ہمارے اندر لاتعداد قبریں موجود ہیں
عوام الناس کے مطالعے کے لیے شایع کی جانے والی کوئی کتاب نہیں
عظیم فلسفی بادشاہ Marcus Aurelius کی کتاب "Meditations" کو سابق چائنیزپرائم منسٹر Wen Jiabao نے سو مرتبہ پڑھا، ہیری پارٹر کی لکھاری جے کے رولنگ اس کتاب کو اپنی انسپر یشن، سابق امریکی صدر تھیور ڈور روز ویلٹ اپنا رہنما، فوراسٹار امریکی جرنیل جیمز میٹس اسے لازمی، سوشل ایکٹو سٹ بیٹ رائس اسے عقیدت، اداکار آرنلڈ شوازنگر خود کو اس کتاب کا پر ستار بتاتے ہیں ۔ اس کے چاہنے والوں کی فہر ست بہت طویل ہے۔
اس کتاب میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ کہ صدیوں بعد بھی اس کی اہمیت اور افادیت کم نہیں ہو رہی۔ اس کتاب کی خاصیت اس میں موجود وزڈم کے علاوہ یہ ہے کہ یہ عوام الناس کے مطالعے کے لیے شایع کی جانے والی کوئی کتاب نہیں بلکہ روم کے بادشاہ Marcus Aureliusکے ذاتی "Journals" ہیں۔ ان جرنلز میں مارکس رات کی تاریکی میں خود سے مخاطب ہے۔
دنیا کا سب سے طاقتور شخص ہونے کی وجہ سے اپنے رتبے اور پوزیشن کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکس یقینا اپنے جذبات، احساسات اور سو چوں کو کسی کے ساتھ زیر بحث نہیں لاسکتا تھا خود کو سمجھنے اور اپنا ویژن بہتر بنانے کے لیے مارکس نے جرنلنگ "Journaling" کا سہارا لیا اس کے مرنے کے بعد ان جرنلز کو ایک کتاب کی شکل دے کر 1558 یا 1559 میں شائع کیا گیا۔
اس کتاب کی خوبصورتی اس کے Rawness اور اس کا کھر اپن ہے کیونکہ یہ کسی خاص آڈئینس کو متا ثر کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ اس میں ایک شخص خلوت"Solitude" میں اپنے آپ سے مخاطب ہے۔ جان ہاپکنس ، رائس اور کو لمبیا یو نیورسٹی کے ریسر چر ز کی ایک رپورٹ What we write May not be what We say کے مطابقـ'' بولتے '' اور ''لکھتے'' وقت دماغ کے مختلف حصوں میں ایکٹو ٹی نوٹ کی جاتی ہے یعنی لکھنا یقینا بولنے سے ایک مختلف تجربہ ہے ۔
سوزن ڈیوڈ ہارورڈ میڈیکل اسکول سے وابستہ مینجمینٹ تھنکر ہیں وہ ہارورڈ بزنس ریوو میں جذبات اور سوچوں کو لکھ کر اظہار کرنے اور سمجھنے کو بہترین پر یکٹس بتاتی ہیں۔ جرنلنگ کیوں کر ضروری ہے ایمو شنز کی جرنلنگ کیا ہے اور یہ کس طرح سے ہوتی ہے ؟ جرنلنگ مختلف مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کی جاسکتی ہے مثلاً اپنے گو لز پلان کرنا، شاعری ، افسانے، کہانیاں وغیرہ لکھ کر اپنی کریٹویٹی کا اظہار کرنا، اپنے دن کے متعلق تجربات یا شکر گزاری کو پر یکٹس کرکے صفحے بھرنا ، لیکن اپنے لاشعور "Subconscious" میں موجود جذبات اور احساسات کو لکھ کر اس کا اظہار کرنا بھی ایک پر یکٹس ہے ۔ آپ جب اپنے جذبات اور احساسات کااظہار نہیں کرتے تو پھر آپ کے اندر کے اندھیرے آپ کو آہستہ آہستہ نگلنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ آپ کے جذبات اور احساسات اگر باہر نہیں آئیں تو پھر وہ آپ کے اندر ایسی تباہی وبربادی پھیلاتے ہیں جن کاتصور بھی ناممکن ہے ۔
