آج بھی یہی صورتحال ہے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے اس شک کا اظہار کر ہے ہیں کہ اگر ملک میں انتخابات ہو گئے تو کیا نئی حکومت ان معاہدوں کو مانے گی۔ اس ابہام کا شاید پاکستان میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ آج ہمارے معاشی بحران کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم عالمی اعتماد کھو بیٹھے ہیں۔
میں یہاں ماضی کا ایک وقعہ دلیل کے طوپر لکھنا چاہتا ہوں، جب معین قریشی کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم بنایا گیا تھا۔ تب پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام کی ضرورت تھی۔ لیکن آئی ایم ایف نے معین قریشی کے ساتھ معاہدہ کرنے سے انکا رکر دیا تھا۔ آئی ایم ایف کا موقف تھا کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ جو نئی حکومت آئے گی وہ اس معاہدہ کو مانے گی۔
جس کی وجہ سے اس وقت کے سیاسی حریف نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ملک کے مفاد میں ذاتی طور پر یہ گارنٹی لکھ کر دی تھی کہ اگر انتخابات کے بعد ان میں سے کسی کی بھی حکومت بن گئی تو وہ معین قریشی کے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے پر عمل کریں گے۔ تب ملک میں دو جماعتوں کے درمیان ہی مقابلہ تھا، اس لیے دونوں کی گارنٹی مان لی گئی۔اب تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ملک میں اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔
اس لیے آئی ایم ایف کس کس سے یہ گارنٹی مانگے کہ وہ اس معاہدے کو مانے گا۔ اس لیے عالمی ادارے شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے روپے کی قدر گر رہی ہے اور معاشی بحران سنگین سے سنگین ہو رہا ہے۔ لیکن ملک کی سیاسی قیادت اور ریاست کے اسٹیک ہولڈرز کچھ سیکھ نہیں رہے۔ وقت کی ضرورت اکٹھے بیٹھنے کی ہے۔ لیکن ہم ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوئے بیٹھے ہیں اور ریاست کمزور ہورہی ہے۔