خدا کے واسطے منظر بدل دو
پانچ منٹ بعد بھی سین نہیں بدلا بیزار طبع لوگوں نے پاپ کارن کے پیکٹ کھول لیے
کراچی:
امریکا کے ایک سنیما میں کمر شل فلم سے پہلے ایک شارٹ فلم چلائی گئی۔ شارٹ فلم ایک مختصر دورانیے کی فلم ہوتی ہے جس میں ایک بھرپور میسج دیا جاتا ہے۔ اس شارٹ فلم کی شروعات میں چھت کا پنکھا دکھایا گیا تھا یہ پنکھا پرانے ماڈل کا تھا اور مسلسل چل رہا تھا، اس پنکھے کے علاوہ فریم میں اورکچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
سنیما دیکھنے والے بڑے تجسس سے یہ سین دیکھ رہے تھے انھیں یقین تھا کہ ابھی کچھ دیر میں منظر بدلے گا اور کچھ ایسا دیکھنے کو ملے گا جو سیدھا ان کے دل پر اثر کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا دو منٹ گزر گئے اور صرف پنکھا ہی چلتا دکھائی دیتا رہا، سنیما ہال میں موجود کئی حاضرین نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سب کو یقین ہوچکا کہ شارٹ فلم میں ان کے دیکھنے لائق کچھ نہیں۔ شائق توقع کر رہے تھے کہ شاید آگے چل کر کچھ واقعی دیکھنے کو ملے۔
پانچ منٹ بعد بھی سین نہیں بدلا بیزار طبع لوگوں نے پاپ کارن کے پیکٹ کھول لیے۔ فلم کے آغاز میں جو سکوت طاری تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا ۔ لوگوں کی تو جہ بھی اب اسکر ین پر مرکو ز نہیں رہی تھی، جن کے پاس پاپ کارن نہیں تھے انھوں نے موبائل نکال لیے اور وقت گزاری کے لیے سو شل میڈیا کھول لیے، تاہم سب لوگ وقفے وقفے سے ایک نظر سنیما اسکرین پر بھی ڈال لیتے تھے، لیکن وہاں وہ ہی منظر تھا چھت پر چلتا ہوا پرانے ماڈل کا پنکھا۔ چھٹا منٹ شروع ہوا تو دبی دبی سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ کتنی بورنگ ہے یہ شارٹ فلم۔ ایک اور آواز آئی '' ہوسکتا ہے فلم کے آخر میں یہ بتا یا جائے کہ پنکھا بھی ہمارے سانس کی طرح ہے جو چلتا جارہا ہے لیکن جب کوئی بٹن دبا تا ہے تو یہ بند ہوجاتا ہے اور اگر واقعی یہ ہی اختتام ہو اتو لعنت بھیجوں گا ایسی بورنگ فلم بنانے والے پر۔'' ایک اور رائے آئی '' یہ فلم اس لیے دکھائی جارہی ہے تاکہ جب کمرشل فلم شروع ہو تو وہ ہمیں زیادہ اچھی لگے۔'' یہ بات سن کرکئی لوگ قہقہے لگانے لگے۔
ایک موٹے امریکی نے تو باقاعدہ اپنی سیٹ سے اٹھ کرکہہ بھی دیا کہ یہ ہمارے صبر کا امتحان ہے پچھلی سیٹوں پر بیٹھی ایک خاتون کی آواز آئی کہ ''پنکھا بندکردیا جائے بلاوجہ سردی محسوس ہورہی ہے۔'' اسی کی ایک ساتھی کی آواز گو نجی ''ہاں اورساتھ ہی یہ شارٹ فلم بنانے والے کو بھی بند کردیا جائے۔'' ہوتے ہوتے دسواں منٹ اسٹارٹ ہوگیا۔ شارٹ فلم کے آغاز میں ہی بتایا گیا تھا کہ اس کا دورانیہ دس منٹ ہے لیکن اب تو دسواں منٹ شروع ہو گیا تھا اور اسکرین پر صرف چھت والا پنکھا چلتا دکھائی دے رہا تھا آخر محض ایک چلتے ہوئے پنکھے کی فلم دیکھنے والے کتنی دیر تک برداشت کر سکتے ہیں۔
