سہ ماہی ’’جوہر انٹرنیشنل‘‘ پر ایک نظر
شمارہ اول اور دوم اپنی رعنائیوں اور وقیع تحریروں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے اور تاحال سلسلہ جاری ہے
یہ بات باعث مسرت ہے کہ اس دور وبا میں سہ ماہی ''جوہر انٹرنیشنل'' کا ادبی افق پر تواتر سے طلوع ہونا بڑی بات ہے اور یہ بڑی بات مدیر اعلیٰ جناب عارف افضال عثمانی اور مدیر محترم اخترسعیدی کی کاوشوں کی مظہر ہے۔ جناب پروفیسر سحر انصاری سہ ماہی ''جوہرانٹرنیشنل'' کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔
شمارہ اول اور دوم اپنی رعنائیوں اور وقیع تحریروں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے اور تاحال سلسلہ جاری ہے۔ سامعین ذی وقار تمام تحریروں کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکنات میں سے ہے، اس کی وجہ وقت کم اور مقابلہ سخت والا معاملہ درپیش ہے، ظاہر ہے دوسرے مقررین کو بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔
مدیر اعلیٰ افضال عثمانی کا اداریہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ''آپس کی باتیں'' میں لکھا ہے سہ ماہی جوہر کا پہلا شمارہ ہماری توقع سے زیادہ پسند کیا گیا ہے۔
دکھلائے ہیں جو خواب تو تعبیر عطا کر
یا پھر میرے مزاج کے موسم ہی بدل دے
عثمانی صاحب نے اپنے کرم فرماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویسے تو دنیا بھر کے مختلف ممالک سے پیام آئے، رسالے کی پسندیدگی کے حوالے سے، لیکن امریکا میں مقیم شعر و ادب سے جڑے شعرا، ادبا نے جس انداز میں والہانہ خیر مقدم کیا وہ تمغۂ حسن کارکردگی سے بہت آگے کی بات ہے، حمد و نعت سے پرچے کی ابتدا ہوئی ہے، سید آصف رضا رضوی کی تخلیق کردہ حمد سے چند اشعار:
ذکرِ خدا میں محو ہوں' غیروں سے رابطہ نہیں
یہ وہ نمازِ عشق ہے جس کی کوئی فضا نہیں
عجز نہیں' ثنا نہیں' لب پہ کوئی دعا نہیں
ایسے انا پرست سے خالق کا کوئی واسطہ نہیں
پروفیسر شفقت رضوی کا مضمون بعنوان ''نعت نگاری اور اس کی حدود'' مذکورہ مضمون میں مضمون نگار نے نعت گو شعرا کی اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ:
''نعت گوئی بہت مشکل فن اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مضمون اور اسلوب کا حد اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔ شاعری میں مبالغہ جائز ہی نہیں بلکہ سکہ رائج الوقت ہے۔ شاعر حمد و نعت جناب طاہر سلطانی کا تخلیق کردہ یہ قطعہ ایمان کو تازہ اور قلوب کو گرماتا ہے۔
ہے گلشن عالم میں' عجب شان کی خوشبو
یعنی شہِ کونین کے عرفان کی خوشبو
جتنے بھی پیمبر ہوئے آدم سے تا عیسیٰ
ہے سب سے الگ صاحبِ قرآن کی خوشبو
پرچے میں شامل گوشۂ حضرت امام حسینؓ'' گوشہ جوہر سعیدی، گوشہ سلیمان خطیب کے ذریعے علمی، تاریخی، ادبی اور شعر و سخن کے نئے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ ''گوشہ جوہر'' میں جوہر سعیدی کا مکمل تعارف اور مختلف ادبا و شعرا کے مضامین شامل ہیں جنھیں پڑھ کر ان کے حالاتِ زندگی اور ان کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں، ان کا خاندانی نام سید محمد علی تھا، وہ 20 اکتوبر 1922 کو ہندوستان کی سابق مسلم ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے اور اسی تاریخ یعنی 20 فروری1997 کو کراچی میں وفات پائی۔ شاعری ورچے میں ملی تھی، لہٰذا خوب نام کمایا، ان کا ایک شعر زبانِ زدِ عام ہوگیا اور ادبی و سیاسی اور ثقافتی محفلوں میں پڑھا جانے لگا۔
شب پرستو! درِ امکانِ سحر' بند کرو
مجھ سے پہلے میرے خوابوں کو' نظر بند کرو
