بہترین ایتھلیٹ تھا اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا سید الحاج انوار علی جعفری
سماجی کارکن اور ایوان صنعت و تجارت سکھر کے سینئر نائب صدر، الحاج سید انوار علی جعفری کی روداد
KARACHI:
شعر و ادب سے دل چسپی ہے۔ محنت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ تعلیم کو ملکی مسائل کا اکلوتا حل تصور کرتے ہیں، اِس شعبے کی بدحالی کا قلق ہے۔
یہ سید انوار علی جعفری کی کہانی ہے، جو سکھر کی جانی مانی کاروباری شخصیت ہیں۔ چیمبر آف کامرس، سکھر میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ اس وقت سینئر نائب صدر ہیں۔ سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی سرگرم ہیں۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے۔ سماجی تنظیم لائن کلب کے صدر بھی رہے۔
انوار علی جعفری نے 8 دسمبر 1948 کو معروف تاجر، سید معشوق علی جعفری کے گھر آنکھ کھولی۔ والدین کی پہلی ترجیحی دینی تعلیم تھی۔ رات کے وقت دینی کتب لے کر بیٹھ جاتے۔ فقط مطالعے تک محدود نہیں رہتے۔ والد اور بھائیوں سے تبادلۂ خیال بھی ہوتا۔ پانچ بہنوں، چار بھائیوں میں سید انوار علی جعفری المعروف ''انو'' کا نمبر آٹھواں ہے۔ کاروباری خاندان ہے، اُن چاروں بھائی اِسی شعبے سے منسلک ہیں۔ بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ حصول علم کی خواہش اوائل سے ساتھ ہے۔ ممتاز علمائے دین اور اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ ابتدائی تعلیم سلطان المدارس، خیرپور میرس سے حاصل کی۔ ناز ہائی اسکول، خیرپور سے میٹرک کیا۔ گریجویشن حیدرآباد سے کرنے کے بعد بی بی اے کی ڈگری کراچی سے حاصل کی۔
عملی زندگی کی تفصیلات یوں ہیں کہ میٹرک کے فوراً بعد اپنے خاندان کی ''آئس فیکٹری'' سے وابستہ ہوگئے۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ گریجویشن کے بعد پاکستان کی ایک بڑی سیمنٹ کمپنی سے بہ حیثیت ''پرچیزر'' منسلک ہوگئے۔ پیشہ ورانہ سفر کے دوران پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں وقت گزرا۔ سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے تجربے سے خود کو لیس کیا۔ مختلف اداروں میں فرائض انجام دیے۔ اس وقت مشروبات کی ایک بڑی کمپنی میں جنرل مینیجر ہیں۔
پیشہ ورانہ کام یابیوں کے بعد سکھر میں اسپورٹس کے شعبے کی بہتری کے لیے انھوں نے کام شروع کیا۔ نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایونٹس کا انعقاد کیا۔ کھیلوں کی کئی تنظیموں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں،''ماضی میں درس گاہوں میں تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ میں نے محلے کے دوستوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم تشکیل دی۔ اسکول کے بعد زیادہ وقت گھر کے نزدیک واقع گراؤنڈ میں گزرتا تھا۔ بہترین ایتھلیٹ تھا۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا۔ خیرپور ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں شامل رہا۔ آج اِس نوع کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ میری کوشش ہے کہ نوجوانوں کو اس جانب راغب کروں۔''
اِس بات کا قلق ہے کہ ہمارے نوجوان مطالعے سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ وہ وقت یاد کرتے ہیں، جب ہر محلے میں لائبرری ہوا کرتی۔ محفلوں کا انعقاد معمول کا حصہ تھا۔ اب یہ سرگرمیاں مفقود ہوگئی ہیں۔ شعبۂ تدریس کی بدحالی، اساتذہ کے بدلتے رجحانات اُنھیں پریشان رکھتے ہیں۔ ''ماضی میں استاد، والدین کی طرح بچوں کی تربیت کیا کرتے تھے، مگر آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ حالاں کہ معقول معاوضہ ملتا ہے، اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، مگر تعلیمی معیار پستی کی جانب جارہا ہے۔'' خواہش ہے کہ پاکستان کے ہر بچے کو زیورعلم سے آراستہ کیا جائے کہ تعلیم ہی اُن کے نزدیک ہمارے مسائل کا اکلوتا حل ہے۔ ''تعلیم ہوگی، تو معیشت کا پہیا چلتا رہے گا۔ پاکستان میں خوش حالی آئے گی۔''
