عمران خان کے تازہ عزائم
خان صاحب پھر بھی الیکشن کمیشن کے خلاف آستینیں چڑھا رہے ہیں
یہ تاریخی اور ولولہ انگیز شہادتوں کو یاد کرنے کے ایام ہیں۔ محرم الحرام کی عظمت و تقدیس ہر مسلمان پر روشن اور واضح ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ اِس بار ماہِ محرم الحرام طلوع ہُوا ہے تو ساتھ ہی اگست کا مہینہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ ماہِ اگست بھی اُن لاکھوں مسلمانوں کی شہادتوں کا یاد کرنے کا مہینہ ہے جنھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی عظیم قیادت میں پاکستان کے نام سے ایک نیا وطن حاصل کیا۔رواں ماہِ اگست کے دوران مملکتِ خداداد پاکستان اپنی تخلیق کا75واں جشنِ آزادی بھی منا نے جا رہا ہے۔
یہ دیکھ کر مگر دل میں ایک ہُوک سی اُٹھتی ہے کہ موجودہ اور جدید پاکستان وہ پاکستان تو نہیں ہے جو پاکستان ہمیں بانیانِ پاکستان نے عنایت فرمایا تھا، جو دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھی۔ باون برس قبل مگر یہ وسیع و عریض مملکتِ خداداد دو حصوں میں بٹ گئی۔ آج ہمارے پاس بس نصف سا حصہ رہ گیا ہے۔ یہ نصف حصہ بھی ہم سب کے لیے قابلِ فخر ہے کہ یہ عالمِ اسلام کی پہلی اور اکلوتی جوہری مملکت ہے اور کئی دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے، یہ مگر تا ابد زندہ و پایندہ رہے گی۔ انشاء اللہ۔
عجب اتفاق ہے کہ پاکستان پر گیارہ سال تک آمریت کی جبریہ اور قہریہ حکومت کرنے والے جنرل ضیاء الحق بھی اِسی ماہِ اگست میں اگلے جہان سدھارے تھے۔ ہوائی جہاز (سی وَن تھرٹی) میں ایک پُراسرار دھماکے نے اُن کی جان لے لی تھی۔
آج سے 34برس قبل، 17اگست1988 کو۔ اِس سانحہ پر بہت سی رپورٹیں، بہت سی تحقیقی کتابیں اور کئی ناول لکھے گئے مگر جنرل ضیا ء الحق کے جہاز میں بم دھماکا کرنے نے والوں کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔ اگست کا رواں مہینہ اور رواں ہفتہ ہمارے لیے اس لیے بھی یاس انگیز واقع ہُوا ہے کہ 2 اگست 2022 کو افواجِ پاکستان کے 6سینئر فوجی افسر اور جوان ایک جانکاہ حادثے میں شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والے سبھی افراد فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار تھے اور سبھی بلوچستان میں سیلاب زدگان کی اعانت و امداد کررہے تھے ۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کے بقول: ناموافق موسم نے ہیلی کاپٹر کو نگل لیا۔ یوں ایک لیفٹیننٹ جنرل ( کوئٹہ کے کور کمانڈرسرفراز علی)، ایک میجر جنرل (امجد حنیف)، ایک بریگیڈیئر (محمد خالد) دو میجرز (سعید احمد اور طلحہ منان) اور ایک کریو جوان (نائک مدثر فیاض) اکٹھے ہی شہادت کے جام نوش کر گئے۔
ہمارے یہ شہدا لاہور، اوکاڑہ، آزاد کشمیر اور شکرگڑھ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ایسے عظیم الشان اور قابلِ فخر لوگ تھے کہ جان یوں جانِ آفریں کے سپرد کی کہ جاتے جاتے ملک اور اپنے آفت زدہ عوام کی بے لوث خدمت میں مگن تھے۔اِس دلدوز سانحہ نے سب پاکستانیوں کو افسردہ اور دلگیر کررکھا ہے۔ ہم سب ان شہدا کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔
2 اگست ہی کو خبر آئی کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر ''القاعدہ'' کے لیڈر ، ایمن الظواہری، کو امریکی ڈرون نے میزائل مار کر مار ڈالا ہے۔ ظواہری، اسامہ بن لادن کے معتمد اور قریبی ساتھی تھے، وہ مصری شہری تھے جو مصر میں بھی مطلوب تھے اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر لوگوں کے ہمراہ ملا عمر کے دور میں افغانستان آئے تھے۔
