ایک واقعہ ایک حقیقت
اس بھیڑیے کی نسل اب بھی باقی ہے، حکومتیں ان کو پالتی ہیں اور بوقت ضرورت عوام پر چھوڑتی رہتی ہیں
کراچی:
پرانے زمانے کے بادشاہ لوگ دل کے بھی بادشاہ ہوتے تھے، ایک تو یہ کہ وہ اپنے ملک اور رعایا کو اپنی جدی پشتی ملکیت سمجھتے تھے، اس لیے اسے ''اپنی'' چیزکی طرح رکھتے اور سنبھالتے تھے، آج کے جمہوری بادشاہوں کی طرح عارضی اجارہ دار نہیں تھے کہ کم سے کم وقت میں ''کھیت'' کا کباڑہ کر دیں، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹا جائے، اس لیے خزانے زر و جواہر سے بھرے تھے۔
وہ گلے میں کشکول لٹکا کر نہیں پھرتے تھے،کفایت شعاری کی خاطر وزیروں کی پلٹن بھی نہیں رکھتے تھے، صرف ایک وزیر رکھتے تھے اور اس وزیر کا کوئی مشیر اور معاون خصوصی بھی نہیں ہوتا تھا جیسے آج کے وزیر ہوتے ہیں کہ مشیروں اور معاونوں کے ساتھ بیٹے بیٹیاں، بھانجے، بھتیجے اور سالے بہنوئی بھی اپنی پاکٹ میں یا کچن میں رکھتے ہیں۔
تو پرانے زمانے کا ایک ایسا ہی باشادہ اور ایک اس کا وزیر تھا، بادشاہ وزیر سے کسی بات پر ناراض ہو گیا، وہ بادشاہ ظالم بھی نہ تھا ورنہ اسی وقت وزیر کا سر قلم، پین یا بال پوائنٹ کر دیتا، اور آنے والے نئے وزیر کو بھون کر کھلا دیتا، لیکن اس نے شاہی تدبیر کی۔ وزیر کو ایک دنبہ دیا کہ اس دنبے کو چارے کے علاوہ ایک سیر چنا بھی روزانہ کھلانا ہے لیکن ایک سال میں اس دنبے کا وزن ایک چھٹانک کم نہ زیادہ ہو۔
وزیر بچارا دربار سے آکر گھر میں اس چارپائی میں پڑ گیا جسے وہ غورکا حوض کہتا تھا، وزیر کی بیٹی نے باپ کو جھلنگی چارپائی میں چاقو بنے دیکھا تو آکر ماجرا پوچھا، وزیر کی یہ بیٹی بڑی پڑھی لکھی اور ذہین تھی، آج کے وزیروں کی بیٹیوں کی طرح ماڈل بن کر بالی وڈ، گالی وڈ میں ''کیرئیر'' نہیں بناتی تھیں۔
باپ نے سارا دکھڑا سنایا تو بیٹی نے کہا، یہ کونسی مشکل بات ہے، پھر تین چٹکیاں بجا کر مسلے کا حل باپ کے سامنے پیش کردیا کہ دنبہ گھر لائیے لیکن ساتھ ایک خوفناک کتا بھی لے آئیے، اس وقت تک میں آمنے سامنے دو کیلیں ٹھونکتی ہوں، ایک کیل سے دنبے کو باندھیں گے اور دوسری کیل سے کتے کو، دنبے کو پیٹ بھر کر چنا دیں گے اورکتے کو بھوکا رکھیں گے، بادشاہ کے حکم میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ دنبے کے سامنے کتے کو نہ باندھا جائے یا کتے کو بھوکا نہ رکھا جائے، اس طرح دنبہ چنا کھا کر بھی فربہ نہیں ہوگا کیوں کہ کتا بھونک بھونک کر اس کی جان نکالتا رہے گا۔
ایک سال بعد جب دنبے کو تولا گیا تو تین سو پینسٹھ سیر چنا کھانے کے باوجود اتنا ہی نکلا جتنا ایک سال پہلے تھا، بادشاہ نے پہلے تو عش عش کیا اور پھر اس پر غشی طاری ہوگئی، یہ بھی بادشاہ کی ایک شاہانہ عادت تھی کہ وہ کسی بات پر خوش ہوتا تو اس وقت تک عش عش کرتا رہتا جب تک ''غش'' میں نہ چلا جاتا۔
اس کے بعد جب وہ غش سے باہر آگیا تو وزیرکو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ میں تو تیرا بھٹا سا سر اڑانے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن تم نے اپنے''سر'' کو بھٹے کی طرح اڑانے اور بھوننے سے بچا لیا لیکن یہ بتائو کہ تم نے یہ کیسے کیا، تم کو تو میں جانتا ہوں کہ تمہارا سر ایمپٹی ہے، اسی لیے تو تم کو ''وزیر'' بنا رکھا ہے کیوں کہ وزیروں کا سر جتنا خالی ہو اتنے اچھے وزیر ہوتے ہیں۔ وزیر نے دست بست ہو کر عرض کیا کہ یہ کارنامہ میں نے نہیں بلکہ میری بیٹی نے سرانجام دیا، بادشاہ نے اسی وقت شاہی فرمان جاری کیا کہ بادشاہ سلامت کے حرم میں جو چوتھی ویکینسی خالی تھی، اس کے لیے وزیرکی بیٹی کا نام سرکاری کاغذات میں درج کر دیا جائے۔
