اور اب بنگلہ دیش بھی …
انھوں نے سر پر ہتھوڑا گرنے سے پہلے ہی’’ اچھے حالوں‘‘ میں آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کی ہے
پاکستان دوڑ میں پیچھے رہ گیا، بنگلہ دیش کو دیکھیں، اس کی برآمدات پچاس ارب ڈالرز کو پہنچنے والی ہیں۔ ان کی حکومت ایکسپورٹ سیکٹر کے لیے مراعات دینے میں پیش پیش ہے، اسی لیے پاکستان سے بہت سے صنعت کار اپنی انڈسٹری بنگلہ دیش شفٹ کر چکے ہیں؛ یہ اور اس سے ملتے جلتے تبصرے گزشتہ کئی سالوں سے عموماً سننے کو ملتے رہے۔ ایکسپورٹس میں اضافہ ہو یا معیشت میں مسلسل نمو، بنگلہ دیش کے حوالے سے یہ تبصرے آدھے بھرے ہوے گلاس والے تھے جو جزوی طور پر صحیح بھی تھے مگر مکمل تصویر کے عکاس نہ تھے۔
گزشتہ ہفتے عالمی میڈیا میں اس خبر نے تہلکہ مچا دیا کہ بنگلہ دیش نے اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کے پیشِ نظر آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت سوں کے لیے یہ خبر انہونی تھی، اسی لیے بہتوں نے اسے بے یقینی کی نظر سے دیکھا۔
بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پانچ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی گائیڈ لائنز کے مطابق معقول سطح پر ہیں۔ پھر آخر ایسی کون سی ایمرجنسی آن پڑی کہ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف کو باضابطہ درخواست کی کہ فدوی کو بیرونی ادائیگیوں کی پریشانی لاحق ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، اس لیے 4.5 ارب ڈالر کی امداد کی جاوے۔
بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی ایکسپورٹس اور انڈسٹری کے لیے سازگار ماحول کا بار بار حوالہ دینے والے پاکستانی ٹاک شوز، ماہرین اور میڈیا ملکی سیاست میں اس قدر مگن تھے کہ اس خبر کو اکثر نے گھاس بھی نہ ڈالی، انگریزی پریس نے اس خبر کو تھوڑی بہت اہمیت دی مگر مجموعی طور پر راوی چین اور سیاست ہی لکھتا رہا۔ عالمی پریس میں البتہ سری لنکا اور پاکستان کے بعد ماہرین کے ہاتھ ایک تقابل آ گیا؛ سری لنکا اور پاکستان کے بعد اب بنگلہ دیش بھی !
ہمیں تین مرتبہ بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ ترقی کے افسانے سنے اور دیکھے بھی ، جن اعلیٰ سطح کے سیمینارز میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا ان میں بعد میں بنے بنگلہ دیش کے گورنر اسٹیٹ بینک ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے ساتھ مذاکرات کار سمیت بہت سے اکونومسٹ شامل تھے۔ بنگلہ دیش کے مندوبین کی بھارتی شرکاء سے جھڑپ نما بحثیں بھی سنیں۔ شام کو مزدور کے ذریعے کھینچے جانے والی سائیکل کے ذریعے اور کچھ دنوں ٹُک ٹُک رکشہ کے ذریعے ڈھاکا کے بازاروں اور مختلف دفاتر میں جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ اس دوران بھید کھلا کہ اعدادوشمار کی حد تک ترقی کی تہہ میں کئی بھاری بھر کم تضادات چھپے ہیں۔
خوش کن اعدادوشمار دیکھیں تو سب ہرا ہی ہرا ہے؛ فی کس آمدنی میں سال بہ سال ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے مئی میں اعلان کیا کہ فی کس آمدن میں ایک سال میں 233 ڈالرز کے اضافے کے بعد اب فی کس آمدن 2,824 امریکی ڈالرز ہو چکی ہے جو بھارت اور پاکستان سے زائد ہے۔ جی ڈی پی کا حجم بھی پا کستان سے زائد ہے۔
بجٹ اور تجارتی خسارے کے اعشارئیے بھی کنٹرول میں ہیں اور علاقائی ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ ملک کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست سے تکنیکی اعتبار سے نکل چکا ہے تاہم باضابطہ طور پر 2026 میں اس فہرست کے ممالک کو حاصل مراعات کی سہولیات کا اہل نہیں ہوگا۔
