مشکل ترین دور
پارلیمنٹ کو قابو کرتے کرتے ہم آدھا ملک تو پہلے گنوا چکے
لاہور:
یہ ہفتہ تو کچھ عجیب و غریب گذرا ، مگر بہت تیز جس طرح ضمنی انتخابات کے بعد ڈالر تیز ہوگیا ،اسی طرح ہماری سیاست جس بند گلی میں داخل ہوئی ہے وہاں گھمسان کی جنگ لگی ہوئی تھی کہ ایک زلزلے کا سماں تھا۔
ایک طرف عدالت براجمان تھی، تو دوسری طرف جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ میں ججوں کا معاملہ تھا تو جاتے جاتے برطانیہ کی اخبار میں وہ اسکینڈل چھپ گیا کہ کس طرح عارف نقوی ابراج گروپ نے فلاحی کاموں کے فنڈز جو کرکٹ میچ کے بہانے جمع کیے تھے، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے اکائونٹ میں جمع ہوئے ہیں اور جو اس ہفتہ بارشوں نے بربادیاں کیں وہ الگ۔
چلو یہ تو پتہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے وہ شخص جو آجکل برطانیہ کی جیلوں میں سڑ رہا ہے اور اگر الزامات صحیح ثابت ہوئے تو 291 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ جب اس کا فون، ہیتھرو ایئرپورٹ پر پکڑتے وقت ایف بی آئی کے ہاتھ چڑھا تو اس میں ایک فون نمبر خان صاحب کا بھی تھا اور اس وقت بچنے کے لیے موصوف نے ہمارے صدر پاکستان کو فون بھی کیا۔
ہمارے اس وقت کے ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن نے اس حوالے سے بہت کچھ بتایا ہے۔
بھلا ہو فارن فنڈنگ کیس کا جس نے بھی کیا ، چاہے آٹھ سال ہوگئے اس کا فیصلہ نہ آئے ،چاہے فیصلہ محفو ظ ہوتے ہوئے بھی کئی ماہ گذر گئے ہوں لیکن اسٹیٹ بینک نے ان اکائونٹس کی جو پی ٹی آئی کے ہیں جب تفصیل دی تو ایسے اکائونٹ بھی تھے جو پارٹی نے الیکشن کمیشن سے چھپائے ہوئے تھے ،ان میں کئی ایسے فنڈز دینے والے بھی ہیں جو ہندوستان اور اسرائیل وغیرہ سے بھی تھے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے جو سیکڑوں اربوں روپوں کے فنڈز آئے ،پی ٹی آئی پروجیکٹ کو لانچ کرنے کے لیے کیا ،وہ بیرونی سازش تھی یا اندرونی سازش؟معاملہ اور گھمبیر ہوگیا ہے ، اگر خان کے پیچھے عارف نقوی ہے ان کے پیچھے کون تھا۔ ہماری تاریخ میں پاکستان جوہری پروگرام پر جتنے غیر ذمے دارانہ بیان اگر کسی سیاستدان نے دیے وہ خان صاحب تھے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک میں اگر کوئی ایٹمی طاقت ہے تو وہ پاکستان ہے۔
میں جب نیویارک ٹائمز کی ایک اسٹوری بریٹ اسٹیفن کی پڑھ رہا تھا تو مجھے لگا کہ اب پاکستان دنیا میں سری لنکا کے بعد دوسرا بڑا ملک ڈیفالٹ ہونے والا لگتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں اس میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ واحد ایٹمی ملک ہے جو ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے۔
یہ ہے 2018 سے 2022 کا لب لباب۔ کتنی تیزی سے یہ ملک تباہی کے دہانے پر آپہنچا ہے۔ آئی ایم ایف کا اجلاس 25 August کو ہے جب تک وہ ہمیں پیسے نہیں دے گا۔ دنیا ہمیں ایک ایسا ملک ہی سمجھے گی جو ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے۔ دنیا کی ریٹنگ کمپنیوں نے پاکستان کی معیشت کو دیکھ کر منفی کردیا ہے روزانہ ڈالر تین روپے یا دو روپے کے تناسب سے بڑھ رہا ہے۔ یہ دوڑ کہاں جاکے اور کب جاکے رکے گی کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ۔