اتنے میں ایک اچانک شارٹ فلم کا منظر بدلا اور کیمرہ دھیرے سے گھومتا ہوا پنکھے کے بالکل الٹی سمت میں حرکت کرگیا۔ اب اسکرین پر ایک بیڈ نظر آرہا تھا جس پر ایک شخص ساکت لیٹا ہوا چھت کے پنکھے کو خالی نظروں سے دیکھے جارہا تھا۔ منظر بدلتے ہی سنیما میں موجود لوگ چو نک پڑے سرگوشیاں بند ہوگئیں اور نظریں اسکرین پر جم گئیں۔ دس منٹ ختم ہونے میں پندرہ سیکنڈ باقی تھے ، تب ہی سنیما ہال میں ایک آوازگونجی۔ یہ شخص ہلنے جلنے سے قاصر ہے '' جس منظرکو آپ دس منٹ نہیں دیکھ سکے ، اسے یہ شخص دس سال سے مسلسل اسی طرح سے دیکھ رہا ہے۔'' ایک لمحے کے لیے ہر طرف خاموشی چھا گئی اور پھر پورا ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔
سنیما ہال میں بیٹھے لوگ تو ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر دس منٹ میں ہی بیزار ہوگئے تھے انھیں کیا معلوم ، انھیں کیا پتہ کہ پاکستان کے لوگ75سالوں سے مسلسل لگا تار بس ایک ہی منظر دیکھے جارہے ہیں۔ اپنی بربادی ، ذلت ، رسوائی ، بھوک وافلاس ، غربت ، فاقوں ، بیماریوں ، بے اختیاری کا مسلسل چلتا ایک ہی منظر جو نہ تو بدل رہا ہے اور نہ ہی رک پارہا ہے بس چلتا ہی جارہا ہے۔ ذرا سوچو ،کس قدر اذیت ، تکلیف اور وحشت سے لوگ گزر رہے ہوں گے ، کس قدر دہشت میں اپنے دن رات گذار رہے ہوں گے۔ بے بسی بھی رو روکر خاموش ہوچکی ہے۔ وحشت ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر اندھی ہوچکی ہے درد بہرے ہو چکے ہیں۔
تکلیفیں ، گونگی ہوگئی ہیں چیخیں پاگل ہوچکی ہیں لیکن منظر ہے کہ بدل کے دے نہیں پا رہا ہے۔ بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ منظر بدلنے والے اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں لوٹ مار ، کرپشن کی دلدل میں اس قدر دھنسے ہوئے ہیں کہ باہر نکلنا ناممکن ہے۔
اس قدر ذلت بھری زندگی گذار رہے ہیں کہ فرشتوں کو بھی رونا آرہا ہے ۔ تنزانیہ کا شاعر اولو تھو جنیڈ اپنی نظم بتا ؤ ، میں کہتا ہوں بتاؤ کہ ہر روز دوپہر کے کھانے پر میں اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کوڑے کے ڈبے سے گندگی کھاتے دیکھتا ہوں ، اسے بتاؤکہ میں اپنے دل میں ان کے لیے آنسو بہاتا اور روتا ہوں کیوں کہ میں ان محتاجوں اور مفلسوں سے محبت کرتا ہوں میں ا ن کی بوسیدگی اور غلاظت سے، ان کی شرم ناک حالت سے ، ان کی مفلسی اور شقاوت سمیت ان سے محبت کرتا ہوں، بتاؤ کہ میں نے ان بندوں کو گرجا گھر جاتے دیکھا ہے ، اسے بتاؤ کہ میں نے ان کے مذہبی پیشوا کو انھیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے لیکن یہ پیشوا ان میں سے نہیں کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا ، جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں وہ اس کے دوست نہیں ہوسکتے۔
مفلس لوگ بخشی ہوئی روحیں ہیں وہ بغیر کسی ایقان کے انھیں پڑھ کر سناتا ہے لیکن یہ لوگ ہر امید سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور اب حسین خوابوں پر انھیں کوئی یقین نہیں رہا، بتا ؤکہ میں نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں ، مگر اس نے جواب نہیں دیا اسے بتاؤکہ میں نے عبادت گاہ میں خوب رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں لیکن اس نے ہماری طرف نگا ہ نہیں کی، بتاؤ کہ وہ ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے ان کے لیے جو بیمار ہیں اور بے یارو مدد گار ہیں یہ اجڑے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں۔
