بارشیں اور حکومتیں
بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں
RAWALPINDI:
پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں' ملک بھر میں شدید بارشیں ہورہی ہیں' دریاؤں' ندی نالوں میں پانی کا دباؤ بڑھنے سے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے' بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز بھی ملک بھرمیں موسلادھار بارشوں اور سیلاب سے گھروں کی دیواریں، چھتیں گرنے،کرنٹ لگنے اوردیگرواقعات میں 21افراد جاںبحق ہوگئے۔ راولپنڈی میں چند گھنٹوں میں 100 ملی میٹر بارش ہوئی اور ندی نالے بپھرنے سے راولپنڈی شہر کے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ۔شہر کے کئی معروف تجارتی مراکز میں مراکز تالاب کا منظر پیش کرتے رہے، دکانوں میں 5سے6 فٹ پانی کھڑا ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا،کراچی شہر کی حالت تو یہ ہے کہ حالیہ مون مون میں جب بھی بارش ہوئی ، شہر کے کئی علاقوں میں معمولات زندگی معطل ہوگئے۔
اس سیزن کے دوران کراچی میں غیرمعمولی بارشیں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اندرون سندھ میں بھی بارش ہورہی ہیں ، ادھر ایک خبر کے مطابق تربیلا ڈیم انتظامیہ نے سپل ویز کھولنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا اور الرٹ جاری کردیا گیا۔ سپل ویز کھولنے سے دریائے سندھ میں سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ادھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا اور پنجاب کے پہاڑی اور پوٹھوہار ریجن میں شدید بارشیں جاری ہیں، البتہ لاہور اور وسطی اور جنوبی میں بارشیں تو ہورہی ہیں لیکن ان کی شدت کم ہے جس کی وجہ سے یہاں جانی اور مالی نقصان کی شرح کم ہے۔
مون سون میں ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال نقصانات ہوتے ہیں۔اس بار بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہوا ہے اور اس لیے بچاؤ کے اقدامات نہیں کیے جا سکے ۔ پاکستان میں بارشوں، سیلاب وغیرہ سے نبٹنے کے لیے ادارے موجود ہیں لیکن یہ ادارے زنگ آلود ہوچکے ہیں۔
بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی اور حیدر آباد میں بے ہنگم رہائشی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئیں تو سرکاری اداروں کے افسر اور اہلکار حرکت میں نہیں آئے بلکہ ایسی غیرقانونی آبادیاں قائم کرانے میں شریک کار رہے ۔ آج حالت یہ ہے برساتی اور گندے نالوں پر آبادیاں قائم ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی افسرشاہی سوئی رہی۔ اب شہروں کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیںکہ ان کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔
مون سون کی تیز بارشوں اور سیلاب کا سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لائے، تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور بارش کے پانی کی گزر گاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے۔ بڑے شہروں میں بارش کی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے ، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ، لیکن یہ سب باتیں صرف کتابوں اور اخبارات کی حد تک خوش کن اور دلفریب لگتی ہیں۔ کراچی اس وقت بدترین انتظامی نظام کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت نہیں ہوئی ہے ، سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے کام کی رفتار سست ہے ، سیوریج نالوں اورگرین بیلٹ کی زمین پر گھر بنے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں میں فنڈ اور اختیارات کی تقسیم کے جھگڑوں کی وجہ سے '' نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے '' کی لڑائی میں کراچی کو '' کچرا چی '' بنا ڈالا۔جب مون سون سیزن کے دوران تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہے لیکن مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ سب سیاسی فریق کراچی پر حکومت کرچکے ہیں اور اب بھی ان کا مقصد حکومت حاصل کرنا ہی ہے۔
پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی اس وقت سب سے بڑی ذمے داری یہی ہے کہ آیندہ کے لیے اس ملک و قوم کو بارشوں اور سیلاب سے محفوظ کردیا جائے، ملک میں بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ دریاؤں کو گہرا کر کے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، جو اربوں روپے ہر سال سیلاب متاثرین کی بحالی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