سب کچھ مہنگا ہوگیا ۔ پٹرول، بجلی، چینی، آٹا ،ڈالر کے اعتبار سے وہیں کھڑا ہے مگر روپیہ پاکستان کی اس سیاسی جنگ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ غریب پست سے پست رہ گئے ۔ یہ لوگ ریاست کے ایجنڈے پر ہے ہی نہیں۔ہم اتنی تیزی سے اس موڑ پر پہنچیں گے،ہمیں کچھ خبر بھی نہ ہوئی اور اس کے بعد بھی کچھ لوگوں کو ہائبرڈ پروجیکٹ سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں۔
ان کو دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اس گھمسان کی جنگ میں عدالتوں کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھیں، اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ جو فیصلے آئے، جس طرح فل کورٹ نہ بنا وہ بھی اپنا سیاہ باب بن کے ڈوسو کیس ، تمیز الدین کیس کی صفوں میں اپنی جگہ بنائیں گے۔ سب ٹھیک تھا جب خان صاحب پارلیمنٹ میں نہ صرف بیٹھتے تھے بلکہ اکثریت میں تھے اور اب سب برا ہوگیا۔ دنیا میں پارلیمنٹ کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو شاید ہی کوئی اتنی بد نصیب پارلیمنٹ ہوگی۔
پارلیمنٹ کو قابو کرتے کرتے ہم آدھا ملک تو پہلے گنوا چکے اور باقی آدھا بربادی کے اس دہانے پر لاکے کھڑا کیا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اب تو کوئی مارشل لاء بھی نہیں لگانے کی جرات کرے گا، جس طرح پی ڈی ایم نے حکومت لے کے اپنے ہاتھ جلوا دیے، اس کے باوجود لوگوں کی دلوں میں رہتی ہے؟ یہ پارٹی خصوصا پنجاب میں ۔ میاں صاحب کہتے رہے کہ شہباز حکومت نہ لو۔
اور اگر یہ حکومت نہ لیتے تو کیا ہوتا؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ دل برداشتہ ہوں، ڈٹ کے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ حکومت اگر لی ہے تو اسے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ خان صاحب کا کوئی حقیقی بیانیہ ہے نہیں یہ سب کچھ جھوٹ کا پلندہ ہے ، وہ لوگوں کی معصومیت سے کھیلتا ہے ، جن کو سچ اور جھوٹ کا ادارک نہیں ،خان صاحب ایسے لوگوں کو اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔
ادھر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے گیارہ ممبران کے استعفیٰ منظور کرلیے، اب ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ جو کراچی کے حلقے ہیں وہ پی ٹی آئی ہارے گی اور اس طرح اگر حکومت امپریشن کمزور کرنے میں کامیاب جاتی ہے کہ پی ٹی آئی مقبول پارٹی نہیں جس طرح ضمنی انتخابات میں ان کا گراف چڑھا اور اس طرح فیصلوں میں یہی اور استعفیٰ منظور کرتی ہے ۔ اس درمیان میں آئی ایم ایف سے پیسے آنا بہت ضروری ہیں ورنہ ڈالر بے قابو ہوجائے گا، یہ جو آئی ایم ایف ڈالر دینے میں دیر کررہا ہے ،اس میں بھی خان صاحب کی پچھلی حکومت کا منفی کردار ہے۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اب بار بار خان صاحب کو تیز انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے کہ پچھلے فیصلوں سے بہت رسوائی ہوچکی ہے۔ نہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ اب کچھ مدد خان صاحب کی کرسکتی ہے،لیکن آ یندہ دنوں یہ سیاسی محاذ آرائی اور بھی شدید ہوسکتی ہے ہے۔ وفاق اور پنجاب حکومت کے درمیان یہ جنگ بھی۔ مجھے نہیں پتہ اگلے ہفتے تک کیا ہوگا لیکن اگر یہ سب لوگ مل کر نہیں بیٹھے اور کوئی بیچ کا راستہ نہیں نکالا تو پھر حالات اور بدتر ہوں گے۔
