بارش کا نوحہ
بارشوں سے متعلق حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دو ہندسوں کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے
DHAKA:
کراچی پھر بارشوں کی زد میں ہے۔ جولائی کے وسط سے شروع ہونے والی بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دو ماہ تک کراچی میں بارشیں برسیں گی۔ بارش یوں تو فطرت کا تحفہ ہے مگر کراچی والوں کے لیے یہ کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔
بارشوں سے متعلق حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دو ہندسوں کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔ بارش میں مرنے والوں میں ایک 24 سال نوجوان بھی شامل ہے جس نے دوستوں سے لیاری ندی کو تیر کر پار کرنے کی شرط لگائی مگر پانی کا تیز دھارا اس کو بہا کر لے گیا۔ بارش کے پانی نے غریبوں کی بستیوں کو روندا مگر امراء کے علاقے بھی اس سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے امراء کی بستی ڈیفنس بارش کی تباہ کاریوں کا بدستور شکار ہے۔ ذرایع ابلاغ پر شایع اور نشر ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے وہ سیکٹر جو سمندر سے حاصل کردہ زمین پر آباد ہوئے وہ ایک دفعہ پھر بارش کے پانی کی زد سے بچ نہیں سکے۔ ڈیفنس کے فیز 6 کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پانی ان کے گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ جن بنگلوں میں تہہ خانے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
اس علاقہ میں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالے تھے وہ تعمیراتی کاموں کے دوران بند ہوگئے تھے، کسی نے ان نالوں کی افادیت کو محسوس نہیں کیا۔ ڈیفنس اور کنٹونمنٹ میں بعض نالوں پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، یوں پمپوں کے ذریعہ پانی نکالنے کی کوشش بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہورہی۔
کراچی کے غریبوں کی بستی قیوم آباد بھی ملیر ندی کے کنارے آباد ہے۔ ملیر ندی کو پانی سے بھرے ہوئے کئی دن ہوگئے، یوں اب ندی پانی کو قبول نہیں کررہی اور پانی غریبوں کے گھروں کو مسمار کررہا ہے۔ شہر میں دو بڑی ندیاں، ملیر اور لیاری ندی پانی کی نکاسی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
کھیرتھر کے پہاڑی سلسلہ تھانہ بولا خان میں ہونے والی مسلسل بارشوں کا پانی اس ندی کے ذریعہ سمندر میں داخل ہوتا ہے مگر اب ملیر ندی کے کناروں سے پانی قریبی بستیوں میں داخل ہوچکا ہے۔ ملیر اور ضلع مشرقی کے ڈپٹی کمشنر صاحبان نے اس ندی کے اطراف میں آباد بستیوں کے مکینوں کو خطرناک صورتحال کے بارے میں اطلاع دینے کی کوشش کی جس کی بناء پر جانی نقصان تو نہ ہوا مگر املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ یہی صورتحال لیاری ندی کی ہے۔
بلوچستان میں مسلسل بارش ہورہی ہے۔ وہاں سے آنے والا پانی لیاری ندی اور اس سے ملحقہ نالوں کے ذریعہ سمندر کے پانی میں مل جاتا ہے مگر پانی کی مقدار زیادہ ہے اور پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ لیاری ندی کے کنارے اس پانی کی شدت کو برداشت نہیں کرسکے۔ یوں ندی سے ملحقہ علاقوں میں پانی ہی پانی ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال گجر نالہ اور محمود آباد نالہ کی صفائی اور لیاری ندی میں آباد بستیوں کو ختم کیا تھا جس کی بنیاد پر اس دفعہ جانی نقصان نہیں ہوا مگر پانی مسلسل بہہ رہا ہے۔ بلوچستان میں حب ڈیم کراچی کے مغربی حصہ کو پانی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اس دفعہ اتنی زیادہ بارش ہوئی ہے کہ حب ڈیم کی دیواریں پانی کو محدود نہیں کرسکیں اور اس پانی نے منگھوپیر کے علاقے میں تباہی مچائی ہے۔ا س علاقے میں غریبوں کے مکانات تباہ ہوئے ہیں، سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں اور ہر سڑک اور گلی میں پانی جمع ہے۔ لیاری سیورج کے ناقص نظام کی بناء پر بارش سے شدید متاثر ہوتا تھا۔ حالیہ بارشوں میں بھی لیاری کی اہم سڑکوں پر پانی موجود رہا ۔ شہر کے سب سے بڑے سول اسپتال کے گرد مستقل پانی جمع ہے۔