اسے بتاؤ کہ یہ غریب اور محتاج لوگ اس کے لیے تڑپ رہے ہیں ، اسے بتاؤ کہ یتیم ، معذور ، عاشق اور خبطی سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں ۔ بتاؤ خدارا اسے بتاؤ کہ اسے عبادت گاہوں اور نئے طرز تعمیر کی شاندار عبادت گاہوں میں رہتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے ، بتاؤ کہ وہ غریبوں کے گندے محلوں کی طرف آئے اسے بتاؤ کہ اب دیرکی گنجائش نہیں ہے۔''
یہ ہی فریاد ہماری بھی ہے۔ تیرے بندے بہت اذیت میں ہیں ، اب بات برداشت سے باہر ہوچکی ہے ہم جتنے گل سڑ سکتے تھے ، گل سڑ چکے ہیں جتنی ذلت ، غلاظت ، اذیت، ذلالت برداشت کرسکتے تھے ، کرچکے ہیں جتنی دھتکار ، فاقے اورگالیاں سن سکتے تھے سن چکے ہیں۔ اب یہ تاریک قید خانے اور برداشت نہیں ہوتے ہیں۔ ان وحشی بھوکوں سے ہمیں نجات دے دے ۔ یہ سب کچھ کھا چکے ہیں ، اب بس ہمیں کھانا باقی ہے۔ یاد رکھو وحشی بھوکوں کی بد دعائیں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔
چارلس نہم شاہ فرانس کی موت کا منظر بڑا وحشت ناک تھا یہ وہ بادشاہ تھا جس نے سینٹ با تھولو مو کی رات کو ایک بے قصور اصلاح پسند فرقے ہیوگناٹوں کے قتل عام کی اجازت دے دی تھی، مرتے وقت وہ بڑے کرب میں مبتلا تھا اور بار بار اپنے ڈاکٹر سے یہ ہی کہتا تھا '' میرے جسم اور دماغ دونوں میں تلاطم برپا ہے سوتے جاگتے میری نظر کے سامنے مقتولوں کی خو ن آلود لاشیں پھرتی ہیں ،کاش کہ میں بے گناہ ، ہیو گناٹوں کے قتل عام کی اجازت نہ دیتا ۔'' آپ اپنے کیے سے کسی بھی صورت پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس لیے منظر بدلنے کا اختیار رکھنے والوں خدا کے واسطے منظر بدل دو ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تمہارا ہی منظر بدل دیا جائے۔
امریکا کے ایک سنیما میں کمر شل فلم سے پہلے ایک شارٹ فلم چلائی گئی۔ شارٹ فلم ایک مختصر دورانیے کی فلم ہوتی ہے جس میں ایک بھرپور میسج دیا جاتا ہے۔ اس شارٹ فلم کی شروعات میں چھت کا پنکھا دکھایا گیا تھا یہ پنکھا پرانے ماڈل کا تھا اور مسلسل چل رہا تھا، اس پنکھے کے علاوہ فریم میں اورکچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
سنیما دیکھنے والے بڑے تجسس سے یہ سین دیکھ رہے تھے انھیں یقین تھا کہ ابھی کچھ دیر میں منظر بدلے گا اور کچھ ایسا دیکھنے کو ملے گا جو سیدھا ان کے دل پر اثر کرے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا دو منٹ گزر گئے اور صرف پنکھا ہی چلتا دکھائی دیتا رہا، سنیما ہال میں موجود کئی حاضرین نے انگڑائیاں لینا شروع کر دیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے سب کو یقین ہوچکا کہ شارٹ فلم میں ان کے دیکھنے لائق کچھ نہیں۔ شائق توقع کر رہے تھے کہ شاید آگے چل کر کچھ واقعی دیکھنے کو ملے۔
