یہ ملک یونہی چلتا رہے گا
تخت پنجاب کی سیاسی جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر اس طرح کا ردِ عمل بار بار پڑھنے کو ملا
یہ کیسے لوگ ہیں ؟ انھیں ذرا بھی پروا نہیں، معیشت ڈگمگا رہی ہے، روپے کی آئے روز درگت بن رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج مندے سے بے حال ہے، عام آدمی مہنگائی کی وجہ سے ہنسنا بھول گیا ہے اور یہ سیاست دان ہیں کہ اپنی روایتی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔
تخت پنجاب کی سیاسی جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر اس طرح کا ردِ عمل بار بار پڑھنے کو ملا۔ اس ردِ عمل کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل باہمی الزام تراشی اور کروڑوں دیے اور لیے جانے کے دعوؤں نے مزید تقویت دی۔
شروع میں تو ایک آدھ ممبر ہی نے اپروچ کیے جانے اور کروڑوں کی آفر کا دعویٰ کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہی یہ ٹرینڈ مقبول ہو گیا ، دھڑا دھڑ اکئی ایم پی ایز نے اپنی اپنی سیاسی شنوائی اور کمپنی کی مشہوری کے لیے دعوے داغنے شروع کر دیے؛ مجھے اتنے کروڑ آفر کیے گئے کہ بس غیر حاضر ہو جاؤں۔ مجھے انجان نمبر سے دھمکیاں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔
عوام پاکستان کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنی سیاسی اشرافیہ سے امیدیں لگا بیٹھتی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے جادو کے سبب سادہ لوح عوام کو ان کی سلطانی ء جمہور سے ہمیشہ درویشی کی امید رہتی ہے۔ ایک امید ٹوٹتی ہے تو دوسری امید لگا بیٹھتی ہے۔ عوام بھی کیا کرے، ان کے پاس چوائس ہی کیا ہے، وہ بچہ جمہورا کی طرح ایک آواز پر کبھی ایک طرف گھومتے ہیں تو دوسری آواز انھیں دوسری سمت میں گھومنے کی صلاح دیتی ہے۔ شکلیں، مقام اور نام ضرور بدلتے ہیں مگر ہمارے ہاں تماشا اور بچہ جمہورے کے شب روز وہی کے وہی ہیں۔
سری لنکا کے انجام سے بار بار ہمیں اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی نے ڈرایا کہ دیکھو ؛ کیا حال ہو گیا؟ عمران خان نے پرسوں خبردار بھی کیا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا تو ملک سری لنکا کی طرف جائے گا، لوگ میرے کنٹرول میں بھی نہیں رہیں گے۔ ڈرانے کی حد تک یہ واقعات درست ہیں لیکن یہ ذکر کسی نے نہیں کیا کہ پردہ گرنے سے قبل ہی اس کہانی کا اگلا ٹوسٹ روایتی سیاسی کھیل کے پنجے میں آچکا ہے۔ عوامی مظاہروں کی مہینوں کی ریاضت اس صفائی سے اچک لی گئی کہ مظاہرین بے چارے ہکا بکاکھڑے کے کھڑے رہ گئے، بہارِ عرب کی طرح۔۔
بیس سال سے راجا پاکسا فیملی سری لنکا کی سیاست پر حاوی ہے ۔ خاندان کا اثرو رسوخ اس قدر کہ تازہ ترین کابینہ میں نصف درجن وزیر بھائی اور بھتیجے تھے۔ کرپشن، اقرباء پروری ، پئے در پئے غلط معاشی فیصلوں، خزانے کی لوٹ سیل اور پھیلتے ہوئے معاشی بحران سے خود انکاری کے سبب ملک ڈیفالٹ ہونے پر مجبور ہوا۔ کھانے کے لالے پڑے تو عوام سڑکون پر نکل آئے اور کئی ہفتوں کے شدید مظاہرین کے بعد دونوں برادران یعنی وزیر اعظم اور صدر کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسی مارا ماری میں مگر روایتی سیاسی کاریگری خاموشی سے کام میں لائی گئی۔
