متحدہ کے کارکن کا قتل گرفتاری اور تشدد سے ہلاکت کےشوا ہد نہیں ملے تحقیقاتی رپورٹ
مقتول کے اہل خانہ نے تعاون نہیں کیا، سلمان کی وجہ موت میں بھی کوئی منفی نکتہ سامنے نہیں آیا، رپورٹ عدالت میں پیش
متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد سلمان کے قتل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے سندھ ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ محمد سلمان کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ملاجبکہ قانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے محمد سلمان کی گرفتاری کے بھی شواہد نہیں ملے۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد سلمان کی ماورائے عدالت قتل سے متعلق الزامات پر مبنی رکن قومی اسمبلی سید آصف حسنین کی جانب سے دائردرخواست کی سماعت کی، اس موقع پرایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخالق شیخ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقات کے سلسلے میں مقتول کے اہل خانہ نے تعاون نہیں کیا ، انھیں بھی پوچھ گچھ کیلیے طلب کیاگیا تھاجن میں محمدسلمان کے والد نورالدین،مقتول کی بیوہ مسمات مدیحہ سلمان،عزیز محمد نعمان اورعبدالمجید شامل ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا،کمیٹی نے بتایا کہ مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے مگر کیمیائی تجزیاتی رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے مطابق محمد سلمان کے سر،گردن،پیٹ،ناک سمیت جسم کے کسی اور حصے پر تشدد کاکوئی نشان نہیںملا،عدالت کو بتایا گیا کہ کیمیائی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مقتو ل کی وجہ موت میں بھی کوئی منفی نکتہ سامنے نہیں آیا،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے محمد سلمان کی گرفتاری کا بھی کوئی ثبوت ملااور نہ ہی محمد سلمان کی موت سے کسی پولیس اہلکار یا افسر کا تعلق ثابت ہوا،واقعے کا مقدمہ درج ہوچکا،قانون کے مطابق تفتیش جاری ہے ۔
مقتول کے اہل خانہ کو تفتیشی ٹیم سے تعاون کرنا چاہیے، اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ محمد سلمان کی گرفتاری اور ماورائے عدالت قتل سے متعلق الزامات بے بنیاد اورجھوٹے ہیں ،واقعہ کا مقدمہ بھی درج ہوچکا ہے،ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ نے اپنے جواب میں موقف اختیار کیا تھا کہ محمد سلمان اور اس کے بھانجے محمد نعمان کو پولیس نے گرفتار نہیں کیا،الزام جھوٹا ہے،5 فروری2014کو محمد سلمان کی لاش ملیر ندی کے قریب سے برآمد ہوئی، متعلقہ تھانہ شاہ لطیف میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے،لاش کا پوسٹ پارٹم بھی ہوگیا تھا جس کی رپورٹ کی روشنی میں تفتیش جاری ہے،پیر محمد شاہ نے موقف اختیار کیا تھاکہ درخواست کا مقصد قانون نافذکرنے والے اداروں پر دباؤڈال کر مذموم مقاصد حاصل کرنا ہے تاکہ عدالت نے غیر ضروری فوائد حاصل کیے جاسکیں،درخواست میں حقائق کے برخلاف معلومات فراہم کی گئی ہیں،ایس ایچ او شاہراہ فیصل فہیم فاروقی نے اپنے کمنٹس میں کہا ہے کہ ان الزام کا مقصد پولیس کو دباؤ میں لینا ہے،ماورائے عدالت قتل اور گرفتاری کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ محمد سلمان جو کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اور کورنگی1 1/2کا رہائشی تھااور سول اسپتال میں ملازمت کرتا تھا،3فروری2014کو اپنے بھانجے نعمان کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ڈیوٹی پر جانے کیلیے نکلا تو پولیس کی گاڑیوں نے تعاقب کیا ارو ملیرندی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے روکا ،نقاب پوش اہلکاروں نے رینجرز اور پولیس کی وردیاں زیب تن کی ہوئی تھیں۔
وہ محمد سلمان کو اپنے ہمراہ لے گئے، بعد ازاں درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ نے پولیس سے رجوع کیا تو ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور ہراساں کیاگیا،اس حوالے سے محمد سلمان کی اہلیہ نے ایک درخواست بھی سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردی تاہم درخواست دائر کرکے گھر پہنچی تو 6فروری کواخبار کے ذریعے خبر ملی کہ محمد سلمان کی لاش ملیر ندی سے برآمد ہوئی ہے،درخواست میں کہاگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے محمدسلمان کے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں اور قانونی کارروائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں،درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات ،ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ اور انسپکٹر فہیم فاروقی محمد سلمان کے قتل کے براہ راست ذمہ دار ہیں انکے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور اہل خانہ کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔محمد سلمان کی بیوہ مسمات مدیحہ سلمان نے اپنی متفرق درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالتی فیصلہ کے مطابق حکومت کو مقتول کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیاجائے۔