کراچی کے معروف گرلز کالجوں سے ہیومینیٹیز فیکلٹی ختم کر دی گئی
17 مزید کالجوں میں اساتذہ اور لیبس کے بغیر کمپیوٹر سائنس میں داخلے دے دیے گئے
محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کراچی سمیت سندھ کے ایک لاکھ سے زائد طلبہ کے انٹر سال اول کے داخلے جونیئر ترین اساتذہ کے سپرد کرنے کے سنگین نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔
انٹر سال اول کے داخلوں کے سلسلے میں جاری کی گئی میرٹ لسٹ کے مطابق کراچی میں طالبات کے کئی سرکاری کالجوں سے ہیومینیٹیز فیکلٹی ختم کردی گئی ہے اور وہاں طالبات کے داخلے روک دیے گئے ہیں۔
کم از کم 17 سرکاری کالجوں میں متعلقہ اساتذہ اور لیبس کی عدم موجودگی کے باوجود کمپیوٹر سائنس کے داخلے دے دیے گئے ہیں تاہم یہ کوئی نہیں جانتا کہ کراچی کے سرکاری کالجوں کے لیے یہ فیصلے کس کی مرضی یا منظوری سے کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر انٹر سال اول کی میرٹ لسٹ چند روز قبل ہی جاری کی گئی ہے اور اس میرٹ لسٹ کی تیاری سے لے کر اجراء تک ایک بار پھر سینیئر کالج اساتذہ اور پرنسپلز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ کراچی شہر کے معروف اور اپنی شناخت رکھنے والے گرلز کالجوں سے ہیومینیٹیز کی فیکلٹی ہی عملی طور پر ختم کردی گئی ہے جو میرٹ لسٹ جاری کی گئی ہے۔
اس میں اولڈ سٹی ایریا میں قائم کراچی کے مشہور و معروف ''کراچی کالج، شہید ملت کالج، سینٹ لارنس کالج، ایس ایم بی فاطمہ جناح، گورنمنٹ کالج برائے خواتین کورنگی نمبر 4 اور 6، ریاض گرلز کالج ، گورنمنٹ کالج برائے خواتین ناظم آباد، اپوا گرلز کالج اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین بلاک ایم نارتھ ناظم آباد میں ہیومینیٹیز کے داخلے موجود ہی نہیں مزکورہ پرنسپل کے مطابق 2 بوائز کالج ''گورنمنٹ ڈگری کالج رزاق آباد اور گورنمنٹ ڈگری کالج شمس پیر'' میں طالبات کو ہیومینیٹیز فیکلٹی میں داخلے دے دیے گئے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ کالج شاہراہ لیاقت کے کچھ داخلے پنجابی کلب کالج میں دے کر اسے شاہراہ لیاقت کالج کا کیمپس ڈیکلیئر کیا گیا ہے جس سے کالج کا پورا عملہ اور طالبات پریشان ہیں۔
ایکسپریس نے اس دعوے کی تصدیق کے لیے جب گورنمنٹ شہید ملت ڈگری کالج کی پرنسپل پروفیسر فرحت جہاں سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی کالجوں میں بغیر اطلاع کے ہیومینیٹیز فیکلٹی ختم کر دی گئی ہے ہمارے کالج میں ہر سال 200 یا اس سے زائد طالبات کو اس فیکلٹی میں داخلہ دیا جاتا ہے تاہم اب اس فیصلے پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
ایک دوسرے تعلیمی ادارے سینٹ لارنس کالج کی پرنسپل پروفیسر مہ جبیں مختار سے بھی رابطہ کرنے پر اس دعوے کی تصدیق ہوئی انھوں نے بتایا کہ ہمیں میرٹ لسٹ دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہیومینیٹیز فیکلٹی میں داخلے ختم کر دیے گئے ہیں، معلوم کرنے پر بتایا گیا ہے کہ اب صرف سائنس پڑھانی ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کالج برائے خواتین ناظم آباد کی پرنسپل پروفیسر فرح حیدر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس فیکلٹی میں 500 کے قریب داخلے ہوتے تھے جو نہیں ہوئے ہم اب ڈائریکٹوریٹ کو خط لکھ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کراچی کے 17 مزید کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ اور کمپیوٹر لیبس کے بغیر داخلے دیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ برس 23 فیمیل اور 21 میل کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کے داخلے دیے گئے تھے جبکہ اس بار 27 فیمیل اور 34 میل کالجوں میں یہ داخلے دیے گئے ہیں۔
ان اضافی کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے لیے مطلوبہ سہولیات ہی موجود نہیں۔ ''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں گورنمنٹ سٹی کالج کے پرنسپل پروفیسر عامر خلیل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں کالج میں نہ تو کوئی کمپیوٹر پڑھانے کے لیے موجود ہے اور نہ ہی کوئی لیب ہے اب اس معاملے پر میں اپنے اساتذہ کی رائے لے رہا ہوں۔
