سیاسی عدم استحکام کو سنگین نہ ہونے دیں
آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اور دوست ممالک محتاط ہو چکے ہیں، ملک کے زرمبادلہ روزبروز گر رہے ہیں
کسی ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے وہاں سیاسی استحکام ہونا انتہائی ضروری ہے،جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا، آئین میں طے شدہ حدود وقیود کی پاسداری نہیں کی جائے تو ایسی صورت میں سیاسی عدم استحکام انتشار اور انارکی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کی وحدت کو لے ڈوبتا ہے۔
ماضی قریب میں ایتھوپیا، سوڈان ، انڈونیشیا، سابق یوگوسلاویہ، بوسنیا ہرزگوونیا، اس کی مثالیں ہیں۔ان ممالک میں سیاسی بحران نے معشیت کو لپیٹ میں لیا، انارکی اور انتشار پھیلا، دشمنوں کو مداخلت کا موقع مل گیا اور پھر یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوکر تباہ ہوگئے ۔ ایتھوپیا تقسیم ہوا، ایرٹیریا الگ ملک بن گیا،سوڈان بھی تقسیم ہوا۔
جنوبی سوڈان الگ ہوگیا،یوگوسلاویہ سات ریاستوں میں بٹ گیا اور دنیا کے نقشے سے یوگوسلاویہ نامی ملک ہی ختم ہوگیا۔انڈونیشیا میں سے مشرقی تیمور آزاد ریاست بن گیا۔اب سری لنکا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ وطن عزیر کے بااثر اور فیصلہ ساز حلقوں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، اپنے ذاتی اور گروہی تعصبات اور مفادات سے الگ ہوکر ریاست پاکستان اور یہاں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاست کریں اور فیصلے کریں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت سنبھل نہیں پا رہی اور ہر گزرتے دن حالات پیچیدہ ، گنجھلک اور مشکل ہورہے ہیں۔معاشی اشاریے بتا رہے ہیں کہ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز نے زمینی اور عالمی حقائق کا ادراک کرنے میں مزید تاخیر کی تو خاکم بدہن ملک کسی حادثے سے دوچار بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے سیاسی معاملات اور تنازعات جنھیں حل کرنے کا آئینی فورم پارلیمنٹ ہے لیکن سیاستدان انھیں عدالتوں میں لے جاکر پارلیمنٹ کے وقار کو نقصان پہنچا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو بھی کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
ملک کی سیاسی قیادت کو اپنے اس طرز عمل کا جائزہ لینا کی جتنی ضرورت اب ہے ، پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی عزت و توقیر اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عوام کی ترقی و خوشحالی اور انھیں انصاف فراہم کرنے کے لیے راہ عمل تیار کرتی ، اس پر بحث کرتی ہے اورپھر اسے قانون کا درجہ دیتی ہے ۔ اگر سیاسی قیادت پارلیمنٹ کو کمزور کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود کو بھی کمزور کررہی ہے ۔
آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان سے معاہدے کی منظوری نہیں دی ہے ،ایسا کیوں ہورہاہے، ملک کے اسٹیک ہولڈرز کو اس کا یقینا علم ہے لیکن وہ اس معاملے پر بھی پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ جتنا طول پکڑ رہا ہے ، ملکی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
موجودہ معاشی تنزلی کے نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں اور انھیں سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس وقت سرمایہ دار اور صنعت کار اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں۔ سیاسی بحران، معیشت کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چْکا ہے، اس بحران سے ملک کو نکالنا قومی سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ بیوروکریسی اور ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا، اپنی تنخواہوں، مراعات وغیرہ سے آگے نہیں سوچتے اور نہ ہی انھیں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے لہٰذا ان سے توقع کرنا کہ وہ ملک کو بحران سے نکالیں گے، کم فہمی ہے۔ ایسا ہوتا تو سری لنکا کے ریاستی ادارے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیتے۔
پرائمری کلاس کے طالب علم سے پوچھیں تو یہ یہی کہے گا کہ جب ملک میں معاشی استحکام ہو گا، معاشی پالیسیوں میں استحکام آئے گا، تب ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار مطمئن ہوگا اورکاروبار شروع کرے گا، کارخانے لگیں گے ، روزگار بڑھے گا ، غربت دور ہوگی، مزدور خوشحال ہوگا' سیاحت بڑھے گی، ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا اور اپنے قرض اتارنے کے قابل ہوجائے گا۔