جس وقت افواجِ پاکستان کے مذکورہ بالا چھ عظیم شہدا کی تصدیقی خبر ٹی وی پر نشر کی جا رہی تھی، اُس وقت ملک بھر کے الیکٹرانک میڈیا پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا رہا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس فیصلے کے سنائے جانے پر اسلام آباد میں حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے، چنانچہ وفاقی دارالحکومت میں سیکڑوں پولیس کے جوان تعینات کر دیے گئے تھے۔ اہم شاہراہیں مقفل کر دی گئی تھیں۔ رینجرز بلانے کا اعلان بھی فضا میں گونج رہا تھا۔ خوف کا ماحول بن گیا تھا۔
نجی ٹی ویوں نے مزید سنسناہٹ پیدا کر رکھی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہُوئی۔ جن خدشات و خطرات کا اظہار کیا جارہا تھا، سرے سے وجود ہی میں نہ آئے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے سبھی اداروں نے بھی اس پر سُکھ کا سانس لیا۔ اِس پُر امن ماحول کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سنائے جانے والے فیصلے میں کوئی چنگھاڑ تھی نہ کوئی للکار۔ خان صاحب پھر بھی الیکشن کمیشن کے خلاف آستینیں چڑھا رہے ہیں۔
اِس فیصلے کے سنائے جانے کے بعد عمران خان کے مخالفین خان صاحب کو انھی الفاظ و القابات سے یاد کررہے ہیں جن القابات سے خان صاحب اپنے مخالفین کو یاد کرتے رہے ہیں اور ہنوز یاد کرتے ہیں۔ عمران خان نے اِس فیصلے سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن پر بے حد دباؤ ڈال رکھا تھا مگر خان صاحب اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ فیصلے کو سبھی نے تحمل سے سُنا اور حوصلے سے باری باری، اپنا اپنا ردِ عمل بھی دیا۔
خان صاحب کے عاشق دھڑے نے فیصلہ سُن کر کہا: خدا کا شکر ہے کہ فیصلے میں وہ کچھ نہیں ہے جو باتیں مخالفین نے پھیلا رکھی تھیں۔ خان صاحب کے بعض لوگوں نے اس فیصلے کو ''کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا'' بھی کہا۔ ابھی پورا فیصلہ سنایا نہیں گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے کئی لوگ فوری طور پر میڈیا سے گفتگو کرنے لگے۔
اُن میں پُھرتیاں بھی تھیں اور عوام کو مطمئن کرنے والا جوش بھی۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما فیصلے پر جزوی اطمینان کا اظہار کرتے ہُوئے اعلان کر رہے تھے کہ اس فیصلے کو بھی ہم عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلے نے مگر بباطن پی ٹی آئی کو حزن و رنج کی کیفیات میں ضرور مبتلا کر رکھا ہے کہ فیصلے کے کئی پیراگراف خان صاحب کی شخصیت اور اہداف کو بٹہ لگا گئے ہیں۔ اتحادی حکومت بھی خان صاحب کی نااہلی کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے رہی ہے ۔
فیصلہ حیران کن ہے ۔ جس صاحب ( اکبر ایس بابر: اُن کی ہمتوں اور مستقل مزاجی کو سیلوٹ) نے آٹھ سال قبل خان صاحب کے خلاف یہ دعویٰ دائر کیا تھا، وہ بھی فیصلے پر مطمئن ہیں۔ جن کے خلاف فیصلہ آیا ہے ، وہ بھی ناراض نہیں ہو رہے ، بلکہ خوشیاں منا رہے ہیں کہ جان بچ گئی ہے ۔ اور خان صاحب کی درجن بھر حریف جماعتیں ( پی ڈی ایم) بھی فیصلے پر خوشیاں منا رہی ہیں کہ ہماری جتنی توقعات تھیِں، فیصلے میں سب مرادیں بر آئی ہیں۔ یہ ایسا معجز ہ نما فیصلہ ہے جو سب کو خوش کر گیا ہے ، اُس غزل کی طرح جس سے ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنی اپنی مرضی کا مفہوم کشید کررہا ہو ۔ فیصلہ سنانے والوں کی حکمت اور دانش کو ''داد'' دینی چاہیے ۔
نون لیگی قیادت البتہ کچھ زیادہ ہی مسرت کا اظہار کرتی دیکھی گئی ہے ۔ ایک ہی دن میں درجن بھر نون لیگی سینئر قیادت نے بڑھ چڑھ کر فیصلے کے حق میں پریس کانفرنسیں یوں کیں کہ ایک جاتا تھا اور دوسرا آتا تھا ۔ ایک وزیر مملکت (مصدق ملک) کا جوش اور لفاظی تو قابلِ دید تھی ۔نواز شریف اور شہباز شریف نے اگر فیصلے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو شاباش دی ہے تو محترمہ مریم نواز بھی ٹویٹ پر ٹویٹ داغتی دیکھی گئیں ۔اصل ''جنگ'' تو مگر نون لیگ عدالتِ عظمیٰ میں لڑنے جا رہی ہے ۔ اِسی سے خان صاحب کچھ خائف ہیں، مگر وہ خاموش نہیں ہیں ۔3اگست کی شام خان صاحب نے ''ایکسپریس نیوز'' کو جو تفصیلی انٹرویو دیا ہے، اِس نے اُن کے تازہ عزائم ظاہر کر دیے ہیں ۔