زمانۂ طالب علمی میں تو سیاست سے دُور رہے۔ والدین کی اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، مگر سیاست گھٹی میں پڑی تھی کہ بڑوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فورم سے سیاسی کردار ادا کیا۔ حروں کے روحانی پیشوا، پیر پگارا کی شخصیت نے اُنھیں متاثر کیا۔ اُن کے اثرات انوار صاحب کو مسلم لیگ ف کی جانب لے گئے۔ ملک کے موجودہ حالات انھیں پریشان رکھتے ہیں۔ ''ہر طرف افراتفری اور بدامنی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ مایوسی بڑھ رہی ہے۔''
قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ ان کے اقوال کو راہ نما اصول تصور کرتے ہیں۔ سابق صدر، پرویز مشرف کو بھی سراہتے ہیں کہ انھوں نے ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ ''موجودہ سیاست دانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ملک پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ یہ صورت حال لمحۂ فکریہ ہے۔''
ان کے مطابق سکھر چیمبر آف کامرس سمیت تمام صنعت کاروں کو مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں تھیں، مگر چند ہی ماہ میں اِن امیدوں نے دم توڑ دیا۔ جو اقدامات کیے گئے، ان سے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا۔ قرضہ اسکیم سے وہ بھی مطمئن نہیں۔ تاجر برادری کے مسائل پر گہری نظر ہے۔ کہنا ہے،''سکھر میں سہولیات کے فقدان اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار تیزی سے بیرون شہر منتقل ہو رہے ہیں۔ انفرااسٹرکچر خستہ حالی کا شکار ہے۔ بیس سال سے زاید کا عرصہ گزر گیا، آج تک ڈائی پورٹ اور ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے منصوبے مکمل نہیں ہوسکے۔'' حکومتی منصوبوں میں تسلسل کا فقدان ان کے نزدیک ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ ہر حکومت ایک نیا منصوبہ لے کر آتی ہے، ترقی کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔
اُن کے مطابق سکھر کھجور اور کیلے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں کپاس وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے، اِس کے باوجود صنعت کاروں کی منتقلی پریشان کن ہے۔ ذمے دار وہ منتخب نمایندے کو ٹھہراتے ہیں، جو اپنا زیادہ وقت بڑے شہروں میںگزارتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سکھر میں صنعتیں لگانے کی ترغیب تو دیتے ہیں، لیکن سائٹ اور گولیمار کے علاقوں کے حالات کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کرتے۔ نتیجتاً بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ ''ہمارے حکم رانوں کو اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ڈیرے ڈالنے کے بجائے اپنے آبائی علاقوں میں رہتے ہوئے ترقیاتی کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔''
یوں تو کئی ممالک کا دورہ کیا، مگر خانۂ خدا اور روضۂ رسول ﷺپر حاضری سے جو سکون ملا، اُسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شاعری ہو یا نثر؛ ادب کی دونوں ہی اصناف پسند ہیں۔ فارغ اوقات میں شاہد نقوی اور ہلال نقوی کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ علماء کی صحبت میں وقت گزارتے ہیں۔ کئی عالم دین حلقے میں شامل ہیں۔