اسی طرح جب گورنمنٹ کالج سرجانی ٹاؤن کے پرنسپل پروفیسر طاہر خورشید کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ٹیچر ہیں اور نہ ہی کمپیوٹر لیب ہے جب کوئی طالب علم آئے گا تو ہم اسے ''سی کیپ'' کی جانب ہی بھیج دیں گے۔
علاوہ ازیں سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن (سپلا) کراچی ریجن کے صدر پروفیسر کریم ناریجو سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ سپلا کا واضح موقف ہے کہ کسی فرد واحد کے ہاتھ میں اتنی بڑی پالیسی نہیں ہونی چاہیے اس میں شہر کے سینئر پرنسپلز اور پروفیسرز جو پہلے سے ای کیپ میں کام کرتے رہے ہیں ان کی سپر ویژن ضروری ہے، سپلا اس معاملے پر سیکریٹری کالجز اور ڈائریکٹر کالجز سے ملاقات کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی کہ اتنے بڑے فیصلے کرتے وقت پرنسپلز کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
دوسری جانب جب ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر محمد علی مانجھی سے رابطہ ہوا تو وہ معاملے کی سنگینی سے لاعلم تھے، ان کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے کا نوٹس لیتا ہوں اور راشد کھوسو کو بلاکر پوچھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔
واضح رہے کہ انٹر سال اول کے داخلوں کے لیے 20 سال سے کام کرنے والی سینئر پرنسپلز پر مشتمل کمیٹی کو سیکریٹری کالج ایجوکیشن خالد حیدر شاہ کی ایما یر ختم کرکے داخلوں کا سارا عمل چند جونیئر اساتذہ کے حوالے کیا گیا ہے جو تدریس کے بجائے محکمہ میں انتظامی ذمے داریاں نبھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد طلبہ کے داخلے ان ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ کچھ پرائیویٹ افراد کو بھی داخلے کے عمل میں شامل کیا گیا ہے اور کراچی سمیت سندھ بھر کے طلبہ کا تمام ڈیٹا ان پرائیویٹ افراد کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔
انٹر سال اول کے داخلوں کے سلسلے میں جاری کی گئی میرٹ لسٹ کے مطابق کراچی میں طالبات کے کئی سرکاری کالجوں سے ہیومینیٹیز فیکلٹی ختم کردی گئی ہے اور وہاں طالبات کے داخلے روک دیے گئے ہیں۔
کم از کم 17 سرکاری کالجوں میں متعلقہ اساتذہ اور لیبس کی عدم موجودگی کے باوجود کمپیوٹر سائنس کے داخلے دے دیے گئے ہیں تاہم یہ کوئی نہیں جانتا کہ کراچی کے سرکاری کالجوں کے لیے یہ فیصلے کس کی مرضی یا منظوری سے کیے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ نویں جماعت کے نتائج کی بنیاد پر انٹر سال اول کی میرٹ لسٹ چند روز قبل ہی جاری کی گئی ہے اور اس میرٹ لسٹ کی تیاری سے لے کر اجراء تک ایک بار پھر سینیئر کالج اساتذہ اور پرنسپلز کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ کراچی شہر کے معروف اور اپنی شناخت رکھنے والے گرلز کالجوں سے ہیومینیٹیز کی فیکلٹی ہی عملی طور پر ختم کردی گئی ہے جو میرٹ لسٹ جاری کی گئی ہے۔
اس میں اولڈ سٹی ایریا میں قائم کراچی کے مشہور و معروف ''کراچی کالج، شہید ملت کالج، سینٹ لارنس کالج، ایس ایم بی فاطمہ جناح، گورنمنٹ کالج برائے خواتین کورنگی نمبر 4 اور 6، ریاض گرلز کالج ، گورنمنٹ کالج برائے خواتین ناظم آباد، اپوا گرلز کالج اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین بلاک ایم نارتھ ناظم آباد میں ہیومینیٹیز کے داخلے موجود ہی نہیں مزکورہ پرنسپل کے مطابق 2 بوائز کالج ''گورنمنٹ ڈگری کالج رزاق آباد اور گورنمنٹ ڈگری کالج شمس پیر'' میں طالبات کو ہیومینیٹیز فیکلٹی میں داخلے دے دیے گئے ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ کالج شاہراہ لیاقت کے کچھ داخلے پنجابی کلب کالج میں دے کر اسے شاہراہ لیاقت کالج کا کیمپس ڈیکلیئر کیا گیا ہے جس سے کالج کا پورا عملہ اور طالبات پریشان ہیں۔