جناب سعید گوہر نے اپنے مضمون ''کمالِ فکر و جمال فن کا شاعر'' میں لکھا ہے کہ وہ ایک درویش صفت، خدامست تھے۔ شہرت، نمائش، نام و نمود، فخر و غرور سے بے نیاز، ان کا جمال ان کا فقر تھا اور ان کا جلال ان کی انا، اپنے جذبوں اور احساسات کی طرح کھرے اور سچے شاعر تھے، ان کی غزل میں ان کی اپنی زندگی کا پس منظر اور پیش منظر دونوں موجود ہیں۔
اپنی انا میں ڈوب گیا
وہ جو ایک سمندر تھا
مذکورہ پرچوں کی یہ بھی خوبی ہے کہ ''بیادِ رفتگاں'' کے عنوان سے مرحوم قلم کاروں کو یاد رکھا گیا ہے، جناب صوفی مشتاق نے بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ عالم و فاضل اور ہر دلعزیز شخصیت طارق عزیز کے ادبی و شعری محاسن کا تذکرہ کیا ہے، طارق عزیز علم و ادب کا گہوارا تھے اور نیلام گھر ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتا تھا جہاں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا تھا۔
جناب عتیق صدیقی نے افتخار نسیم عرف افتی کی یادوں کے چراغ جلائے ہیں اور ان کی شخصیت کے تابناک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور ان کے ذہنی کرب کی بھی نشان دہی کی ہے، افتخار نسیم کے شعری مجموعے ''آبدوز'' میں شامل غزل کا ایک شعر جو ان کے باطن کے اندھیروں کو نمایاں کرتا ہے:
شام سے تنہا کھڑا ہوں' یاس کا پیکر ہوں میں
اجنبی ہوں اور فصیل شہر سے باہر ہوں میں
ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے:
یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کر میرا مصور کبھی نہیں آیا
دونوں رسائل علم و فن، شعر و سخن سے آراستہ ہیں۔ اپنے فن میں یکتا شعرا کی وہ غزلیات جنھیں اردو دنیا میں بے پناہ شہرت اور وقار نصیب ہوا، کلامِ باکمال سے چند اشعار:
دیارِ نور میں تیرہ شبی کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
(افتخار عارف)
شہر بھر کی تاریکی' پھر بھی گھر میں رہتی ہے
ہے جبر وقت کا قصہ عجب سنائے کون
میں یاد اس کو کروں اور یاد آئے کون
شخصیات کے خانے میں پہلا مضمون جناب شاعر علی شاعر کا ہے، عنوان ہے ''ممتاز صاحب اسلوب شاعر، انور شعور'' شاعر علی شاعر نے انور شعور کے بارے میں لکھا ہے:
''ان کی شاعری حسین جذبات اور نازک احساسات کی آئینہ دار ہے ان کے شعر عام فہم، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ناقدین، ماہرین اردو ادب اور قارئین شعر و سخن انھیں سہل ممتنع کا شاعر ماننے لگے ہیں، عالمی سطح پر ان کی شہرت کا سبب یہی عمدہ شاعری ہے، ان کا شمار پاکستان کے نمایندہ سخن وروں میں ہوتا ہے، نمونے کے طور پر دو شعر:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
٭
اس تعلق میں کہاں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں
جناب عارف افضال عثمانی صاحب نے رضا علی عابدی صاحب اور عقیل اشرف صاحب کا انٹرویو کیا ہے۔ عقیل اشرف صاحب کے چند اشعار نذر سامعین:
میری تسبیح میں دانے سو ہی رکھے
تو پھر میں صد سے آگے بڑھ نہ پایا
شبِ معراج نے تصدیق کر دی
کوئی احمد سے آگے بڑھ نہ پایا
جناب عقیل اشرف کی شاعری علم و عرفان اور آگہی کے چراغوں سے روشن ہے۔
طنز و مزاح کے حوالے سے محمد اسلام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، پرچے میں ''بک بہ مقابلہ فیس بک'' کے عنوان سے مضمون شامل اشاعت ہے، ان کی تحریر کا خاصا یہ ہے کہ برجستہ اور معنویت سے بھرپور جملے مزاح کی چاشنی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔ چند سطور ملاحظہ فرمائیے:
''ماضی قریب کی بات ہے، جب بک لَورز بہت ہوتے تھے، اب بک تو غائب ہوتی جا رہی ہے، البتہ صرف لَورز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ہر تعلیم یافتہ شخص کے سرہانے کتاب ضرور ہوتی تھی، بوڑھا ہو تو کتاب کے ساتھ تسبیح اور عالمِ شباب میں ہو تو گلاب، موتیا، چنبیلی کے پھول بھی ہوتے تھے۔ کتابوں اور پھولوں کا بڑا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ کتابوں میں سوکھے ہوئے پھولوں کا ملنا بہت سی یادوں کو تازہ کردیتا تھا، ہماری اس بات کی تصدیق احمد فراز نے بھی کی ہے۔ اس دور کی فلموں میں ہیرو، ہیروئن سے ٹکرا کر اس کی کتابیں گرا دیتا تھا۔ بس صاحب! یہیں سے لَو اسٹوری شروع ہوجاتی تھی۔''