حکومت نے سول اسپتال کے سامنے بابائے اردو روڈ کو گزشتہ مہینوں میں دوبارہ تعمیر کیا تھا مگر پانی نے اس نئی سڑک پر کتنے گڑھے ڈالے ہیں فوری طور پر اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ کراچی کنٹونمنٹ کے علاقہ رفیقی شہید روڈ کے اطراف میںامراض قلب کا قومی ادارہ، جناح اسپتال بچوں کے علاج کا قومی ادارہ اور کڈنی سینٹر ہیں۔ روایت کے مطابق ان اسپتالوں میں داخلہ کے لیے گندے پانی کی ایک طویل نہر کو عبور کرنا ضروری ہے۔ کراچی کے پر رونق علاقے طارق روڈ پر تو ہمیشہ کئی کئی فٹ پانی جمع ہوتا ہے۔ اس دفعہ اس شاہراہ سے متصل ایک بڑے مال کے تہہ خانہ میں پانی داخل ہوا۔ اس مال کے دکانداروں کا کروڑوں روپے کا سامان اس بارش میں ڈوب گیا۔
کراچی کے قدیم تجارتی علاقے جوڑیا بازار، گوردھن داس مارکیٹ اور دیگر مارکیٹوں میں تعمیر ہونے والے تہہ خانے اس پانی سے بچ نہیں سکے۔ ان میں غلہ مارکیٹ بھی شامل ہے۔ اس صورتحال کے منطقی نتیجہ میں تہہ خانوں میں رکھے ہوئے سامان آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں اور پھل سب خراب ہوچکے ہیں۔ کراچی کی بیشتر بستیوں میں جہاں پانی گھروں اور دکانوں میں داخل نہیں ہوا وہاں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی بناء پر کیچڑ اور بدبو کا راج ہے۔ بارش کے ساتھ مکھیوں کی افزائش ِ نسل میں بھی کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ گندا پانی مچھروں کی افزائشِ نسل کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔
یوں مکھیوں اور مچھروں سے ڈائریا، ٹائی فائیڈ، ملیریا اور ڈینگی کے مچھروں کی بیماری نے شہریوں کو زندگیوں کو اجیرن کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فوری طور پر شہر میں اسپرے ہونا چاہیے۔ کراچی جنوبی کے علاقہ میں ریڈ زون واقع ہے۔ ریڈ زون میں گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سندھ سیکریٹریٹ، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے دفاتر ہیں۔
ریڈ زون سے متصل آئی آئی چندریگر روڈ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آئی آئی چندریگر پاکستان کا اقتصادی حب Financial Hub ہے۔ اس پورے علاقہ میں بارش کے پانی کی نکاسی کا جدید نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو اس علاقہ کی سڑکیں چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور ندیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ متعلقہ محکمہ کے اہلکار پمپ سے پانی نکالتے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔
شہرقائد میں بارش کے دوران اموات کی بنیادی وجوہات میں کمزور چھتوں کا گرنا اور بجلی سے کرنٹ لگنا ، سمندر اور نالوں میں ڈوبنا شامل ہے۔ بارش میں بجلی کے نظام کی ناقص کارکردگی پھر اجاگر ہوئی ہے۔ بارش کے دوران بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آتا ہے۔ بعض اوقات تار ٹوٹ کر پانی میں گر جاتے ہیں۔
عجیب المیہ یہ ہے کہ ''کے الیکٹرک'' کے انجینئر انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کوئی جامع نظام نہیں بناسکے۔ جمشید بخاری لکھتے ہیں کہ گٹر کی لائنوں کے بند اور نالوں سے پانی کی نکاسی کے نظام کے منقطع ہونے کی بنیادی وجہ سیکڑوں ٹن پلاسٹک ہے۔ جمشید کی تحقیق کے مطابق ایک گھر میں کھانے پکانے کے لیے آٹھ سے دس پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان آتا ہے۔ یہ تھیلیاں اشیاء کے استعمال ہونے کے بعد یہ گٹر اور نالوں میں پھینک دی جاتی ہیں،اس طرح سیورج کا نظام یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہوتا ہے یا پانی کی نکاسی کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