پھر وزیر سے کہا کہ دراصل میں نے تمہاری بیٹی کے بارے میں سنا تھا اور اس بہانے اس کا امتحان لینا مقصود تھا اور دوسری بات یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میری رعیت روزبروز بے قابو ہوتی جا رہی ہے، اچھا کھانے پینے کی وجہ سے ان کے جسم موٹے اور دماغ چھوٹے ہو رہے ہیں، اس لیے جگہ جگہ میری حکومت کے خلاف کھسرپھسر ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی تدبیرکی جائے اور تدبیرتمہاری بیٹی نے کر لی ہے، میں نے فیصلہ لیا ہے کہ رعایا کو اپنی حد میں رکھنے کے لیے بھیڑیا چھوڑا جائے، وزیر نے پوچھا مگر ایسا ''بھیڑیا'' آئے گا کہاں سے، جو عوام کی جان نکالتا رہے۔
بادشاہ تھوڑی دیر چپ رہا، پھر ہنس دیا، پھر ایک نوکر کو اشارہ کیا، تو نوکر ایک بڑے سے جبڑے اور گھنے بالوں والا گدھے کی جسامت والا بھیڑیا لے آیا، اس کے گلے میں ایک خوبصورت پٹا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ مہنگائی، اور پھر بادشاہ نے وہ عوام پر چھوڑ دیا، عوام بچارے اس کو دیکھ کر کچھ بھاگ گئے، کچھ دبک گئے اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ حکومت کیسی ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ اور کس کی ہے؟
زمانے بیت گئے پرانا سب کچھ نہیں رہا، بادشاہ بھی مٹ گئے، حکومتیں بھی بدلیں، نام بدلے، ممالک بدلے، حالات بدلے لیکن اس بھیڑیے کی نسل اب بھی باقی ہے، حکومتیں ان کو پالتی ہیں اور بوقت ضرورت عوام پر چھوڑتی رہتی ہیں جو عوام کا سارا کھایا پیا نکالتا رہے اور وہ اس بھیڑے سے بھاگنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکیں۔
پرانے زمانے کے بادشاہ لوگ دل کے بھی بادشاہ ہوتے تھے، ایک تو یہ کہ وہ اپنے ملک اور رعایا کو اپنی جدی پشتی ملکیت سمجھتے تھے، اس لیے اسے ''اپنی'' چیزکی طرح رکھتے اور سنبھالتے تھے، آج کے جمہوری بادشاہوں کی طرح عارضی اجارہ دار نہیں تھے کہ کم سے کم وقت میں ''کھیت'' کا کباڑہ کر دیں، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹا جائے، اس لیے خزانے زر و جواہر سے بھرے تھے۔
وہ گلے میں کشکول لٹکا کر نہیں پھرتے تھے،کفایت شعاری کی خاطر وزیروں کی پلٹن بھی نہیں رکھتے تھے، صرف ایک وزیر رکھتے تھے اور اس وزیر کا کوئی مشیر اور معاون خصوصی بھی نہیں ہوتا تھا جیسے آج کے وزیر ہوتے ہیں کہ مشیروں اور معاونوں کے ساتھ بیٹے بیٹیاں، بھانجے، بھتیجے اور سالے بہنوئی بھی اپنی پاکٹ میں یا کچن میں رکھتے ہیں۔
تو پرانے زمانے کا ایک ایسا ہی باشادہ اور ایک اس کا وزیر تھا، بادشاہ وزیر سے کسی بات پر ناراض ہو گیا، وہ بادشاہ ظالم بھی نہ تھا ورنہ اسی وقت وزیر کا سر قلم، پین یا بال پوائنٹ کر دیتا، اور آنے والے نئے وزیر کو بھون کر کھلا دیتا، لیکن اس نے شاہی تدبیر کی۔ وزیر کو ایک دنبہ دیا کہ اس دنبے کو چارے کے علاوہ ایک سیر چنا بھی روزانہ کھلانا ہے لیکن ایک سال میں اس دنبے کا وزن ایک چھٹانک کم نہ زیادہ ہو۔
وزیر بچارا دربار سے آکر گھر میں اس چارپائی میں پڑ گیا جسے وہ غورکا حوض کہتا تھا، وزیر کی بیٹی نے باپ کو جھلنگی چارپائی میں چاقو بنے دیکھا تو آکر ماجرا پوچھا، وزیر کی یہ بیٹی بڑی پڑھی لکھی اور ذہین تھی، آج کے وزیروں کی بیٹیوں کی طرح ماڈل بن کر بالی وڈ، گالی وڈ میں ''کیرئیر'' نہیں بناتی تھیں۔