پانچ منٹ بعد بھی سین نہیں بدلا بیزار طبع لوگوں نے پاپ کارن کے پیکٹ کھول لیے۔ فلم کے آغاز میں جو سکوت طاری تھا وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا تھا ۔ لوگوں کی تو جہ بھی اب اسکر ین پر مرکو ز نہیں رہی تھی، جن کے پاس پاپ کارن نہیں تھے انھوں نے موبائل نکال لیے اور وقت گزاری کے لیے سو شل میڈیا کھول لیے، تاہم سب لوگ وقفے وقفے سے ایک نظر سنیما اسکرین پر بھی ڈال لیتے تھے، لیکن وہاں وہ ہی منظر تھا چھت پر چلتا ہوا پرانے ماڈل کا پنکھا۔ چھٹا منٹ شروع ہوا تو دبی دبی سرگوشیاں شروع ہوگئیں کہ کتنی بورنگ ہے یہ شارٹ فلم۔ ایک اور آواز آئی '' ہوسکتا ہے فلم کے آخر میں یہ بتا یا جائے کہ پنکھا بھی ہمارے سانس کی طرح ہے جو چلتا جارہا ہے لیکن جب کوئی بٹن دبا تا ہے تو یہ بند ہوجاتا ہے اور اگر واقعی یہ ہی اختتام ہو اتو لعنت بھیجوں گا ایسی بورنگ فلم بنانے والے پر۔'' ایک اور رائے آئی '' یہ فلم اس لیے دکھائی جارہی ہے تاکہ جب کمرشل فلم شروع ہو تو وہ ہمیں زیادہ اچھی لگے۔'' یہ بات سن کرکئی لوگ قہقہے لگانے لگے۔
ایک موٹے امریکی نے تو باقاعدہ اپنی سیٹ سے اٹھ کرکہہ بھی دیا کہ یہ ہمارے صبر کا امتحان ہے پچھلی سیٹوں پر بیٹھی ایک خاتون کی آواز آئی کہ ''پنکھا بندکردیا جائے بلاوجہ سردی محسوس ہورہی ہے۔'' اسی کی ایک ساتھی کی آواز گو نجی ''ہاں اورساتھ ہی یہ شارٹ فلم بنانے والے کو بھی بند کردیا جائے۔'' ہوتے ہوتے دسواں منٹ اسٹارٹ ہوگیا۔ شارٹ فلم کے آغاز میں ہی بتایا گیا تھا کہ اس کا دورانیہ دس منٹ ہے لیکن اب تو دسواں منٹ شروع ہو گیا تھا اور اسکرین پر صرف چھت والا پنکھا چلتا دکھائی دے رہا تھا آخر محض ایک چلتے ہوئے پنکھے کی فلم دیکھنے والے کتنی دیر تک برداشت کر سکتے ہیں۔
اتنے میں ایک اچانک شارٹ فلم کا منظر بدلا اور کیمرہ دھیرے سے گھومتا ہوا پنکھے کے بالکل الٹی سمت میں حرکت کرگیا۔ اب اسکرین پر ایک بیڈ نظر آرہا تھا جس پر ایک شخص ساکت لیٹا ہوا چھت کے پنکھے کو خالی نظروں سے دیکھے جارہا تھا۔ منظر بدلتے ہی سنیما میں موجود لوگ چو نک پڑے سرگوشیاں بند ہوگئیں اور نظریں اسکرین پر جم گئیں۔ دس منٹ ختم ہونے میں پندرہ سیکنڈ باقی تھے ، تب ہی سنیما ہال میں ایک آوازگونجی۔ یہ شخص ہلنے جلنے سے قاصر ہے '' جس منظرکو آپ دس منٹ نہیں دیکھ سکے ، اسے یہ شخص دس سال سے مسلسل اسی طرح سے دیکھ رہا ہے۔'' ایک لمحے کے لیے ہر طرف خاموشی چھا گئی اور پھر پورا ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔
سنیما ہال میں بیٹھے لوگ تو ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر دس منٹ میں ہی بیزار ہوگئے تھے انھیں کیا معلوم ، انھیں کیا پتہ کہ پاکستان کے لوگ75سالوں سے مسلسل لگا تار بس ایک ہی منظر دیکھے جارہے ہیں۔ اپنی بربادی ، ذلت ، رسوائی ، بھوک وافلاس ، غربت ، فاقوں ، بیماریوں ، بے اختیاری کا مسلسل چلتا ایک ہی منظر جو نہ تو بدل رہا ہے اور نہ ہی رک پارہا ہے بس چلتا ہی جارہا ہے۔ ذرا سوچو ،کس قدر اذیت ، تکلیف اور وحشت سے لوگ گزر رہے ہوں گے ، کس قدر دہشت میں اپنے دن رات گذار رہے ہوں گے۔ بے بسی بھی رو روکر خاموش ہوچکی ہے۔ وحشت ایک ہی منظر دیکھ دیکھ کر اندھی ہوچکی ہے درد بہرے ہو چکے ہیں۔
تکلیفیں ، گونگی ہوگئی ہیں چیخیں پاگل ہوچکی ہیں لیکن منظر ہے کہ بدل کے دے نہیں پا رہا ہے۔ بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ منظر بدلنے والے اپنی عیاشیوں میں غرق ہیں لوٹ مار ، کرپشن کی دلدل میں اس قدر دھنسے ہوئے ہیں کہ باہر نکلنا ناممکن ہے۔