آج ہمارے سماج کا سب سے وحشت نا ک المیہ یہ ہے کہ لوگ ہر زیادتی ، ناانصافی ، ظلم ، بربادی مسلسل سالوں سے برداشت پر برداشت کیے جارہے ہیں بغیر کسی اظہار کے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں اب گونگے ، اندھے اور بہرے انسان بستے ہیں ، یاد رکھو اگر تم اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار نہیں کرو گے تو ایک روز شدت غم اور درد سے پھٹ جاؤ گے۔
لگتا ہے ڈبلیو بی یٹیس کے الفاظ سچ ہو گئے ہیں کہ'' لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کردیتی ہے '' پچاس برس بعد نوبیل امن انعام اس کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945 میںاس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کر دیا تھا بالکل آخری لمحے میںMoriah کی پہاڑی پر قربانی کی موت سے بچ نکلا تھا ۔ اس کانام ایلی ویلز یل تھا۔
اس وقت اس کی عمر صرف سترہ برس تھی ۔ اپنے نوبیل خطبے میں اس نے کہاتھا '' زندہ رہنے کے لیے جو کچھ ضروری ہوتا ہے اس کو بھلا دینے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہم یادداشت کے بارے میں اپنی سب سے بڑی ذمے داری کو کس طرح نبھا سکتے ہیں ۔
بچ جانے والے ،زندہ لوگوں کو سب کچھ بتا دینا چاہتے تھے مظلوم کی تنہائی اور ان کے غم کے بارے میں ماؤں کو پاگل بنادینے والی آنسوؤں کے بارے میں آتشیں آسمان کے نیچے بد بختوں کی دعاؤں کے بارے میں ۔ انھیں بچے کو بتادینا چاہیے تھا جو اپنی ماں کی گود میں چھپا ہوا آہستہ آہستہ پوچھ رہا تھا '' کیا اب میں رو سکتا ہوں'' ؟ انھیں اس بیمار فقیر کے بارے میں بتا دینا چاہیے تھا جو جانوروں کے لیے بنائی گئی گاڑیوں میں بند، اپنے ساتھیوں کے لیے دعائیں کررہاتھا اور اس چھوٹی سی لڑکی کے بارے میں بھی جو اپنی دادی سے چمٹی ہوئی سر گو شی میں کہہ رہی تھی ''گھبرائیے نہیں ،موت سے خو ف نہ کھائیے ۔ میں تو خوف ذدہ نہیں ہوں۔ '' وہ صرف سات برس کی تھی ، وہ چھوٹی سی بچی جو بغیر کسی خوف کے اور بغیر کسی ملال کے موت کی آغو ش میں چلی گئی ۔
ہم میں سے ہر ایک ہر قصے کو اور ہر مقابلے کو بیان کرنے پر مجبور تھا ۔ مرنے والوں کی کچھ ایسی خواہشیں اور ایسی وصیتیں تھیں کہ ہم میں سے ہر ایک گواہی دینے پر مجبور تھا ، چونکہ نام نہاد مہذب دنیا کو ان کی زندگیوں کی ضرورت نہ تھی ۔ اس لیے اس دنیا کو ان کی موت سے آباد ہوجانے دو۔ عظیم مورخShimon Dubnov ہمارا رہنما تھا موت کے آخری لمحے تک وہ Riga کے یہودی پاڑے میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا رہا ''یہودیو یہ سب کچھ لکھ ڈالو '' اس کے کہے پر توجہ کی گئی ۔راتوں رات یہودی پاڑوں میں بلکہ موت کے کیمپوں میں بھی بے شمار مقتولین روزنامچے اورتاریخ لکھنے والے بن گئے۔
گواہی دینا ایک آسیبی کیفیت بن گیا تھا وہ ہمارے لیے نظمیں ، خطوط ، روزنامچے اور ناولوںکے ٹکڑے چھوڑ گئے تھے جن میں سے کچھ سے پوری دنیا واقف ہے اور کچھ ابھی تک شایع نہیں ہوسکے ہیں۔ '' اس لیے میرے ہم وطنوں جو کچھ تمہارے ساتھ بیت رہی ہے سب کچھ لکھ ڈالو۔ ہر ظلم و زیادتی ،ہر ناانصافی ، بھوک ، افلاس ، فاقے ، آہیں و بکائیں ، فریادیں سب لکھ ڈالو ۔ یاد رکھو انسانیت کے وقار کا مسئلہ ناقابل تنسیخ ہے ۔ ایک فرد ہی نہیں سارے انسان ہمیشہ ایک ہی قدر کے حقدار ہوتے ہیں ۔