(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)
شمارہ اول اور دوم اپنی رعنائیوں اور وقیع تحریروں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے اور تاحال سلسلہ جاری ہے۔ سامعین ذی وقار تمام تحریروں کو احاطہ تحریر میں لانا ناممکنات میں سے ہے، اس کی وجہ وقت کم اور مقابلہ سخت والا معاملہ درپیش ہے، ظاہر ہے دوسرے مقررین کو بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔
مدیر اعلیٰ افضال عثمانی کا اداریہ بھی خاصے کی چیز ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون ''آپس کی باتیں'' میں لکھا ہے سہ ماہی جوہر کا پہلا شمارہ ہماری توقع سے زیادہ پسند کیا گیا ہے۔
دکھلائے ہیں جو خواب تو تعبیر عطا کر
یا پھر میرے مزاج کے موسم ہی بدل دے
عثمانی صاحب نے اپنے کرم فرماؤں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویسے تو دنیا بھر کے مختلف ممالک سے پیام آئے، رسالے کی پسندیدگی کے حوالے سے، لیکن امریکا میں مقیم شعر و ادب سے جڑے شعرا، ادبا نے جس انداز میں والہانہ خیر مقدم کیا وہ تمغۂ حسن کارکردگی سے بہت آگے کی بات ہے، حمد و نعت سے پرچے کی ابتدا ہوئی ہے، سید آصف رضا رضوی کی تخلیق کردہ حمد سے چند اشعار:
ذکرِ خدا میں محو ہوں' غیروں سے رابطہ نہیں
یہ وہ نمازِ عشق ہے جس کی کوئی فضا نہیں
عجز نہیں' ثنا نہیں' لب پہ کوئی دعا نہیں
ایسے انا پرست سے خالق کا کوئی واسطہ نہیں
پروفیسر شفقت رضوی کا مضمون بعنوان ''نعت نگاری اور اس کی حدود'' مذکورہ مضمون میں مضمون نگار نے نعت گو شعرا کی اس نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ:
''نعت گوئی بہت مشکل فن اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مضمون اور اسلوب کا حد اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔ شاعری میں مبالغہ جائز ہی نہیں بلکہ سکہ رائج الوقت ہے۔ شاعر حمد و نعت جناب طاہر سلطانی کا تخلیق کردہ یہ قطعہ ایمان کو تازہ اور قلوب کو گرماتا ہے۔
ہے گلشن عالم میں' عجب شان کی خوشبو
یعنی شہِ کونین کے عرفان کی خوشبو
جتنے بھی پیمبر ہوئے آدم سے تا عیسیٰ
ہے سب سے الگ صاحبِ قرآن کی خوشبو
پرچے میں شامل گوشۂ حضرت امام حسینؓ'' گوشہ جوہر سعیدی، گوشہ سلیمان خطیب کے ذریعے علمی، تاریخی، ادبی اور شعر و سخن کے نئے نئے زاویے سامنے آتے ہیں۔ ''گوشہ جوہر'' میں جوہر سعیدی کا مکمل تعارف اور مختلف ادبا و شعرا کے مضامین شامل ہیں جنھیں پڑھ کر ان کے حالاتِ زندگی اور ان کی شخصیت کے کئی پہلو نمایاں ہوتے ہیں، ان کا خاندانی نام سید محمد علی تھا، وہ 20 اکتوبر 1922 کو ہندوستان کی سابق مسلم ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے اور اسی تاریخ یعنی 20 فروری1997 کو کراچی میں وفات پائی۔ شاعری ورچے میں ملی تھی، لہٰذا خوب نام کمایا، ان کا ایک شعر زبانِ زدِ عام ہوگیا اور ادبی و سیاسی اور ثقافتی محفلوں میں پڑھا جانے لگا۔
شب پرستو! درِ امکانِ سحر' بند کرو
مجھ سے پہلے میرے خوابوں کو' نظر بند کرو
جناب سعید گوہر نے اپنے مضمون ''کمالِ فکر و جمال فن کا شاعر'' میں لکھا ہے کہ وہ ایک درویش صفت، خدامست تھے۔ شہرت، نمائش، نام و نمود، فخر و غرور سے بے نیاز، ان کا جمال ان کا فقر تھا اور ان کا جلال ان کی انا، اپنے جذبوں اور احساسات کی طرح کھرے اور سچے شاعر تھے، ان کی غزل میں ان کی اپنی زندگی کا پس منظر اور پیش منظر دونوں موجود ہیں۔
