حکومت کی منشا
ہم نے اپنے زرعی شعبے کا 90فیصد ہندوستان کے لیے کھول دیا ہے۔ مقابلہ اگر برابر کے میدان میں ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا
''کوئی مسئلہ نہیں آپ فکر نہ کر یں،اللہ خیر کر ے گا، پریشانی صحت کو خراب کر دیتی ہے، گہری سوچ دل کے عارضے کا باعث بنتی ہے ''والد مرحوم کے ایک قریبی دوست ہر مشکل میں ہمارے گھر میں بیٹھ کر یہ جملے اتنی مرتبہ دہراتے تھے کہ ہم سب کو سبق کی طرح یاد ہوگئے تھے۔بچپنے میں ہم نے اِس بزرگ کی باتوں کو جادو کا منتر سمجھ لیا تھا۔لہذا جب بھی کوئی اُلٹا سیدھا کام کرتے تو دل ہی دل میں یہ تمام فقرے دس،بیس مرتبہ دہرا کر یہ سمجھ لیتے کہ بلا ٹل گئی ہے۔ جب بلا ٹل جاتی تو ہمارا ایمان ان الفاظ کی جادوئی تاثیر میں سو گنا بڑھ جاتا اور جب اپنے کیے کا بھگتنا پڑتا (جو اکثر ہوتا تھا) تو اِس کو اپنے ورد کے طریقے کی خرابی سے منسوب کرتے ہوئے یہ الزام دہراتے کہ اگلی مرتبہ یہ جملے صحیح طریقے سے ادا کریں گے تاکہ ان کا اثر زائل نہ ہو۔ آج 2014ء میں مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت ہمارے اس بھلائے ہوئے بزرگ کی طفل تسلیوں کو قومی پالیسی میں تبدیل کرچکی ہے۔ بالخصوص پالیسی کا وہ حصہ جو ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر مبنی ہے۔اس ہمسایہ ملک کے ساتھ جس طریقے اور رفتار کے ساتھ محترم نواز شریف کی حکومت پینگیں بڑھا رہی ہے اُس کے بعد کوئی خاص تعویز گنڈا ہی ہمارے تجارتی مفادات کا تحفظ کر پائے گا۔اس وقت نیم خاموشی کی حالت میں میاں نواز شریف کی حکومت ہندوستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے بعد تجارت کے تمام دروازے کھولنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت بہت سی تکنیکی معلومات کے گرد گھومنے کے بعد اس نقطے پر آکر ختم ہوگئی کہ 'یہ تو کرنا ہی ہے قیمت چاہے کچھ بھی کیوں نہ چکانی پڑے'ظاہر ہے قیمت پاکستان بلکہ پاکستان کی زراعت سے منسلک تمام لوگوں کو چکانی پڑے گی۔ ہم نے اپنے زرعی شعبے کا 90فیصد ہندوستان کے لیے کھول دیا ہے۔ مقابلہ اگر برابر کے میدان میں ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ مگر دہلی اپنے زرعی شعبے کو پچاس سے ساٹھ بلین روپوں سے زیادہ کی خاص مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر اُس مدد کے علاوہ جو مختلف قوانین اور ضابطوں میں چھپا کر اس شعبے میں کام کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ وہاں سے پیدا کی ہوئی اشیا یا اُن اشیا پر بنیادکی ہوئی مصنوعات اس خاص مددکے بل بوتے پر پاکستان کے زرعی شعبے کو تہس نہس کردے گی۔ فارمز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کسانوں کی مختلف تنظیموں نے اس ممکنہ تباہی کو بھانپتے ہوئے خود سے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک ہلکی پھلکی آوازیں سامنے آئی ہیں آنے والے دنوں میں شور بڑھ جائے گا۔ زمین سے جڑے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر شیروں کے پنجر ے میں پھینک رہی ہے۔جہاں سے اُن کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت سے نامور ماہرین معیشت اس مسئلے کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ چند ایک تحقیقی کالموں میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ پاکستان جس جلدی میں ہے اُس کا دفاع کسی قومی مفاد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
