جماعت اسلامی اور الیکشن
HYDERABAD:
کارکنان اورممبران کے اعتبار سے جماعت اسلامی ایک متحد جماعت ضرور سمجھی جاتی ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ وہ قومی سطح پر کوئی الیکشن نہیں جیت پائی ہے۔اس کے چاہنے والے اسے ایک ایماندار اورپاک صاف پارٹی کے طورپر توسمجھتے اورجانتے توہیں لیکن اسے آج تک ملک پر راج کرنے کے لیے حق حکمرانی نہیں ملا۔ مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد تک تواس جماعت نے ملکی انتخابات میں اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے، لیکن ہر بار دوسرے اور تیسرے نمبر کی پارٹی ہی بن کر سامنے آتی رہی۔
کراچی میں جب قومی اسمبلی کی سات یا نو نشستیں ہواکرتی تھیں تو اس میں سے تین یاچار پر اس جماعت ہی کے نامزد کردہ افراد کامیاب ہوتے رہے لیکن رفتہ رفتہ یہ مقبولیت بھی باقی ملک کی طرح کمزور ہوتی گئی اور ایک وقت تو ایسا آیا جب اس شہر میں صرف MQM کا طوطی ہی بول رہاتھا تو اس جماعت کوالیکشن میں مقابلے کے لیے افراد ملنا ہی مشکل ہوگئے۔ جو بھی کھڑاہوتا غیر یقینی صورتحال میں گھرا رہتا کہ وہ جیتے گا بھی یا نہیں ، اس طرح اس کے ووٹروں کی تعداد کم ہوتی گئی اور وہ ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہی نہیں تھے۔
2002 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد MMA کی شکل میں اُسے ایک بار پھر اپنی حیثیت منوانے کاموقعہ ملا اور وہ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے کچھ زیادہ ہی نشستیں لینے میں کامیاب ہوگئی ۔یہاں اُسے کچھ غلط فہمی ہوگئی اوروہ اپنا یہ اضافی حق اتحاد کی دیگر جماعتوں پر بھی جتانے لگی۔ وہ اس غیر متوقع کامیابی پر کچھ زیادہ ہی مطالبے کرنے لگی جس کا نتیجہ اس اتحاد کے خاتمے کی صورت میں سامنے آگیا۔
اب وہ اکیلے ہی الیکشن لڑکے اپنی توانائیاں بھی ضایع کرتی رہتی ہے اورباقی دیگر مذہبی پارٹیوں کا بھی نقصان کر رہی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اپنے طور پر سردھڑ کی بازی لگاکر اس شہر میں بہت کچھ نام کمایاہے لیکن اُن کی مقبولیت کسی ایک حلقہ تک محدود نہیں ہے ۔اُن کی خدمات کے معترف تو ہمیں سارے شہر میں مل جائیںگے لیکن لگتا یوں ہے کہ جب ووٹ دینے کا وقت آئے گا تو یہی لوگ کسی اورپارٹی کو اپنا ووٹ دے رہے ہونگے۔ اسے ہمارے عوام کی منافقت یا دوغلا پن قرار دیں یاپھر جماعت کی اپنی کمزوریاں کہ وہ اتنی محنت کے باوجود عوام کی پذیرائی حاصل نہیں کرپاتی ہے۔
قومی لیول پراس کی قیادت بھی ابھی تک اپنا درست لائحہ عمل طے نہیں کرپائی ہے ، ہرچند ماہ بعد انھیںملک میں ہونے والی مہنگائی دکھائی دینے لگتی ہے اوروہ کوئی ملک گیر احتجاج کااعلان بھی کرتی رہتی ہے لیکن یہ احتجاج اتنا ڈھیلاہوتاہے کہ عوام پرکوئی رنگ بھی جما نہیں پاتاہے۔ کب یہ احتجاج شروع ہوتا ہے اورکب ختم ہوجاتا ہے کسی کو پتابھی نہیں چلتا۔پچھلے برس وہ عمران خان حکومت کے دور میں کئی بار ایسے ڈھیلے ڈھالے احتجاجوں کی کال کئی بار دیتے رہے لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔نہ حکومت کو کوئی پریشانی لاحق ہوئی اورنہ عوام کو احساس ہواکہ کوئی اُن کے غم میںنڈھال ہواجارہاہے۔