اب ذرا ایک نظر دوسری طرف ؛ بنگلہ دیشی کرنسی تین ماہ کے دوران20% قدر کھو چکی ہے۔ پچھلے گیارہ ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا جب کہ پچھلے سال یہ خسارہ فقط 2.78 ارب ڈالرز تھا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر گزشتہ سال 44 ارب ڈالرز تھے جو اب 39 ارب ڈالرز ہیں۔ بیرونی قرضوں کا حجم 92 ارب ڈالرز ہے اور بیرونی ادائیگیوں کا شیڈول بڑھتے ہوئے دباؤ کی دہائی دے رہا ہے۔ کووڈ19 کے نتیجے میں غربت میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے یعنی20% سے بڑھ کر 40%۔ بیرون ملک ورکرز کی ترسیلاتِ زر میں پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔ کووڈ19 کی وجہ سے بیرون ملک بے شمار ورکرز اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے۔
بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس کا 81% گارمنٹس پر مشتمل ہے۔ کووڈ 19 اور اب عالمی کساد بازاری کے سبب اس کی برآمدات پر کڑا وقت ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مالیاتی استحکام کی عمارت ہاؤس آف کارڈز کی طرح گرنے کا اندیشہ ہے۔
روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے انرجی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں عالمی اضافے نے ایک طرف زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ڈال رکھا ہے تو دوسری طرف مہنگائی میں اضافے کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ حکومت نے درآمدات پر کنٹرول کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انرجی فیول کی درآمدات میں کمی کے سبب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 13 گھنٹے تک جا پہنچا ہے؛ وہی شناسا سی کہانی سری لنکا اور پاکستان کی سی۔
عام تاثر کے برعکس بنگلہ دیش کے بہت سے اشارئیے اور عالمی رینکنگ زیرِ زمین جنم لینے والے زلزلے کی بہت دیر سے گواہی دے رہے ہیں۔ اکنامک فریڈم انڈکس میں اس کا اسکور 137 ہے جو خطے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک سے کم ہے، لیبر اور ٹریڈ یونینز کی آزادی کا بھی یہی حال ہے۔ معاشی عدم مساوات، کرپشن، آزادیء ِاظہار اور سیاسی آزادیوں کا حال بھی پتلا ہے۔ خطے میں رائج ٹرینڈ کے عین مطابق میگا منصوبوںکی ترجیحات اور سرمایہ لٹانے کی روایت نے بہت سے سفید ہاتھی کھڑے کر دیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت اور ان کے ماہرین کو زیرِ زمین ان فالٹ لائنز کا اندازہ ہے، اسی لیے انھوں نے سر پر ہتھوڑا گرنے سے پہلے ہی'' اچھے حالوں'' میں آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کی ہے۔ اس اعتبار سے ان کی قوت فیصلہ سری لنکا اور پاکستان کی نسبت بہت بہتر ہے کہ بحران رونما ہونے سے قبل بندو بست کر لیا جائے۔ تاہم جن مسائل اور غلط اندازِ نظامت نے یہاں تک پہنچایا ہے، ان میں تینوں کم و بیش ایک سے ہیں۔
گزشتہ ہفتے عالمی میڈیا میں اس خبر نے تہلکہ مچا دیا کہ بنگلہ دیش نے اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کے پیشِ نظر آئی ایم ایف سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہت سوں کے لیے یہ خبر انہونی تھی، اسی لیے بہتوں نے اسے بے یقینی کی نظر سے دیکھا۔
بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پانچ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی گائیڈ لائنز کے مطابق معقول سطح پر ہیں۔ پھر آخر ایسی کون سی ایمرجنسی آن پڑی کہ بنگلہ دیش نے آئی ایم ایف کو باضابطہ درخواست کی کہ فدوی کو بیرونی ادائیگیوں کی پریشانی لاحق ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، اس لیے 4.5 ارب ڈالر کی امداد کی جاوے۔
بنگلہ دیش کی بڑھتی ہوئی ایکسپورٹس اور انڈسٹری کے لیے سازگار ماحول کا بار بار حوالہ دینے والے پاکستانی ٹاک شوز، ماہرین اور میڈیا ملکی سیاست میں اس قدر مگن تھے کہ اس خبر کو اکثر نے گھاس بھی نہ ڈالی، انگریزی پریس نے اس خبر کو تھوڑی بہت اہمیت دی مگر مجموعی طور پر راوی چین اور سیاست ہی لکھتا رہا۔ عالمی پریس میں البتہ سری لنکا اور پاکستان کے بعد ماہرین کے ہاتھ ایک تقابل آ گیا؛ سری لنکا اور پاکستان کے بعد اب بنگلہ دیش بھی !