یہ دیکھ کر مگر دل میں ایک ہُوک سی اُٹھتی ہے کہ موجودہ اور جدید پاکستان وہ پاکستان تو نہیں ہے جو پاکستان ہمیں بانیانِ پاکستان نے عنایت فرمایا تھا، جو دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھی۔ باون برس قبل مگر یہ وسیع و عریض مملکتِ خداداد دو حصوں میں بٹ گئی۔ آج ہمارے پاس بس نصف سا حصہ رہ گیا ہے۔ یہ نصف حصہ بھی ہم سب کے لیے قابلِ فخر ہے کہ یہ عالمِ اسلام کی پہلی اور اکلوتی جوہری مملکت ہے اور کئی دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے، یہ مگر تا ابد زندہ و پایندہ رہے گی۔ انشاء اللہ۔
عجب اتفاق ہے کہ پاکستان پر گیارہ سال تک آمریت کی جبریہ اور قہریہ حکومت کرنے والے جنرل ضیاء الحق بھی اِسی ماہِ اگست میں اگلے جہان سدھارے تھے۔ ہوائی جہاز (سی وَن تھرٹی) میں ایک پُراسرار دھماکے نے اُن کی جان لے لی تھی۔
آج سے 34برس قبل، 17اگست1988 کو۔ اِس سانحہ پر بہت سی رپورٹیں، بہت سی تحقیقی کتابیں اور کئی ناول لکھے گئے مگر جنرل ضیا ء الحق کے جہاز میں بم دھماکا کرنے نے والوں کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔ اگست کا رواں مہینہ اور رواں ہفتہ ہمارے لیے اس لیے بھی یاس انگیز واقع ہُوا ہے کہ 2 اگست 2022 کو افواجِ پاکستان کے 6سینئر فوجی افسر اور جوان ایک جانکاہ حادثے میں شہید ہوگئے ہیں۔ شہید ہونے والے سبھی افراد فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار تھے اور سبھی بلوچستان میں سیلاب زدگان کی اعانت و امداد کررہے تھے ۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کے بقول: ناموافق موسم نے ہیلی کاپٹر کو نگل لیا۔ یوں ایک لیفٹیننٹ جنرل ( کوئٹہ کے کور کمانڈرسرفراز علی)، ایک میجر جنرل (امجد حنیف)، ایک بریگیڈیئر (محمد خالد) دو میجرز (سعید احمد اور طلحہ منان) اور ایک کریو جوان (نائک مدثر فیاض) اکٹھے ہی شہادت کے جام نوش کر گئے۔
ہمارے یہ شہدا لاہور، اوکاڑہ، آزاد کشمیر اور شکرگڑھ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ایسے عظیم الشان اور قابلِ فخر لوگ تھے کہ جان یوں جانِ آفریں کے سپرد کی کہ جاتے جاتے ملک اور اپنے آفت زدہ عوام کی بے لوث خدمت میں مگن تھے۔اِس دلدوز سانحہ نے سب پاکستانیوں کو افسردہ اور دلگیر کررکھا ہے۔ ہم سب ان شہدا کے لیے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔
2 اگست ہی کو خبر آئی کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر ''القاعدہ'' کے لیڈر ، ایمن الظواہری، کو امریکی ڈرون نے میزائل مار کر مار ڈالا ہے۔ ظواہری، اسامہ بن لادن کے معتمد اور قریبی ساتھی تھے، وہ مصری شہری تھے جو مصر میں بھی مطلوب تھے اور اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر لوگوں کے ہمراہ ملا عمر کے دور میں افغانستان آئے تھے۔
جس وقت افواجِ پاکستان کے مذکورہ بالا چھ عظیم شہدا کی تصدیقی خبر ٹی وی پر نشر کی جا رہی تھی، اُس وقت ملک بھر کے الیکٹرانک میڈیا پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی سنایا جا رہا تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ اس فیصلے کے سنائے جانے پر اسلام آباد میں حالات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے، چنانچہ وفاقی دارالحکومت میں سیکڑوں پولیس کے جوان تعینات کر دیے گئے تھے۔ اہم شاہراہیں مقفل کر دی گئی تھیں۔ رینجرز بلانے کا اعلان بھی فضا میں گونج رہا تھا۔ خوف کا ماحول بن گیا تھا۔
