امامت ابتلاء میں سُرخرو ہونا
اُن کو بھی ابتلا میں کامیابی پر انسانوں کی امامت عطا کی گئی
ISLAMABAD:
قمری کیلنڈر بعثتِ سرکارِ دوعالمﷺ سے صدیوں پہلے رائج تھا۔ شمسی کینڈر کئی مراحل طے کرکے اور کئی تبدیلیوں کے بعد موجودہ شکل میں آیا لیکن قمری کیلنڈر میں کبھی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ خلیفہ دوئم سیدنا عمرِ فاروق رضی اﷲتعالیٰ کے عہد کے دوسرے سال مدینہ منورہ میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ قمری کیلنڈر کو ہجرتِ سرکارِ دوعالم سے شروع کیا جائے تب سے قمری سال کو ہجری سال میں بدل دیا گیا۔
ہجری کیلنڈر کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے فرزندسیدنا امام حسین ؓ کی محرم میں عظیم شہادت سے شروع ہوتا ہے اور سیدنا ابراہیم ؑ کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ کی ذوی الحج کے مہینے میں عظیم قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ گویا پورا ہجری سال دو عظیم قربانیوں کی یاد میں بسر ہوتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت 124میں سیدنا ابراہیم ؑ کو تمام انسانوں کی امامت عطا ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اﷲ نے سیدنا ابراہیمؑ کو ابتلاء میں ڈالا لیکن وہ اس ابتلاء میں سُرخرو ہوئے۔ اس کامیابی پرانھیں تمام انسانوں کا امام مقرر کیا گیا۔
سیدنا ابراہیم ؑ کی آزمائشوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ آپ نے بڑھاپے کی عمر میں عطا ہونے والے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ'' آپ نے جو کچھ دیکھا ہے اُسے کر گزریے، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔'' اﷲ نے اس ابتلاء میں کامیابی پر سیدنا اسمٰعیل ؑ کو بچا لیا اور اسے ایک ذبحِ عظیم میں بدل دیا۔ سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسمٰعیل کو آزمانا بھی ضروری تھا اور سیدنا اسمٰعیل ؑ کو بچانا بھی، کیونکہ آگے چل کر انھی کی اولاد میں سے خاتم النبیینﷺ کی ولادتِ باسعادت ہونی تھی اور رسول اﷲﷺ کی اولاد میں سے سیدنا حسینؓ کو ذبحِ عظیم بننا تھا۔ سیدنا حسینؓ کو کرب و بلا میں پیاس، آگ اور خون کے دریا سے اسی طرح گزارا گیا جس طرح اس سے پہلے آپ کے جدِ امجد کو گزارا گیا۔ اُن کو بھی ابتلا میں کامیابی پر انسانوں کی امامت عطا کی گئی اور یہاں بھی سیدنا حسین ؓ کو ابتلا میں کامیابی پر امامت و ولایت کبریٰ سے نوازا گیا۔
سیدنا امام حسینؓ کی عظیم قربانی سے اُٹھنے والی عظیم تحریک کے اثرات کو دبانے کے لیے طاغوتی قوتوں نے بہت افسانے گھڑے، کئی سوالات اُٹھائے ۔حیرت ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والے کوئی غیر مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کے اندر سے فتنہ پرور تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے کبھی واقعہ کربلا کو پڑھے لکھے لوگوں سے جاننے اور سننے کی تگ ودو نہیں کی۔ان پڑھ مقررین نے مجمع سے داد وصول کرنے اور اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے رنگ آمیزی کی۔ دوسری طرف مخالفین کئی بھیس بدل کر حملے کرتے رہے۔
سارے تاریخی مواد کو کھنگال لیں۔امام عالی مقام کی مدینہ منورہ میں بغاوت کرنے اور لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کسی ایک کوشش کا بھی پتہ نہیں چلتا۔امام نے صرف یزید کی بیعت سے انکار کیا، یوں جن لوگوں نے امام عالیٰ مقام پر بغاوت کا الزام دھرا وہ غلط بلکہ جھوٹ تھا اور ہے۔
