کراچی ممکنہ گرماگرم بلدیاتی انتخابات
حکومت سندھ نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا ہے کہ 45 دنوں میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں گے
ISLAMABAD:
سندھ میں دوسرے مرحلے میں کراچی کے 7 اور حیدر آباد کے 9 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات اتوار 24 جولائی 2022 کو ہونے تھے تاہم ممکنہ بارشوں کے باعث یہ انتخابات ملتوی کیے گئے۔ لہٰذا اب یہ بلدیاتی انتخابات اتوار 28اگست 2022 کو ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کو سیکڑوں امیدواروں کی جانب سے بھی موسم کی صورت حال کے مد نظر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی درخواستیں موصول ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کمیشن سندھ سے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران موسم کی رپورٹ مانگی تھی جس پر الیکشن کمیشن سندھ نے مون سون بارشوں کی پیش گوئی پر مبنی رپورٹ بھیج دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 24-23اور25جولائی کو بارشوں کی توقع ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر اعتراضات کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے التواء کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اس طرح کراچی اور حیدر آباد میں ممکنہ گرما گرم بلدیاتی انتخابات بارشوں کی نذر ہوکر فی الوقت سرد پڑ گئے تاہم نئے شیڈول کے مطابق انتخابات کے دن جوں جوں قریب ہوتے جائیں گے توں توں سیاسی ماحول میں گرما گرمی بڑھتی جائے گی جسے مناسب درجہ حرارت میں برقرار رکھنے کے لیے فوج اور رینجرز اپنے حاصل کردہ مجسٹریٹ کے اختیارات کے تحت اپنا کردار ادا کریں گے یعنی الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہونے والی پولنگ کے موقع پر فوج اور رینجرز کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات سونپ دیے ہیں۔
فوج اور رینجرز کے اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے باہر فرائض سرانجام دیں گے۔ اس سلسلے میں صوبائی الیکشن کمیشن نے بد امنی کے خدشے کے پیش نظر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کے لیے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے بنائے جانے والے 5017پولنگ اسٹیشنز میں ایک بھی نارمل نہیں، تمام پولنگ اسٹیشنز کو حساس اور انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ جن میں سے 3515 کو حساس اور1502کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ضلع وسطی کے 1266پولنگ اسٹیشنز میں سے 906حساس اور 360انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں اسی طرح ضلع کورنگی766 پولنگ اسٹیشنز میں سے 470 حساس اور 296 انتہائی حساس، ضلع کیماڑی کے 556 مجموعی پولنگ اسٹیشنز میں سے 283 حساس اور 273 انتہائی حساس، ضلع جنوبی کے 480 پولنگ اسٹیشنز میں سے 278 حساس اور 202 انتہائی حساس، ضلع شرقی کے 799 پولنگ اسٹیشنز میں سے 643 حساس اور 156 انتہائی حساس، ضلع غربی کے 641 پولنگ اسٹینشز میں سے 530 حساس اور111 انتہائی حساس جب کہ ضلع ملیر 509 پولنگ اسٹیشنزمیں سے 405 کو حساس 104 انتہائی حساس قرار دیا ہے۔
دریں اثنا کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 30 سے زائد جماعتوں کے 9155 امیدوار میدان میں ہیں۔ 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 246 یونین کمیٹیوں میں سے 245 جب کہ 984 وارڈ زمیں 980 پر انتخابات ہوں گے ایک یونین اور 4 وارڈز پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں کراچی کے 7 اضلاع کو 25 ٹاؤنز اور 246 یونین کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں وارڈز کی تعداد 984 ہے۔
ضلع ملیر گڈاپ، ابراہیم حیدری اور ملیر ٹاؤن پر مشتمل ہے۔ جہاں 32 یونین کمیٹیاں اور 132 وارڈز ہیں، اس ضلع میں 1047 امید وار ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ ضلع کورنگی کی حد بندی میں شاہ فیصل، ماڈل کالونی، لانڈھی اور کورنگی ٹاؤنز شامل ہیں جن کی یونین کمیٹیوں کی تعداد37 اور وارڈز37 ہے، یہاں 14 لاکھ 15ہزار91 ووٹرز میں سے 6 لاکھ 34 ہزار 417 خواتین اور 7 لاکھ 80 ہزار 674 مرد ہیں، اس ضلع میں مختلف جماعتوں کے 1454 امید وار بلدیاتی انتخابی جنگ میں شامل ہیں۔