اپنی انا میں ڈوب گیا
وہ جو ایک سمندر تھا
مذکورہ پرچوں کی یہ بھی خوبی ہے کہ ''بیادِ رفتگاں'' کے عنوان سے مرحوم قلم کاروں کو یاد رکھا گیا ہے، جناب صوفی مشتاق نے بڑی عقیدت و محبت کے ساتھ عالم و فاضل اور ہر دلعزیز شخصیت طارق عزیز کے ادبی و شعری محاسن کا تذکرہ کیا ہے، طارق عزیز علم و ادب کا گہوارا تھے اور نیلام گھر ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتا تھا جہاں سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا تھا۔
جناب عتیق صدیقی نے افتخار نسیم عرف افتی کی یادوں کے چراغ جلائے ہیں اور ان کی شخصیت کے تابناک پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور ان کے ذہنی کرب کی بھی نشان دہی کی ہے، افتخار نسیم کے شعری مجموعے ''آبدوز'' میں شامل غزل کا ایک شعر جو ان کے باطن کے اندھیروں کو نمایاں کرتا ہے:
شام سے تنہا کھڑا ہوں' یاس کا پیکر ہوں میں
اجنبی ہوں اور فصیل شہر سے باہر ہوں میں
ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے:
یہ کون مجھ کو ادھورا بنا کے چھوڑ گیا
پلٹ کر میرا مصور کبھی نہیں آیا
دونوں رسائل علم و فن، شعر و سخن سے آراستہ ہیں۔ اپنے فن میں یکتا شعرا کی وہ غزلیات جنھیں اردو دنیا میں بے پناہ شہرت اور وقار نصیب ہوا، کلامِ باکمال سے چند اشعار:
دیارِ نور میں تیرہ شبی کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
(افتخار عارف)
شہر بھر کی تاریکی' پھر بھی گھر میں رہتی ہے
ہے جبر وقت کا قصہ عجب سنائے کون
میں یاد اس کو کروں اور یاد آئے کون
شخصیات کے خانے میں پہلا مضمون جناب شاعر علی شاعر کا ہے، عنوان ہے ''ممتاز صاحب اسلوب شاعر، انور شعور'' شاعر علی شاعر نے انور شعور کے بارے میں لکھا ہے:
''ان کی شاعری حسین جذبات اور نازک احساسات کی آئینہ دار ہے ان کے شعر عام فہم، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ناقدین، ماہرین اردو ادب اور قارئین شعر و سخن انھیں سہل ممتنع کا شاعر ماننے لگے ہیں، عالمی سطح پر ان کی شہرت کا سبب یہی عمدہ شاعری ہے، ان کا شمار پاکستان کے نمایندہ سخن وروں میں ہوتا ہے، نمونے کے طور پر دو شعر:
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
٭
اس تعلق میں کہاں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں
جناب عارف افضال عثمانی صاحب نے رضا علی عابدی صاحب اور عقیل اشرف صاحب کا انٹرویو کیا ہے۔ عقیل اشرف صاحب کے چند اشعار نذر سامعین:
میری تسبیح میں دانے سو ہی رکھے
تو پھر میں صد سے آگے بڑھ نہ پایا
شبِ معراج نے تصدیق کر دی
کوئی احمد سے آگے بڑھ نہ پایا
جناب عقیل اشرف کی شاعری علم و عرفان اور آگہی کے چراغوں سے روشن ہے۔
طنز و مزاح کے حوالے سے محمد اسلام کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، پرچے میں ''بک بہ مقابلہ فیس بک'' کے عنوان سے مضمون شامل اشاعت ہے، ان کی تحریر کا خاصا یہ ہے کہ برجستہ اور معنویت سے بھرپور جملے مزاح کی چاشنی میں تیرتے نظر آتے ہیں۔ چند سطور ملاحظہ فرمائیے:
''ماضی قریب کی بات ہے، جب بک لَورز بہت ہوتے تھے، اب بک تو غائب ہوتی جا رہی ہے، البتہ صرف لَورز ہی باقی رہ گئے ہیں۔ ہر تعلیم یافتہ شخص کے سرہانے کتاب ضرور ہوتی تھی، بوڑھا ہو تو کتاب کے ساتھ تسبیح اور عالمِ شباب میں ہو تو گلاب، موتیا، چنبیلی کے پھول بھی ہوتے تھے۔ کتابوں اور پھولوں کا بڑا گہرا تعلق ہوتا تھا۔ کتابوں میں سوکھے ہوئے پھولوں کا ملنا بہت سی یادوں کو تازہ کردیتا تھا، ہماری اس بات کی تصدیق احمد فراز نے بھی کی ہے۔ اس دور کی فلموں میں ہیرو، ہیروئن سے ٹکرا کر اس کی کتابیں گرا دیتا تھا۔ بس صاحب! یہیں سے لَو اسٹوری شروع ہوجاتی تھی۔''
(تقریب رونمائی کے موقع پر پڑھا گیا مضمون)