ملک میں انتشار اور نفرت پیدا کرنے والے بیانات، پرتشدد اور پراشتعال احتجاجی تحریکوں، دھرنوں اور آئے دن سڑکیں بند کرنے کے سیاسی اور سماجی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ جمہوری عمل کو شائستگی اور تحمل سے آگے بڑھایا جائے، سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزر کر اپنے کردار اور عمل کو جمہوری کلچر سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ' نفرت ،گالم گلوچ، دھوکا دہی، جھوٹ و فریب کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے سوا سب کو کرپٹ سمجھنے کی روش سے جان چھڑانی ہوگی، دینی و سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
سیاست میں بہتان تراشی، کردار کشی جیسے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ قانونی پروسیجر کے تحت کارروائی شروع کرائے، بلاوجہ ، بلاجواز اور بے بنیاد الزام تراشی کے خاتمے کے ہتک عزت کے مقدمات کو ترجیحی بنیاد پر سنا جائے اور فیصلے کیے جائیں تو یہ کلچر خود بخود ختم ہوجائے گا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی امریکا میں ہیں، انھوں نے امریکی نائب سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقات کی ہے اوران کی توجہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی طرف دلائی ہے ۔پاکستانی سفارت خانے کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ طارق فاطمی نے امریکی عہدیدار کو بتایا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ برابری، باہمی تعاون اور مشترکہ فائدے کی بنیاد پر قریبی اور خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔
ادھر عالمی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان بڑھتی ہوئی مالی ضروریات کو آئی ایم ایف بیل آوٹ سے پورا کرسکتا ہے۔بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جون 2023 تک تقریباً 34ارب ڈالرکی ضرورت ہے تاہم پاکستان کے پاس دستیاب فنانسنگ 36ارب ڈالر ہوگی۔ جریدے کا کہنا ہے کہ پاکستانی روپے میں 1998 کے بعد سب سے زیادہ گراوٹ ہوئی۔ پاکستان کی کرنسی رواں ہفتے اپنی قدر 7.9 فیصد کھو چکی ہے جب کہ پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر پر خدشات ہیں۔
آئی ایم ایف کی قسط کا اجراء کا معاملہ طویل اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ روپے کومسلسل دھچکے اورغیریقینی صورتحال کے باعث تجارتی وصنعتی شعبوں نے اسٹیٹ بینک سے ڈالر کی قدر دو ہفتوں کے لیے منجمد کرنے کامطالبہ کیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث مالی سال 2022کے دوران پاکستان پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل تاریخ کی نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔
زیرتبصرہ مالی سال میں ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرولیم گروپ کے درآمدی بل کی مالیت 23 ارب 31 کروڑ ڈالر رہی ہے۔ ایسے مشکل حالات کے باوجود پاکستان کے پاس اتنا پوٹینشل ہے کہ اگر ملک سیاسی استحکام کی طرف لوٹ آتا ہے تو ملکی معیشت میں بھی بہتری پیدا ہو جائے گی اور صنعتکار و سرمایہ دار نئی سرمایہ کاری پر تیار ہوجائیں گے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی ، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی تو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی ، یوں سرمایہ دار کے لیے اپنی آمدنی میں اضافے کے ذرایع پیدا ہوں گے تو دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
مزدورکی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام اور کاروبار دوست ماحول ضروری ہے ، اگر سیاسی لیڈران کو ملک و قوم کی فکر ہے،اگر وہ ملک کو معاشی ابتری سے نکالنا چاہتے ہیں، اگر قومی معیشت کو سری لنکا جیسی تباہی سے بچانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت سے نہیں بلکہ سیاست میں ہم آہنگی کی کوششوں سے کرنا ہو گا۔جب تک سیاسی جماعتیں، سیاست کے جمہوری اور معاشی رموز سے واقفیت اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل نہیں کرتیں، ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان معاملات کو سلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کے لیے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہاں غیرمعمولی تدبر اور فہم وفراست کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین ساڑھے تین ماہ سے پنجاب میں انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے، ترقیاتی کام ٹھپ ہو چکے ہیں، پنجاب کے اثرات وفاق میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔
ملک میں کوئی معاشی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اور دوست ممالک محتاط ہو چکے ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ روزبروز گر رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اگر معاملات کو سنبھالا نہ گیا تو نتائج سے ملک کے ارباب حل وعقد اور سیاست دان بخوبی آگاہ ہیں۔
ماضی قریب میں ایتھوپیا، سوڈان ، انڈونیشیا، سابق یوگوسلاویہ، بوسنیا ہرزگوونیا، اس کی مثالیں ہیں۔ان ممالک میں سیاسی بحران نے معشیت کو لپیٹ میں لیا، انارکی اور انتشار پھیلا، دشمنوں کو مداخلت کا موقع مل گیا اور پھر یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہوکر تباہ ہوگئے ۔ ایتھوپیا تقسیم ہوا، ایرٹیریا الگ ملک بن گیا،سوڈان بھی تقسیم ہوا۔
جنوبی سوڈان الگ ہوگیا،یوگوسلاویہ سات ریاستوں میں بٹ گیا اور دنیا کے نقشے سے یوگوسلاویہ نامی ملک ہی ختم ہوگیا۔انڈونیشیا میں سے مشرقی تیمور آزاد ریاست بن گیا۔اب سری لنکا دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ وطن عزیر کے بااثر اور فیصلہ ساز حلقوں کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں، اپنے ذاتی اور گروہی تعصبات اور مفادات سے الگ ہوکر ریاست پاکستان اور یہاں بسنے والے بائیس کروڑ عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر سیاست کریں اور فیصلے کریں۔
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملکی معیشت سنبھل نہیں پا رہی اور ہر گزرتے دن حالات پیچیدہ ، گنجھلک اور مشکل ہورہے ہیں۔معاشی اشاریے بتا رہے ہیں کہ ریاست کے اسٹیک ہولڈرز نے زمینی اور عالمی حقائق کا ادراک کرنے میں مزید تاخیر کی تو خاکم بدہن ملک کسی حادثے سے دوچار بھی ہو سکتا ہے۔ ایسے سیاسی معاملات اور تنازعات جنھیں حل کرنے کا آئینی فورم پارلیمنٹ ہے لیکن سیاستدان انھیں عدالتوں میں لے جاکر پارلیمنٹ کے وقار کو نقصان پہنچا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے انتظامی ڈھانچے کو بھی کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔
ملک کی سیاسی قیادت کو اپنے اس طرز عمل کا جائزہ لینا کی جتنی ضرورت اب ہے ، پہلے کبھی نہیں تھی ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی عزت و توقیر اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر عوام کی ترقی و خوشحالی اور انھیں انصاف فراہم کرنے کے لیے راہ عمل تیار کرتی ، اس پر بحث کرتی ہے اورپھر اسے قانون کا درجہ دیتی ہے ۔ اگر سیاسی قیادت پارلیمنٹ کو کمزور کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود کو بھی کمزور کررہی ہے ۔
آئی ایم ایف نے تاحال پاکستان سے معاہدے کی منظوری نہیں دی ہے ،ایسا کیوں ہورہاہے، ملک کے اسٹیک ہولڈرز کو اس کا یقینا علم ہے لیکن وہ اس معاملے پر بھی پوائنٹ اسکورنگ کررہے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاملہ جتنا طول پکڑ رہا ہے ، ملکی معیشت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
موجودہ معاشی تنزلی کے نتائج نہایت سنگین ہوسکتے ہیں اور انھیں سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔ اس وقت سرمایہ دار اور صنعت کار اضطرابی کیفیت کا شکار ہیں۔ سیاسی بحران، معیشت کو مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے چْکا ہے، اس بحران سے ملک کو نکالنا قومی سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ بیوروکریسی اور ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا، اپنی تنخواہوں، مراعات وغیرہ سے آگے نہیں سوچتے اور نہ ہی انھیں عوام کے سوالات کا سامنا کرنا ہوتا ہے لہٰذا ان سے توقع کرنا کہ وہ ملک کو بحران سے نکالیں گے، کم فہمی ہے۔ ایسا ہوتا تو سری لنکا کے ریاستی ادارے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیتے۔
پرائمری کلاس کے طالب علم سے پوچھیں تو یہ یہی کہے گا کہ جب ملک میں معاشی استحکام ہو گا، معاشی پالیسیوں میں استحکام آئے گا، تب ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار مطمئن ہوگا اورکاروبار شروع کرے گا، کارخانے لگیں گے ، روزگار بڑھے گا ، غربت دور ہوگی، مزدور خوشحال ہوگا' سیاحت بڑھے گی، ملک مستحکم اور مضبوط ہوگا اور اپنے قرض اتارنے کے قابل ہوجائے گا۔
ملک میں انتشار اور نفرت پیدا کرنے والے بیانات، پرتشدد اور پراشتعال احتجاجی تحریکوں، دھرنوں اور آئے دن سڑکیں بند کرنے کے سیاسی اور سماجی کلچر کو ختم کرنا ہوگا۔ جمہوری عمل کو شائستگی اور تحمل سے آگے بڑھایا جائے، سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزر کر اپنے کردار اور عمل کو جمہوری کلچر سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ ' نفرت ،گالم گلوچ، دھوکا دہی، جھوٹ و فریب کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے سوا سب کو کرپٹ سمجھنے کی روش سے جان چھڑانی ہوگی، دینی و سیاسی جماعتوں کو آپس میں اتفاق رائے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