امام عالی مقام نے اصولی اور عین دین کے اصول اور رسول پاک کے فرامین کے مطابق یزید کی بیعت سے انکار کیا ، پھر جب مدینہ میں حالات ناسازگار ہوئے تو وہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔امام نے لوگوں کو اکسانے کے لیے مدینہ میں کوئی تقریر کی اور نہ ہی مکہ میں۔مکہ میں تو حج کے ایام تھے،ہر طرف سے لوگ اُمڈ کر وہاں آئے ہوئے تھے۔امام اگر بغاوت کرنا چاہتے تو مکہ سے بہتر مقام اور حج سے بہتر کوئی موقع نہیںہو سکتا تھا۔امام جب عازم کرب و بلا ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی لشکر نہیں تھا۔کیا بغاوت ایسے کی جاتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کربلا میں ہونے والی شہادت دراصل دو بڑوں کے مابین حکومت کے حصول کے لیے لڑائی تھی۔اگر ایسا تھا تو یہ تو بتایا جائے کہ امام ؑ نے کس موقعے پر حکومت حاصل کرنے کا عندیہ دیا۔ کب انھوں نے حکومت حاصل کرنے کے اسباب مہیا کیے ۔آپؑ جب مدینہ سے نکلے تو کتنے لوگوں کے ساتھ نکلے۔مکہ مکرمہ میں آپ نے کتنا بڑا لشکرِ اکٹھا کیا؟کیا تین برِ اعظموں پر پھیلی عظیم سلطنت کے حکمران کے مقابلے میں خواتین اور ننھے بچوں پرمشتمل ستر بہتر افراد کی مدد سے حکومت چھینی جا سکتی ہے۔
بعض کتابوں میں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ امام عالی مقام نے یزیدی لشکر کے سامنے تین شرائط رکھیں حالانکہ یہ بالکل بے اصل بات ہے جسے مکہ میں یزیدی گورنر خالد بن عبداﷲ قصری نے امامؑ کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر عوام میں پھیلایا۔
مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کرتے ہوئے لوگ چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں آپ ؑ سے آ کر ملتے تو آپ ؑ اُن کو کہتے کہ میرا ساتھ کیوں دیتے ہو، میں تو موت کی طرف سفر کر رہا ہوں۔کربلا کے میدان میں بھی آپ نے کسی کو بغاوت پر نہیں اُکسایا بلکہ حُر جیسا بہادر اور خوش قسمت خود یزیدی لشکر سے جدا ہو کر آپ سے آ ملا اور اپنا سر کٹوا کر ہمیشہ کے لیے لفظِ حریت متعارف کروا گیا۔آپ ؓ نے آخری رات بھی چراغ گُل کر کے پیغام دیا کہ جو جانا چاہے رخصت ہو جائے۔ کیاحکومت کے حصول کی تگ ودو کرنے والے ہزاروںلاکھوں کے لشکر کا ایسے ہی سامنا کرتے ہیں۔
امام نے اپنی شہادت سے امت کو جھنجھوڑ دیا۔امام نے اپنا سر کٹوا کے اسلام کو زندہ کر دیا۔
قمری کیلنڈر بعثتِ سرکارِ دوعالمﷺ سے صدیوں پہلے رائج تھا۔ شمسی کینڈر کئی مراحل طے کرکے اور کئی تبدیلیوں کے بعد موجودہ شکل میں آیا لیکن قمری کیلنڈر میں کبھی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ خلیفہ دوئم سیدنا عمرِ فاروق رضی اﷲتعالیٰ کے عہد کے دوسرے سال مدینہ منورہ میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں یہ طے کیا گیا کہ قمری کیلنڈر کو ہجرتِ سرکارِ دوعالم سے شروع کیا جائے تب سے قمری سال کو ہجری سال میں بدل دیا گیا۔
ہجری کیلنڈر کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سیدہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کے فرزندسیدنا امام حسین ؓ کی محرم میں عظیم شہادت سے شروع ہوتا ہے اور سیدنا ابراہیم ؑ کے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ کی ذوی الحج کے مہینے میں عظیم قربانی پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ گویا پورا ہجری سال دو عظیم قربانیوں کی یاد میں بسر ہوتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت 124میں سیدنا ابراہیم ؑ کو تمام انسانوں کی امامت عطا ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اﷲ نے سیدنا ابراہیمؑ کو ابتلاء میں ڈالا لیکن وہ اس ابتلاء میں سُرخرو ہوئے۔ اس کامیابی پرانھیں تمام انسانوں کا امام مقرر کیا گیا۔