ایکسپریس نے اس دعوے کی تصدیق کے لیے جب گورنمنٹ شہید ملت ڈگری کالج کی پرنسپل پروفیسر فرحت جہاں سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ان کے کالج سمیت کئی کالجوں میں بغیر اطلاع کے ہیومینیٹیز فیکلٹی ختم کر دی گئی ہے ہمارے کالج میں ہر سال 200 یا اس سے زائد طالبات کو اس فیکلٹی میں داخلہ دیا جاتا ہے تاہم اب اس فیصلے پر کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
ایک دوسرے تعلیمی ادارے سینٹ لارنس کالج کی پرنسپل پروفیسر مہ جبیں مختار سے بھی رابطہ کرنے پر اس دعوے کی تصدیق ہوئی انھوں نے بتایا کہ ہمیں میرٹ لسٹ دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہیومینیٹیز فیکلٹی میں داخلے ختم کر دیے گئے ہیں، معلوم کرنے پر بتایا گیا ہے کہ اب صرف سائنس پڑھانی ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کالج برائے خواتین ناظم آباد کی پرنسپل پروفیسر فرح حیدر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس فیکلٹی میں 500 کے قریب داخلے ہوتے تھے جو نہیں ہوئے ہم اب ڈائریکٹوریٹ کو خط لکھ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں، کراچی کے 17 مزید کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کے اساتذہ اور کمپیوٹر لیبس کے بغیر داخلے دیے جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق گزشتہ برس 23 فیمیل اور 21 میل کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کے داخلے دیے گئے تھے جبکہ اس بار 27 فیمیل اور 34 میل کالجوں میں یہ داخلے دیے گئے ہیں۔
ان اضافی کالجوں میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم کے لیے مطلوبہ سہولیات ہی موجود نہیں۔ ''ایکسپریس'' نے جب اس سلسلے میں گورنمنٹ سٹی کالج کے پرنسپل پروفیسر عامر خلیل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں کالج میں نہ تو کوئی کمپیوٹر پڑھانے کے لیے موجود ہے اور نہ ہی کوئی لیب ہے اب اس معاملے پر میں اپنے اساتذہ کی رائے لے رہا ہوں۔
اسی طرح جب گورنمنٹ کالج سرجانی ٹاؤن کے پرنسپل پروفیسر طاہر خورشید کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ٹیچر ہیں اور نہ ہی کمپیوٹر لیب ہے جب کوئی طالب علم آئے گا تو ہم اسے ''سی کیپ'' کی جانب ہی بھیج دیں گے۔
علاوہ ازیں سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسوسی ایشن (سپلا) کراچی ریجن کے صدر پروفیسر کریم ناریجو سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ سپلا کا واضح موقف ہے کہ کسی فرد واحد کے ہاتھ میں اتنی بڑی پالیسی نہیں ہونی چاہیے اس میں شہر کے سینئر پرنسپلز اور پروفیسرز جو پہلے سے ای کیپ میں کام کرتے رہے ہیں ان کی سپر ویژن ضروری ہے، سپلا اس معاملے پر سیکریٹری کالجز اور ڈائریکٹر کالجز سے ملاقات کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی کہ اتنے بڑے فیصلے کرتے وقت پرنسپلز کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
دوسری جانب جب ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ پروفیسر محمد علی مانجھی سے رابطہ ہوا تو وہ معاملے کی سنگینی سے لاعلم تھے، ان کا کہنا تھا کہ میں اس معاملے کا نوٹس لیتا ہوں اور راشد کھوسو کو بلاکر پوچھتا ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔
واضح رہے کہ انٹر سال اول کے داخلوں کے لیے 20 سال سے کام کرنے والی سینئر پرنسپلز پر مشتمل کمیٹی کو سیکریٹری کالج ایجوکیشن خالد حیدر شاہ کی ایما یر ختم کرکے داخلوں کا سارا عمل چند جونیئر اساتذہ کے حوالے کیا گیا ہے جو تدریس کے بجائے محکمہ میں انتظامی ذمے داریاں نبھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ایک لاکھ سے زائد طلبہ کے داخلے ان ناتجربہ کار افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔
یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ کچھ پرائیویٹ افراد کو بھی داخلے کے عمل میں شامل کیا گیا ہے اور کراچی سمیت سندھ بھر کے طلبہ کا تمام ڈیٹا ان پرائیویٹ افراد کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