سیاست میں بہتان تراشی، کردار کشی جیسے کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ قانونی پروسیجر کے تحت کارروائی شروع کرائے، بلاوجہ ، بلاجواز اور بے بنیاد الزام تراشی کے خاتمے کے ہتک عزت کے مقدمات کو ترجیحی بنیاد پر سنا جائے اور فیصلے کیے جائیں تو یہ کلچر خود بخود ختم ہوجائے گا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی امریکا میں ہیں، انھوں نے امریکی نائب سیکریٹری خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقات کی ہے اوران کی توجہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی طرف دلائی ہے ۔پاکستانی سفارت خانے کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ طارق فاطمی نے امریکی عہدیدار کو بتایا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ برابری، باہمی تعاون اور مشترکہ فائدے کی بنیاد پر قریبی اور خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔
ادھر عالمی جریدے بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان بڑھتی ہوئی مالی ضروریات کو آئی ایم ایف بیل آوٹ سے پورا کرسکتا ہے۔بلوم برگ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جون 2023 تک تقریباً 34ارب ڈالرکی ضرورت ہے تاہم پاکستان کے پاس دستیاب فنانسنگ 36ارب ڈالر ہوگی۔ جریدے کا کہنا ہے کہ پاکستانی روپے میں 1998 کے بعد سب سے زیادہ گراوٹ ہوئی۔ پاکستان کی کرنسی رواں ہفتے اپنی قدر 7.9 فیصد کھو چکی ہے جب کہ پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر پر خدشات ہیں۔
آئی ایم ایف کی قسط کا اجراء کا معاملہ طویل اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ روپے کومسلسل دھچکے اورغیریقینی صورتحال کے باعث تجارتی وصنعتی شعبوں نے اسٹیٹ بینک سے ڈالر کی قدر دو ہفتوں کے لیے منجمد کرنے کامطالبہ کیا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث مالی سال 2022کے دوران پاکستان پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل تاریخ کی نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا۔
زیرتبصرہ مالی سال میں ملکی تاریخ میں پہلی بار پٹرولیم گروپ کے درآمدی بل کی مالیت 23 ارب 31 کروڑ ڈالر رہی ہے۔ ایسے مشکل حالات کے باوجود پاکستان کے پاس اتنا پوٹینشل ہے کہ اگر ملک سیاسی استحکام کی طرف لوٹ آتا ہے تو ملکی معیشت میں بھی بہتری پیدا ہو جائے گی اور صنعتکار و سرمایہ دار نئی سرمایہ کاری پر تیار ہوجائیں گے اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آجائے گی ، کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی تو مزید افرادی قوت کی ضرورت ہو گی ، یوں سرمایہ دار کے لیے اپنی آمدنی میں اضافے کے ذرایع پیدا ہوں گے تو دوسری طرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
مزدورکی خوشحالی کے لیے سیاسی استحکام اور کاروبار دوست ماحول ضروری ہے ، اگر سیاسی لیڈران کو ملک و قوم کی فکر ہے،اگر وہ ملک کو معاشی ابتری سے نکالنا چاہتے ہیں، اگر قومی معیشت کو سری لنکا جیسی تباہی سے بچانا ہے تو اس کا آغاز معیشت کی مرمت سے نہیں بلکہ سیاست میں ہم آہنگی کی کوششوں سے کرنا ہو گا۔جب تک سیاسی جماعتیں، سیاست کے جمہوری اور معاشی رموز سے واقفیت اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگی حاصل نہیں کرتیں، ملک میں سیاست اور معیشت کے بحران ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
ہمارے سیاسی رہنماؤں کو ان معاملات کو سلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پہ اکٹھا ہونا پڑے گا۔ سیاسی عدم استحکام کے لیے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے، لہٰذا سیاسی رہنماؤں اور قومی اداروں کو ان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے متحرک ہونا پڑے گا۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، وہاں غیرمعمولی تدبر اور فہم وفراست کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین ساڑھے تین ماہ سے پنجاب میں انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے، ترقیاتی کام ٹھپ ہو چکے ہیں، پنجاب کے اثرات وفاق میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔
ملک میں کوئی معاشی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اور دوست ممالک محتاط ہو چکے ہیں۔ ملک کے زرمبادلہ روزبروز گر رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ اگر معاملات کو سنبھالا نہ گیا تو نتائج سے ملک کے ارباب حل وعقد اور سیاست دان بخوبی آگاہ ہیں۔