ضلع شرقی کے 5 ٹاؤنز میں 43 یونین کمیٹیاں اور 172 وارڈز ہیں جہاں 1583 امید واربیلٹ پیپرز پر موجود ہوں گے، 5 ٹاؤنز میں چنیسر، گلشن اقبال، جناح، صفورہ اور سہراب گوٹھ شامل ہیں، اس ضلع میں 6 لاکھ 72 ہزار خواتین اور 7 لاکھ 81 ہزار 244 خواتین ووٹرز ہیں اس طرح ووٹرز کی مجموعی تعداد 14 لاکھ 54 ہزار 59 ہے۔ ضلع جنوبی میں لیاری اور صدر ٹاؤن کو 13,13یونین کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی وارڈز کی تعداد 104ہے، اس ضلع میں امید واروں کی تعداد 876 ہے، ضلع جنوبی کے 9 لاکھ 95 ہزار 54 ووٹرز میں سے 4 لاکھ 45 ہزار 143 مرد 5 لاکھ 49 ہزار 911 خواتین ووٹرز ہیں۔
ضلع غربی میں اورنگی، بلدیہ مومن آباد اور منگھو پیر پر مشتمل 3 ٹاؤنز، 32 یونین کمیٹیاں اور 132وارڈز کے لیے ووٹرز کی کل تعداد 9 لاکھ 9 ہزار 187ہیں جن میں 3 لاکھ 79 ہزار خواتین اور 5 لاکھ 29 ہزار411 مرد ووٹرز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں 66997پولنگ عملہ خدمات انجام دے گا۔ ان میں پریزائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران، دیگر پولنگ اسٹاف اور نائب قاصد شامل ہیں۔
حکومت سندھ نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا ہے کہ 45 دنوں میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں گے، واضح رہے کہ اس بلدیاتی نظام میں کراچی میں واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ میں میئر کو چیئرمین بنایا گیا ہے۔ باقی تمام ادارے لوکل گورنمنٹ کو واپس کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ امید کامل ہے کہ 28 اگست کو کراچی اور حیدرآباد میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات بخیر و عافیت کے ساتھ ہوں گے جس کے لیے اداروں کے علاوہ عوام الناس کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
وقت نے ایک مرتبہ پھر ووٹرز کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر اپنے علاقائی بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے اہلیت کی بنیاد پر بلدیاتی نمایندے منتخب کریں، غلط فیصلے سے نااہل نمایندے منتخب کرنے کے سبب عوامی مسائل کا موجب بن سکتا ہے۔ کراچی ایک عرصے سے بلدیاتی مسائل کے گرداب میں ہے جسے بھنور سے نکالنے کے لیے ووٹرز کو اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ورنہ دیگر پھر وہی رونا دھونا بیکار سی بات ہوگی۔ آؤ آگے بڑھو اور ثابت کریں کہ کراچی کے عوام جاگ رہے ہیں اور اپنے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔
سندھ میں دوسرے مرحلے میں کراچی کے 7 اور حیدر آباد کے 9 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات اتوار 24 جولائی 2022 کو ہونے تھے تاہم ممکنہ بارشوں کے باعث یہ انتخابات ملتوی کیے گئے۔ لہٰذا اب یہ بلدیاتی انتخابات اتوار 28اگست 2022 کو ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کو سیکڑوں امیدواروں کی جانب سے بھی موسم کی صورت حال کے مد نظر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کی درخواستیں موصول ہوئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کمیشن سندھ سے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران موسم کی رپورٹ مانگی تھی جس پر الیکشن کمیشن سندھ نے مون سون بارشوں کی پیش گوئی پر مبنی رپورٹ بھیج دی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 24-23اور25جولائی کو بارشوں کی توقع ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان نے حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر اعتراضات کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے التواء کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ اس طرح کراچی اور حیدر آباد میں ممکنہ گرما گرم بلدیاتی انتخابات بارشوں کی نذر ہوکر فی الوقت سرد پڑ گئے تاہم نئے شیڈول کے مطابق انتخابات کے دن جوں جوں قریب ہوتے جائیں گے توں توں سیاسی ماحول میں گرما گرمی بڑھتی جائے گی جسے مناسب درجہ حرارت میں برقرار رکھنے کے لیے فوج اور رینجرز اپنے حاصل کردہ مجسٹریٹ کے اختیارات کے تحت اپنا کردار ادا کریں گے یعنی الیکشن کمیشن نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ہونے والی پولنگ کے موقع پر فوج اور رینجرز کو مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات سونپ دیے ہیں۔