اس قدر ذلت بھری زندگی گذار رہے ہیں کہ فرشتوں کو بھی رونا آرہا ہے ۔ تنزانیہ کا شاعر اولو تھو جنیڈ اپنی نظم بتا ؤ ، میں کہتا ہوں بتاؤ کہ ہر روز دوپہر کے کھانے پر میں اپنے ساتھیوں میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے کوڑے کے ڈبے سے گندگی کھاتے دیکھتا ہوں ، اسے بتاؤکہ میں اپنے دل میں ان کے لیے آنسو بہاتا اور روتا ہوں کیوں کہ میں ان محتاجوں اور مفلسوں سے محبت کرتا ہوں میں ا ن کی بوسیدگی اور غلاظت سے، ان کی شرم ناک حالت سے ، ان کی مفلسی اور شقاوت سمیت ان سے محبت کرتا ہوں، بتاؤ کہ میں نے ان بندوں کو گرجا گھر جاتے دیکھا ہے ، اسے بتاؤ کہ میں نے ان کے مذہبی پیشوا کو انھیں نجات اور بخشش کی دعائیں دیتے دیکھا ہے لیکن یہ پیشوا ان میں سے نہیں کیوں کہ وہ اس جہنم میں کبھی نہیں آئے گا ، جہاں یہ مفلس اور کنگلے لوگ رہتے ہیں وہ اس کے دوست نہیں ہوسکتے۔
مفلس لوگ بخشی ہوئی روحیں ہیں وہ بغیر کسی ایقان کے انھیں پڑھ کر سناتا ہے لیکن یہ لوگ ہر امید سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں اور اب حسین خوابوں پر انھیں کوئی یقین نہیں رہا، بتا ؤکہ میں نے اسے بہت تلاش کیا لیکن وہ کہیں نہیں ملا۔ میں نے چلا چلا کر اسے آوازیں دی ہیں ، مگر اس نے جواب نہیں دیا اسے بتاؤکہ میں نے عبادت گاہ میں خوب رو رو کر اس سے التجائیں کی ہیں لیکن اس نے ہماری طرف نگا ہ نہیں کی، بتاؤ کہ وہ ابدی سکون سے نکلے اور اس جہنم میں آئے ان کے لیے جو بیمار ہیں اور بے یارو مدد گار ہیں یہ اجڑے اور بھلائے ہوئے لوگ اسے پکار رہے ہیں۔
اسے بتاؤ کہ یہ غریب اور محتاج لوگ اس کے لیے تڑپ رہے ہیں ، اسے بتاؤ کہ یتیم ، معذور ، عاشق اور خبطی سب اس کی چاہ میں سلگ رہے ہیں ۔ بتاؤ خدارا اسے بتاؤ کہ اسے عبادت گاہوں اور نئے طرز تعمیر کی شاندار عبادت گاہوں میں رہتے ہوئے بہت وقت ہوگیا ہے ، بتاؤ کہ وہ غریبوں کے گندے محلوں کی طرف آئے اسے بتاؤ کہ اب دیرکی گنجائش نہیں ہے۔''
یہ ہی فریاد ہماری بھی ہے۔ تیرے بندے بہت اذیت میں ہیں ، اب بات برداشت سے باہر ہوچکی ہے ہم جتنے گل سڑ سکتے تھے ، گل سڑ چکے ہیں جتنی ذلت ، غلاظت ، اذیت، ذلالت برداشت کرسکتے تھے ، کرچکے ہیں جتنی دھتکار ، فاقے اورگالیاں سن سکتے تھے سن چکے ہیں۔ اب یہ تاریک قید خانے اور برداشت نہیں ہوتے ہیں۔ ان وحشی بھوکوں سے ہمیں نجات دے دے ۔ یہ سب کچھ کھا چکے ہیں ، اب بس ہمیں کھانا باقی ہے۔ یاد رکھو وحشی بھوکوں کی بد دعائیں قبر تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔
چارلس نہم شاہ فرانس کی موت کا منظر بڑا وحشت ناک تھا یہ وہ بادشاہ تھا جس نے سینٹ با تھولو مو کی رات کو ایک بے قصور اصلاح پسند فرقے ہیوگناٹوں کے قتل عام کی اجازت دے دی تھی، مرتے وقت وہ بڑے کرب میں مبتلا تھا اور بار بار اپنے ڈاکٹر سے یہ ہی کہتا تھا '' میرے جسم اور دماغ دونوں میں تلاطم برپا ہے سوتے جاگتے میری نظر کے سامنے مقتولوں کی خو ن آلود لاشیں پھرتی ہیں ،کاش کہ میں بے گناہ ، ہیو گناٹوں کے قتل عام کی اجازت نہ دیتا ۔'' آپ اپنے کیے سے کسی بھی صورت پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ اس لیے منظر بدلنے کا اختیار رکھنے والوں خدا کے واسطے منظر بدل دو ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تمہارا ہی منظر بدل دیا جائے۔