انھیں سیلاب سے دائمی بچاؤ کے اقدام پر خرچ کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام ہی اٹھائے گئے، ہمیشہ جب سیلاب سر پر آ جاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تو نمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بلاشبہ ہم گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن من حیث القوم اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارا قومی رویہ اور کردار غفلت اورکوتاہی پر مبنی ہے۔
بارش اور سیلاب کو '' قدرتی آفات '' قرار دے کر، ہمارے سرکاری ادارے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں، آج کے جدید سائنسی دور میں انھیں کسی طور پر قدرتی آفات قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ جدید ترین سائنسی آلات کی مدد سے موسم کی ساری صورتحال کئی ہفتے پہلے ہی معلوم ہوجاتی ہے ، کتنی گرمی ہوگی ، کتنی سردی پڑے گی ، کتنی بارش ہوگی ، جب ایک عام آدمی کو اپنے موبائل پر یہ ساری معلومات دستیاب ہیں ، تو پھر ہمارے سرکاری انتظامی محکمے پیشگی اور حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ ہر برس کراچی، لاہور ، پشاور ، حیدرآباد ، سکھر، فیصل آباد ، کوئٹہ سمیت ملک کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں میں بارش کے بعد سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ بارشوں سے پہلے ندی ، نالے اور بالخصوص گٹر صاف نہیں کیے جاتے ، یہی وجہ ہے کہ ملک تمام شہروں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے ۔
نکاسی آب کے نالوں پر گھر بن گئے ہیں ، شہروں میں بغیر کسی پلاننگ کے ان گنت بے ہنگم بستیاں آباد ہوچکی ہیں ، جہاں سیوریج کا نظام سرے سے وجود نہیں رکھتا۔ اس صورتحال کی ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ محکموں پر عائد ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی کسی حکومت نے کبھی بارش اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ بنایا ہی نہیں ہے، بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ہر سال موسم برسات میں جب غیر معمولی بارشوں سے سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے سے اونچے درجے کا سیلاب آتا ہے تو ہماری لہلہاتی فصلیں ، آبادیاں ، کھیت ، کھلیان سب اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔
عید قرباں کے ایام میں کراچی شہر کی حالت یہ رہی ہے کہ بارش کے پانی میں قربانی کے جانوروں کی آلائشیں تیر رہی ہیں ،گلی گوچوں میں قربانی کے لاکھوں جانور ذبح ہوئے ، ان کی آلائشیں وہیں چھوڑ دی گئیں ، شہریوں نے بھی اپنی بے حسی اور بے شعوری کا کھل کر مظاہرہ کیا ، کراچی جیسے عالمی شہر میں کیسے زندگی گزاری جاتی ہے ، شہریوں کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔ آخر ملک میں اس وقت مون سیزن کے قبل از وقت آغاز ہی جو مسائل جنم لے رہے ہیں ، ان کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار کرنا چاہیے ، جب وفاق صوبوں کو فنڈز دے رہا ہے اور صوبے خود بھی ٹیکسز کی صورت میں خوب آمدن حاصل کررہے ہیں ، تو پھر یہ تمام رقم بارشوں سے بچاؤ اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے خرچ کیوں نہیںکر رہے ہیں۔
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ اپنے ہی بوجھ سے لرز رہا ہے۔ ملک میں سرکاری اسکولوں اور کالجز یونیورسٹیوں میں جو نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے ' اسے پڑھ کر تیار ہونے والی نسل میں ریشنل ازم 'ویزڈم اورانٹیلی جنس کا فقدان پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری جانب نجی شعبے میں قائم اشرافیہ کے اسکولوں 'کالجز اور یونیورسٹیز میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور بچوں اور نوجوانوں کو جس کلچر کی تربیت دی جاتی ہے ' اس کا پاکستان کے مسائل اور زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یوں پاکستان کی پڑھی لکھی نسل بظاہر مہذب اور پروقار نظر آتی ہے لیکن اپنے عمل میں سطحی سوچ و فکر کی حامل ہے۔ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ کلاس ذہنی اور نظریاتی خلفشار اور کنفیوژن کا شکار ہونے کے باعث اپنے عمل اور ظاہر داری میں لبرل اور ماڈرن ہونے کے باوجود قدامت پرستی کا شکار ہے۔ یہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں' ملک بھر میں شدید بارشیں ہورہی ہیں' دریاؤں' ندی نالوں میں پانی کا دباؤ بڑھنے سے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے' بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ روز بھی ملک بھرمیں موسلادھار بارشوں اور سیلاب سے گھروں کی دیواریں، چھتیں گرنے،کرنٹ لگنے اوردیگرواقعات میں 21افراد جاںبحق ہوگئے۔ راولپنڈی میں چند گھنٹوں میں 100 ملی میٹر بارش ہوئی اور ندی نالے بپھرنے سے راولپنڈی شہر کے کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ۔شہر کے کئی معروف تجارتی مراکز میں مراکز تالاب کا منظر پیش کرتے رہے، دکانوں میں 5سے6 فٹ پانی کھڑا ہوگیا جس کی وجہ سے تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوگیا،کراچی شہر کی حالت تو یہ ہے کہ حالیہ مون مون میں جب بھی بارش ہوئی ، شہر کے کئی علاقوں میں معمولات زندگی معطل ہوگئے۔
اس سیزن کے دوران کراچی میں غیرمعمولی بارشیں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اندرون سندھ میں بھی بارش ہورہی ہیں ، ادھر ایک خبر کے مطابق تربیلا ڈیم انتظامیہ نے سپل ویز کھولنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا اور الرٹ جاری کردیا گیا۔ سپل ویز کھولنے سے دریائے سندھ میں سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ ادھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا اور پنجاب کے پہاڑی اور پوٹھوہار ریجن میں شدید بارشیں جاری ہیں، البتہ لاہور اور وسطی اور جنوبی میں بارشیں تو ہورہی ہیں لیکن ان کی شدت کم ہے جس کی وجہ سے یہاں جانی اور مالی نقصان کی شرح کم ہے۔
مون سون میں ہر سال بارشیں ہوتی ہیں اور ہر سال نقصانات ہوتے ہیں۔اس بار بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب کچھ پہلی بار ہوا ہے اور اس لیے بچاؤ کے اقدامات نہیں کیے جا سکے ۔ پاکستان میں بارشوں، سیلاب وغیرہ سے نبٹنے کے لیے ادارے موجود ہیں لیکن یہ ادارے زنگ آلود ہوچکے ہیں۔
بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور، پشاور، راولپنڈی اور حیدر آباد میں بے ہنگم رہائشی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئیں تو سرکاری اداروں کے افسر اور اہلکار حرکت میں نہیں آئے بلکہ ایسی غیرقانونی آبادیاں قائم کرانے میں شریک کار رہے ۔ آج حالت یہ ہے برساتی اور گندے نالوں پر آبادیاں قائم ہیں لیکن متعلقہ اداروں کی افسرشاہی سوئی رہی۔ اب شہروں کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیںکہ ان کا حل کسی کے پاس نہیں ہے ۔اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج پورا ملک بھگت رہا ہے ۔
مون سون کی تیز بارشوں اور سیلاب کا سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لائے، تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔ شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور بارش کے پانی کی گزر گاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے۔ بڑے شہروں میں بارش کی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔ گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے ، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ، لیکن یہ سب باتیں صرف کتابوں اور اخبارات کی حد تک خوش کن اور دلفریب لگتی ہیں۔ کراچی اس وقت بدترین انتظامی نظام کی تصویر پیش کر رہا ہے۔
ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت نہیں ہوئی ہے ، سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے کام کی رفتار سست ہے ، سیوریج نالوں اورگرین بیلٹ کی زمین پر گھر بنے ہوئے ہیں۔ بلدیاتی اداروں میں فنڈ اور اختیارات کی تقسیم کے جھگڑوں کی وجہ سے '' نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے '' کی لڑائی میں کراچی کو '' کچرا چی '' بنا ڈالا۔جب مون سون سیزن کے دوران تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے پر الزامات لگاتی ہے لیکن مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ سب سیاسی فریق کراچی پر حکومت کرچکے ہیں اور اب بھی ان کا مقصد حکومت حاصل کرنا ہی ہے۔
پاکستان کی تمام صوبائی حکومتوں اور بلدیاتی اداروں کی اس وقت سب سے بڑی ذمے داری یہی ہے کہ آیندہ کے لیے اس ملک و قوم کو بارشوں اور سیلاب سے محفوظ کردیا جائے، ملک میں بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں۔ دریاؤں کو گہرا کر کے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، جو اربوں روپے ہر سال سیلاب متاثرین کی بحالی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