74ء میں شادی ہوئی۔ سات بچے ہیں۔ چار بیٹیاں، تین بیٹے۔ چھٹی کا دن فیملی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ بڑا صاحب زادہ ایک بین الاقوامی مشروب ساز ادارے کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا حصہ ہے۔ دوسرا امریکا کے بینکنگ سیکٹر سے جُڑا ہے۔ چھوٹے بیٹے نے حال ہی میں پاکستان بیڈمنٹن چیمپئین شپ اپنے نام کی ہے۔
شعر و ادب سے دل چسپی ہے۔ محنت پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ تعلیم کو ملکی مسائل کا اکلوتا حل تصور کرتے ہیں، اِس شعبے کی بدحالی کا قلق ہے۔
یہ سید انوار علی جعفری کی کہانی ہے، جو سکھر کی جانی مانی کاروباری شخصیت ہیں۔ چیمبر آف کامرس، سکھر میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ اس وقت سینئر نائب صدر ہیں۔ سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی سرگرم ہیں۔ کھیلوں کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کیے۔ سماجی تنظیم لائن کلب کے صدر بھی رہے۔
انوار علی جعفری نے 8 دسمبر 1948 کو معروف تاجر، سید معشوق علی جعفری کے گھر آنکھ کھولی۔ والدین کی پہلی ترجیحی دینی تعلیم تھی۔ رات کے وقت دینی کتب لے کر بیٹھ جاتے۔ فقط مطالعے تک محدود نہیں رہتے۔ والد اور بھائیوں سے تبادلۂ خیال بھی ہوتا۔ پانچ بہنوں، چار بھائیوں میں سید انوار علی جعفری المعروف ''انو'' کا نمبر آٹھواں ہے۔ کاروباری خاندان ہے، اُن چاروں بھائی اِسی شعبے سے منسلک ہیں۔ بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ حصول علم کی خواہش اوائل سے ساتھ ہے۔ ممتاز علمائے دین اور اساتذہ سے اکتساب فیض کیا۔ ابتدائی تعلیم سلطان المدارس، خیرپور میرس سے حاصل کی۔ ناز ہائی اسکول، خیرپور سے میٹرک کیا۔ گریجویشن حیدرآباد سے کرنے کے بعد بی بی اے کی ڈگری کراچی سے حاصل کی۔
عملی زندگی کی تفصیلات یوں ہیں کہ میٹرک کے فوراً بعد اپنے خاندان کی ''آئس فیکٹری'' سے وابستہ ہوگئے۔ تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا۔ گریجویشن کے بعد پاکستان کی ایک بڑی سیمنٹ کمپنی سے بہ حیثیت ''پرچیزر'' منسلک ہوگئے۔ پیشہ ورانہ سفر کے دوران پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں وقت گزرا۔ سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے تجربے سے خود کو لیس کیا۔ مختلف اداروں میں فرائض انجام دیے۔ اس وقت مشروبات کی ایک بڑی کمپنی میں جنرل مینیجر ہیں۔
پیشہ ورانہ کام یابیوں کے بعد سکھر میں اسپورٹس کے شعبے کی بہتری کے لیے انھوں نے کام شروع کیا۔ نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایونٹس کا انعقاد کیا۔ کھیلوں کی کئی تنظیموں کی سرپرستی کررہے ہیں۔ یادیں کھنگالتے ہوئے کہتے ہیں،''ماضی میں درس گاہوں میں تعلیم کے ساتھ اسپورٹس کی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ میں نے محلے کے دوستوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم تشکیل دی۔ اسکول کے بعد زیادہ وقت گھر کے نزدیک واقع گراؤنڈ میں گزرتا تھا۔ بہترین ایتھلیٹ تھا۔ اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا۔ خیرپور ڈسٹرکٹ کی ٹیم میں شامل رہا۔ آج اِس نوع کی سرگرمیاں دکھائی نہیں دیتیں۔ میری کوشش ہے کہ نوجوانوں کو اس جانب راغب کروں۔''
اِس بات کا قلق ہے کہ ہمارے نوجوان مطالعے سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ وہ وقت یاد کرتے ہیں، جب ہر محلے میں لائبرری ہوا کرتی۔ محفلوں کا انعقاد معمول کا حصہ تھا۔ اب یہ سرگرمیاں مفقود ہوگئی ہیں۔ شعبۂ تدریس کی بدحالی، اساتذہ کے بدلتے رجحانات اُنھیں پریشان رکھتے ہیں۔ ''ماضی میں استاد، والدین کی طرح بچوں کی تربیت کیا کرتے تھے، مگر آج حالات اس کے برعکس ہیں۔ حالاں کہ معقول معاوضہ ملتا ہے، اساتذہ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، مگر تعلیمی معیار پستی کی جانب جارہا ہے۔'' خواہش ہے کہ پاکستان کے ہر بچے کو زیورعلم سے آراستہ کیا جائے کہ تعلیم ہی اُن کے نزدیک ہمارے مسائل کا اکلوتا حل ہے۔ ''تعلیم ہوگی، تو معیشت کا پہیا چلتا رہے گا۔ پاکستان میں خوش حالی آئے گی۔''