راجا پاکسے فیملی نے آئین میں ترامیم کرکے صدر کو اس قدر مضبوط کردیا کہ پارلیمنٹ ایک تابع فرمان بچے سے زیادہ کچھ نہیں۔ عوامی مظاہرین جب وزیر اعظم ہاؤس اور بعدازاں صدارتی محل پر قابض ہوئے تو پہلے ایک وزیر اعظم بھائی کو فوجی اڈے پر پناہ لینا پڑی، چند دنوں بعد دوسرے صدر بھائی کو بھی ملک سے بھاگنا پڑا۔ یہاں تک تو کہانی میں دم ہے اور عوام کی بالادستی ہے مگر اس دوران کہانی میں ماضی میں چھ بار وزیر اعظم رہنے والا، ایک وقت میں اکثریتی جماعت کا سربراہ اور حالیہ پارلیمنٹ میں فقط اپنی اکلوتی نشست کے مالک 73 سالہ رانیل ورکرما سنگھا کا کردار شامل ہوتا ہے۔
منقسم اپوزیشن کی موجودگی میں سابق صدر نے موصوف کو اپنے مفرور بھائی کی جگہ پہلے وزیر اعظم نامزد کیا۔ صدارتی محل پر قبضے کے بعد صدر نے استعفیٰ دیا تو اپنی پارٹی سے رانیل وکرما سنگھا کو صدر کے لیے نامزد کر دیا جس کی پارلیمنٹ میں اپنی اکلوتی نشست تھی۔ جمہوریت کا حسن ملاحظہ ہو کہ اس ساری مارا ماری کے بعد وہ منتخب بھی ہوگئے۔ اپوزیشن اس دوران بھی منقسم رہی اور مفرور خاندان کے نامزد ایک نشستئے صدر منتخب ہو گئے۔
اس پر نیو یارک ٹائمز نے سرخی لگائی ؛ مفرور صدر کا حمایتی صدر منتخب۔ مظاہرین ہکا بکا ہیں اور ہم نہیں مانتے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، جب کہ نئے صدرفرما رہے ہیں کہ شرپسندی کی صورت میں قانون اپنا راستہ اختیار کر ے گا۔ یہ رہا انجام اس ''خوفناک عوامی تحریک '' کا جس کا طعنہ ہمارے سیاستدان مخالفین اور عوام کو ڈرانے کے لیے دیتے آئے ہیں۔ ظاہر ہے راجا پاکسا فیملی کی بحفاظت روانگی کے بعد کچھ کم و کاست کے بعد کہانی کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع ہو جائے گا جہاں ختم ہوئی تھی۔
ہم نیم جمہوری ملکوں کا عجیب المیہ ہے۔ جس پر فیض احمد فیض سے منسوب ایک جامع تبصرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان دو لخت ہوا تو عوام میں غم و غصے کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ ان کی محفل میں چند احباب اس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب بڑے جذباتی انداز میں وقفے وقفے سے ایک ہی رٹ لگائے جا رہے تھے؛ ملک کے ساتھ اس سے برا اور کیا ہوگا؟ بار بار یہی فقرہ سن کر فیض احمد فیض نے اپنی سگریٹ کا گُل جھاڑا، ایک لمبا کش لیا اور کہا؛ میاں اس سے بھی بُرا ہو سکتا ہے۔ وہ صاحب سٹپٹائے اور بولے؛ کمال کرتے ہیں آپ، دو ٹکڑے ہونے کے بعد ملک کے ساتھ اس سے برا کیا ہو سکتا ہے؟ فیض احمد فیض نے اپنی روایتی متانت کے ساتھ جواب دیا ؛ وہ یہ کہ یہ ملک یونہی چلتا رہے!
