اسٹیٹ بینک کی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے سرمایہ کے انخلا کی تردید
آر ڈی اے کو ’فارن کرنسی ڈپازٹ پروٹیکشن آرڈیننس 2001 کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے,اسٹیٹ بینک
PESHAWAR:
اسٹیٹ بینک نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے سرمایہ کے انخلا کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ آر ڈی اے سے بڑی رقوم کے اخراج کا اندیشہ عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کی گھناؤنی کوشش اور حقیقت سے بعید ہے۔
اسٹیٹ ینک کے مطابق یہ اندیشہ بھی گمراہ کن اور حقیقت سے بعید ہے کہ آر ڈی اے سے بڑی رقوم کا اخراج ہوا ہے۔ کچھ رقم نکالی گئی ہیں لیکن اس کا سبب 2021ء کے اوائل میں شروع ہونے والی این پی سیز میں کی گئی سرمایہ کاریوں کی میعاد پوری ہونا تھا اور ان رقوم کا واپس بھیجا جانا آر ڈی اے ، جس کے گرد یہ پراڈکٹ تیار کی گئی تھی ، کی ایک اہم خصوصیت ہے تاکہ عوام میں اعتماد پیدا ہو۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جون 2022تک مجموعی طور پر 4.6 ارب ڈالر کے ساتھ 429,364 روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ کھولے گئے جس میں سے 2.9 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری نیا پاکستان سرٹیفکیٹس میں کی گئی۔ روشن اپنی کار کے تحت 8 ارب روپے کی منظور شدہ فنانسنگ سے 1550 کاریں ڈلیور کی گئیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق رقوم کے اخراج کی ایک اور وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جس کی بنا پر لوگ اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بچت نکال رہے ہیں۔ گذشتہ 23 ماہ کے دوران صرف 800 ملین ڈالر واپس بھیجے گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک حکومت سے مل کر روپے میں جاری کیے جانے والے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کی شرحوں پر نظر ثانی کررہا ہے اور امید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ آر ڈی اے کو 'فارن کرنسی ڈپازٹ پروٹیکشن آرڈیننس 2001ء' کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی آر ڈی اے اسکیم کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے، یہ اسکیم چلتی رہے گی۔ غیرمقیم پاکستانیوں کی رائے کی مناسبت سے آر ڈی اے مصنوعات میں اضافہ کررہے ہیں اور مستقبل قریب میں شکایات سے نمٹنے کا ایک نظام ''سنوائی''، بیمہ مصنوعات، پنشن پلانز اور روشن بزنس اکاؤنٹ متعارف کرارہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابقروشن ڈجیٹل اکاؤنٹ (آر ڈی اے) کا آغاز ستمبر 2020ء میں کیا گیا تھا جس سے غیرمقیم پاکستانیوں کو پاکستانی مالی مارکیٹ تک رسائی ملی۔ پُرکشش نرخوں پر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ (این پی سی)، روشن اپنی کار وغیرہ جیسی سرمایہ کاری اور صارفی مصنوعات کے ذریعے اسے مزید تقویت دی گئی۔
