افغانستان کے حالات اور طالبان

عمران خان کی حکومت کی طرف سے طالبان کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، یوں کابل پر دوبارہ طالبان کا قبضہ ہوا

tauceeph@gmail.com

لاہور:
وائس آف امریکا کی ایک ڈاکومینٹری میں بتایا گیا ہے کہ ایک پناہ گزین کیمپ میں 10 سال سے کم عمر کی سیکڑوں بچیاں موجود ہیں، ان میں سے کچھ فروخت ہو چکی ہیں۔ اس ڈاکومینٹری میں صدیقہ نام کی بچی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اسے دو ہزار ڈالر کے عوض کسی صاحب ثروت افغان شہری نے حاصل کیا ہے ، دو ہزار ڈالر تقریبا پونے دو لاکھ افغانی بنتے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ ان بچیوں کے خریدار امیر افغان باشندے ہیں۔ کیمپ میں موجود ایک شخص عبدالعزیز نے کہا کہ کبھی ہم بھی امیر تھے۔

خشک سالی اور جنگ کے دوران ہمارے جوان مرد مارے گئے ہیں۔ ہم اپنے آبائی علاقے فاریاب سے فرار ہو کر ہرات آئے تھے۔ پھر نئی حکومت آئی اور حالات مزید ابتر ہوئے، اب گندم کی ایک بوری 28 ہزار افغانی میں دستیاب ہے۔ اس کیمپ کی ایک اور مکین شرینہ نے بتایا کہ اس کا بیٹا کوڑا جمع کر کے لاتا ہے جسے فروخت کر کے شاید چار سو سے آٹھ سو افغانی کما لیں گے لیکن ایندھن نہیں ہے اور دوائیاں بھی نہیں ملتیں۔ امریکی ریڈیو میں کام کرنے والی پاکستانی نژاد خاتون صحافی عائشہ کی اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 90فیصد افغانی باشندوں کی آمدنی 200 افغانی روپے سے بھی کم ہے۔

ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 10لاکھ بچے کم خوراک ملنے کے باعث امراض کا شکار ہیں۔ پہلے بین الاقوامی امدادی ایجنسیاں افغانستان میں خوراک فراہم کرتی تھیں مگر طالبان حکومت کی خواتین کے حوالے سے پالیسیوں کی بنا پر یہ امداد بند ہو چکی ہے۔ افغانستان کی حکومت نے قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے گزشتہ دنوں کابل میں گرینڈ جرگے کا اہتمام کیا۔

اس میں مندوبین کی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب تھی۔ طالبان کے ذرایع جرگہ کے انعقاد سے پہلے یہ کہتے تھے کہ جرگے میں خواتین کو بھی مدعو کیا جائے گا، پھر طالبان حکومت نے جرگے کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری کیا، اس میں خواتین کی تعلیم اور روزگار پر عائد پابندیوں کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر لی گئی۔گزشتہ سال طالبان دوبارہ افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو پاکستان میں ان کے حامی جن میں سابق وزیر اعظم عمران خان سرفہرست تھے، کہتے تھے کہ اب طالبان کی سوچ میں تبدیلی آچکی ہے۔ موجودہ طالبان اور ملا عمر کے طالبان میں خاصا فرق ہے۔

موجود طالبان حکومت نے شروع میں خواتین کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں نہیں لگائی تھیں۔ اسی طرح خواتین کو کام کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ پہلے گرلز اسکول بند کیے گئے ، پھر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبات پر شٹل کاک برقعہ کی پابندی لازمی قرار دے دی گئی۔ حکومت کے ترجمان یہ اعلان کرنے لگے کہ لڑکیاں علیحدہ کلاس رومز میں تعلیم حاصل کرسکیں گی۔ پھر یہ اعلان ہوا کہ کام کی جگہوں پر خواتین اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنے والا لباس پہنیں گی۔

