دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی
سیکیورٹی فورسز نے اگلے روز شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف دوکامیاب آپریشن کیے ہیں جن میں ایک خطرناک دہشت گرد کمانڈر کو تین ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا جب کہ 3 دہشتگرد مارے گئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پہلے آپریشن میں انتہائی خطرناکاور مطلوب دہشت گرد کمانڈر کو اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا جب کہ دوسرے آپریشن میں تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ گرفتار اور ہلاک شدہ تمام دہشت گردوں کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے ہے۔دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملوں،اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث تھے۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے دہشت گرد اور شرپسند گروپوں کی کارروائیوں میں خاصی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔خاص طور پر بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں دہشت گرد گروپ خاصے سرگرم ہیں۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے عناصر کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کر رہی ہیں تاکہ ملک کے اندر موجود ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کی جاسکے۔شمالی وزیرستان میں اگلے روز ایسے ہی آپریشن کیے گئے۔
پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اس کے مشرق میں بھارت کے ساتھ طویل سرحد ہے اور شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، افغانستان کے علاوہ چین اور ایران کی سرحد بھی ہے۔پاکستان کے لیے جہاں مشرقی سرحد پر شروع دن سے مسائل رہے ہیں، وہیں شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ بھی مسائل رہے ہیں جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
سوویت یونین اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان سرد جنگ میں افغانستان میدان جنگ بنا تو پاکستان کے لیے مسائل مزید بڑھنے شروع ہوگئے۔اس معاملے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور رولنگ کلاس کی پالیسیوں اور مفادات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔اسی مفاد پرستی کا خمیازہ آج پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے افغان مہاجرین کے لیے سرحد کھول دی،اس کے لیے کسی قسم کا کوئی رول یا قاعدہ نہیں بنایا گیا۔
جس کا دل کیا، وہ پاکستان چلا آیا، یہاں ان کے لیے کوئی چیک نہیں تھا۔سرکاری ادارے ریاستی پالیسی کے تحت خاموش رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوکر پورے ملک میں پھیل گئے۔یہی لوگ اب ملک کے امن وامان کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔
پاکستان وسط ایشیا کا دروازہ ہے تو دوسری طرف وسط ایشیا اور چین کے لیے مشرق وسطی سے لے کر افریقی ممالک تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ پاک چین معاشی راہداری (سی پیک)نے پاکستان کی اہمیت کومزید بڑھا دیا ہے۔لیکن پاکستان میں موجود دہشت گرد اور دیگر جرائم پیشہ گروہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف دو تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار پاکستانیوں کی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ اربوں ڈالرز کی املاک تباہ ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہپاکستاننے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی ہے اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پاک افغان سرحد پردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خیال یہ تھا کہ ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کی بلکہ وہ انھیں پناہ دیے ہوئے ہیں۔یوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر پاکستان نے امریکا، یورپ کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی دہشت گرد حملوں سے بچایا ہے ۔ہماری مسلح افواج آج بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں، ہمارے جوان اور افسر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعدنیشنل ایکشن پلان اور امن وامان کا جائزہ لینے کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں کے کردارکو ایک بار پھر سے بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت اجلاس کے شرکاء نے کہا تھا کہ گزشتہ چار برس میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کو نظر اندازکرنے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع ہر حال میں یقینی بنائیں گے، پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے امن و امان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضا ہے۔
ملک سے دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے2014 میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی، جس کے تحت وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں منظم اور موثر ہم آہنگی کے لیے نیکٹا کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔بلاشبہ نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا کے قیام کے بعد سیکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپورکارروائیاں کیں، مگر اہم فیصلوں کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے 8سال بعد بھی نیکٹا کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جاسکا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ جو عوامل دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں یا جن کے سہارے دہشت گرد پھلتے اور پھولتے ہیں، اْن کی بیخ کْنی کے لیے کوئی اقدامات کیوں نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔
نیشنل ایکشن پلان کے20 نکاتی پروگرام میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئی تھی، جن میں نفرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر پابندی اور لاؤڈ اسپیکرز کے غلط استعمال پر قید اور جرمانے کی سزا بھی شامل ہے،نیشنل ایکشن پلان میں جو سفارشات کی گئی ہیں، اْن میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کی فراہمی روکنا بھی شامل تھا۔
چند تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے کر اْن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن ان کالعدم تنظیموں کی قیادت اور اْن کے کارکنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ ان تنظیموں کا نہ صرف ڈھانچہ برقرار رہا ۔ ملک میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لسانی ، نسلی اور فرقہ ورانہ تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں ان کالعدم تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل ایکشن پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کرسکیں۔پاکستان میں 17لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ جو رجسٹر نہیں ہیں، ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، عوام کے مختلف حصوں کی طرف سے انافغان مہاجرین کو واپس اْن کے وطن بھیجنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے بھی امداد فراہم کی گئی ہے لیکن جب تک افغانستان کی طرف سے ان مہاجرین کی واپسی میں تعاون حاصل نہیں ہوتا ، اس کام کو انجام دینا محال نظر آتا ہے۔ ان افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کے مختلف حصوں خصوصاًکے پی کے ، بلوچستان اور کراچی میں امن و امان بہتر بنانے کے لیے ان افغان مہاجرین کی واپسی انتہائی ضروری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی عملی اور سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان چونکہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ہیں ، اس لیے یہاں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز زیادہ مصروف عمل ہیں۔پاکستان کی مین اسٹریم سیاست میں بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جوایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دے کر دہشت گردی کے خلاف اس کارروائی کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے ، تاکہ پاکستان کے عوام سکھ اور چین کی فضا میں سانس لے سکیں، ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہ سکے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق پہلے آپریشن میں انتہائی خطرناکاور مطلوب دہشت گرد کمانڈر کو اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا جب کہ دوسرے آپریشن میں تین دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ گرفتار اور ہلاک شدہ تمام دہشت گردوں کا تعلق حافظ گل بہادر گروپ سے ہے۔دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملوں،اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث تھے۔
پاکستان میں کچھ عرصے سے دہشت گرد اور شرپسند گروپوں کی کارروائیوں میں خاصی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔خاص طور پر بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں دہشت گرد گروپ خاصے سرگرم ہیں۔پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے عناصر کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کر رہی ہیں تاکہ ملک کے اندر موجود ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کی جاسکے۔شمالی وزیرستان میں اگلے روز ایسے ہی آپریشن کیے گئے۔
پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ اس کے مشرق میں بھارت کے ساتھ طویل سرحد ہے اور شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ طویل سرحد ہے، افغانستان کے علاوہ چین اور ایران کی سرحد بھی ہے۔پاکستان کے لیے جہاں مشرقی سرحد پر شروع دن سے مسائل رہے ہیں، وہیں شمال مغرب میں افغانستان کے ساتھ بھی مسائل رہے ہیں جو آج تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہیں۔
سوویت یونین اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان سرد جنگ میں افغانستان میدان جنگ بنا تو پاکستان کے لیے مسائل مزید بڑھنے شروع ہوگئے۔اس معاملے میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور رولنگ کلاس کی پالیسیوں اور مفادات کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔اسی مفاد پرستی کا خمیازہ آج پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے افغان مہاجرین کے لیے سرحد کھول دی،اس کے لیے کسی قسم کا کوئی رول یا قاعدہ نہیں بنایا گیا۔
جس کا دل کیا، وہ پاکستان چلا آیا، یہاں ان کے لیے کوئی چیک نہیں تھا۔سرکاری ادارے ریاستی پالیسی کے تحت خاموش رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستان میں داخل ہوکر پورے ملک میں پھیل گئے۔یہی لوگ اب ملک کے امن وامان کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔
پاکستان وسط ایشیا کا دروازہ ہے تو دوسری طرف وسط ایشیا اور چین کے لیے مشرق وسطی سے لے کر افریقی ممالک تک رسائی کا ذریعہ ہے۔ پاک چین معاشی راہداری (سی پیک)نے پاکستان کی اہمیت کومزید بڑھا دیا ہے۔لیکن پاکستان میں موجود دہشت گرد اور دیگر جرائم پیشہ گروہ پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف دو تین دہائیوں سے جنگ لڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار پاکستانیوں کی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ اربوں ڈالرز کی املاک تباہ ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہپاکستاننے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی ہے اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پاک افغان سرحد پردہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خیال یہ تھا کہ ہماری شمال مغربی سرحد محفوظ ہوگئی ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکا ، طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کی بلکہ وہ انھیں پناہ دیے ہوئے ہیں۔یوں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں اقوام عالم کے ساتھ کھڑا رہا اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی اور دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر پاکستان نے امریکا، یورپ کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی دہشت گرد حملوں سے بچایا ہے ۔ہماری مسلح افواج آج بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں، ہمارے جوان اور افسر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعدنیشنل ایکشن پلان اور امن وامان کا جائزہ لینے کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت صوبوں کے کردارکو ایک بار پھر سے بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت اجلاس کے شرکاء نے کہا تھا کہ گزشتہ چار برس میں نیشنل ایکشن پلان میں صوبوں کے کردار کو نظر اندازکرنے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کی سلامتی اور دفاع ہر حال میں یقینی بنائیں گے، پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے امن و امان کا یقینی ہونا ایک بنیادی تقاضا ہے۔
ملک سے دہشت گردی اور ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے2014 میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی تھی، جس کے تحت وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں منظم اور موثر ہم آہنگی کے لیے نیکٹا کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔بلاشبہ نیشنل ایکشن پلان اور نیکٹا کے قیام کے بعد سیکیورٹی اداروں نے امن دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھرپورکارروائیاں کیں، مگر اہم فیصلوں کے حوالے سے حکومتی تساہل پسندی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے 8سال بعد بھی نیکٹا کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جاسکا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹیں کیا ہیں؟ جو عوامل دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں یا جن کے سہارے دہشت گرد پھلتے اور پھولتے ہیں، اْن کی بیخ کْنی کے لیے کوئی اقدامات کیوں نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔
نیشنل ایکشن پلان کے20 نکاتی پروگرام میں فرقہ واریت کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کی سفارش کی گئی تھی، جن میں نفرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر پابندی اور لاؤڈ اسپیکرز کے غلط استعمال پر قید اور جرمانے کی سزا بھی شامل ہے،نیشنل ایکشن پلان میں جو سفارشات کی گئی ہیں، اْن میں دہشت گرد تنظیموں کی مالی امداد کی فراہمی روکنا بھی شامل تھا۔
چند تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے کر اْن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، لیکن ان کالعدم تنظیموں کی قیادت اور اْن کے کارکنوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہواہے کہ ان تنظیموں کا نہ صرف ڈھانچہ برقرار رہا ۔ ملک میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، لسانی ، نسلی اور فرقہ ورانہ تشدد کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں ان کالعدم تنظیموں کا بڑا ہاتھ ہے۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل ایکشن پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کرسکیں۔پاکستان میں 17لاکھ کے قریب رجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔ جو رجسٹر نہیں ہیں، ان کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے، عوام کے مختلف حصوں کی طرف سے انافغان مہاجرین کو واپس اْن کے وطن بھیجنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی طرف سے بھی امداد فراہم کی گئی ہے لیکن جب تک افغانستان کی طرف سے ان مہاجرین کی واپسی میں تعاون حاصل نہیں ہوتا ، اس کام کو انجام دینا محال نظر آتا ہے۔ ان افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دے رہی ہے بلکہ دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کے مختلف حصوں خصوصاًکے پی کے ، بلوچستان اور کراچی میں امن و امان بہتر بنانے کے لیے ان افغان مہاجرین کی واپسی انتہائی ضروری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں افغان مہاجرین کی جلد وطن واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی عملی اور سنجیدہ کوشش نظر نہیں آرہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان چونکہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ہیں ، اس لیے یہاں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ گینگز زیادہ مصروف عمل ہیں۔پاکستان کی مین اسٹریم سیاست میں بھی ایسے عناصر کی کمی نہیں ہے جوایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان تعاون اور اشتراک کو فروغ دے کر دہشت گردی کے خلاف اس کارروائی کو موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے ، تاکہ پاکستان کے عوام سکھ اور چین کی فضا میں سانس لے سکیں، ملکی ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہ سکے۔