راقم الحروف کا گزشتہ ایک ہفتہ لاہور میں گزرا۔ لاہور میں 19جون کو مسلسل 7گھنٹے تک بارش ہوئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس دن 110 ملی میٹر بارش ہوئی۔ راقم الحروف دوسرے دن صبح کی سیر کے لیے باہر گیا تو اس پورے علاقے میں پانی کا ایک قطرہ موجود نہیں تھا۔ لاہور میں سیورئج کے جدید نظام نے اس پانی کو دریائے راوی کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور ترقی کی دوڑ میں 50 سال آگے نکل گیا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی میں پیپلز بس سروس شروع کی مگر لاہور کی طرح اس کے لیے الگ ٹریک تعمیر نہیں ہوئے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ شہر کی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور گہرے گڑھے بن گئے ہیں تو اس صورتحال میں ان بسوں کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کے چند وزراء اور کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب بارش کے دوران مختلف علاقوں میں سرگرم عمل نظر آئے۔ ان سے ایک معزز صحافی نے سوال کیا تھا کہ اگر بلدیاتی ادارے فعال ہوتے تو انھیں اتنی محنت نہ کرنی پڑتی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ایسے وزیر اعلیٰ نہیں جو پالیسیاں بنائیں وہ تو ہر وقت متحرک نظر آنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان نے کراچی کی تباہی کے اسباب بتادیے۔
بارش جو ہر سال رحمت کے بجائے قیامت میں تبدیل ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ کونسلر اور یونین کونسل کا بااختیار نہ ہونا ہے، اگر کونسلر اور یونین کونسل کے چیئرمین بااختیار ہوں اور ان کے پاس سال بھر کے فنڈز موجود ہوں تو گٹر لائن کو صاف رکھنے اور نالوں سے کچرا ہٹانے کے کام کی نگرانی کریں ، جب کہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ ان اداروں کو فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سندھ میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے ورنہ ہر سال بارش ہونے کے بعد ایسا ہی نوحہ ہوگا۔
کراچی پھر بارشوں کی زد میں ہے۔ جولائی کے وسط سے شروع ہونے والی بارشیں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ محکمہ موسمیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دو ماہ تک کراچی میں بارشیں برسیں گی۔ بارش یوں تو فطرت کا تحفہ ہے مگر کراچی والوں کے لیے یہ کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔
بارشوں سے متعلق حادثات میں مرنے والوں کی تعداد دو ہندسوں کی آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔ بارش میں مرنے والوں میں ایک 24 سال نوجوان بھی شامل ہے جس نے دوستوں سے لیاری ندی کو تیر کر پار کرنے کی شرط لگائی مگر پانی کا تیز دھارا اس کو بہا کر لے گیا۔ بارش کے پانی نے غریبوں کی بستیوں کو روندا مگر امراء کے علاقے بھی اس سے متاثر ہوئے۔
کراچی کے امراء کی بستی ڈیفنس بارش کی تباہ کاریوں کا بدستور شکار ہے۔ ذرایع ابلاغ پر شایع اور نشر ہونے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے وہ سیکٹر جو سمندر سے حاصل کردہ زمین پر آباد ہوئے وہ ایک دفعہ پھر بارش کے پانی کی زد سے بچ نہیں سکے۔ ڈیفنس کے فیز 6 کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پانی ان کے گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ جن بنگلوں میں تہہ خانے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
اس علاقہ میں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے جو نالے تھے وہ تعمیراتی کاموں کے دوران بند ہوگئے تھے، کسی نے ان نالوں کی افادیت کو محسوس نہیں کیا۔ ڈیفنس اور کنٹونمنٹ میں بعض نالوں پر بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں، یوں پمپوں کے ذریعہ پانی نکالنے کی کوشش بہت زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہورہی۔