یہ ہفتہ تو کچھ عجیب و غریب گذرا ، مگر بہت تیز جس طرح ضمنی انتخابات کے بعد ڈالر تیز ہوگیا ،اسی طرح ہماری سیاست جس بند گلی میں داخل ہوئی ہے وہاں گھمسان کی جنگ لگی ہوئی تھی کہ ایک زلزلے کا سماں تھا۔
ایک طرف عدالت براجمان تھی، تو دوسری طرف جوڈیشل کونسل سپریم کورٹ میں ججوں کا معاملہ تھا تو جاتے جاتے برطانیہ کی اخبار میں وہ اسکینڈل چھپ گیا کہ کس طرح عارف نقوی ابراج گروپ نے فلاحی کاموں کے فنڈز جو کرکٹ میچ کے بہانے جمع کیے تھے، ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے اکائونٹ میں جمع ہوئے ہیں اور جو اس ہفتہ بارشوں نے بربادیاں کیں وہ الگ۔
چلو یہ تو پتہ چلا کہ خان صاحب کے پیچھے وہ شخص جو آجکل برطانیہ کی جیلوں میں سڑ رہا ہے اور اگر الزامات صحیح ثابت ہوئے تو 291 سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ جب اس کا فون، ہیتھرو ایئرپورٹ پر پکڑتے وقت ایف بی آئی کے ہاتھ چڑھا تو اس میں ایک فون نمبر خان صاحب کا بھی تھا اور اس وقت بچنے کے لیے موصوف نے ہمارے صدر پاکستان کو فون بھی کیا۔
ہمارے اس وقت کے ایف آئی اے کے سربراہ بشیر میمن نے اس حوالے سے بہت کچھ بتایا ہے۔
بھلا ہو فارن فنڈنگ کیس کا جس نے بھی کیا ، چاہے آٹھ سال ہوگئے اس کا فیصلہ نہ آئے ،چاہے فیصلہ محفو ظ ہوتے ہوئے بھی کئی ماہ گذر گئے ہوں لیکن اسٹیٹ بینک نے ان اکائونٹس کی جو پی ٹی آئی کے ہیں جب تفصیل دی تو ایسے اکائونٹ بھی تھے جو پارٹی نے الیکشن کمیشن سے چھپائے ہوئے تھے ،ان میں کئی ایسے فنڈز دینے والے بھی ہیں جو ہندوستان اور اسرائیل وغیرہ سے بھی تھے۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے جو سیکڑوں اربوں روپوں کے فنڈز آئے ،پی ٹی آئی پروجیکٹ کو لانچ کرنے کے لیے کیا ،وہ بیرونی سازش تھی یا اندرونی سازش؟معاملہ اور گھمبیر ہوگیا ہے ، اگر خان کے پیچھے عارف نقوی ہے ان کے پیچھے کون تھا۔ ہماری تاریخ میں پاکستان جوہری پروگرام پر جتنے غیر ذمے دارانہ بیان اگر کسی سیاستدان نے دیے وہ خان صاحب تھے حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک میں اگر کوئی ایٹمی طاقت ہے تو وہ پاکستان ہے۔
میں جب نیویارک ٹائمز کی ایک اسٹوری بریٹ اسٹیفن کی پڑھ رہا تھا تو مجھے لگا کہ اب پاکستان دنیا میں سری لنکا کے بعد دوسرا بڑا ملک ڈیفالٹ ہونے والا لگتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں اس میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ واحد ایٹمی ملک ہے جو ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے۔
یہ ہے 2018 سے 2022 کا لب لباب۔ کتنی تیزی سے یہ ملک تباہی کے دہانے پر آپہنچا ہے۔ آئی ایم ایف کا اجلاس 25 August کو ہے جب تک وہ ہمیں پیسے نہیں دے گا۔ دنیا ہمیں ایک ایسا ملک ہی سمجھے گی جو ڈیفالٹ کرنے جارہا ہے۔ دنیا کی ریٹنگ کمپنیوں نے پاکستان کی معیشت کو دیکھ کر منفی کردیا ہے روزانہ ڈالر تین روپے یا دو روپے کے تناسب سے بڑھ رہا ہے۔ یہ دوڑ کہاں جاکے اور کب جاکے رکے گی کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ۔