اسی طرح ابھی عید سے پہلے وہ ایک ٹرین مارچ لے کر نکلے اورپھر نجانے یہ مارچ کراچی پہنچنے سے پہلے ہی کہاں اختتام پذیر ہوگیا کسی کو خبر تک نہ ہوئی ۔ کراچی پہنچتے پہنچتے صرف چند سو ہی لوگ کارواں کے ہم سفر بنے رہے جنھیں کینٹ اسٹیشن پرمیڈیاکے سامنے بھی پیش نہ کیا گیا ۔
2014 کے عمرانی دھرنے والے دنوں میں بھی جماعت کا کردار کوئی واضح اوریکطرفہ نہیںتھا، وہ کبھی ڈی چوک پرعمران کے ساتھ دکھائی دیتی تھی تو کبھی نیوٹرل بن کردونوں فریقوں کی مخالفت کیاکرتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سیاست کے خدوخال واضح نہ ہوسکے اور عوام اس کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ بھی نہیں کرپائے۔وہ آج بھی سولوفلائٹ کی قائل دکھائی دیتی ہے اور ملکی سیاست میںکوئی بڑا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔
وہ سیاست میں بھی زندہ رہناچاہتی ہے لیکن کسی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ۔ اس کے اسی طرزعمل کی وجہ سے وہ اپنے مخلص اورمحنتی کارکنوں سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے تربیت یافتہ افراد اُسے چھوڑچھوڑ کردوسری پارٹیوں میں جاتے جارہے ہیں اوروہ انھیں روک بھی نہیں پارہی۔ایسے ماحول اور حالات میںحافظ نعیم الرحمن کا مستقبل کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کراچی شہر کے لیے دن رات کام کرنے والے اس شخص کے لیے دعائیں تو بہت سے لوگ کررہے ہیں لیکن کیا وہ کراچی کی میئر شپ بھی حاصل کرپائیںگے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیںکہ وہ اپنی ایک سیٹ بھی نکال جائیں تو بہت بڑی کامیابی شمار ہوگی، وہ اکیلے ہی محنت کیے جارہے ہیں ۔جماعت کے باقی لوگ کہاں ہیں۔ کیاجماعت اسلامی اگلے بلدیاتی الیکشن میں صرف اس ایک شہرمیں بڑی تعداد میں اپنے نمایندے کھڑے کرسکتی ہے اگر ایسا ہے تو پھرکوئی اُمید بن سکتی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میںکوئی کامیابی حاصل کرپائیںگے، ورنہ دور دور تک ان کی کامیابی کے کوئی امکانات ہمیںدکھائی نہیں دے رہے۔
جماعت اسلامی کو اپنے سیاسی کردار پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جو کام میاں طفیل محمد اورقاضی حسین احمد کرگئے انھیں آگے بڑھاتے ہوئے زمانے کے نئے تقاضوں کے تحت پارٹی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔1971ء اور1993ء تک اس پارٹی میں اتنادم خم ضرور تھاکہ وہ تمام مشکلات کے باوجود عوام کی حمایت اور دل جیت سکتی تھی لیکن اب عوام اس کی طرف مائل بہ کرم نہیں ہو پا رہے ہیں۔
قاضی حسین احمد نے اسلامک فرنٹ بناکر1993 کے عام انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کرلیے تھے ،مگر اُن کے بعد کسی بھی امیر کی قیادت میں جماعت قومی انتخابات میں اپنا لوہامنوانہ سکی اورآج یہ حال ہے کہ نئی نئی دریافت ہونے والی تحریک لبیک پاکستان انتخابی میدان میں اس سے کئی درجے آگے نکل گئی۔پارٹی کے اہل کاروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اسی طرح الگ تھلگ رہ کر تن تنہاسیاست کرناچاہیںگے یاپھر کسی اتحاد کاحصہ بنکراپنی ساکھ بحال کرنے کی کوششیں کرینگے۔ اُن کے پاس اب وقت بہت کم ہے ایسا نہ ہوکہ مخلص لوگ مایوس اورناامید ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلیں۔