انھیں سیلاب سے دائمی بچاؤ کے اقدام پر خرچ کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے سیلاب سے نمٹنے اور سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوئی پالیسی یا منصوبہ بندی سامنے آئی نہ ہی کبھی مستقل بنیادوں پر کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدام ہی اٹھائے گئے، ہمیشہ جب سیلاب سر پر آ جاتا ہے اور اپنی غارت گری دکھاتا ہے تو نمائشی اقدامات کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بلاشبہ ہم گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن من حیث القوم اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارا قومی رویہ اور کردار غفلت اورکوتاہی پر مبنی ہے۔
بارش اور سیلاب کو '' قدرتی آفات '' قرار دے کر، ہمارے سرکاری ادارے اپنی ذمے داریوں سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں، آج کے جدید سائنسی دور میں انھیں کسی طور پر قدرتی آفات قرار نہیں دیا جاسکتا ، کیونکہ جدید ترین سائنسی آلات کی مدد سے موسم کی ساری صورتحال کئی ہفتے پہلے ہی معلوم ہوجاتی ہے ، کتنی گرمی ہوگی ، کتنی سردی پڑے گی ، کتنی بارش ہوگی ، جب ایک عام آدمی کو اپنے موبائل پر یہ ساری معلومات دستیاب ہیں ، تو پھر ہمارے سرکاری انتظامی محکمے پیشگی اور حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کرتے۔ ہر برس کراچی، لاہور ، پشاور ، حیدرآباد ، سکھر، فیصل آباد ، کوئٹہ سمیت ملک کے تمام چھوٹے ، بڑے شہروں میں بارش کے بعد سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ بارشوں سے پہلے ندی ، نالے اور بالخصوص گٹر صاف نہیں کیے جاتے ، یہی وجہ ہے کہ ملک تمام شہروں میں صفائی کی صورتحال ابتر ہے ۔
نکاسی آب کے نالوں پر گھر بن گئے ہیں ، شہروں میں بغیر کسی پلاننگ کے ان گنت بے ہنگم بستیاں آباد ہوچکی ہیں ، جہاں سیوریج کا نظام سرے سے وجود نہیں رکھتا۔ اس صورتحال کی ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ محکموں پر عائد ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی کسی حکومت نے کبھی بارش اور سیلاب سے بچاؤ کے لیے کوئی منصوبہ بنایا ہی نہیں ہے، بلوچستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ہر سال موسم برسات میں جب غیر معمولی بارشوں سے سیلابی صورت حال پیدا ہوتی ہے اور دریاؤں میں سطح آب بلند ہونے سے اونچے درجے کا سیلاب آتا ہے تو ہماری لہلہاتی فصلیں ، آبادیاں ، کھیت ، کھلیان سب اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔
عید قرباں کے ایام میں کراچی شہر کی حالت یہ رہی ہے کہ بارش کے پانی میں قربانی کے جانوروں کی آلائشیں تیر رہی ہیں ،گلی گوچوں میں قربانی کے لاکھوں جانور ذبح ہوئے ، ان کی آلائشیں وہیں چھوڑ دی گئیں ، شہریوں نے بھی اپنی بے حسی اور بے شعوری کا کھل کر مظاہرہ کیا ، کراچی جیسے عالمی شہر میں کیسے زندگی گزاری جاتی ہے ، شہریوں کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔ آخر ملک میں اس وقت مون سیزن کے قبل از وقت آغاز ہی جو مسائل جنم لے رہے ہیں ، ان کے حل کے لیے صوبائی حکومتوں کو اپنا اپنا کردار کرنا چاہیے ، جب وفاق صوبوں کو فنڈز دے رہا ہے اور صوبے خود بھی ٹیکسز کی صورت میں خوب آمدن حاصل کررہے ہیں ، تو پھر یہ تمام رقم بارشوں سے بچاؤ اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے خرچ کیوں نہیںکر رہے ہیں۔
پاکستان کا ریاستی ڈھانچہ اپنے ہی بوجھ سے لرز رہا ہے۔ ملک میں سرکاری اسکولوں اور کالجز یونیورسٹیوں میں جو نصاب تعلیم پڑھایا جا رہا ہے ' اسے پڑھ کر تیار ہونے والی نسل میں ریشنل ازم 'ویزڈم اورانٹیلی جنس کا فقدان پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری جانب نجی شعبے میں قائم اشرافیہ کے اسکولوں 'کالجز اور یونیورسٹیز میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اور بچوں اور نوجوانوں کو جس کلچر کی تربیت دی جاتی ہے ' اس کا پاکستان کے مسائل اور زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یوں پاکستان کی پڑھی لکھی نسل بظاہر مہذب اور پروقار نظر آتی ہے لیکن اپنے عمل میں سطحی سوچ و فکر کی حامل ہے۔ ہماری اعلیٰ تعلیم یافتہ کلاس ذہنی اور نظریاتی خلفشار اور کنفیوژن کا شکار ہونے کے باعث اپنے عمل اور ظاہر داری میں لبرل اور ماڈرن ہونے کے باوجود قدامت پرستی کا شکار ہے۔ یہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