خواتین پر پابندی

ایک زمانہ میں قبائلی علاقہ میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق استعمال کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا

tauceeph@gmail.com

TORKHAM:
قبائلی علاقہ باجوڑ کی تحصیل سالارزئی کے بزرگوں کی کونسل نے یہ حکم صادر کیا کہ خواتین کو تفریحی مقامات پر جانے کا حق نہیں ہے۔ کونسل کے گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں متفقہ طور پر اس رائے پر اتفاق کیا گیا کہ تحصیل میں فحاشی اور عریانی جیسے سماجی مرض کے خاتمہ کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کے ساتھ خواتین کو تفریحی مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

بزرگوں کی کونسل نے اپنے اجلاس میں اس بات پر بھی غور و فکر کیا کہ جو سیاح دور دراز علاقوں یا دیگر ممالک سے اس علاقہ کے تفریحی مقامات پر آتے ہیں اگر سیاحوں کے گروہ صرف مردوں پر مشتمل ہیں تو یہ اسلامی روایات کے عین مطابق ہے مگر اگر ان مرد سیاحوں کے ساتھ خواتین بھی تفریحی مقامات کی سیر کو آتی ہیں تو یہ صورتحال اسلامی روایات کے منافی ہے، اگر کوئی خاتون سیاح اکیلی آجائے تو اس کو بھی تحصیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بزرگوں کے اس فیصلہ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحصیل میں شدید اخلاقی بحران پیدا ہوا ہے جس کے تدارک کے لیے یہ نسخہ تلاش کیا گیا ہے۔

سالار زئی تحصیل کی آبادی 2لاکھ 67 ہزار 635 افراد پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد ایک لاکھ 34 ہزار 539 ہے جب کہ خواتین کی تعداد ایک لاکھ 33 ہزار 83 ہے جب کہ 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس تحصیل میں 14ٹرانس جینڈر بھی تھے۔

خیبرپختون خوا حکومت کے فراہم کردہ اعدا دو شمار میں بتایا گیا ہے کہ تحصیل میں خواندگی کا تناسب 36 فیصد (38,350) سے کچھ زیادہ ہے اور اس کا رقبہ 2200 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ سالار زئی تحصیل کو دیہی علاقہ شمار کیا گیا ہے جہاں لوگوں کا روزگار زیادہ تر زراعت ، مویشی، غلہ بانی اور افغانستان سے ہونے والی تجارت پر ہے۔ ایک اخبار میں بتایا گیا ہے کہ بزرگوں کی کونسل میں اکثریت جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ کی ہے مگر اس علاقہ میں تحریک انصاف کا اثر خاصا بڑھا ہے۔

خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ صوبائی حکومت نے اس غیر آئینی مطالبہ کی مذمت کرنے یا تحصیل کے بزرگوں کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ افغانستان میں جب طالبان مضبوط ہوئے تو اس کے اثرات براہِ راست قبائلی علاقہ پر پڑتے ہیں۔ 20ویں صدی میں افغانستان میں امان اﷲ اور پھر ظاہر شاہ مسند اقتدار پر فائز ہوئے۔

تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان دونوں حکمرانوں نے افغانستان میں ایک لبرل معاشرہ قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ افغان خواتین کو تعلیم حاصل کرنے، روزگار کے حصول اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اور تفریح کرنے کے حقوق حاصل ہوئے۔ کمیونسٹ پارٹی کا دور آیا۔ کامریڈ نور محمد تراکئی، حفیظ اﷲ امیدن، بابرک کارمل ، ڈاکٹر نجیب اﷲ کے ادوار میں خواتین کو مردوں کے برابر حیثیت دینے کے لیے بنیادی اقدامات کیے گئے۔ حامد کرزئی اور ڈاکٹر اشرف غنی کے ادوار میں خواتین کو زندگی کے ہر شعبہ میں برابری کا درجہ دینے کے لیے بنیادی اصلاحات کی گئیں۔

امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمہ کا پروجیکٹ شروع کیا تو ہمسایہ ملک کی حکومت اس پروجیکٹ کے اسٹیک ہولڈرز میں شامل ہوگئی، اگرچہ اس پروجیکٹ کے تحت قبائلی سرداروں اور دنیا بھر سے انتہاپسند مذہبی عناصر کو قبائلی علاقوں میں جمع کیا گیا مگر امریکی اور یورپی صحافی خواتین اور سماجی کام کرنے والی خواتین کی قبائلی علاقہ اور افغانستان میں آمدورفت شروع ہوئی۔


قبائلی علاقہ میں ان خواتین کی موجودگی پر کبھی اعتراضات نہیں ہوئے مگر بعد میں طالبان کے دور میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک شروع ہوا اور اس کے اثرات باجوڑ سمیت قبائلی علاقہ اور خیبر پختون خوا پر پڑے۔ جب اتحادی افواج نے کابل پر قبضہ کیا اور طالبان کے خلاف آپریشن ہوا تو عر ب طالبان سمیت افغان اور پاکستانی طالبان نے قبائلی علاقہ میں اپنی محفوظ کمین گاہیں قائم کیں۔ قبائلی علاقوں میں خواتین کے اسکولوں کو مسمار کرنے اور خواتین، اساتذہ، ڈاکٹروں اور سماجی کام کرنے والی خواتین پر تشدد کا دور شروع ہوا، یوں پورے قبائلی علاقہ میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے شروع ہوئے۔

گزشتہ 75 برسوں کے دوران قبائلی علاقہ میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتوں کے لیے بہت سے منصوبے شروع ہوئے۔ خواتین کی تعلیم کے لیے اسکول اور کالج قائم ہوئے۔ اس علاقہ کی خواتین کی اکثریت نے تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی لی۔ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے خواتین کے لیے بہت سے وظائف جاری کیے۔

بین الاقوامی اداروں اور خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرنے والے ممالک کے فراہم کردہ وظائف سے خواتین نے استفادہ کیا اور کئی سو خواتین اب تک امریکا ، یورپ اور چین جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکی ہیں۔

ایک زمانہ میں قبائلی علاقہ میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق استعمال کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ 2000میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ اگر خواتین کی مطلوبہ تعداد نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا تو انتخاب منسوخ ہوجائے گا۔ اس پابندی سے بچنے کے لیے مذہبی جماعتوں نے بھی خواتین کے ووٹ کے حق کی آگہی کے لیے مہمیں منظم کیں۔

یوں قبائلی علاقہ میں خواتین کے ووٹوں کی شرح مقررہ حد کے مطابق ہوگئی۔ اسی طرح تحریک انصاف خواتین کے محاذ پر متحرک نظر آتی ہے۔ یہ خواتین رات کو تحریک انصاف کے دھرنوں میں شریک ہوتی ہیں۔ مگر دوسری طرف باجوڑ میں خواتین کو ان کے آئینی حق سے محرو م کیا گیا ہے اور ان جماعتوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی مصلحت سے کام لیتے ہوئے خاموش ہیں۔

اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تحصیل میں خواتین اور مردوں کی تعداد تقریباً برابر ہے۔ اس فیصلہ سے آدھی آبادی کو اس کے بنیادی حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی طالبان سے کابل میں ہونے والے مذاکرات انتہائی اہم ہیں۔ ٹی ٹی پی کی شرائط ماننے کا مطلب پورے قبائلی علاقہ کو برسوں پیچھے دھکیل دینا ہے۔

بعض عناصر باجوڑ میں بھی اس ماحول کی ابتداء کرنے کے خواہاں ہیں، اگر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خدشہ ہے کہ اس علاقہ میں کوئی بڑا اخلاقی بحران موجود ہے تواس کی ساری ذمے داری مردوں پر عائد ہوتی ہے۔ خواتین کو تفریح کا حق اس ملک کے آئین نے دیا ہے، کوئی گروہ اس حق کو غضب نہیں کرسکتا۔ پشاور اور اسلام آباد کے حکمرانوں کو اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
Load Next Story