سیدنا ابراہیم ؑ کی آزمائشوں میں ایک یہ تھی کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ آپ نے بڑھاپے کی عمر میں عطا ہونے والے بیٹے سیدنا اسمٰعیل ؑ سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ'' آپ نے جو کچھ دیکھا ہے اُسے کر گزریے، آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔'' اﷲ نے اس ابتلاء میں کامیابی پر سیدنا اسمٰعیل ؑ کو بچا لیا اور اسے ایک ذبحِ عظیم میں بدل دیا۔ سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا اسمٰعیل کو آزمانا بھی ضروری تھا اور سیدنا اسمٰعیل ؑ کو بچانا بھی، کیونکہ آگے چل کر انھی کی اولاد میں سے خاتم النبیینﷺ کی ولادتِ باسعادت ہونی تھی اور رسول اﷲﷺ کی اولاد میں سے سیدنا حسینؓ کو ذبحِ عظیم بننا تھا۔ سیدنا حسینؓ کو کرب و بلا میں پیاس، آگ اور خون کے دریا سے اسی طرح گزارا گیا جس طرح اس سے پہلے آپ کے جدِ امجد کو گزارا گیا۔ اُن کو بھی ابتلا میں کامیابی پر انسانوں کی امامت عطا کی گئی اور یہاں بھی سیدنا حسین ؓ کو ابتلا میں کامیابی پر امامت و ولایت کبریٰ سے نوازا گیا۔
سیدنا امام حسینؓ کی عظیم قربانی سے اُٹھنے والی عظیم تحریک کے اثرات کو دبانے کے لیے طاغوتی قوتوں نے بہت افسانے گھڑے، کئی سوالات اُٹھائے ۔حیرت ہے کہ یہ سب کچھ کرنے والے کوئی غیر مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کے اندر سے فتنہ پرور تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے کبھی واقعہ کربلا کو پڑھے لکھے لوگوں سے جاننے اور سننے کی تگ ودو نہیں کی۔ان پڑھ مقررین نے مجمع سے داد وصول کرنے اور اپنے پیسے کھرے کرنے کے لیے رنگ آمیزی کی۔ دوسری طرف مخالفین کئی بھیس بدل کر حملے کرتے رہے۔
سارے تاریخی مواد کو کھنگال لیں۔امام عالی مقام کی مدینہ منورہ میں بغاوت کرنے اور لوگوں کو بغاوت پر اُکسانے کی کسی ایک کوشش کا بھی پتہ نہیں چلتا۔امام نے صرف یزید کی بیعت سے انکار کیا، یوں جن لوگوں نے امام عالیٰ مقام پر بغاوت کا الزام دھرا وہ غلط بلکہ جھوٹ تھا اور ہے۔
امام عالی مقام نے اصولی اور عین دین کے اصول اور رسول پاک کے فرامین کے مطابق یزید کی بیعت سے انکار کیا ، پھر جب مدینہ میں حالات ناسازگار ہوئے تو وہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔امام نے لوگوں کو اکسانے کے لیے مدینہ میں کوئی تقریر کی اور نہ ہی مکہ میں۔مکہ میں تو حج کے ایام تھے،ہر طرف سے لوگ اُمڈ کر وہاں آئے ہوئے تھے۔امام اگر بغاوت کرنا چاہتے تو مکہ سے بہتر مقام اور حج سے بہتر کوئی موقع نہیںہو سکتا تھا۔امام جب عازم کرب و بلا ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی لشکر نہیں تھا۔کیا بغاوت ایسے کی جاتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کربلا میں ہونے والی شہادت دراصل دو بڑوں کے مابین حکومت کے حصول کے لیے لڑائی تھی۔اگر ایسا تھا تو یہ تو بتایا جائے کہ امام ؑ نے کس موقعے پر حکومت حاصل کرنے کا عندیہ دیا۔ کب انھوں نے حکومت حاصل کرنے کے اسباب مہیا کیے ۔آپؑ جب مدینہ سے نکلے تو کتنے لوگوں کے ساتھ نکلے۔مکہ مکرمہ میں آپ نے کتنا بڑا لشکرِ اکٹھا کیا؟کیا تین برِ اعظموں پر پھیلی عظیم سلطنت کے حکمران کے مقابلے میں خواتین اور ننھے بچوں پرمشتمل ستر بہتر افراد کی مدد سے حکومت چھینی جا سکتی ہے۔
بعض کتابوں میں یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ امام عالی مقام نے یزیدی لشکر کے سامنے تین شرائط رکھیں حالانکہ یہ بالکل بے اصل بات ہے جسے مکہ میں یزیدی گورنر خالد بن عبداﷲ قصری نے امامؑ کے خلاف پروپیگنڈہ کے طور پر عوام میں پھیلایا۔
مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کرتے ہوئے لوگ چھوٹے بڑے گروہوں کی شکل میں آپ ؑ سے آ کر ملتے تو آپ ؑ اُن کو کہتے کہ میرا ساتھ کیوں دیتے ہو، میں تو موت کی طرف سفر کر رہا ہوں۔کربلا کے میدان میں بھی آپ نے کسی کو بغاوت پر نہیں اُکسایا بلکہ حُر جیسا بہادر اور خوش قسمت خود یزیدی لشکر سے جدا ہو کر آپ سے آ ملا اور اپنا سر کٹوا کر ہمیشہ کے لیے لفظِ حریت متعارف کروا گیا۔آپ ؓ نے آخری رات بھی چراغ گُل کر کے پیغام دیا کہ جو جانا چاہے رخصت ہو جائے۔ کیاحکومت کے حصول کی تگ ودو کرنے والے ہزاروںلاکھوں کے لشکر کا ایسے ہی سامنا کرتے ہیں۔
امام نے اپنی شہادت سے امت کو جھنجھوڑ دیا۔امام نے اپنا سر کٹوا کے اسلام کو زندہ کر دیا۔