ہم نے تجارت کے حوالے سے ہونی والی بات چیت میں بالکل ویسے ہی مقدمہ لڑا ہے جیسے پانی کے معاملے پر۔ ذہنی سستی اور سیاسی قیادت کی طرف سے واضح ہدایات کی غیر موجودگی میں پاکستانی ریاست کے نمایندگان تجارت کے نام پر زرعی شعبے کی نیلامی قبول کر چکے ہیں۔ قصور اُن کا بھی نہیں ہے اگر سیاسی حکمران ہندوستان کی ہر ادا پر فدا ہونا جزو ایمان سمجھتے ہیں تو پھر نوکری یافتہ طبقے کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنے کیریئر کا ستیاناس کرے وہ بھی خاموش رہے اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے ستون بھی اس غیر منصفانہ سمجھوتے کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے۔خیر ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تو اِس حد تک ہندوستان پرست ہوگئے ہیں کہ ان میں اور اوم پوری میں فرق کرنا مشکل ہے۔ وہ ہندوستان میں بڑی منڈی پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔بھارت پرست حلقوں کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کو یک جان اور یک جسم کرنا ہے۔1947کی تقسیم اُن کو منافع کی تقسیم نظر آتی ہے۔ وہ سرحدوں کو کاروبارکی حدوں کے طور پر لیتے ہیں۔کاروبار پھیلیںگے تب جب سرحدیں ختم ہونگیں۔اُن کو زرعی اور دوسروں شعبوں کی تباہی سے کیا لینا دینا۔ ہندوستان خوش اور وہ بھی خوش۔ امن کا کاسہ ایسے ہی نہیں اٹھایا ہوا کاروبار کی بھیک مل رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت جس کی کاروباری جبلت بل گیٹس کی ذہانت کو پیچھے چھوڑتی ہے، اپنے لیے تاریخ میں نام پیداکرنے کے علاوہ صنعتی اور کاروباری حلقوں کی گرفت میں ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تجارت کے معاملے پر صرف ہم خیال حلقوں سے لوگ سامنے لائے گئے۔تجاویز طلب کر نے کے بعد انھی کے ہاتھوں عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
اس سرتوڑ اور زراعت کش دوڑ میں چلانگیں لگاتی ہوئی حکومت کو ترغیب دینے میں واشنگٹن اور برسلز کے ہاتھ نمایاں ہیں۔ لندن بھی باجے بجا بجا کر حکومت کو ہندوستان کے ساتھ حتمی تجارتی ادغام کی طرف مائل کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی حلقوں میں آج کل اس غیر ضروری جلدی کے فوری نقصانات پر کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ معترض ہونے والے کو دقیانوسی اور دشمنان عقل قرار دیا جاتا ہے۔ جو منطق اور شواہد کے ساتھ بات کرتے ہیں اُن کے لیے وہی جملے دہرا دیے جاتے ہیں جو والد مرحوم کے دوست ہر مشکل میں کیا کرتے تھے''کوئی مسئلہ نہیں آپ فکر نہ کر یں،اللہ خیر کرے گا،پریشانی صحت کو خراب کر دیتی ہے،گہری سوچ دل کے عارضے کا باعث بنتی ہے''۔ اس ماحول میں جب سیاسی جماعتیں ذہنی اور نفسیاتی افراتفری کا شکار ہیں، جب میڈیا تھر اور شمالی وزیرستان کے درمیان چکر لگا لگا کر ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے حکومت پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔حکومت کے ایک نمایندے نے اِن حالات میں اپنی ہندوستان پالیسی کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ اس تمام مضمون کا ایک بہترین خلاصہ ہے انھوں نے فرمایا''محترم صحافی صاحب ضد چھوڑ دیں ہم دونوں ممالک کو آخر اکٹھا ہو ہی جانا ہے، ٹوٹ پھوٹ کر اکٹھا ہونے سے بہتر ہے کہ شریفوں کی طرح شریفوں کے ہاتھوں اکٹھے ہوجائیں''میں اُس وقت سے یہی سوچ رہا ہوں کہ میری ذاتی رائے ایک طرف اِن کی بات میں اس حد تک تو وزن ہے کہ ہم اب ایک شریف قوم بن گئے ہیں۔یہاں پر شریفوں کی منشاء ہی چلے گی۔
پچھلے کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت بہت سی تکنیکی معلومات کے گرد گھومنے کے بعد اس نقطے پر آکر ختم ہوگئی کہ 'یہ تو کرنا ہی ہے قیمت چاہے کچھ بھی کیوں نہ چکانی پڑے'ظاہر ہے قیمت پاکستان بلکہ پاکستان کی زراعت سے منسلک تمام لوگوں کو چکانی پڑے گی۔ ہم نے اپنے زرعی شعبے کا 90فیصد ہندوستان کے لیے کھول دیا ہے۔ مقابلہ اگر برابر کے میدان میں ہوتا تو کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ مگر دہلی اپنے زرعی شعبے کو پچاس سے ساٹھ بلین روپوں سے زیادہ کی خاص مدد فراہم کرتا ہے۔ ہر اُس مدد کے علاوہ جو مختلف قوانین اور ضابطوں میں چھپا کر اس شعبے میں کام کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ وہاں سے پیدا کی ہوئی اشیا یا اُن اشیا پر بنیادکی ہوئی مصنوعات اس خاص مددکے بل بوتے پر پاکستان کے زرعی شعبے کو تہس نہس کردے گی۔ فارمز ایسوسی ایشن آف پاکستان اور کسانوں کی مختلف تنظیموں نے اس ممکنہ تباہی کو بھانپتے ہوئے خود سے احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ ابھی تک ہلکی پھلکی آوازیں سامنے آئی ہیں آنے والے دنوں میں شور بڑھ جائے گا۔ زمین سے جڑے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر شیروں کے پنجر ے میں پھینک رہی ہے۔جہاں سے اُن کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہت سے نامور ماہرین معیشت اس مسئلے کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ چند ایک تحقیقی کالموں میں یہ واضح کیا جاچکا ہے کہ پاکستان جس جلدی میں ہے اُس کا دفاع کسی قومی مفاد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔
ہم نے تجارت کے حوالے سے ہونی والی بات چیت میں بالکل ویسے ہی مقدمہ لڑا ہے جیسے پانی کے معاملے پر۔ ذہنی سستی اور سیاسی قیادت کی طرف سے واضح ہدایات کی غیر موجودگی میں پاکستانی ریاست کے نمایندگان تجارت کے نام پر زرعی شعبے کی نیلامی قبول کر چکے ہیں۔ قصور اُن کا بھی نہیں ہے اگر سیاسی حکمران ہندوستان کی ہر ادا پر فدا ہونا جزو ایمان سمجھتے ہیں تو پھر نوکری یافتہ طبقے کو کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ حب الوطنی سے سرشار ہوکر اپنے کیریئر کا ستیاناس کرے وہ بھی خاموش رہے اور ذرایع ابلاغ کے بڑے بڑے ستون بھی اس غیر منصفانہ سمجھوتے کی نشاندہی کرنے سے قاصر رہے۔خیر ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تو اِس حد تک ہندوستان پرست ہوگئے ہیں کہ ان میں اور اوم پوری میں فرق کرنا مشکل ہے۔ وہ ہندوستان میں بڑی منڈی پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔بھارت پرست حلقوں کا مقصد ہندوستان اور پاکستان کو یک جان اور یک جسم کرنا ہے۔1947کی تقسیم اُن کو منافع کی تقسیم نظر آتی ہے۔ وہ سرحدوں کو کاروبارکی حدوں کے طور پر لیتے ہیں۔کاروبار پھیلیںگے تب جب سرحدیں ختم ہونگیں۔اُن کو زرعی اور دوسروں شعبوں کی تباہی سے کیا لینا دینا۔ ہندوستان خوش اور وہ بھی خوش۔ امن کا کاسہ ایسے ہی نہیں اٹھایا ہوا کاروبار کی بھیک مل رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی حکومت جس کی کاروباری جبلت بل گیٹس کی ذہانت کو پیچھے چھوڑتی ہے، اپنے لیے تاریخ میں نام پیداکرنے کے علاوہ صنعتی اور کاروباری حلقوں کی گرفت میں ہے۔ ہندوستان کے ساتھ تجارت کے معاملے پر صرف ہم خیال حلقوں سے لوگ سامنے لائے گئے۔تجاویز طلب کر نے کے بعد انھی کے ہاتھوں عمل درآمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
اس سرتوڑ اور زراعت کش دوڑ میں چلانگیں لگاتی ہوئی حکومت کو ترغیب دینے میں واشنگٹن اور برسلز کے ہاتھ نمایاں ہیں۔ لندن بھی باجے بجا بجا کر حکومت کو ہندوستان کے ساتھ حتمی تجارتی ادغام کی طرف مائل کر رہا ہے۔ اسی وجہ سے حکومتی حلقوں میں آج کل اس غیر ضروری جلدی کے فوری نقصانات پر کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ معترض ہونے والے کو دقیانوسی اور دشمنان عقل قرار دیا جاتا ہے۔ جو منطق اور شواہد کے ساتھ بات کرتے ہیں اُن کے لیے وہی جملے دہرا دیے جاتے ہیں جو والد مرحوم کے دوست ہر مشکل میں کیا کرتے تھے''کوئی مسئلہ نہیں آپ فکر نہ کر یں،اللہ خیر کرے گا،پریشانی صحت کو خراب کر دیتی ہے،گہری سوچ دل کے عارضے کا باعث بنتی ہے''۔ اس ماحول میں جب سیاسی جماعتیں ذہنی اور نفسیاتی افراتفری کا شکار ہیں، جب میڈیا تھر اور شمالی وزیرستان کے درمیان چکر لگا لگا کر ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے حکومت پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔حکومت کے ایک نمایندے نے اِن حالات میں اپنی ہندوستان پالیسی کی کامیابی کی ضمانت دیتے ہوئے جو الفاظ کہے وہ اس تمام مضمون کا ایک بہترین خلاصہ ہے انھوں نے فرمایا''محترم صحافی صاحب ضد چھوڑ دیں ہم دونوں ممالک کو آخر اکٹھا ہو ہی جانا ہے، ٹوٹ پھوٹ کر اکٹھا ہونے سے بہتر ہے کہ شریفوں کی طرح شریفوں کے ہاتھوں اکٹھے ہوجائیں''میں اُس وقت سے یہی سوچ رہا ہوں کہ میری ذاتی رائے ایک طرف اِن کی بات میں اس حد تک تو وزن ہے کہ ہم اب ایک شریف قوم بن گئے ہیں۔یہاں پر شریفوں کی منشاء ہی چلے گی۔