نو بیل انعام یافتہ ادیب ارنسنٹ ہیمنگو ے انگر یزی کے شاعر John Dunnکے ایک مشہور مقولے سے اپنے ایک ناول کی ابتداء کرتا ہے '' کوئی بھی شخص بذات خود جزیرہ نہیں ہوتا ، ہرانسان پورے براعظم کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اگر سمندر ایک روڑا بھی بہا لے جائے تو یورپ چھوٹا ہوجائے گا جیسے ایک راس زمین ، اس طرح جیسے تم اور تمہارے دوست ، ایک فرد کی موت بھی مجھے کوتاہ کردیتی ہے اس لیے کہ میں بنی نو ع انسان کا حصہ ہوں ۔
لہٰذا یہ کبھی نہ پوچھنا کہ اس بار گھنٹی کس کے لیے بج رہی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے ہی بچ رہی ہو۔ '' اس لیے میرے دوستو اپنے سارے دکھ لکھ ڈالو ، ساری نفرتیں جو تم نے سہی ہیں سب لکھ ڈالو، ساری مصیبتیں جو سہی ہیں سب لکھ ڈالو ، اپنے دوست ، رشتہ دار جو اذیتیں اٹھا اٹھا کر مر چکے ہیں یا خود کشیاں کر چکے ہیں ان کی ساری اذیتیں لکھ ڈالو ، یاد رکھو اگر تم نے نہیں لکھا تو پھر یوں ہو گاجیسے ہم ایک بار پھر انھیں موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں اور ان کی زندگی اور موت دونوں کو بے مقصد بنانے کے ذمے دار ہوں گے ۔ اپنی ساری یادوں کو لکھ ڈالو کیونکہ ایسی اذیت ناک یادوں کے بوجھ تلے کوئی ایک با معنی زندگی کس طرح گذار سکتا ہے ؟ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کرسکے مگر ان کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں ۔ سب کچھ بھول جانا تمہیں کسی صورت زیبا نہیں دیتا ہے، اس لیے سب کچھ لکھ ڈالو اور دنیا کو اپنے آنسوؤں سے آباد ہوجانے دو ۔
اس کتاب میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ کہ صدیوں بعد بھی اس کی اہمیت اور افادیت کم نہیں ہو رہی۔ اس کتاب کی خاصیت اس میں موجود وزڈم کے علاوہ یہ ہے کہ یہ عوام الناس کے مطالعے کے لیے شایع کی جانے والی کوئی کتاب نہیں بلکہ روم کے بادشاہ Marcus Aureliusکے ذاتی "Journals" ہیں۔ ان جرنلز میں مارکس رات کی تاریکی میں خود سے مخاطب ہے۔
دنیا کا سب سے طاقتور شخص ہونے کی وجہ سے اپنے رتبے اور پوزیشن کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکس یقینا اپنے جذبات، احساسات اور سو چوں کو کسی کے ساتھ زیر بحث نہیں لاسکتا تھا خود کو سمجھنے اور اپنا ویژن بہتر بنانے کے لیے مارکس نے جرنلنگ "Journaling" کا سہارا لیا اس کے مرنے کے بعد ان جرنلز کو ایک کتاب کی شکل دے کر 1558 یا 1559 میں شائع کیا گیا۔
اس کتاب کی خوبصورتی اس کے Rawness اور اس کا کھر اپن ہے کیونکہ یہ کسی خاص آڈئینس کو متا ثر کرنے کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ اس میں ایک شخص خلوت"Solitude" میں اپنے آپ سے مخاطب ہے۔ جان ہاپکنس ، رائس اور کو لمبیا یو نیورسٹی کے ریسر چر ز کی ایک رپورٹ What we write May not be what We say کے مطابقـ'' بولتے '' اور ''لکھتے'' وقت دماغ کے مختلف حصوں میں ایکٹو ٹی نوٹ کی جاتی ہے یعنی لکھنا یقینا بولنے سے ایک مختلف تجربہ ہے ۔
