پاکستان کا دورہ

پنجاب،جس کا لاہور دارالحکومت ہے، پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں بدامنی ہے

جب پاکستان نے ایشیا کپ کرکٹ میچ میں بھارت کو شکست دی تو میں لاہور میں تھا۔ وہاں جشن منایا جا رہا تھا اور ہوائی فائرنگ کی جا رہی تھی۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ ایک ملک جو بھارت کے محض ساتویں حصے جتنا ہو وہ اگر کسی میدان میں بھارت کو زیر کرے تو وہ بجا طور پر اپنی فوقیت محسوس کرتا ہے۔ ویسے بھی تو دونوں ملکوں کے درمیان پیار محبت کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ جس بات نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈالا وہ یہ تھی کہ میچ میں جیت کی بات چیت میں ایک بات جو تسلسل سے کہی جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ بھارت نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ یہ سچ نہیں ہے اور پاکستان کے سیاست دان یہ نعرہ محض اپنے ووٹروں کو خوف زدہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن آخر پاکستان کو بھارت سے اپنی شناخت تسلیم کروانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ یہ بات میرے لیے قابل فہم نہیں۔ جب وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا تو انھوں نے پاکستان کو یقین دلایا تھا کہ اسے اپنی شناخت کے لیے ادھر ادھر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس پاکستان کی اپنے طور پر ایک ٹھوس شناخت موجود ہے۔ واجپائی اب بھی پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول بھارتی ہیں جو مینار پاکستان پر بھی گئے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں 1940ء میں مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کی تخلیق کے لیے مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک قرار داد منظور ہوئی تھی۔ میں بھی وہاں گیا تھا اور واجپائی کو اپنے ان الفاظ کا اعادہ کرتے سنا کہ بھارت کے اپنے استحکام اور یک جہتی کا انحصار پاکستان کے استحکام اور یک جہتی پر ہے۔ یہ بہت افسوس ناک بات ہے کہ بعض انتہا پسند گروپوں نے ہمارے دورے کے بعد مینار پاکستان کو پاک کرنے کی خاطر اسے دھو ڈالا۔

آزادی کے بعد سے لاہور آٹھ گنا سے زیادہ پھیل چکا ہے۔ یہ شہر خوشحال ہے اور دکانیں اشیائے صَرف اور خریداروں سے بھری ہوئی ہیں اس کے باوجود بہت سے بھکاری بھی ارد گرد منڈلاتے نظر اتے ہیں۔ لاہور کی مشہور سڑک مال روڈ اب شہر کا وسطی علاقہ (ڈاؤن ٹاؤن) بن چکی ہے۔ ڈیفنس کا علاقہ مالدار اور اپر مڈل کلاس کے لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کے لیے بہت پھیل گیا ہے۔ یہاں بھی انتہائی امیر اور انتہائی غریب کا فرق اتنا ہی نمایاں ہے جتنا کہ بھارت کے کسی بڑے شہر میں نظر آتا ہے۔

پنجاب،جس کا لاہور دارالحکومت ہے، پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں بدامنی ہے۔ بلوچستان میں بدامنی اور گمشدہ افراد کامسئلہ ہے۔ وہاں علیحدگی پسند بھی ہیں۔ میرے پانچ روزہ قیام کے دوران میں نے اخباروں اور ٹیلی وژن چینلز پر کوئٹہ سے اسلام آباد تک مارچ کرنے والوں کی تصویریں بھی دیکھیں۔ انھیں اسلام آباد پہنچنے میں تین مہینے لگے تھے۔ بھارت پر الزام ہے کہ وہ بلوچستان میں سرکشی پھیلانے کے لیے رقوم اور ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ صوبہ سرحد (اب کے پی کے) سے متصل فاٹا میں شمالی وزیرستان بھی مصروف پیکار ہے۔ یہ علاقہ افغانستان سے ملحق ہے ۔