فوج اور رینجرز کے اہلکار پولنگ اسٹیشنز کے باہر فرائض سرانجام دیں گے۔ اس سلسلے میں صوبائی الیکشن کمیشن نے بد امنی کے خدشے کے پیش نظر فوج اور رینجرز کی تعیناتی کے لیے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے بنائے جانے والے 5017پولنگ اسٹیشنز میں ایک بھی نارمل نہیں، تمام پولنگ اسٹیشنز کو حساس اور انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ جن میں سے 3515 کو حساس اور1502کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ضلع وسطی کے 1266پولنگ اسٹیشنز میں سے 906حساس اور 360انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں اسی طرح ضلع کورنگی766 پولنگ اسٹیشنز میں سے 470 حساس اور 296 انتہائی حساس، ضلع کیماڑی کے 556 مجموعی پولنگ اسٹیشنز میں سے 283 حساس اور 273 انتہائی حساس، ضلع جنوبی کے 480 پولنگ اسٹیشنز میں سے 278 حساس اور 202 انتہائی حساس، ضلع شرقی کے 799 پولنگ اسٹیشنز میں سے 643 حساس اور 156 انتہائی حساس، ضلع غربی کے 641 پولنگ اسٹینشز میں سے 530 حساس اور111 انتہائی حساس جب کہ ضلع ملیر 509 پولنگ اسٹیشنزمیں سے 405 کو حساس 104 انتہائی حساس قرار دیا ہے۔
دریں اثنا کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 30 سے زائد جماعتوں کے 9155 امیدوار میدان میں ہیں۔ 28 اگست کو بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں 246 یونین کمیٹیوں میں سے 245 جب کہ 984 وارڈ زمیں 980 پر انتخابات ہوں گے ایک یونین اور 4 وارڈز پر امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں کراچی کے 7 اضلاع کو 25 ٹاؤنز اور 246 یونین کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں وارڈز کی تعداد 984 ہے۔
ضلع ملیر گڈاپ، ابراہیم حیدری اور ملیر ٹاؤن پر مشتمل ہے۔ جہاں 32 یونین کمیٹیاں اور 132 وارڈز ہیں، اس ضلع میں 1047 امید وار ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ ضلع کورنگی کی حد بندی میں شاہ فیصل، ماڈل کالونی، لانڈھی اور کورنگی ٹاؤنز شامل ہیں جن کی یونین کمیٹیوں کی تعداد37 اور وارڈز37 ہے، یہاں 14 لاکھ 15ہزار91 ووٹرز میں سے 6 لاکھ 34 ہزار 417 خواتین اور 7 لاکھ 80 ہزار 674 مرد ہیں، اس ضلع میں مختلف جماعتوں کے 1454 امید وار بلدیاتی انتخابی جنگ میں شامل ہیں۔
ضلع شرقی کے 5 ٹاؤنز میں 43 یونین کمیٹیاں اور 172 وارڈز ہیں جہاں 1583 امید واربیلٹ پیپرز پر موجود ہوں گے، 5 ٹاؤنز میں چنیسر، گلشن اقبال، جناح، صفورہ اور سہراب گوٹھ شامل ہیں، اس ضلع میں 6 لاکھ 72 ہزار خواتین اور 7 لاکھ 81 ہزار 244 خواتین ووٹرز ہیں اس طرح ووٹرز کی مجموعی تعداد 14 لاکھ 54 ہزار 59 ہے۔ ضلع جنوبی میں لیاری اور صدر ٹاؤن کو 13,13یونین کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کی وارڈز کی تعداد 104ہے، اس ضلع میں امید واروں کی تعداد 876 ہے، ضلع جنوبی کے 9 لاکھ 95 ہزار 54 ووٹرز میں سے 4 لاکھ 45 ہزار 143 مرد 5 لاکھ 49 ہزار 911 خواتین ووٹرز ہیں۔
ضلع غربی میں اورنگی، بلدیہ مومن آباد اور منگھو پیر پر مشتمل 3 ٹاؤنز، 32 یونین کمیٹیاں اور 132وارڈز کے لیے ووٹرز کی کل تعداد 9 لاکھ 9 ہزار 187ہیں جن میں 3 لاکھ 79 ہزار خواتین اور 5 لاکھ 29 ہزار411 مرد ووٹرز شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں 66997پولنگ عملہ خدمات انجام دے گا۔ ان میں پریزائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران، دیگر پولنگ اسٹاف اور نائب قاصد شامل ہیں۔
حکومت سندھ نے الیکشن کمیشن کو یقین دلایا ہے کہ 45 دنوں میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائیں گے، واضح رہے کہ اس بلدیاتی نظام میں کراچی میں واٹر بورڈ اور سالڈ ویسٹ میں میئر کو چیئرمین بنایا گیا ہے۔ باقی تمام ادارے لوکل گورنمنٹ کو واپس کرنے کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے۔ امید کامل ہے کہ 28 اگست کو کراچی اور حیدرآباد میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات بخیر و عافیت کے ساتھ ہوں گے جس کے لیے اداروں کے علاوہ عوام الناس کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
وقت نے ایک مرتبہ پھر ووٹرز کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوکر اپنے علاقائی بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے اہلیت کی بنیاد پر بلدیاتی نمایندے منتخب کریں، غلط فیصلے سے نااہل نمایندے منتخب کرنے کے سبب عوامی مسائل کا موجب بن سکتا ہے۔ کراچی ایک عرصے سے بلدیاتی مسائل کے گرداب میں ہے جسے بھنور سے نکالنے کے لیے ووٹرز کو اپنے باشعور ہونے کا ثبوت دینا ہوگا ورنہ دیگر پھر وہی رونا دھونا بیکار سی بات ہوگی۔ آؤ آگے بڑھو اور ثابت کریں کہ کراچی کے عوام جاگ رہے ہیں اور اپنے بلدیاتی مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ ہیں۔