اس لباس میں چہرہ چھپا ہونا چاہیے۔ پھر کابل کے صدارتی محل سے یہ حکم نامہ جاری ہوا کہ ٹی وی اسکرین پر بھی خواتین اپنا چہرہ چھپا کر کیمرہ کا سامنا کریں گی۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں نے فوری امداد کے لیے یہ شرط عائد کی کہ خواتین کے تعلیم کے حق اور روزگار کے حق کو تسلیم کیا جائے اور اس ضمن میں عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے مگر افغان حکمرانوں نے عالمی اداروں کی گزارشات پر توجہ نہیں دی۔


افغانستان کی تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کی خرید و فروخت کا کاروبار صدیوں سے جاری ہے مگر جب افغانستان میں 1979 میں پہلی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور کامریڈ نور محمد تراکئی ملک کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے تو ان کے پہلے اعلانات میں ایک اعلان عورتوں کی خرید و فروخت پر پابندی کا بھی تھا۔ نور محمد تراکئی نے سود ی کاروبار پر پابندی عائد کر دی تھی اور تمام زرعی زمینیں کسانوں میں تقسیم کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔

اس وجہ سے افغانستان کے فیوڈل لارڈز، قبائلی سردار اور علماء کمیونسٹ حکومت کو گرانے کے لیے امریکا کی کمیونزم مخالف سرد جنگ کا حصہ بن گئے، یوں سی آئی اے نے افغان رجعت پسندوں کو تعاون فراہم کیا اور افغانستان کی لبرل خیالات کی حامل سوشلسٹ حکومت کے خلاف جہاد ی پروجیکٹ کا آغاز کردیا گیا۔ پاکستان کے تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اور ان کے معاون جنرلز بھی اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئے، یوں افغان جہاد رہنماؤں ، افغان فیوڈل لارڈز اور اس وقت کے پاکستانی پالیسی سازوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس پروجیکٹ میں اربوں ڈالر کمائے۔

پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا اور افغانستان کے بحران نے خطے کے ممالک کو لپیٹ میں لے لیا۔ امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد پالیسی تبدیل ہوئی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اتحادی افواج نے کابل پر قبضہ کرلیا مگر برسر اقتدار حکومتیں افغانستان کو ترقی کی طرف مائل نہ کرسکیں۔ بدعنوانی اور رشوت کی بنا پر مختلف ترقیاتی پروجیکٹ مکمل نہ ہوئے۔ ہمسایہ ممالک میں بعض طاقت ور قوتیں طالبان کی مدد کرتی رہیں۔

عمران خان کی حکومت کی طرف سے طالبان کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، یوں کابل پر دوبارہ طالبان کا قبضہ ہوا اور طالبان کی حکومت نے پھر پرانی پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رکھا۔ عمران خان مسلسل عالمی برادری پر زور دیتے رہے کہ طالبان کی مدد کی جائے۔ افغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ سابقہ حکومتوں کی ترقیاتی پالیسیوں کی بنا پر متوسط طبقہ وجود میں آیا ہے مگر اس کا سائز بہت چھوٹا ہے۔ افغانستان معدنی دولت سے مالا مال ہے۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر مالیت کی معدنیات زمین میں دفن ہیں۔ اس وقت افغانستان میں کان کنی سے چھ سو ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ افغانستان میں آئرن اور ماربل، سونا اور کوئلہ کانوں سے نکالا جا رہا ہے۔ افغانستان میں افیون کی برآمد سے 416 ملین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

گزشتہ سال 240 ملین ڈالر کے غیر ملکی اداروں سے عطیات بھی ملے تھے۔ مگر طالبان کی حکومت ریاست کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے راستوں کا انتخاب کرنے میں ناکام ہورہی ہے ۔ شاید وہ اپنے بے لچک نظریات اور مفادات کے قیدی ہوچکے ہیں اور جدیدیت کو اپنے بیانئے اور اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، طالبان کی اس پالیسی کی وجہ سے انھیں عالمی حمایت نہیں مل رہی اور نہ ہی مالی امداد مل رہی ہے ، اس کی وجہ سے وہاں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔
Load Next Story