کراچی کے غریبوں کی بستی قیوم آباد بھی ملیر ندی کے کنارے آباد ہے۔ ملیر ندی کو پانی سے بھرے ہوئے کئی دن ہوگئے، یوں اب ندی پانی کو قبول نہیں کررہی اور پانی غریبوں کے گھروں کو مسمار کررہا ہے۔ شہر میں دو بڑی ندیاں، ملیر اور لیاری ندی پانی کی نکاسی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
کھیرتھر کے پہاڑی سلسلہ تھانہ بولا خان میں ہونے والی مسلسل بارشوں کا پانی اس ندی کے ذریعہ سمندر میں داخل ہوتا ہے مگر اب ملیر ندی کے کناروں سے پانی قریبی بستیوں میں داخل ہوچکا ہے۔ ملیر اور ضلع مشرقی کے ڈپٹی کمشنر صاحبان نے اس ندی کے اطراف میں آباد بستیوں کے مکینوں کو خطرناک صورتحال کے بارے میں اطلاع دینے کی کوشش کی جس کی بناء پر جانی نقصان تو نہ ہوا مگر املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ یہی صورتحال لیاری ندی کی ہے۔
بلوچستان میں مسلسل بارش ہورہی ہے۔ وہاں سے آنے والا پانی لیاری ندی اور اس سے ملحقہ نالوں کے ذریعہ سمندر کے پانی میں مل جاتا ہے مگر پانی کی مقدار زیادہ ہے اور پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ لیاری ندی کے کنارے اس پانی کی شدت کو برداشت نہیں کرسکے۔ یوں ندی سے ملحقہ علاقوں میں پانی ہی پانی ہے۔ حکومت نے گزشتہ سال گجر نالہ اور محمود آباد نالہ کی صفائی اور لیاری ندی میں آباد بستیوں کو ختم کیا تھا جس کی بنیاد پر اس دفعہ جانی نقصان نہیں ہوا مگر پانی مسلسل بہہ رہا ہے۔ بلوچستان میں حب ڈیم کراچی کے مغربی حصہ کو پانی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
اس دفعہ اتنی زیادہ بارش ہوئی ہے کہ حب ڈیم کی دیواریں پانی کو محدود نہیں کرسکیں اور اس پانی نے منگھوپیر کے علاقے میں تباہی مچائی ہے۔ا س علاقے میں غریبوں کے مکانات تباہ ہوئے ہیں، سڑکیں ٹوٹ گئی ہیں اور ہر سڑک اور گلی میں پانی جمع ہے۔ لیاری سیورج کے ناقص نظام کی بناء پر بارش سے شدید متاثر ہوتا تھا۔ حالیہ بارشوں میں بھی لیاری کی اہم سڑکوں پر پانی موجود رہا ۔ شہر کے سب سے بڑے سول اسپتال کے گرد مستقل پانی جمع ہے۔
حکومت نے سول اسپتال کے سامنے بابائے اردو روڈ کو گزشتہ مہینوں میں دوبارہ تعمیر کیا تھا مگر پانی نے اس نئی سڑک پر کتنے گڑھے ڈالے ہیں فوری طور پر اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ کراچی کنٹونمنٹ کے علاقہ رفیقی شہید روڈ کے اطراف میںامراض قلب کا قومی ادارہ، جناح اسپتال بچوں کے علاج کا قومی ادارہ اور کڈنی سینٹر ہیں۔ روایت کے مطابق ان اسپتالوں میں داخلہ کے لیے گندے پانی کی ایک طویل نہر کو عبور کرنا ضروری ہے۔ کراچی کے پر رونق علاقے طارق روڈ پر تو ہمیشہ کئی کئی فٹ پانی جمع ہوتا ہے۔ اس دفعہ اس شاہراہ سے متصل ایک بڑے مال کے تہہ خانہ میں پانی داخل ہوا۔ اس مال کے دکانداروں کا کروڑوں روپے کا سامان اس بارش میں ڈوب گیا۔
کراچی کے قدیم تجارتی علاقے جوڑیا بازار، گوردھن داس مارکیٹ اور دیگر مارکیٹوں میں تعمیر ہونے والے تہہ خانے اس پانی سے بچ نہیں سکے۔ ان میں غلہ مارکیٹ بھی شامل ہے۔ اس صورتحال کے منطقی نتیجہ میں تہہ خانوں میں رکھے ہوئے سامان آٹا، چینی، دالیں، سبزیاں اور پھل سب خراب ہوچکے ہیں۔ کراچی کی بیشتر بستیوں میں جہاں پانی گھروں اور دکانوں میں داخل نہیں ہوا وہاں پانی کی نکاسی نہ ہونے کی بناء پر کیچڑ اور بدبو کا راج ہے۔ بارش کے ساتھ مکھیوں کی افزائش ِ نسل میں بھی کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ گندا پانی مچھروں کی افزائشِ نسل کے لیے بہترین ماحول فراہم کرتا ہے۔
یوں مکھیوں اور مچھروں سے ڈائریا، ٹائی فائیڈ، ملیریا اور ڈینگی کے مچھروں کی بیماری نے شہریوں کو زندگیوں کو اجیرن کیا ہوا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ فوری طور پر شہر میں اسپرے ہونا چاہیے۔ کراچی جنوبی کے علاقہ میں ریڈ زون واقع ہے۔ ریڈ زون میں گورنر ہاؤس، وزیر اعلیٰ ہاؤس، سندھ سیکریٹریٹ، سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے دفاتر ہیں۔
ریڈ زون سے متصل آئی آئی چندریگر روڈ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آئی آئی چندریگر پاکستان کا اقتصادی حب Financial Hub ہے۔ اس پورے علاقہ میں بارش کے پانی کی نکاسی کا جدید نظام موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسلسل بارش ہوتی ہے تو اس علاقہ کی سڑکیں چھوٹے چھوٹے دریاؤں اور ندیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ متعلقہ محکمہ کے اہلکار پمپ سے پانی نکالتے ہیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوپاتا۔
شہرقائد میں بارش کے دوران اموات کی بنیادی وجوہات میں کمزور چھتوں کا گرنا اور بجلی سے کرنٹ لگنا ، سمندر اور نالوں میں ڈوبنا شامل ہے۔ بارش میں بجلی کے نظام کی ناقص کارکردگی پھر اجاگر ہوئی ہے۔ بارش کے دوران بجلی کے کھمبوں میں کرنٹ آتا ہے۔ بعض اوقات تار ٹوٹ کر پانی میں گر جاتے ہیں۔
عجیب المیہ یہ ہے کہ ''کے الیکٹرک'' کے انجینئر انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے کوئی جامع نظام نہیں بناسکے۔ جمشید بخاری لکھتے ہیں کہ گٹر کی لائنوں کے بند اور نالوں سے پانی کی نکاسی کے نظام کے منقطع ہونے کی بنیادی وجہ سیکڑوں ٹن پلاسٹک ہے۔ جمشید کی تحقیق کے مطابق ایک گھر میں کھانے پکانے کے لیے آٹھ سے دس پلاسٹک کی تھیلیوں میں سامان آتا ہے۔ یہ تھیلیاں اشیاء کے استعمال ہونے کے بعد یہ گٹر اور نالوں میں پھینک دی جاتی ہیں،اس طرح سیورج کا نظام یا تو مکمل طور پر ناکارہ ہوتا ہے یا پانی کی نکاسی کا عمل سست پڑ جاتا ہے اور تباہی کا آغاز ہوتا ہے۔
راقم الحروف کا گزشتہ ایک ہفتہ لاہور میں گزرا۔ لاہور میں 19جون کو مسلسل 7گھنٹے تک بارش ہوئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اس دن 110 ملی میٹر بارش ہوئی۔ راقم الحروف دوسرے دن صبح کی سیر کے لیے باہر گیا تو اس پورے علاقے میں پانی کا ایک قطرہ موجود نہیں تھا۔ لاہور میں سیورئج کے جدید نظام نے اس پانی کو دریائے راوی کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لاہور ترقی کی دوڑ میں 50 سال آگے نکل گیا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی میں پیپلز بس سروس شروع کی مگر لاہور کی طرح اس کے لیے الگ ٹریک تعمیر نہیں ہوئے۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ شہر کی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں اور گہرے گڑھے بن گئے ہیں تو اس صورتحال میں ان بسوں کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور ان کے چند وزراء اور کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب بارش کے دوران مختلف علاقوں میں سرگرم عمل نظر آئے۔ ان سے ایک معزز صحافی نے سوال کیا تھا کہ اگر بلدیاتی ادارے فعال ہوتے تو انھیں اتنی محنت نہ کرنی پڑتی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ وہ ایسے وزیر اعلیٰ نہیں جو پالیسیاں بنائیں وہ تو ہر وقت متحرک نظر آنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان نے کراچی کی تباہی کے اسباب بتادیے۔
بارش جو ہر سال رحمت کے بجائے قیامت میں تبدیل ہوتی ہے اس کی بنیادی وجہ کونسلر اور یونین کونسل کا بااختیار نہ ہونا ہے، اگر کونسلر اور یونین کونسل کے چیئرمین بااختیار ہوں اور ان کے پاس سال بھر کے فنڈز موجود ہوں تو گٹر لائن کو صاف رکھنے اور نالوں سے کچرا ہٹانے کے کام کی نگرانی کریں ، جب کہ دوسری طرف وزیر اعلیٰ ان اداروں کو فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سندھ میں نچلی سطح کا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے ورنہ ہر سال بارش ہونے کے بعد ایسا ہی نوحہ ہوگا۔