پاکستان کو کیسے ایک مضبوط وحدت بنایا جائے

gfhlb169@gmail.com

کراچی:
بہت سے قارئین کی طرف سے یہ پوچھا گیا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کیسے لایا جائے، گورننس کیسے بہتر ہو اور معیشت کیسے پھلے پھولے؟ یہ وہ خواہشات ہیں جو ہم میں سے ہر ایک اپنے دل میں بسائے بیٹھا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا پیارا ملک بہت تیزی سے خوشحال اور ترقی یافتہ بننے کی منزل سے دو ر ہوتا جا رہا ہے۔

اگر ہم ایک پھلتے پھولتے پاکستان کی تمنا رکھتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ یہ تمنا،یہ خواہش پاکستان کی ترقی،خوشحالی اور اس کے ایک مضبوط معاشرے میں ڈھل کیوں نہیں جاتی۔آخر وہ کیا عوامل ہیں جو بہتر اور خوشحال پاکستان کے راستے میں کھڑے ہیں اور وہ کیا اقدامات ہیں جو اگر اٹھائے جائیں تو تنزلی رک بھی سکتی ہے اور ترقی کا سفر شروع بھی ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا جغرافیہ ،یعنی دنیا کے نقشے پر پاکستان کی لوکیشن ، اسے ایک اہم ملک بناتا ہے۔پاکستان ایک طرف چین،ایران،افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے جڑا ہوا ہے اور دوسری طرف پاکستان اپنے سے حجم اور آبادی میں بڑے ملک بھارت کا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ اس کی سیکڑوں کلو میٹر لمبی سرحد لگتی ہے۔

یہاں پاکستان کی تاریخ اپنا پارٹ پلے کرتی نظر آتی ہے۔ ہندوستان کی دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم ہونے کے بجائے دونوں تلخی پیدا ہوگئی جو وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو نے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔

دونوں ملک جنگوں میں الجھ گئے ، پاکستان دولخت ہوا، جس سے پاکستان کمزور بھی ہو اور غیر مستحکم بھی۔ ادھر چین حیرت انگیز رفتار سے ترقی کرتے ہوئے امریکا اور مغرب کی برتری کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔چین پاکستان کے راستے مشرقِ وسطیٰ اور باقی دنیا تک کم وقت اور کم خرچ میں اپنی مصنوعات پہنچا کر اور سرما یہ کاری کر کے اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔

امریکا اور مغرب کے لیے چین کو روکنا اور اس کے بڑھتے اثرو رسوخ کے آگے بند باندھنا اشد ضروری ہے، ادھر پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے بھی پاکستان کو غیرملکی مصنوعات کی منڈی بننے کی اجازت دیے رکھی اور صرف سیکیورٹی کو اہمیت دی،جس کی وجہ سے ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔

۔پاکستان ایران کا بھی ہمسایہ ہے۔ایران کے پاکستان کے اندر اپنے مفادات ہیں جب کہ امریکا،اسرائیل ،عرب ممالک اور مغرب کے ایران کے ساتھ اختلافات واضح ہیں۔یوں پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن بنائے رکھنا خاصا مشکل ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کے لیے افغانستان اور پاکستان گرم سمندری پانیوں تک پہنچنے کے لیے اہم کوریڈار ہے۔

پاکستان افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد شیئر کرتا ہے۔افغانستان اس سرحد کو نہیں مانتا۔افغانستان سے پاکستان کے اندر ریشہ دوانی روزانہ کا معمول ہے۔ افغانستان پاکستان کو ہمیشہ Exploitکرتا ہے۔جتنی بھی مدد کی جائے افغانی پاکستان کو گالی ہی دیتے ہیں۔

پاکستان میں بھی ایک لابی افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہے،جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کے پسماندہ اور غریب ترین ملک جو اپنا دفاع کرنے کے بھی قابل نہیں ہے، اس کے ساتھ نرم پالیسی رکھنے پر مجبور ہے ، یہ ایک مسلسل دردِ سر ہے جس کا اس وقت تک کوئی علاج نہیں جب تک پاکستان ایک زبردست اور مضبوط قوت کے طور پر ابھر کر سامنے نہیں آ جاتا۔

قیامِ پاکستان کے ایک سال کے اندر حضرتِ قائدِ اعظم وفات پا گئے۔ قائدِ اعظم کی رحلت کے ساتھ ہی سیکیورٹی اداروں اور بیوروکریسی نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور سیاست دان کمزور ہوتے گئے۔پھر بیوروکریسی کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا اور جیوڈیشری اور سیکیورٹی ادارے ہی کل قوت کے مالک ٹھہرے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ سیاستدان اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے اور کسی کو اقتدار سے نکالنے کے لیے ان ہی اداروں کے مرہونِ منت رہتے ہیں۔


جناب عمران خان نے حال ہی میں کہا ہے کہ انھیں قومی اسمبلی سے بل یا بجٹ پاس کرانے کے لیے ایجنسیوں کی مدد درکار ہوتی تھی، وہ اب بھی اسی مدد کے طلب گار ہیں، ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت میدانِ سیاست میں ایک فرد بھی ایسا نہیں جو اپنے بل بوتے پر سیاست کر رہا ہو۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو صرف پاکستان کا وفادار ہو ،ہاں ہم میں سے ہر ایک بظاہر پاکستان کا شیدائی ہے لیکن اصل میں اپنی ذات،اپنے ادارے،اپنے مفاد اور اپنی پسند نا پسند کا اسیر ہے۔