آر ڈی اے کے ذریعے آنے والی مجموعی رقوم اکاؤنٹس میں نہیں رہتیں بلکہ آر ڈی اے کی دیگر مصنوعات میں لگا دی جاتی ہیں یا پاکستان میں خرچ کی جاتی ہیں۔ لگ بھگ 500 ملین ڈالر کی رقم کھاتوں میں ہے ۔ علاوہ ازیں یہ رائے بھی درست نہیں کہ اسٹیٹ بینک آر ڈی اے میں آنے والی رقوم کے اصل اعدادوشمار چھپا رہا ہے، صرف ان رقوم کو نیا شمار کیا جاتا ہے جو بیرون ملک سے آتی ہیں، یہ افواہ غلط ہے کہ میعاد پوری ہونے پر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کو نئی رقوم شمار کیا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بینک نے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے سرمایہ کے انخلا کی تردید کرتے ہوئے کہاہے کہ آر ڈی اے سے بڑی رقوم کے اخراج کا اندیشہ عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کی گھناؤنی کوشش اور حقیقت سے بعید ہے۔
اسٹیٹ ینک کے مطابق یہ اندیشہ بھی گمراہ کن اور حقیقت سے بعید ہے کہ آر ڈی اے سے بڑی رقوم کا اخراج ہوا ہے۔ کچھ رقم نکالی گئی ہیں لیکن اس کا سبب 2021ء کے اوائل میں شروع ہونے والی این پی سیز میں کی گئی سرمایہ کاریوں کی میعاد پوری ہونا تھا اور ان رقوم کا واپس بھیجا جانا آر ڈی اے ، جس کے گرد یہ پراڈکٹ تیار کی گئی تھی ، کی ایک اہم خصوصیت ہے تاکہ عوام میں اعتماد پیدا ہو۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جون 2022تک مجموعی طور پر 4.6 ارب ڈالر کے ساتھ 429,364 روشن ڈجیٹل اکاؤنٹ کھولے گئے جس میں سے 2.9 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری نیا پاکستان سرٹیفکیٹس میں کی گئی۔ روشن اپنی کار کے تحت 8 ارب روپے کی منظور شدہ فنانسنگ سے 1550 کاریں ڈلیور کی گئیں۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق رقوم کے اخراج کی ایک اور وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے جس کی بنا پر لوگ اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنی بچت نکال رہے ہیں۔ گذشتہ 23 ماہ کے دوران صرف 800 ملین ڈالر واپس بھیجے گئے ہیں۔
اسٹیٹ بینک حکومت سے مل کر روپے میں جاری کیے جانے والے نیا پاکستان سرٹیفکیٹس کی شرحوں پر نظر ثانی کررہا ہے اور امید ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہوجائے گا۔
مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ آر ڈی اے کو 'فارن کرنسی ڈپازٹ پروٹیکشن آرڈیننس 2001ء' کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی آر ڈی اے اسکیم کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہے، یہ اسکیم چلتی رہے گی۔ غیرمقیم پاکستانیوں کی رائے کی مناسبت سے آر ڈی اے مصنوعات میں اضافہ کررہے ہیں اور مستقبل قریب میں شکایات سے نمٹنے کا ایک نظام ''سنوائی''، بیمہ مصنوعات، پنشن پلانز اور روشن بزنس اکاؤنٹ متعارف کرارہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابقروشن ڈجیٹل اکاؤنٹ (آر ڈی اے) کا آغاز ستمبر 2020ء میں کیا گیا تھا جس سے غیرمقیم پاکستانیوں کو پاکستانی مالی مارکیٹ تک رسائی ملی۔ پُرکشش نرخوں پر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ (این پی سی)، روشن اپنی کار وغیرہ جیسی سرمایہ کاری اور صارفی مصنوعات کے ذریعے اسے مزید تقویت دی گئی۔
آر ڈی اے کے ذریعے آنے والی مجموعی رقوم اکاؤنٹس میں نہیں رہتیں بلکہ آر ڈی اے کی دیگر مصنوعات میں لگا دی جاتی ہیں یا پاکستان میں خرچ کی جاتی ہیں۔ لگ بھگ 500 ملین ڈالر کی رقم کھاتوں میں ہے ۔ علاوہ ازیں یہ رائے بھی درست نہیں کہ اسٹیٹ بینک آر ڈی اے میں آنے والی رقوم کے اصل اعدادوشمار چھپا رہا ہے، صرف ان رقوم کو نیا شمار کیا جاتا ہے جو بیرون ملک سے آتی ہیں، یہ افواہ غلط ہے کہ میعاد پوری ہونے پر نیا پاکستان سرٹیفکیٹ کو نئی رقوم شمار کیا جاتا ہے۔