زمانۂ طالب علمی میں تو سیاست سے دُور رہے۔ والدین کی اس ضمن میں ہدایات بھی تھیں، مگر سیاست گھٹی میں پڑی تھی کہ بڑوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فورم سے سیاسی کردار ادا کیا۔ حروں کے روحانی پیشوا، پیر پگارا کی شخصیت نے اُنھیں متاثر کیا۔ اُن کے اثرات انوار صاحب کو مسلم لیگ ف کی جانب لے گئے۔ ملک کے موجودہ حالات انھیں پریشان رکھتے ہیں۔ ''ہر طرف افراتفری اور بدامنی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بن رہے ہیں۔ مایوسی بڑھ رہی ہے۔''
قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ ان کے اقوال کو راہ نما اصول تصور کرتے ہیں۔ سابق صدر، پرویز مشرف کو بھی سراہتے ہیں کہ انھوں نے ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دو ٹوک موقف اختیار کیا۔ ''موجودہ سیاست دانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ملک پیچھے کی طرف جارہا ہے۔ یہ صورت حال لمحۂ فکریہ ہے۔''
ان کے مطابق سکھر چیمبر آف کامرس سمیت تمام صنعت کاروں کو مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں تھیں، مگر چند ہی ماہ میں اِن امیدوں نے دم توڑ دیا۔ جو اقدامات کیے گئے، ان سے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا۔ قرضہ اسکیم سے وہ بھی مطمئن نہیں۔ تاجر برادری کے مسائل پر گہری نظر ہے۔ کہنا ہے،''سکھر میں سہولیات کے فقدان اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار تیزی سے بیرون شہر منتقل ہو رہے ہیں۔ انفرااسٹرکچر خستہ حالی کا شکار ہے۔ بیس سال سے زاید کا عرصہ گزر گیا، آج تک ڈائی پورٹ اور ایکسپورٹ پروسسنگ زون کے منصوبے مکمل نہیں ہوسکے۔'' حکومتی منصوبوں میں تسلسل کا فقدان ان کے نزدیک ایک گمبھیر مسئلہ ہے۔ ہر حکومت ایک نیا منصوبہ لے کر آتی ہے، ترقی کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔
اُن کے مطابق سکھر کھجور اور کیلے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں کپاس وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے، اِس کے باوجود صنعت کاروں کی منتقلی پریشان کن ہے۔ ذمے دار وہ منتخب نمایندے کو ٹھہراتے ہیں، جو اپنا زیادہ وقت بڑے شہروں میںگزارتے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سکھر میں صنعتیں لگانے کی ترغیب تو دیتے ہیں، لیکن سائٹ اور گولیمار کے علاقوں کے حالات کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کرتے۔ نتیجتاً بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ ''ہمارے حکم رانوں کو اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ڈیرے ڈالنے کے بجائے اپنے آبائی علاقوں میں رہتے ہوئے ترقیاتی کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔''
یوں تو کئی ممالک کا دورہ کیا، مگر خانۂ خدا اور روضۂ رسول ﷺپر حاضری سے جو سکون ملا، اُسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ شاعری ہو یا نثر؛ ادب کی دونوں ہی اصناف پسند ہیں۔ فارغ اوقات میں شاہد نقوی اور ہلال نقوی کی شاعری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ علماء کی صحبت میں وقت گزارتے ہیں۔ کئی عالم دین حلقے میں شامل ہیں۔
74ء میں شادی ہوئی۔ سات بچے ہیں۔ چار بیٹیاں، تین بیٹے۔ چھٹی کا دن فیملی کے ساتھ گزارتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ بڑا صاحب زادہ ایک بین الاقوامی مشروب ساز ادارے کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا حصہ ہے۔ دوسرا امریکا کے بینکنگ سیکٹر سے جُڑا ہے۔ چھوٹے بیٹے نے حال ہی میں پاکستان بیڈمنٹن چیمپئین شپ اپنے نام کی ہے۔