سب کچھ مہنگا ہوگیا ۔ پٹرول، بجلی، چینی، آٹا ،ڈالر کے اعتبار سے وہیں کھڑا ہے مگر روپیہ پاکستان کی اس سیاسی جنگ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ غریب پست سے پست رہ گئے ۔ یہ لوگ ریاست کے ایجنڈے پر ہے ہی نہیں۔ہم اتنی تیزی سے اس موڑ پر پہنچیں گے،ہمیں کچھ خبر بھی نہ ہوئی اور اس کے بعد بھی کچھ لوگوں کو ہائبرڈ پروجیکٹ سے اب بھی امیدیں وابستہ ہیں۔
ان کو دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
اس گھمسان کی جنگ میں عدالتوں کے فیصلوں پر انگلیاں اٹھیں، اس کی بھی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔ جو فیصلے آئے، جس طرح فل کورٹ نہ بنا وہ بھی اپنا سیاہ باب بن کے ڈوسو کیس ، تمیز الدین کیس کی صفوں میں اپنی جگہ بنائیں گے۔ سب ٹھیک تھا جب خان صاحب پارلیمنٹ میں نہ صرف بیٹھتے تھے بلکہ اکثریت میں تھے اور اب سب برا ہوگیا۔ دنیا میں پارلیمنٹ کی تاریخ جب لکھی جائے گی تو شاید ہی کوئی اتنی بد نصیب پارلیمنٹ ہوگی۔
پارلیمنٹ کو قابو کرتے کرتے ہم آدھا ملک تو پہلے گنوا چکے اور باقی آدھا بربادی کے اس دہانے پر لاکے کھڑا کیا ہے کہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اب تو کوئی مارشل لاء بھی نہیں لگانے کی جرات کرے گا، جس طرح پی ڈی ایم نے حکومت لے کے اپنے ہاتھ جلوا دیے، اس کے باوجود لوگوں کی دلوں میں رہتی ہے؟ یہ پارٹی خصوصا پنجاب میں ۔ میاں صاحب کہتے رہے کہ شہباز حکومت نہ لو۔
اور اگر یہ حکومت نہ لیتے تو کیا ہوتا؟ میں نہیں سمجھتا کہ وہ دل برداشتہ ہوں، ڈٹ کے ان چیلنجز کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔ حکومت اگر لی ہے تو اسے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ خان صاحب کا کوئی حقیقی بیانیہ ہے نہیں یہ سب کچھ جھوٹ کا پلندہ ہے ، وہ لوگوں کی معصومیت سے کھیلتا ہے ، جن کو سچ اور جھوٹ کا ادارک نہیں ،خان صاحب ایسے لوگوں کو اپنی جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔
ادھر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے گیارہ ممبران کے استعفیٰ منظور کرلیے، اب ان سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ جو کراچی کے حلقے ہیں وہ پی ٹی آئی ہارے گی اور اس طرح اگر حکومت امپریشن کمزور کرنے میں کامیاب جاتی ہے کہ پی ٹی آئی مقبول پارٹی نہیں جس طرح ضمنی انتخابات میں ان کا گراف چڑھا اور اس طرح فیصلوں میں یہی اور استعفیٰ منظور کرتی ہے ۔ اس درمیان میں آئی ایم ایف سے پیسے آنا بہت ضروری ہیں ورنہ ڈالر بے قابو ہوجائے گا، یہ جو آئی ایم ایف ڈالر دینے میں دیر کررہا ہے ،اس میں بھی خان صاحب کی پچھلی حکومت کا منفی کردار ہے۔
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اب بار بار خان صاحب کو تیز انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے کہ پچھلے فیصلوں سے بہت رسوائی ہوچکی ہے۔ نہ کھل کر اسٹیبلشمنٹ اب کچھ مدد خان صاحب کی کرسکتی ہے،لیکن آ یندہ دنوں یہ سیاسی محاذ آرائی اور بھی شدید ہوسکتی ہے ہے۔ وفاق اور پنجاب حکومت کے درمیان یہ جنگ بھی۔ مجھے نہیں پتہ اگلے ہفتے تک کیا ہوگا لیکن اگر یہ سب لوگ مل کر نہیں بیٹھے اور کوئی بیچ کا راستہ نہیں نکالا تو پھر حالات اور بدتر ہوں گے۔