کارکنان اورممبران کے اعتبار سے جماعت اسلامی ایک متحد جماعت ضرور سمجھی جاتی ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ وہ قومی سطح پر کوئی الیکشن نہیں جیت پائی ہے۔اس کے چاہنے والے اسے ایک ایماندار اورپاک صاف پارٹی کے طورپر توسمجھتے اورجانتے توہیں لیکن اسے آج تک ملک پر راج کرنے کے لیے حق حکمرانی نہیں ملا۔ مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد تک تواس جماعت نے ملکی انتخابات میں اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے، لیکن ہر بار دوسرے اور تیسرے نمبر کی پارٹی ہی بن کر سامنے آتی رہی۔
کراچی میں جب قومی اسمبلی کی سات یا نو نشستیں ہواکرتی تھیں تو اس میں سے تین یاچار پر اس جماعت ہی کے نامزد کردہ افراد کامیاب ہوتے رہے لیکن رفتہ رفتہ یہ مقبولیت بھی باقی ملک کی طرح کمزور ہوتی گئی اور ایک وقت تو ایسا آیا جب اس شہر میں صرف MQM کا طوطی ہی بول رہاتھا تو اس جماعت کوالیکشن میں مقابلے کے لیے افراد ملنا ہی مشکل ہوگئے۔ جو بھی کھڑاہوتا غیر یقینی صورتحال میں گھرا رہتا کہ وہ جیتے گا بھی یا نہیں ، اس طرح اس کے ووٹروں کی تعداد کم ہوتی گئی اور وہ ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہی نہیں تھے۔
2002 کے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد MMA کی شکل میں اُسے ایک بار پھر اپنی حیثیت منوانے کاموقعہ ملا اور وہ اس اتحاد کے پلیٹ فارم سے کچھ زیادہ ہی نشستیں لینے میں کامیاب ہوگئی ۔یہاں اُسے کچھ غلط فہمی ہوگئی اوروہ اپنا یہ اضافی حق اتحاد کی دیگر جماعتوں پر بھی جتانے لگی۔ وہ اس غیر متوقع کامیابی پر کچھ زیادہ ہی مطالبے کرنے لگی جس کا نتیجہ اس اتحاد کے خاتمے کی صورت میں سامنے آگیا۔
اب وہ اکیلے ہی الیکشن لڑکے اپنی توانائیاں بھی ضایع کرتی رہتی ہے اورباقی دیگر مذہبی پارٹیوں کا بھی نقصان کر رہی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں اس کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے اپنے طور پر سردھڑ کی بازی لگاکر اس شہر میں بہت کچھ نام کمایاہے لیکن اُن کی مقبولیت کسی ایک حلقہ تک محدود نہیں ہے ۔اُن کی خدمات کے معترف تو ہمیں سارے شہر میں مل جائیںگے لیکن لگتا یوں ہے کہ جب ووٹ دینے کا وقت آئے گا تو یہی لوگ کسی اورپارٹی کو اپنا ووٹ دے رہے ہونگے۔ اسے ہمارے عوام کی منافقت یا دوغلا پن قرار دیں یاپھر جماعت کی اپنی کمزوریاں کہ وہ اتنی محنت کے باوجود عوام کی پذیرائی حاصل نہیں کرپاتی ہے۔
قومی لیول پراس کی قیادت بھی ابھی تک اپنا درست لائحہ عمل طے نہیں کرپائی ہے ، ہرچند ماہ بعد انھیںملک میں ہونے والی مہنگائی دکھائی دینے لگتی ہے اوروہ کوئی ملک گیر احتجاج کااعلان بھی کرتی رہتی ہے لیکن یہ احتجاج اتنا ڈھیلاہوتاہے کہ عوام پرکوئی رنگ بھی جما نہیں پاتاہے۔ کب یہ احتجاج شروع ہوتا ہے اورکب ختم ہوجاتا ہے کسی کو پتابھی نہیں چلتا۔پچھلے برس وہ عمران خان حکومت کے دور میں کئی بار ایسے ڈھیلے ڈھالے احتجاجوں کی کال کئی بار دیتے رہے لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔نہ حکومت کو کوئی پریشانی لاحق ہوئی اورنہ عوام کو احساس ہواکہ کوئی اُن کے غم میںنڈھال ہواجارہاہے۔
