شاعر وسیم عالم سے وابستہ یادوں کا اک باب

وسیم عالم کا تعلق پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے

ISLAMABAD:
شاعری خالص جذبوں کی زبان ہے شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول سے جو مخصوص کرتا ہے اُسے من و عن لکھ دیتا ہے اور اُس کا قاری جب پڑھتا ہے تو اُسے یوں لگتا ہے جیسے یہ لکھنے والا مجھے اندر سے جانتا ہے۔ ایسے خوبصورت جذبوں کا اظہار کرنیوالے شاعر، کہانی نویس، کالم نگار اور کمپیئر وسیم عالم کا تعلق پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے مگر وہ کئی برسوں تک شہر ِلاہور میں مقیم رہے۔

گوجرانوالہ میں ادبی پروگرامز میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ معروف ادبی تنظیموں مرکزی ''بزم اقبال'' جس کے روحِ رواں ثاقب عرفانی مرحوم تھے اور ''سفینہ ادب'' جس کے روح رواں ڈاکٹر سعید اقبال سعدی ہیں کے پروگرامز میں شامل ہوتے رہے۔ انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز 1999سے کیا۔ اس سے قبل بچوں کے رسائل اور اخبارات کے صفحات میں کہانیاں لکھتے رہے۔ بچوں کے لیے اردو، پنجابی اور پوٹھوہاری میں نظمیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔

وسیم عالم خوبصورت جواں فکر شاعر تھے جو نوجوان شعراء میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے تھے۔ ابتدائی دنوں میں اُردو ماہیا تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ان کے استادِ گرامی امین خیال مرحوم ایک کہنہ مشق اُستاد شاعر تھے اور پاکستان میں اردو ماہیا تحریک کے روح رواں تھے ان کے کہنے پر کئی ایک سینئر شعراء نے بھی اردو ماہیا تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھی دنوں وسیم عالمؔ کی ایک کتاب ''سب رنگ اُلفت کے'' شایع ہوئی جو اردو ماہیا پر مشتمل ہے۔ وسیم عالم کی شاعری میں نہ صرف محبت کا رنگ بلکہ سیاسی، سماجی اور معاشی پہلوؤں پر بھی باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ 2002 میں جب چلڈرن فاؤنڈیشن پاکستان کے زیر اہتمام اُردو غزل مقابلہ ہوا تو اس میں وسیم عالمؔ کی غزل کو اول انعام سے نوازا گیا۔

2009میں وسیم عالم نے اردو ماہیا تحریک اور بچوں کے اردو ادب میں ایک نمایاں اور منفرد تجربہ ''ماہیا کہانی'' کا کیا جسے بہت سراہا گیا اور انھی ماہیا کہانیوں پر مشتمل کتاب ''منظوم ماہیا کہانیاں'' منظر عام پر آئی۔ وہ لاہور میں کافی مصروف تھے وہ بچوں کی معروف اور فعال ادبی تنظیم اکادمی ادبیاتِ اطفال کے پانچ سال سے سیکریٹری کے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے تھے۔

مختلف اخبارات میں ادبی اور تعلیمی کالموںکے علاوہ دیگر موضوعات پر کافی سنجیدہ مضامین لکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔وسیم عالمؔ کی شاعری میں روایتی اور جدید رنگ دونوں کے ملاپ سے خوبصورت اشعار سامنے آئے جو اردو ادب میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لیے موضوع ہیں۔ بلاشبہ ان کی شاعری رنگا رنگ موضوعات سے مزین ہے، جو ایک شاعر کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ وسیم عالمؔ کا حلقہ ارباب اتنا وسیع نہیں تھا پھر بھی وہ بہت سی اہم ادبی شخصیات کے رابطے میں رہتے، ان کا کہنا تھا کہ ''اپنے ادبی بزرگوں اور دوستوں سے میل ملاپ آپ کے ادب میں نکھار کا سبب بھی بنتا ہے اور آپس میں محبتیں بانٹنے کا ذریعہ بھی۔'' بقول شاعر