سوزن ڈیوڈ ہارورڈ میڈیکل اسکول سے وابستہ مینجمینٹ تھنکر ہیں وہ ہارورڈ بزنس ریوو میں جذبات اور سوچوں کو لکھ کر اظہار کرنے اور سمجھنے کو بہترین پر یکٹس بتاتی ہیں۔ جرنلنگ کیوں کر ضروری ہے ایمو شنز کی جرنلنگ کیا ہے اور یہ کس طرح سے ہوتی ہے ؟ جرنلنگ مختلف مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کی جاسکتی ہے مثلاً اپنے گو لز پلان کرنا، شاعری ، افسانے، کہانیاں وغیرہ لکھ کر اپنی کریٹویٹی کا اظہار کرنا، اپنے دن کے متعلق تجربات یا شکر گزاری کو پر یکٹس کرکے صفحے بھرنا ، لیکن اپنے لاشعور "Subconscious" میں موجود جذبات اور احساسات کو لکھ کر اس کا اظہار کرنا بھی ایک پر یکٹس ہے ۔ آپ جب اپنے جذبات اور احساسات کااظہار نہیں کرتے تو پھر آپ کے اندر کے اندھیرے آپ کو آہستہ آہستہ نگلنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ آپ کے جذبات اور احساسات اگر باہر نہیں آئیں تو پھر وہ آپ کے اندر ایسی تباہی وبربادی پھیلاتے ہیں جن کاتصور بھی ناممکن ہے ۔
آج ہمارے سماج کا سب سے وحشت نا ک المیہ یہ ہے کہ لوگ ہر زیادتی ، ناانصافی ، ظلم ، بربادی مسلسل سالوں سے برداشت پر برداشت کیے جارہے ہیں بغیر کسی اظہار کے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں اب گونگے ، اندھے اور بہرے انسان بستے ہیں ، یاد رکھو اگر تم اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار نہیں کرو گے تو ایک روز شدت غم اور درد سے پھٹ جاؤ گے۔
لگتا ہے ڈبلیو بی یٹیس کے الفاظ سچ ہو گئے ہیں کہ'' لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کردیتی ہے '' پچاس برس بعد نوبیل امن انعام اس کو دیا گیا جو بچ نکلا تھا 1945 میںاس راکھ کے ڈھیر سے جس کے شعلوں نے چھ لاکھ یہودیوں کو نابود کر دیا تھا بالکل آخری لمحے میںMoriah کی پہاڑی پر قربانی کی موت سے بچ نکلا تھا ۔ اس کانام ایلی ویلز یل تھا۔
اس وقت اس کی عمر صرف سترہ برس تھی ۔ اپنے نوبیل خطبے میں اس نے کہاتھا '' زندہ رہنے کے لیے جو کچھ ضروری ہوتا ہے اس کو بھلا دینے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہم یادداشت کے بارے میں اپنی سب سے بڑی ذمے داری کو کس طرح نبھا سکتے ہیں ۔
بچ جانے والے ،زندہ لوگوں کو سب کچھ بتا دینا چاہتے تھے مظلوم کی تنہائی اور ان کے غم کے بارے میں ماؤں کو پاگل بنادینے والی آنسوؤں کے بارے میں آتشیں آسمان کے نیچے بد بختوں کی دعاؤں کے بارے میں ۔ انھیں بچے کو بتادینا چاہیے تھا جو اپنی ماں کی گود میں چھپا ہوا آہستہ آہستہ پوچھ رہا تھا '' کیا اب میں رو سکتا ہوں'' ؟ انھیں اس بیمار فقیر کے بارے میں بتا دینا چاہیے تھا جو جانوروں کے لیے بنائی گئی گاڑیوں میں بند، اپنے ساتھیوں کے لیے دعائیں کررہاتھا اور اس چھوٹی سی لڑکی کے بارے میں بھی جو اپنی دادی سے چمٹی ہوئی سر گو شی میں کہہ رہی تھی ''گھبرائیے نہیں ،موت سے خو ف نہ کھائیے ۔ میں تو خوف ذدہ نہیں ہوں۔ '' وہ صرف سات برس کی تھی ، وہ چھوٹی سی بچی جو بغیر کسی خوف کے اور بغیر کسی ملال کے موت کی آغو ش میں چلی گئی ۔