ہمیں تین مرتبہ بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ ترقی کے افسانے سنے اور دیکھے بھی ، جن اعلیٰ سطح کے سیمینارز میں شرکت اور گفتگو کا موقع ملا ان میں بعد میں بنے بنگلہ دیش کے گورنر اسٹیٹ بینک ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے ساتھ مذاکرات کار سمیت بہت سے اکونومسٹ شامل تھے۔ بنگلہ دیش کے مندوبین کی بھارتی شرکاء سے جھڑپ نما بحثیں بھی سنیں۔ شام کو مزدور کے ذریعے کھینچے جانے والی سائیکل کے ذریعے اور کچھ دنوں ٹُک ٹُک رکشہ کے ذریعے ڈھاکا کے بازاروں اور مختلف دفاتر میں جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ اس دوران بھید کھلا کہ اعدادوشمار کی حد تک ترقی کی تہہ میں کئی بھاری بھر کم تضادات چھپے ہیں۔
خوش کن اعدادوشمار دیکھیں تو سب ہرا ہی ہرا ہے؛ فی کس آمدنی میں سال بہ سال ٹھیک ٹھاک اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے مئی میں اعلان کیا کہ فی کس آمدن میں ایک سال میں 233 ڈالرز کے اضافے کے بعد اب فی کس آمدن 2,824 امریکی ڈالرز ہو چکی ہے جو بھارت اور پاکستان سے زائد ہے۔ جی ڈی پی کا حجم بھی پا کستان سے زائد ہے۔
بجٹ اور تجارتی خسارے کے اعشارئیے بھی کنٹرول میں ہیں اور علاقائی ملکوں کے مقابلے میں بہتر ہیں۔ ملک کم ترین ترقی یافتہ ممالک کی فہرست سے تکنیکی اعتبار سے نکل چکا ہے تاہم باضابطہ طور پر 2026 میں اس فہرست کے ممالک کو حاصل مراعات کی سہولیات کا اہل نہیں ہوگا۔
اب ذرا ایک نظر دوسری طرف ؛ بنگلہ دیشی کرنسی تین ماہ کے دوران20% قدر کھو چکی ہے۔ پچھلے گیارہ ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17 ارب ڈالرز سے زائد ہوچکا جب کہ پچھلے سال یہ خسارہ فقط 2.78 ارب ڈالرز تھا۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر گزشتہ سال 44 ارب ڈالرز تھے جو اب 39 ارب ڈالرز ہیں۔ بیرونی قرضوں کا حجم 92 ارب ڈالرز ہے اور بیرونی ادائیگیوں کا شیڈول بڑھتے ہوئے دباؤ کی دہائی دے رہا ہے۔ کووڈ19 کے نتیجے میں غربت میں دو گنا اضافہ ہو چکا ہے یعنی20% سے بڑھ کر 40%۔ بیرون ملک ورکرز کی ترسیلاتِ زر میں پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔ کووڈ19 کی وجہ سے بیرون ملک بے شمار ورکرز اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو چکے۔
بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس کا 81% گارمنٹس پر مشتمل ہے۔ کووڈ 19 اور اب عالمی کساد بازاری کے سبب اس کی برآمدات پر کڑا وقت ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مالیاتی استحکام کی عمارت ہاؤس آف کارڈز کی طرح گرنے کا اندیشہ ہے۔
روس یوکرائن جنگ کی وجہ سے انرجی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں عالمی اضافے نے ایک طرف زرِ مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ڈال رکھا ہے تو دوسری طرف مہنگائی میں اضافے کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ حکومت نے درآمدات پر کنٹرول کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انرجی فیول کی درآمدات میں کمی کے سبب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 13 گھنٹے تک جا پہنچا ہے؛ وہی شناسا سی کہانی سری لنکا اور پاکستان کی سی۔
عام تاثر کے برعکس بنگلہ دیش کے بہت سے اشارئیے اور عالمی رینکنگ زیرِ زمین جنم لینے والے زلزلے کی بہت دیر سے گواہی دے رہے ہیں۔ اکنامک فریڈم انڈکس میں اس کا اسکور 137 ہے جو خطے اور دنیا کے زیادہ تر ممالک سے کم ہے، لیبر اور ٹریڈ یونینز کی آزادی کا بھی یہی حال ہے۔ معاشی عدم مساوات، کرپشن، آزادیء ِاظہار اور سیاسی آزادیوں کا حال بھی پتلا ہے۔ خطے میں رائج ٹرینڈ کے عین مطابق میگا منصوبوںکی ترجیحات اور سرمایہ لٹانے کی روایت نے بہت سے سفید ہاتھی کھڑے کر دیے ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت اور ان کے ماہرین کو زیرِ زمین ان فالٹ لائنز کا اندازہ ہے، اسی لیے انھوں نے سر پر ہتھوڑا گرنے سے پہلے ہی'' اچھے حالوں'' میں آئی ایم ایف سے مدد کی درخواست کی ہے۔ اس اعتبار سے ان کی قوت فیصلہ سری لنکا اور پاکستان کی نسبت بہت بہتر ہے کہ بحران رونما ہونے سے قبل بندو بست کر لیا جائے۔ تاہم جن مسائل اور غلط اندازِ نظامت نے یہاں تک پہنچایا ہے، ان میں تینوں کم و بیش ایک سے ہیں۔