اسی طرح ابھی عید سے پہلے وہ ایک ٹرین مارچ لے کر نکلے اورپھر نجانے یہ مارچ کراچی پہنچنے سے پہلے ہی کہاں اختتام پذیر ہوگیا کسی کو خبر تک نہ ہوئی ۔ کراچی پہنچتے پہنچتے صرف چند سو ہی لوگ کارواں کے ہم سفر بنے رہے جنھیں کینٹ اسٹیشن پرمیڈیاکے سامنے بھی پیش نہ کیا گیا ۔
2014 کے عمرانی دھرنے والے دنوں میں بھی جماعت کا کردار کوئی واضح اوریکطرفہ نہیںتھا، وہ کبھی ڈی چوک پرعمران کے ساتھ دکھائی دیتی تھی تو کبھی نیوٹرل بن کردونوں فریقوں کی مخالفت کیاکرتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس کی سیاست کے خدوخال واضح نہ ہوسکے اور عوام اس کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ بھی نہیں کرپائے۔وہ آج بھی سولوفلائٹ کی قائل دکھائی دیتی ہے اور ملکی سیاست میںکوئی بڑا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے۔
وہ سیاست میں بھی زندہ رہناچاہتی ہے لیکن کسی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار نہیں ۔ اس کے اسی طرزعمل کی وجہ سے وہ اپنے مخلص اورمحنتی کارکنوں سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے تربیت یافتہ افراد اُسے چھوڑچھوڑ کردوسری پارٹیوں میں جاتے جارہے ہیں اوروہ انھیں روک بھی نہیں پارہی۔ایسے ماحول اور حالات میںحافظ نعیم الرحمن کا مستقبل کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کراچی شہر کے لیے دن رات کام کرنے والے اس شخص کے لیے دعائیں تو بہت سے لوگ کررہے ہیں لیکن کیا وہ کراچی کی میئر شپ بھی حاصل کرپائیںگے۔ بلکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیںکہ وہ اپنی ایک سیٹ بھی نکال جائیں تو بہت بڑی کامیابی شمار ہوگی، وہ اکیلے ہی محنت کیے جارہے ہیں ۔جماعت کے باقی لوگ کہاں ہیں۔ کیاجماعت اسلامی اگلے بلدیاتی الیکشن میں صرف اس ایک شہرمیں بڑی تعداد میں اپنے نمایندے کھڑے کرسکتی ہے اگر ایسا ہے تو پھرکوئی اُمید بن سکتی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن اپنے دیگر ساتھیوں کی مدد سے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میںکوئی کامیابی حاصل کرپائیںگے، ورنہ دور دور تک ان کی کامیابی کے کوئی امکانات ہمیںدکھائی نہیں دے رہے۔
جماعت اسلامی کو اپنے سیاسی کردار پرنظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جو کام میاں طفیل محمد اورقاضی حسین احمد کرگئے انھیں آگے بڑھاتے ہوئے زمانے کے نئے تقاضوں کے تحت پارٹی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔1971ء اور1993ء تک اس پارٹی میں اتنادم خم ضرور تھاکہ وہ تمام مشکلات کے باوجود عوام کی حمایت اور دل جیت سکتی تھی لیکن اب عوام اس کی طرف مائل بہ کرم نہیں ہو پا رہے ہیں۔
قاضی حسین احمد نے اسلامک فرنٹ بناکر1993 کے عام انتخابات میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کرلیے تھے ،مگر اُن کے بعد کسی بھی امیر کی قیادت میں جماعت قومی انتخابات میں اپنا لوہامنوانہ سکی اورآج یہ حال ہے کہ نئی نئی دریافت ہونے والی تحریک لبیک پاکستان انتخابی میدان میں اس سے کئی درجے آگے نکل گئی۔پارٹی کے اہل کاروں کو سوچنا ہو گا کہ وہ اسی طرح الگ تھلگ رہ کر تن تنہاسیاست کرناچاہیںگے یاپھر کسی اتحاد کاحصہ بنکراپنی ساکھ بحال کرنے کی کوششیں کرینگے۔ اُن کے پاس اب وقت بہت کم ہے ایسا نہ ہوکہ مخلص لوگ مایوس اورناامید ہوکر کنارہ کشی اختیار کرلیں۔