عمران خان کا فوری انتخابات کا مطالبہ

سوال یہ ہی بنتا ہے کہ یا تو سیاسی قیادتیں خود سے یا اس میں اسٹیبلیشمنٹ سمیت دیگر فریقین مکالمہ کا ماحول بھی پیدا کریں

salmanabidpk@gmail.com

LONDON:
پاکستان کی سیاست میں ایک بحث یہ بھی جاری ہے کہ ہمیں فوری عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے یا عام انتخابات اپنے مقررہ آئینی شیڈول یعنی اگست 2023میں ہی ہونے چاہئیں۔

تحریک انصاف اور عمران خان کا ایک نکاتی ایجنڈا فوری انتخابات کا انعقاد ہے جب کہ مسلم لیگ ن' پیپلزپارٹی' جے یو آئی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی قیادت اپنی آئینی حکومتی مدت پوری کرکے انتخابات کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی غیر متوقع جیت نے تحریک انصاف اور اس کے حامیوں میں یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ فوری انتخابات ہوں تو وہ جیت سکتے ہیں۔

عمران خان نے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں جیت کے بعد ہی یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ فوری طور پر انتخابات چاہتے ہیں ۔ انھوں نے یہ پیشکش بھی کی ہے کہ اگر حکومت فوری انتخابات کا راستہ اختیار کرتی ہے تو وہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر شفاف انتخابات ، الیکشن کمیشن اور انتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ وہ بات چیت کے خلاف ہیں بلکہ ان کی بڑی شرط بات چیت سے قبل انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہے۔

ادھر حکمران اتحاد حکومت کی آئینی مدت مکمل کر کے الیکشن میں جانا چاہتاہے حکمران اتحاد کا موقف ہے کہ عمران خان حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو دے کر انھیں دباؤ میں لانا چاہتے ہیں لہٰذا پی ڈی ایم اور دیگر جماعتیں اس دباؤ میں نہیں آئیں گی اور کسی ایک فرد واحد کی خواہش پر فوری انتخابات ممکن نہیں۔

پاکستان میں اس وقت جو سیاسی اور معاشی غیریقینی صورتحال ہے اس میں استحکام پیدا کرنا ایک بڑا سیاسی چیلنج ہے ۔کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ موجودہ معاشی حالات کے بگاڑ میںنئے انتخابات ممکن نہیں۔ اگر یہ منطق مان لی جائے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے یا کیا امکانات ہیں کہ ایک یا ڈیڑھ برس میں ملک معاشی ترقی کے عمل میںجا سکتا ہے' میرے اور تحریک انصاف کے حامیوں کا موقف ہے کہ اگر فوری انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کیا جاتا تو قومی سیاسی بحران کم نہیں بلکہ بڑھے گا۔کیونکہ جب ملک میں سیاسی فریقین کے درمیان محاذ آرائی بڑھے گی تو اس کے نتیجے میں صرف سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ اس کا براہ راست اثر معاشی بحران کی صورت میں بھی نمودار ہوگا ۔

اگر پاکستان نے معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے تو دو تین چیزیں فوری طور پر درکار ہیں۔ اول فوری انتخابات تاکہ نئی منتخب حکومت پانچ برس کی مقررہ مدت کے دوران لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم فیصلے کرسکے۔ دوئم ملک کو چند ووٹوں پر مشتمل حکومت کے مقابلے میں ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو زیادہ جرات کے ساتھ بڑے سیاسی ومعاشی فیصلے بھی کرسکے اور اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے بھی بچ سکے ۔


سوئم، جو بھی نئی حکومت آئے اس کے پاس ایک واضح سیاسی اور معاشی روڈ میپ ہو جس میں اس کی اہم ترجیحات میں ملک میں معاشی و سیاسی اصلاحات بالخصوص ادارہ جاتی ڈھانچوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں شامل ہوں ۔ دوسری طرف مسلم لیگ' پیپلز پارٹی کی قیادت اور ان کے حامیوں پر مشتمل موجودہ حکومتی سیٹ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں بات چیت کر سکتا ہے' عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ملکوں کے مالی تعاون کے ساتھ ہی معاشی بحران کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