عام پاکستانی کارکردگی سے نہیں بلکہ نعروں ،شخصیت اور دکھاوے سے متاثر ہوتا ہے۔ ایک ایسا بدقسمت ملک جس کے عوام اور لیڈرشپ اس کے ساتھ مخلص نہ ہو ںایسا ملک کیونکر سیاسی استحکام حاصل کر سکتا ہے اور مضبوط معیشت کا حامل ہو سکتا ہے۔

ہم جس خطے میں آباد ہیں، وہاں کا مزاج جمہوریت سے مناسبت نہیں رکھتا۔یہاں غریب اور متوسط طبقے کے ذہین، مہذب اور با صلاحیت امیدوار کی کوئی حیثیت نہیں۔یہاں مالی اعتبار سے طاقت ور،ذات،برادری اورریاستی اداروں میں اثرورسوخ اور شان و شوکت بہت وزنی عناصر ہیں، یہاں آقا اور غلام،پیر اور مرید اور حاکم و محکوم کے رویے ہی پنپتے پیں۔ اچھا اخلاق و کردارکمزوری کی علامت ہے۔ جمہوریت ایک رویے کا نام ہے۔ جمہوریت ایک کلچر ہے۔

یہ رویہ ،یہ کلچر ایک تہذیب میں پروان چڑھتا ہے۔جمہوریت میں فریقِ مخالف سے شدید ترین اختلاف کے باوجود دشمنی نہیں ہوتی بلکہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں عوامی فلاح و بہبود گم ہو گئی ہے۔سیاسی زعماء کی زبانیں صرف شعلے اگل رہی ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کے اندر بھی ایک دوسرے سے ہاتھ تک ملانے کو تیار نہیں۔ بڑے قد کاٹھ کے سیاستدان بھی عامیانہ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں، یہ رویہ، یہ کلچر جمہوریت کی نفی نہیں تو اور کیا ہے اور کیا دشمنی پر مبنی یہ رویہ سیاسی استحکام لانے اور پاکستان کو ایک مضبوط وحدت میں ڈھال سکتا ہے۔

پاکستان میں صوبے اتنے بڑے اور اتنی سیاسی اہمیت کے حامل ہیں کہ ہر صوبہ اپنے طور پر ایک ملک و قوم ہے۔ صوبوں کے درمیان یکجہتی اور ہم آہنگی بالکل نہیں ہے۔ لسانی جھگڑوں کے علاوہ صوبوں کے درمیان پانی کے استعمال پر تنازعہ رہتا ہے اور بعض اوقات یہ تنازعہ لڑائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

صوبائی خود مختاری کے تحت صوبوں کے حقوق بھی وجہء تنازعہ رہتے ہیںحالانکہ آئین میں ترمیم کر کے ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی آئے دن کہیں نہ کہیں کوئی چنگاری آگ پکڑ ہی لیتی ہے۔ صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم ایک اور وجہ ء نزاع ہے۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار مسائل اس وطن عزیز کو درپیش ہیں۔

ان مسائل پر بہت کم وقت میں قابو پایا جا سکتا ہے اگر ہماری لیڈرشپ مخلص،محنتی اور باصلاحیت ہو یعنی کوئی سٹیٹس مین ہو۔بدقسمتی سے پاکستان کی لیڈرشپ نا اہل، نکمی اور کرپٹ ہے،جن کا منشور اور سیاست ریاست کے وسائل پر کنٹرول کرکے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ ہماری بیوروکریسی،عدلیہ اور عسکری قیادت کو اپنا اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔صرف باصلاحیت افراد کی شفاف طریقے سے ریکروٹمنٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں عدلیہ اور بیوروکریٹس کی ریکروٹمنٹ بہت اہم ہے۔وکلا میں سے عدلیہ کی ریکروٹمنٹ مکمل بند کرنی ہوگی۔

لا گریجوایٹس کو سی ایس ایس جیسے مقابلے کے امتحان اور بہت اچھے تربیتی پروگرام سے گزار کر عدالتی عہدے دینے ہوں گے اور انھیں ہی ترقی دے کر اعلیٰ عدلیہ میں ججز بننا چاہیے ، بیوروکریسی کے لیے پہلے ہی ریکروٹمنٹ کا بہت اچھا طریقے کار موجود ہے بس وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں چیئرمین اور ممبران کو سفارش کے بجائے خالص میرٹ پر لگانا اور مقابلے کے امتحان کے معیار کو بلند کرنا ہو گا۔

سول و فوجی تربیتی اداروں میں کردار سازی پر بہت زور دینا ہوگا۔افسران کو سیاست سے دور کھنے کے لیے اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ہمارے سیکیورٹی اداروں کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کو زیادہ Representative زیادہ موئثر و مضبوط بنوا کر صرف مانیٹرنگ کا فریضہ اپنے ذمے لینا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی بھی ملک و قوم کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کے راستے سے نہ ہٹ سکے۔

قانون پر عملداری ہر ادارے کا نصب العین بنانا ہو گا۔اگر ہم آج سے اس کے لیے پوری دیانت داری سے کام شروع کر دیں اور پورے صبر سے اس راستے پر گامزن رہیں تو پندرہ سے بیس سالوں میں اچھے،محنتی۔مخلص اور باصلاحیت افراد اکثریت میں آ جائیں گے اور روشن پاکستان کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہو سکے گا۔
Load Next Story