زندگی بھر لی ہے میں نے دوستوں کی ہر دُعا

ایسے تھوڑی یہ جہاں اپنا ہُوا ہے مہرباں

وسیم عالم کے اندر کا تخلیقی عالم بہت وسیع تر تھا۔ ان کی شاعری میں کہیں کہیں جدت کا رنگ نمایا ں نظر آتا ہے۔ جو انھیں ادبی حلقوں میں معتبر کرنے کا حوالہ تھا۔ ان کی ''کاغذ'' ردیف پر کہی ہوئی غزل عوام میں بہت مقبول ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ یہی غزل ریڈیو پاکستان کے ایک پروگرام میں بھی بہت بار سننے کو ملی۔ اس پروگرام کے میزبان ابصار عبدالعلی (مرحوم) تھے۔ اس پروگرام میں صرف نوجوان شعرا کو متعارف کروایا جاتا۔ ان کی اس غزل کو ایک نابینا گلوکار امانت ساز نے بھی ریڈیو پروگرام۔ ''غنچہ شوق'' میں بڑے سریلے انداز میں گایا۔ اس غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

بڑا دُشوار ہوتا ہے سماں ترکِ تعلق کا

کہیں الفاظ ٹیڑے ہیں کہیں بھیگا ہوا کاغذ

یہ اپنی بے بسی سے کیا مری ہمت بڑھاتا ہے

ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا بہتا ہوا کاغذ


وسیم عالم کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں، نظموں میں نئے جدت اور نئے خیالات سے روشناس کروایا۔ وہ زبان و بیاں کے اعتبار سے بہت نرم لہجہ رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت میں سادگی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ نمود و نمائش سے بہت دور تھے۔ وہ درویش طبع انسان تھے اور محبت کا جہاں اپنے اندر آباد کیے ہوئے تھے اسی لیے ہر کوئی ان سے پہلی ہی ملاقات میں ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ میرے اس شعر کے مصداق:

عمر بھر درس محبت کا دیا ہو جس نے

ایسے درویش کو دشمن بھی دُعا دیتے ہیں

میں نے جب ادبی دنیا میں آنکھ کھولی تو مجھے معروف شاعر، محقق، دانشور اور مترجم پروفیسر احمد عقیل روبی مرحوم رہنمائی حاصل ہوئی، یوں اُن کی وفات کے بعد میرے فن کو نئی روح پھونکنے والی شخصیت وسیم عالم تھے۔ ان سے میری پہلی ملاقات میرے دیرینہ دوست خواجہ آفتاب عالم کے توسط سے ہوئی۔ وسیم عالم میری زندگی کے کٹھن راستوں کے میرے ہمراز بھی تھے۔ ان کے بہت سے شاگرد بھی ہیں۔ ان میں سے کئی اپنا اُستاد ماننے سے ہچکچاتے ہیں کہ شاید وہ بھی اب بڑے شاعر ہو گئے ہیں مگر ان کے کلام کو پڑھ کر آج بھی ہر لفظ سے وسیم عالم کے زورِ قلم کا نشاں ملتا ہے۔

تمہارے پاس آکر لفظ بولیں گے

مری تحریر سے تصویر جاگے گی

وسیم عالم میرے مجلہ نوائے ادب کے مدیر بھی رہے اور پاکستان کے تاریخی ادبی مجلہ ''ادبِ لطیف'' کی ادارت ناصر زیدی مرحوم کو جب ملی تو ان کے آخری ایام میں ''ادبِ لطیف'' میں ان کے قلمی معاونت میںان کا بھرپور ساتھ دیا۔ گوجرانوالہ کی ملک گیر ادبی تنظیم ''الفانوس'' کا نہ صرف نام تجویز کیا بلکہ اس کی بنیاد بھی رکھی۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر میں بہت سی کتابوں کے دیباچے اور فلیپ تحریر کیے اور زندگی کے آخری ایام میں وہ ''ابتک'' اخبار کے ادبی صفحہ پر ''ادیب اور اُن کی عادات'' پر قسط وار مضمون جاری رکھے ہوئے تھے۔

وسیم عالم سے وبستہ یادوں کا تذکرہ ایک ہی مضمون میں قلم بند کرنا مشکل ہو گا۔ بہرحال بہت سے دلوں میں علم کے چراغ روشن کرنیوالے وسیم عالم 17 اپریل2022 کو حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ ان کے شاگرد اور ان کے بچپن کے دوست حافظ نوید شاکر نے پڑھائی اور انھیں ان کے آبائی گاؤں مقبول شہید آباد موڑ ایمن آباد گوجرانوالہ میں دفن کیا گیا۔آخر میںجوانمرگ شاعر وسیم عالم کی یاد میں چند اشعار:

ادب کے جہاں کا چمکتا ستارہ

بڑا بے ضرر اور بڑا ہی تھا پیارا

مَیں ''عالم'' کے غم میں بڑا غم زدہ ہوں

وہ ساگرؔ مجھے جان و دل سے تھا پیارا
Load Next Story