سیاسی انتشار اور ٹکراؤ کا کھیل
پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سیاسی جنگ ختم نہیں ہوئی
سپریم کورٹ کے فیصلے نے مسلم لیگ ن او ران کی اتحادی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کو سیاسی برتری دلا دی ہے۔ چوہدری پرویز الٰہی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے تحت پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے ہیں۔ جو جنگ پنجاب کی سیاسی میدان میں شروع ہوئی، اس کا حتمی نتیجہ عدالت کے ذریعے سامنے آیا۔
پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سیاسی جنگ ختم نہیں ہوئی، یہ سیاسی جنگ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔ مسلم لیگ ن کا سیاسی گڑھ پنجاب ہے اور پی ٹی آئی اسی سیاسی گڑھ میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اپنی سیاسی برتری کی جنگ جیتنا چاہتی ہے۔ پنجاب کی سیاسی جنگ کی برتری بنیادی طور پر وفاق میں اقتدار کی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
ایک عمومی رائے یہ ہی دی جاتی ہے کہ جس کے پاس پنجاب کا اقتدار ہوتا ہے اسی کی وفاقی سیاست بھی مضبوط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑے سیاسی فریق پنجاب کی سیاست پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کے سیاسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کو بھی مقابلے کے لیے ایک بڑا سیاسی بیانیہ درکار ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت اس بیانیہ کو مزاحمت کی سیاست کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ان کے بقول جب تک مسلم لیگ ن ایک سخت گیر موقف کے ساتھ اپنا سیاسی مقدمہ پیش نہیں کرے گی اس کی سیاسی برتری ممکن نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے اسی مزاحمتی بیانیہ کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے لیکن مسلم لیگ ن میں مسئلہ یہ ہے کہ بیانیہ کی جنگ میں مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی پر سیاسی تقسیم موجود ہے۔
مسلم لیگ ن میں موجود مفاہمتی گروپ براہ راست مزاحمتی سیاست کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ شہباز شریف اس مزاحمتی سیاست میں خود کہاں کھڑے ہوںگے کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ مزاحمتی سیاست کی صورت میں مریم نواز کو ہی فرنٹ فٹ پر کھیلنا ہوگا اور ایسی صورت میں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ فوری طو رپر عام انتخابات ہوجائیں تو وہ جیت سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کے حوالے سے حکومتی اتحاد تقسیم نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف اور عمران خان فوری انتخابات کی منزل حاصل کرنے کے لیے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ اگر موجودہ حکومت فوری انتخابات کا فیصلہ نہیں کرتی تو دوسری صورت میں وفاقی حکومت کو عددی تعداد میں تبدیل کرکے خود نئے انتخابات کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس وقت جو پس پردہ معاملات نئے انتخابات پر اتفاق رائے کے لیے ہو رہے ہیں اگر یہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس برس نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس کیا سیاسی کارڈ ہیں اور وہ کس حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ کر اپنا او راپنی جماعت کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران جماعت میں یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ ہمیں فوری طور پر پی ٹی آئی کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کو قبول کرلینا چاہیے اور اس معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن اسی نقطہ پر دوسرا موقف ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ایسی صورت میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس کا فائدہ بھی عمران خان کو ہی ہوگا۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بقول حکومتی حکمت عملی میں پنجاب میں گورنر راج کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو اس مطلب یہی ہوگا کہ نہ صرف بحران پیدا ہوگا بلکہ مسلم لیگ ن خود اپنے لیے بھی مسائل پیدا کرے گی۔ اسی طرح جو لوگ بھی حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ان کو عدلیہ کہ اختیارات میں کمی کرنی چاہیے وہ بھی ان حالات میں درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔
اس لیے مسلم لیگ ن کو اس وقت سیاسی مہم جوئی سے زیادہ توجہ اس نقطہ پر دینی ہوگی کہ ملک میں نئے انتخابات کے تناظر میں وہ کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کریں جو ان کو سیاسی فائدہ دے سکے۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کو عملا ایک جارحانہ حکمت عملی درکار ہے لیکن یہ جارحانہ حکمت عملی کی بنیاد سیاست ہونی چاہیے اور نہ کہ وہ اداروں سے ٹکراو کی سیاست کے کھیل میں حصہ بن جائیں جو مزید مسائل کو جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وقت مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ تنہا سیاسی فلائٹ لینے کے بجائے اپنے اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے آگے بڑھے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن کو اندازہ ہے کہ جو صورتحال اب ان کو سیاسی محاذ پر درپیش ہے اس میں اسے ہر صورت اپنے اتحادیوں بالخصوص آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت درکار ہے۔ نواز شریف بھی اتحادی جماعتوں کی حمایت کی مدد سے ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر اتحادی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کے مفادات اور مسلم لیگ ن کے سیاسی مفادات میں ہم آہنگی ہو۔
اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکمران اتحادیوں میں ہمیں مختلف حکمت عملیوں پر تضاد کا پہلو بھی دیکھنے کو ملے گا کیونکہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی خان سمیت محمود خان اچکزئی کا مل کر مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا خود بڑا چیلنج ہوگا۔ اگرچہ ان سب کا مشترکہ سیاسی مخالف عمران خان ہی ہیں مگر ان کی اپنی علاقائی او رجماعتی سیاست کے مفادات بھی اہم ہیں۔
کیونکہ ملک میں عام انتخابات زیادہ دور نہیں اس لیے اس وقت قومی سیاست میں انتخابی سیاست کی اہمیت زیادہ ہے اور جو بھی سیاسی جوڑ توڑ ہمیں دیکھنے کو ملے گا، اس میں انتخابی سیاست کا رنگ بھی نمایاں ہوگا اور نئے سیاسی جوڑ توڑ بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
ایسے میں ٹکراو کی سیاست کسی بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں ہوگی اور اس سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔ اس لیے حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو ملک میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو گہرا کرنے کے بجائے مفاہمت اور عدم ٹکراو کی سیاست کو ہی آگے بڑھانا چاہیے اور سیاسی معاملا ت کو خود عملا سیاست دان مل کر حل کریں۔ ان معاملات میں اداروں پر حملے یا ان کو عملا متنازعہ بنانے کا کھیل کسی بھی صورت قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
پنجاب میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد سیاسی جنگ ختم نہیں ہوئی، یہ سیاسی جنگ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی صورت میں دیکھنے کو ملے گی۔ مسلم لیگ ن کا سیاسی گڑھ پنجاب ہے اور پی ٹی آئی اسی سیاسی گڑھ میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اپنی سیاسی برتری کی جنگ جیتنا چاہتی ہے۔ پنجاب کی سیاسی جنگ کی برتری بنیادی طور پر وفاق میں اقتدار کی جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔
ایک عمومی رائے یہ ہی دی جاتی ہے کہ جس کے پاس پنجاب کا اقتدار ہوتا ہے اسی کی وفاقی سیاست بھی مضبوط ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑے سیاسی فریق پنجاب کی سیاست پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں اور یہ محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست کا منظر بھی پیش کرتی ہے۔
تحریک انصاف اور عمران خان کے سیاسی بیانیہ کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کو بھی مقابلے کے لیے ایک بڑا سیاسی بیانیہ درکار ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت اس بیانیہ کو مزاحمت کی سیاست کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ان کے بقول جب تک مسلم لیگ ن ایک سخت گیر موقف کے ساتھ اپنا سیاسی مقدمہ پیش نہیں کرے گی اس کی سیاسی برتری ممکن نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے اسی مزاحمتی بیانیہ کی طرف واپسی کا عندیہ دیا ہے لیکن مسلم لیگ ن میں مسئلہ یہ ہے کہ بیانیہ کی جنگ میں مفاہمت اور مزاحمت کی پالیسی پر سیاسی تقسیم موجود ہے۔
مسلم لیگ ن میں موجود مفاہمتی گروپ براہ راست مزاحمتی سیاست کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوگا؟ شہباز شریف اس مزاحمتی سیاست میں خود کہاں کھڑے ہوںگے کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ مزاحمتی سیاست کی صورت میں مریم نواز کو ہی فرنٹ فٹ پر کھیلنا ہوگا اور ایسی صورت میں شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔
عمران خان سمجھتے ہیں کہ فوری طو رپر عام انتخابات ہوجائیں تو وہ جیت سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کے حوالے سے حکومتی اتحاد تقسیم نظر آتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف اور عمران خان فوری انتخابات کی منزل حاصل کرنے کے لیے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ اگر موجودہ حکومت فوری انتخابات کا فیصلہ نہیں کرتی تو دوسری صورت میں وفاقی حکومت کو عددی تعداد میں تبدیل کرکے خود نئے انتخابات کا راستہ ہموار کیا جائے۔ اس وقت جو پس پردہ معاملات نئے انتخابات پر اتفاق رائے کے لیے ہو رہے ہیں اگر یہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر اس برس نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکے گا۔
اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس کیا سیاسی کارڈ ہیں اور وہ کس حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ کر اپنا او راپنی جماعت کے لیے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمران جماعت میں یہ پہلو بھی زیر غور ہے کہ ہمیں فوری طور پر پی ٹی آئی کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کو قبول کرلینا چاہیے اور اس معاملہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن اسی نقطہ پر دوسرا موقف ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ایسی صورت میں عام انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس کا فائدہ بھی عمران خان کو ہی ہوگا۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بقول حکومتی حکمت عملی میں پنجاب میں گورنر راج کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو اس مطلب یہی ہوگا کہ نہ صرف بحران پیدا ہوگا بلکہ مسلم لیگ ن خود اپنے لیے بھی مسائل پیدا کرے گی۔ اسی طرح جو لوگ بھی حکومت کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ ان کو عدلیہ کہ اختیارات میں کمی کرنی چاہیے وہ بھی ان حالات میں درست حکمت عملی نہیں ہوگی۔
اس لیے مسلم لیگ ن کو اس وقت سیاسی مہم جوئی سے زیادہ توجہ اس نقطہ پر دینی ہوگی کہ ملک میں نئے انتخابات کے تناظر میں وہ کیا سیاسی حکمت عملی اختیار کریں جو ان کو سیاسی فائدہ دے سکے۔ کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کو عملا ایک جارحانہ حکمت عملی درکار ہے لیکن یہ جارحانہ حکمت عملی کی بنیاد سیاست ہونی چاہیے اور نہ کہ وہ اداروں سے ٹکراو کی سیاست کے کھیل میں حصہ بن جائیں جو مزید مسائل کو جنم دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
اس وقت مسلم لیگ ن کی کوشش ہے کہ وہ تنہا سیاسی فلائٹ لینے کے بجائے اپنے اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے آگے بڑھے۔ کیونکہ مسلم لیگ ن کو اندازہ ہے کہ جو صورتحال اب ان کو سیاسی محاذ پر درپیش ہے اس میں اسے ہر صورت اپنے اتحادیوں بالخصوص آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی حمایت درکار ہے۔ نواز شریف بھی اتحادی جماعتوں کی حمایت کی مدد سے ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر اتحادی جماعت کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں اور ضروری نہیں کہ ان کے مفادات اور مسلم لیگ ن کے سیاسی مفادات میں ہم آہنگی ہو۔
اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکمران اتحادیوں میں ہمیں مختلف حکمت عملیوں پر تضاد کا پہلو بھی دیکھنے کو ملے گا کیونکہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری، اسفند یار ولی خان سمیت محمود خان اچکزئی کا مل کر مشترکہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا خود بڑا چیلنج ہوگا۔ اگرچہ ان سب کا مشترکہ سیاسی مخالف عمران خان ہی ہیں مگر ان کی اپنی علاقائی او رجماعتی سیاست کے مفادات بھی اہم ہیں۔
کیونکہ ملک میں عام انتخابات زیادہ دور نہیں اس لیے اس وقت قومی سیاست میں انتخابی سیاست کی اہمیت زیادہ ہے اور جو بھی سیاسی جوڑ توڑ ہمیں دیکھنے کو ملے گا، اس میں انتخابی سیاست کا رنگ بھی نمایاں ہوگا اور نئے سیاسی جوڑ توڑ بھی دیکھنے کو ملیں گے۔
ایسے میں ٹکراو کی سیاست کسی بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں ہوگی اور اس سے ہر سطح پر گریز کیا جانا چاہیے۔ اس لیے حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو ملک میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم کو گہرا کرنے کے بجائے مفاہمت اور عدم ٹکراو کی سیاست کو ہی آگے بڑھانا چاہیے اور سیاسی معاملا ت کو خود عملا سیاست دان مل کر حل کریں۔ ان معاملات میں اداروں پر حملے یا ان کو عملا متنازعہ بنانے کا کھیل کسی بھی صورت قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