ہم میں سے ہر ایک ہر قصے کو اور ہر مقابلے کو بیان کرنے پر مجبور تھا ۔ مرنے والوں کی کچھ ایسی خواہشیں اور ایسی وصیتیں تھیں کہ ہم میں سے ہر ایک گواہی دینے پر مجبور تھا ، چونکہ نام نہاد مہذب دنیا کو ان کی زندگیوں کی ضرورت نہ تھی ۔ اس لیے اس دنیا کو ان کی موت سے آباد ہوجانے دو۔ عظیم مورخShimon Dubnov ہمارا رہنما تھا موت کے آخری لمحے تک وہ Riga کے یہودی پاڑے میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا رہا ''یہودیو یہ سب کچھ لکھ ڈالو '' اس کے کہے پر توجہ کی گئی ۔راتوں رات یہودی پاڑوں میں بلکہ موت کے کیمپوں میں بھی بے شمار مقتولین روزنامچے اورتاریخ لکھنے والے بن گئے۔
گواہی دینا ایک آسیبی کیفیت بن گیا تھا وہ ہمارے لیے نظمیں ، خطوط ، روزنامچے اور ناولوںکے ٹکڑے چھوڑ گئے تھے جن میں سے کچھ سے پوری دنیا واقف ہے اور کچھ ابھی تک شایع نہیں ہوسکے ہیں۔ '' اس لیے میرے ہم وطنوں جو کچھ تمہارے ساتھ بیت رہی ہے سب کچھ لکھ ڈالو۔ ہر ظلم و زیادتی ،ہر ناانصافی ، بھوک ، افلاس ، فاقے ، آہیں و بکائیں ، فریادیں سب لکھ ڈالو ۔ یاد رکھو انسانیت کے وقار کا مسئلہ ناقابل تنسیخ ہے ۔ ایک فرد ہی نہیں سارے انسان ہمیشہ ایک ہی قدر کے حقدار ہوتے ہیں ۔
نو بیل انعام یافتہ ادیب ارنسنٹ ہیمنگو ے انگر یزی کے شاعر John Dunnکے ایک مشہور مقولے سے اپنے ایک ناول کی ابتداء کرتا ہے '' کوئی بھی شخص بذات خود جزیرہ نہیں ہوتا ، ہرانسان پورے براعظم کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اگر سمندر ایک روڑا بھی بہا لے جائے تو یورپ چھوٹا ہوجائے گا جیسے ایک راس زمین ، اس طرح جیسے تم اور تمہارے دوست ، ایک فرد کی موت بھی مجھے کوتاہ کردیتی ہے اس لیے کہ میں بنی نو ع انسان کا حصہ ہوں ۔
لہٰذا یہ کبھی نہ پوچھنا کہ اس بار گھنٹی کس کے لیے بج رہی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تمہارے لیے ہی بچ رہی ہو۔ '' اس لیے میرے دوستو اپنے سارے دکھ لکھ ڈالو ، ساری نفرتیں جو تم نے سہی ہیں سب لکھ ڈالو، ساری مصیبتیں جو سہی ہیں سب لکھ ڈالو ، اپنے دوست ، رشتہ دار جو اذیتیں اٹھا اٹھا کر مر چکے ہیں یا خود کشیاں کر چکے ہیں ان کی ساری اذیتیں لکھ ڈالو ، یاد رکھو اگر تم نے نہیں لکھا تو پھر یوں ہو گاجیسے ہم ایک بار پھر انھیں موت کے منہ میں ڈال رہے ہوں اور ان کی زندگی اور موت دونوں کو بے مقصد بنانے کے ذمے دار ہوں گے ۔ اپنی ساری یادوں کو لکھ ڈالو کیونکہ ایسی اذیت ناک یادوں کے بوجھ تلے کوئی ایک با معنی زندگی کس طرح گذار سکتا ہے ؟ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہم اپنے مردوں کو دفن نہیں کرسکے مگر ان کی قبریں ہمارے اندر موجود ہیں ۔ سب کچھ بھول جانا تمہیں کسی صورت زیبا نہیں دیتا ہے، اس لیے سب کچھ لکھ ڈالو اور دنیا کو اپنے آنسوؤں سے آباد ہوجانے دو ۔