عدالت نے سماعت25مارچ تک ملتوی کردی۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں2رکنی بینچ نے متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن محمد سلمان کی ماورائے عدالت قتل سے متعلق الزامات پر مبنی رکن قومی اسمبلی سید آصف حسنین کی جانب سے دائردرخواست کی سماعت کی، اس موقع پرایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے ڈی آئی جی ساؤتھ عبدالخالق شیخ کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیقات کے سلسلے میں مقتول کے اہل خانہ نے تعاون نہیں کیا ، انھیں بھی پوچھ گچھ کیلیے طلب کیاگیا تھاجن میں محمدسلمان کے والد نورالدین،مقتول کی بیوہ مسمات مدیحہ سلمان،عزیز محمد نعمان اورعبدالمجید شامل ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوا،کمیٹی نے بتایا کہ مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا بھی جائزہ لیا گیا ہے مگر کیمیائی تجزیاتی رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کے مطابق محمد سلمان کے سر،گردن،پیٹ،ناک سمیت جسم کے کسی اور حصے پر تشدد کاکوئی نشان نہیںملا،عدالت کو بتایا گیا کہ کیمیائی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مقتو ل کی وجہ موت میں بھی کوئی منفی نکتہ سامنے نہیں آیا،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے محمد سلمان کی گرفتاری کا بھی کوئی ثبوت ملااور نہ ہی محمد سلمان کی موت سے کسی پولیس اہلکار یا افسر کا تعلق ثابت ہوا،واقعے کا مقدمہ درج ہوچکا،قانون کے مطابق تفتیش جاری ہے ۔
مقتول کے اہل خانہ کو تفتیشی ٹیم سے تعاون کرنا چاہیے، اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ محمد سلمان کی گرفتاری اور ماورائے عدالت قتل سے متعلق الزامات بے بنیاد اورجھوٹے ہیں ،واقعہ کا مقدمہ بھی درج ہوچکا ہے،ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ نے اپنے جواب میں موقف اختیار کیا تھا کہ محمد سلمان اور اس کے بھانجے محمد نعمان کو پولیس نے گرفتار نہیں کیا،الزام جھوٹا ہے،5 فروری2014کو محمد سلمان کی لاش ملیر ندی کے قریب سے برآمد ہوئی، متعلقہ تھانہ شاہ لطیف میں مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے،لاش کا پوسٹ پارٹم بھی ہوگیا تھا جس کی رپورٹ کی روشنی میں تفتیش جاری ہے،پیر محمد شاہ نے موقف اختیار کیا تھاکہ درخواست کا مقصد قانون نافذکرنے والے اداروں پر دباؤڈال کر مذموم مقاصد حاصل کرنا ہے تاکہ عدالت نے غیر ضروری فوائد حاصل کیے جاسکیں،درخواست میں حقائق کے برخلاف معلومات فراہم کی گئی ہیں،ایس ایچ او شاہراہ فیصل فہیم فاروقی نے اپنے کمنٹس میں کہا ہے کہ ان الزام کا مقصد پولیس کو دباؤ میں لینا ہے،ماورائے عدالت قتل اور گرفتاری کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ محمد سلمان جو کہ متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن اور کورنگی1 1/2کا رہائشی تھااور سول اسپتال میں ملازمت کرتا تھا،3فروری2014کو اپنے بھانجے نعمان کے ہمراہ موٹر سائیکل پر ڈیوٹی پر جانے کیلیے نکلا تو پولیس کی گاڑیوں نے تعاقب کیا ارو ملیرندی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے روکا ،نقاب پوش اہلکاروں نے رینجرز اور پولیس کی وردیاں زیب تن کی ہوئی تھیں۔
وہ محمد سلمان کو اپنے ہمراہ لے گئے، بعد ازاں درخواست گزار اور ان کے اہل خانہ نے پولیس سے رجوع کیا تو ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور ہراساں کیاگیا،اس حوالے سے محمد سلمان کی اہلیہ نے ایک درخواست بھی سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردی تاہم درخواست دائر کرکے گھر پہنچی تو 6فروری کواخبار کے ذریعے خبر ملی کہ محمد سلمان کی لاش ملیر ندی سے برآمد ہوئی ہے،درخواست میں کہاگیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے محمدسلمان کے اہل خانہ کو مسلسل ہراساں کررہے ہیں اور قانونی کارروائی کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں،درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات ،ایس ایس پی ایسٹ پیر محمد شاہ اور انسپکٹر فہیم فاروقی محمد سلمان کے قتل کے براہ راست ذمہ دار ہیں انکے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور اہل خانہ کو ہراساں کرنے سے روکا جائے۔محمد سلمان کی بیوہ مسمات مدیحہ سلمان نے اپنی متفرق درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالتی فیصلہ کے مطابق حکومت کو مقتول کے اہل خانہ کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیاجائے۔عدالت نے سماعت25مارچ تک ملتوی کردی۔