اس وقت سب سے اہم ترین کام غیر ملکی ادائیگیوں کا بندوبست کرنا تاکہ معیشت کو زمین بوس ہونے سے بچایا جا سکے' جب یہ مقصد حاصل ہو جائے' تب عام انتخابات کی طرف جایا جائے۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں ہوتا۔سیاسی حکومتیں عمومی طور پر انتخابات کو بنیاد بنا کرمعاشی فیصلے کرتی ہیں جو معاشی حالات کو اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔اگر واقعی ہمیں ریاست اور معیشت کا استحکام عزیز ہے تو اس میں پہلی کڑی، حکومت اور حزب اختلاف سمیت دیگر فریقین کے درمیان مکالمہ پیدا کرنا ہوگا۔ اگر ہم سب چاہتے ہیں کہ انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوں اور سب انتخابی نتائج بھی قبول کریں تو اس کے لیے سب فریقین کو مل بیٹھ کر شفافیت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

بہت سے ایسے معاملات ہیں جن پر سیاسی فریقین میں بات چیت ہونی چاہیے تاکہ ہم متفقہ نکات پر پہنچ سکیں کیونکہ جس طرف یہ حالات جارہے ہیں ملک اس معاشی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ہماری سیاسی تقسیم نے معاشی معاملات سے جڑے مسائل کو اور زیادہ سنگینی کا کھیل بنادیا ہے۔ کیونکہ ہمارے سامنے معیشت سے زیادہ سیاست اہم ہے اور سیاسی طاقت کے کھیل نے اہل سیاست کو ریاستی مفادات سے دور کردیا ہے ۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو اپنی اپنی سیاسی ضد سے باہر نکلنا ہوگا۔

انتخابات کا فوری فیصلہ یا طے شدہ مقررہ مدت میں انتخابات کسی کی ہار یا جیت کا کھیل نہیں ۔ دنیا میں قبل از وقت انتخابات کوئی غیر آئینی نہیں بلکہ حکومتیں ملکی یا ریاستی مفاد کی بنیاد پر یہ راستہ اختیار کرسکتی ہیں ۔ آج حکومت اگر سمجھتی ہے کہ فوری انتخابات اس کے حق میں نہیں تو اگر انتخابات بعد میں ہوتے ہیں تو حکومت کے پاس ایسا کون سا جادو ہے جس کی بنیاد پر وہ معاشی ترقی کا جال بچھا کر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرسکتی ہے ۔

اسی عمران خان اوران کی ٹیم کے پاس کونسا الہ دین کا چراغ ہے کہ فوری الیکشن کے بعد وہ حکومت بنا کر معیشت کو بہتر کر دیں گے۔ سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو موجودہ حکومت کو آگے بھی بڑی سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

اب سوال یہ ہی بنتا ہے کہ یا تو سیاسی قیادتیں خود سے یا اس میں اسٹیبلیشمنٹ سمیت دیگر فریقین مکالمہ کا ماحول بھی پیدا کریں اور سب جماعتوں کو اس نقطہ پر لائیں کہ وہ مستقبل کی سیاست پر مشترکہ حکمت عملی اور نئے رولز آف گیمز طے کرلیں تاکہ ملک میں شفاف انتخابات کا ماحول بھی پیدا ہو اور تمام فریقین انتخابی نتائج کو بھی قبول کریں وگرنہ دوسری صورت میں بحران ختم نہیں ہوگا۔ اس وقت جو سیاسی بداعتمادی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کو ہی آگے بڑھ کر اس مذاکراتی عمل میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں لیکن اگر سب فریقین یہ اتفاق کرلیں کہ ہمیں آگے بڑھنے ہی کا راستہ تلاش کرنا ہے تو مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
Load Next Story