اگر یہ ملک اسی طرح چلتا رہنا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون بنا ہے۔ ایک ہم ہی کیا سری لنکا، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ ، لبنان اور تیونس تک یہی کہانی ہے۔
تخت پنجاب کی سیاسی جنگ کے دوران سوشل میڈیا پر اس طرح کا ردِ عمل بار بار پڑھنے کو ملا۔ اس ردِ عمل کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل باہمی الزام تراشی اور کروڑوں دیے اور لیے جانے کے دعوؤں نے مزید تقویت دی۔
شروع میں تو ایک آدھ ممبر ہی نے اپروچ کیے جانے اور کروڑوں کی آفر کا دعویٰ کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہی یہ ٹرینڈ مقبول ہو گیا ، دھڑا دھڑ اکئی ایم پی ایز نے اپنی اپنی سیاسی شنوائی اور کمپنی کی مشہوری کے لیے دعوے داغنے شروع کر دیے؛ مجھے اتنے کروڑ آفر کیے گئے کہ بس غیر حاضر ہو جاؤں۔ مجھے انجان نمبر سے دھمکیاں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔
عوام پاکستان کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنی سیاسی اشرافیہ سے امیدیں لگا بیٹھتی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے جادو کے سبب سادہ لوح عوام کو ان کی سلطانی ء جمہور سے ہمیشہ درویشی کی امید رہتی ہے۔ ایک امید ٹوٹتی ہے تو دوسری امید لگا بیٹھتی ہے۔ عوام بھی کیا کرے، ان کے پاس چوائس ہی کیا ہے، وہ بچہ جمہورا کی طرح ایک آواز پر کبھی ایک طرف گھومتے ہیں تو دوسری آواز انھیں دوسری سمت میں گھومنے کی صلاح دیتی ہے۔ شکلیں، مقام اور نام ضرور بدلتے ہیں مگر ہمارے ہاں تماشا اور بچہ جمہورے کے شب روز وہی کے وہی ہیں۔
سری لنکا کے انجام سے بار بار ہمیں اتحادی حکومت اور پی ٹی آئی نے ڈرایا کہ دیکھو ؛ کیا حال ہو گیا؟ عمران خان نے پرسوں خبردار بھی کیا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہوا تو ملک سری لنکا کی طرف جائے گا، لوگ میرے کنٹرول میں بھی نہیں رہیں گے۔ ڈرانے کی حد تک یہ واقعات درست ہیں لیکن یہ ذکر کسی نے نہیں کیا کہ پردہ گرنے سے قبل ہی اس کہانی کا اگلا ٹوسٹ روایتی سیاسی کھیل کے پنجے میں آچکا ہے۔ عوامی مظاہروں کی مہینوں کی ریاضت اس صفائی سے اچک لی گئی کہ مظاہرین بے چارے ہکا بکاکھڑے کے کھڑے رہ گئے، بہارِ عرب کی طرح۔۔
بیس سال سے راجا پاکسا فیملی سری لنکا کی سیاست پر حاوی ہے ۔ خاندان کا اثرو رسوخ اس قدر کہ تازہ ترین کابینہ میں نصف درجن وزیر بھائی اور بھتیجے تھے۔ کرپشن، اقرباء پروری ، پئے در پئے غلط معاشی فیصلوں، خزانے کی لوٹ سیل اور پھیلتے ہوئے معاشی بحران سے خود انکاری کے سبب ملک ڈیفالٹ ہونے پر مجبور ہوا۔ کھانے کے لالے پڑے تو عوام سڑکون پر نکل آئے اور کئی ہفتوں کے شدید مظاہرین کے بعد دونوں برادران یعنی وزیر اعظم اور صدر کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسی مارا ماری میں مگر روایتی سیاسی کاریگری خاموشی سے کام میں لائی گئی۔