باپ نے سارا دکھڑا سنایا تو بیٹی نے کہا، یہ کونسی مشکل بات ہے، پھر تین چٹکیاں بجا کر مسلے کا حل باپ کے سامنے پیش کردیا کہ دنبہ گھر لائیے لیکن ساتھ ایک خوفناک کتا بھی لے آئیے، اس وقت تک میں آمنے سامنے دو کیلیں ٹھونکتی ہوں، ایک کیل سے دنبے کو باندھیں گے اور دوسری کیل سے کتے کو، دنبے کو پیٹ بھر کر چنا دیں گے اورکتے کو بھوکا رکھیں گے، بادشاہ کے حکم میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ دنبے کے سامنے کتے کو نہ باندھا جائے یا کتے کو بھوکا نہ رکھا جائے، اس طرح دنبہ چنا کھا کر بھی فربہ نہیں ہوگا کیوں کہ کتا بھونک بھونک کر اس کی جان نکالتا رہے گا۔
ایک سال بعد جب دنبے کو تولا گیا تو تین سو پینسٹھ سیر چنا کھانے کے باوجود اتنا ہی نکلا جتنا ایک سال پہلے تھا، بادشاہ نے پہلے تو عش عش کیا اور پھر اس پر غشی طاری ہوگئی، یہ بھی بادشاہ کی ایک شاہانہ عادت تھی کہ وہ کسی بات پر خوش ہوتا تو اس وقت تک عش عش کرتا رہتا جب تک ''غش'' میں نہ چلا جاتا۔
اس کے بعد جب وہ غش سے باہر آگیا تو وزیرکو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ میں تو تیرا بھٹا سا سر اڑانے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن تم نے اپنے''سر'' کو بھٹے کی طرح اڑانے اور بھوننے سے بچا لیا لیکن یہ بتائو کہ تم نے یہ کیسے کیا، تم کو تو میں جانتا ہوں کہ تمہارا سر ایمپٹی ہے، اسی لیے تو تم کو ''وزیر'' بنا رکھا ہے کیوں کہ وزیروں کا سر جتنا خالی ہو اتنے اچھے وزیر ہوتے ہیں۔ وزیر نے دست بست ہو کر عرض کیا کہ یہ کارنامہ میں نے نہیں بلکہ میری بیٹی نے سرانجام دیا، بادشاہ نے اسی وقت شاہی فرمان جاری کیا کہ بادشاہ سلامت کے حرم میں جو چوتھی ویکینسی خالی تھی، اس کے لیے وزیرکی بیٹی کا نام سرکاری کاغذات میں درج کر دیا جائے۔
پھر وزیر سے کہا کہ دراصل میں نے تمہاری بیٹی کے بارے میں سنا تھا اور اس بہانے اس کا امتحان لینا مقصود تھا اور دوسری بات یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میری رعیت روزبروز بے قابو ہوتی جا رہی ہے، اچھا کھانے پینے کی وجہ سے ان کے جسم موٹے اور دماغ چھوٹے ہو رہے ہیں، اس لیے جگہ جگہ میری حکومت کے خلاف کھسرپھسر ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ رعایا کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی تدبیرکی جائے اور تدبیرتمہاری بیٹی نے کر لی ہے، میں نے فیصلہ لیا ہے کہ رعایا کو اپنی حد میں رکھنے کے لیے بھیڑیا چھوڑا جائے، وزیر نے پوچھا مگر ایسا ''بھیڑیا'' آئے گا کہاں سے، جو عوام کی جان نکالتا رہے۔
بادشاہ تھوڑی دیر چپ رہا، پھر ہنس دیا، پھر ایک نوکر کو اشارہ کیا، تو نوکر ایک بڑے سے جبڑے اور گھنے بالوں والا گدھے کی جسامت والا بھیڑیا لے آیا، اس کے گلے میں ایک خوبصورت پٹا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ مہنگائی، اور پھر بادشاہ نے وہ عوام پر چھوڑ دیا، عوام بچارے اس کو دیکھ کر کچھ بھاگ گئے، کچھ دبک گئے اور پھر کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ حکومت کیسی ہے؟ کیا کر رہی ہے؟ اور کس کی ہے؟
زمانے بیت گئے پرانا سب کچھ نہیں رہا، بادشاہ بھی مٹ گئے، حکومتیں بھی بدلیں، نام بدلے، ممالک بدلے، حالات بدلے لیکن اس بھیڑیے کی نسل اب بھی باقی ہے، حکومتیں ان کو پالتی ہیں اور بوقت ضرورت عوام پر چھوڑتی رہتی ہیں جو عوام کا سارا کھایا پیا نکالتا رہے اور وہ اس بھیڑے سے بھاگنے کے علاوہ اور کچھ نہ کرسکیں۔