نجی ٹی ویوں نے مزید سنسناہٹ پیدا کر رکھی تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہُوئی۔ جن خدشات و خطرات کا اظہار کیا جارہا تھا، سرے سے وجود ہی میں نہ آئے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے سبھی اداروں نے بھی اس پر سُکھ کا سانس لیا۔ اِس پُر امن ماحول کی شاید سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سنائے جانے والے فیصلے میں کوئی چنگھاڑ تھی نہ کوئی للکار۔ خان صاحب پھر بھی الیکشن کمیشن کے خلاف آستینیں چڑھا رہے ہیں۔
اِس فیصلے کے سنائے جانے کے بعد عمران خان کے مخالفین خان صاحب کو انھی الفاظ و القابات سے یاد کررہے ہیں جن القابات سے خان صاحب اپنے مخالفین کو یاد کرتے رہے ہیں اور ہنوز یاد کرتے ہیں۔ عمران خان نے اِس فیصلے سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن پر بے حد دباؤ ڈال رکھا تھا مگر خان صاحب اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ فیصلے کو سبھی نے تحمل سے سُنا اور حوصلے سے باری باری، اپنا اپنا ردِ عمل بھی دیا۔
خان صاحب کے عاشق دھڑے نے فیصلہ سُن کر کہا: خدا کا شکر ہے کہ فیصلے میں وہ کچھ نہیں ہے جو باتیں مخالفین نے پھیلا رکھی تھیں۔ خان صاحب کے بعض لوگوں نے اس فیصلے کو ''کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا'' بھی کہا۔ ابھی پورا فیصلہ سنایا نہیں گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے کئی لوگ فوری طور پر میڈیا سے گفتگو کرنے لگے۔
اُن میں پُھرتیاں بھی تھیں اور عوام کو مطمئن کرنے والا جوش بھی۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنما فیصلے پر جزوی اطمینان کا اظہار کرتے ہُوئے اعلان کر رہے تھے کہ اس فیصلے کو بھی ہم عدالت میں چیلنج کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مذکورہ فیصلے نے مگر بباطن پی ٹی آئی کو حزن و رنج کی کیفیات میں ضرور مبتلا کر رکھا ہے کہ فیصلے کے کئی پیراگراف خان صاحب کی شخصیت اور اہداف کو بٹہ لگا گئے ہیں۔ اتحادی حکومت بھی خان صاحب کی نااہلی کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دے رہی ہے ۔
فیصلہ حیران کن ہے ۔ جس صاحب ( اکبر ایس بابر: اُن کی ہمتوں اور مستقل مزاجی کو سیلوٹ) نے آٹھ سال قبل خان صاحب کے خلاف یہ دعویٰ دائر کیا تھا، وہ بھی فیصلے پر مطمئن ہیں۔ جن کے خلاف فیصلہ آیا ہے ، وہ بھی ناراض نہیں ہو رہے ، بلکہ خوشیاں منا رہے ہیں کہ جان بچ گئی ہے ۔ اور خان صاحب کی درجن بھر حریف جماعتیں ( پی ڈی ایم) بھی فیصلے پر خوشیاں منا رہی ہیں کہ ہماری جتنی توقعات تھیِں، فیصلے میں سب مرادیں بر آئی ہیں۔ یہ ایسا معجز ہ نما فیصلہ ہے جو سب کو خوش کر گیا ہے ، اُس غزل کی طرح جس سے ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنی اپنی مرضی کا مفہوم کشید کررہا ہو ۔ فیصلہ سنانے والوں کی حکمت اور دانش کو ''داد'' دینی چاہیے ۔
نون لیگی قیادت البتہ کچھ زیادہ ہی مسرت کا اظہار کرتی دیکھی گئی ہے ۔ ایک ہی دن میں درجن بھر نون لیگی سینئر قیادت نے بڑھ چڑھ کر فیصلے کے حق میں پریس کانفرنسیں یوں کیں کہ ایک جاتا تھا اور دوسرا آتا تھا ۔ ایک وزیر مملکت (مصدق ملک) کا جوش اور لفاظی تو قابلِ دید تھی ۔نواز شریف اور شہباز شریف نے اگر فیصلے کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو شاباش دی ہے تو محترمہ مریم نواز بھی ٹویٹ پر ٹویٹ داغتی دیکھی گئیں ۔اصل ''جنگ'' تو مگر نون لیگ عدالتِ عظمیٰ میں لڑنے جا رہی ہے ۔ اِسی سے خان صاحب کچھ خائف ہیں، مگر وہ خاموش نہیں ہیں ۔3اگست کی شام خان صاحب نے ''ایکسپریس نیوز'' کو جو تفصیلی انٹرویو دیا ہے، اِس نے اُن کے تازہ عزائم ظاہر کر دیے ہیں ۔