راجا پاکسے فیملی نے آئین میں ترامیم کرکے صدر کو اس قدر مضبوط کردیا کہ پارلیمنٹ ایک تابع فرمان بچے سے زیادہ کچھ نہیں۔ عوامی مظاہرین جب وزیر اعظم ہاؤس اور بعدازاں صدارتی محل پر قابض ہوئے تو پہلے ایک وزیر اعظم بھائی کو فوجی اڈے پر پناہ لینا پڑی، چند دنوں بعد دوسرے صدر بھائی کو بھی ملک سے بھاگنا پڑا۔ یہاں تک تو کہانی میں دم ہے اور عوام کی بالادستی ہے مگر اس دوران کہانی میں ماضی میں چھ بار وزیر اعظم رہنے والا، ایک وقت میں اکثریتی جماعت کا سربراہ اور حالیہ پارلیمنٹ میں فقط اپنی اکلوتی نشست کے مالک 73 سالہ رانیل ورکرما سنگھا کا کردار شامل ہوتا ہے۔
منقسم اپوزیشن کی موجودگی میں سابق صدر نے موصوف کو اپنے مفرور بھائی کی جگہ پہلے وزیر اعظم نامزد کیا۔ صدارتی محل پر قبضے کے بعد صدر نے استعفیٰ دیا تو اپنی پارٹی سے رانیل وکرما سنگھا کو صدر کے لیے نامزد کر دیا جس کی پارلیمنٹ میں اپنی اکلوتی نشست تھی۔ جمہوریت کا حسن ملاحظہ ہو کہ اس ساری مارا ماری کے بعد وہ منتخب بھی ہوگئے۔ اپوزیشن اس دوران بھی منقسم رہی اور مفرور خاندان کے نامزد ایک نشستئے صدر منتخب ہو گئے۔
اس پر نیو یارک ٹائمز نے سرخی لگائی ؛ مفرور صدر کا حمایتی صدر منتخب۔ مظاہرین ہکا بکا ہیں اور ہم نہیں مانتے کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، جب کہ نئے صدرفرما رہے ہیں کہ شرپسندی کی صورت میں قانون اپنا راستہ اختیار کر ے گا۔ یہ رہا انجام اس ''خوفناک عوامی تحریک '' کا جس کا طعنہ ہمارے سیاستدان مخالفین اور عوام کو ڈرانے کے لیے دیتے آئے ہیں۔ ظاہر ہے راجا پاکسا فیملی کی بحفاظت روانگی کے بعد کچھ کم و کاست کے بعد کہانی کا سلسلہ پھر وہیں سے شروع ہو جائے گا جہاں ختم ہوئی تھی۔
ہم نیم جمہوری ملکوں کا عجیب المیہ ہے۔ جس پر فیض احمد فیض سے منسوب ایک جامع تبصرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔ پاکستان دو لخت ہوا تو عوام میں غم و غصے کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ ان کی محفل میں چند احباب اس موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ ایک صاحب بڑے جذباتی انداز میں وقفے وقفے سے ایک ہی رٹ لگائے جا رہے تھے؛ ملک کے ساتھ اس سے برا اور کیا ہوگا؟ بار بار یہی فقرہ سن کر فیض احمد فیض نے اپنی سگریٹ کا گُل جھاڑا، ایک لمبا کش لیا اور کہا؛ میاں اس سے بھی بُرا ہو سکتا ہے۔ وہ صاحب سٹپٹائے اور بولے؛ کمال کرتے ہیں آپ، دو ٹکڑے ہونے کے بعد ملک کے ساتھ اس سے برا کیا ہو سکتا ہے؟ فیض احمد فیض نے اپنی روایتی متانت کے ساتھ جواب دیا ؛ وہ یہ کہ یہ ملک یونہی چلتا رہے!
اگر یہ ملک اسی طرح چلتا رہنا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون بنا ہے۔ ایک ہم ہی کیا سری لنکا، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ ، لبنان اور تیونس تک یہی کہانی ہے۔