میں نے ایک چوٹی کے وکیل سے پوچھا کہ پاکستان کو کس چیز نے متحد رکھا ہوا ہے تو اس نے صاف جواب دیا... ملٹری۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات درست ہو تاہم میں یہ نہیں سوچتا کہ اس ملک میں پھر کوئی فوجی بغاوت ہو سکتی ہے۔ جمہوری حکمرانی کا عمل گہرائی اختیار کر رہا ہے اور اب اِسے واپس موڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اب لوگ کسی اگلے فوجی آمر کی مزاحمت کے لیے سڑکوں پر آ جائیں گے۔ بہر حال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے امور میں فوج کی اہمیت مسلّم ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف بھارت کو مذاکرات شروع کرنے کی بار بار جو دعوت دیتے ہیں وہ فوج سے مشاورت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔

میرا خیال ہے کہ انھوں نے ایک ''لکشمن ریکھا'' کھینچ رکھی ہے جس سے حکومت تجاوز نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستان میں میڈیا کا جائزہ لے تو وہ دیکھے گا کہ اخبارات یا ٹی وی چینلز فوج کا ذکر کم کرتے ہیں۔ اسی طرح نڈر اور بلند آہنگ میڈیا طالبان کی بات بھی محتاط رہ کر کرتا ہے۔ نواز شریف ان سے بات چیت کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔


پاکستان کی سب سے بڑی مشکل دہشتگردی ہے۔ جو چیز بھارت کو کشمیر میں ہراساں کرنے کے لیے بتائی گئی تھی اب وہ عفریت بن چکے ہیں جس نے ملک میں مصیبت کھڑی کر دی ہے۔ حکومت طالبان سے ہراساں ہے۔ وہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ، حملہ کر سکتے ہیں۔ دہشت گردوں کا خوف زمین پر چھایا ہوا ہے۔ البتہ لاہور، بلکہ ایک حساب سے پورا پنجاب، کم و بیش محفوظ ہے۔

شنید ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ٹی ٹی پی سے کچھ افہام و تفہیم ہے جس کے انعام کے طور پر انھوں نے اس صوبے کو معاف کر رکھا ہے۔ لیکن کچھ طالبان ایسے بھی ہیں جن کو مرکزی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی کوئی پروا نہیں۔ اسلام آباد میں ماتحت عدالت پر خود کش حملہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ حکومت اور طالبان میں ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے۔ پاکستان نے ایک زمانے میں افغانستان کو اپنی تزویراتی گہرائی قرار دے رکھا تھا۔ آرمی کی ایک پریس بریفنگ میں مبینہ طور پر میڈیا کو بتایا گیا کہ ان کی پالیسی اب تبدیل ہو چکی ہے۔ انھوں نے بتایا ''وہاں کوئی تزویراتی گہرائی نہیں تھی'' ۔ شاید یہ پاکستان کی اپنے اندر جھانکنے کی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔ بنیاد پرستوں کا طوالت پذیر سایہ ان میں سے ایک ہے گو کہ یہ بہت اہم ہے۔ لاہور میں مجھے جس بات سے سب سے زیادہ مایوسی ہوئی وہ یہ تھی کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کوئی احتجاج وغیرہ نظر نہیں آیا۔ آزادانہ آوازیں بمشکل ہی سنائی دیتی ہیں۔

واپس میرے گھر میں میرٹھ کی ویو یکا نند یونیورسٹی کے 169 کشمیری طلباء کو پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے تالیاں بجانے کے جرم پر معطل کر دیا گیا۔ پہلے ان پر غداری کے جرم کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ ان کی معطلی نے حکومت کے خلاف سخت تنقید کو جنم دیا نتیجتاً معطل شدہ طلباء کو واپس لینا پڑا۔ تاہم اس سے کشمیریوں کے بارے میں بھارت کا ایک مخصوص ''مائنڈ سیٹ'' آشکار ہوتا ہے۔ جن حکام نے طلباء کو معطل کیا یا تو وہ متعصب ہیں یا پھر ایسے لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ انھیں اس پاکستان دشمن اقدام پر سراہا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ کوئی خاص ردعمل نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ میڈیا نے بھی اس معاملے کو زیادہ سنسنی خیز بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ سوائے اس کے کہ اسے یونیورسٹی کے ایک اقدام کے طور پر پیش کیا۔ یہ دونوں واقعات یعنی پاکستان کی جیت کا جشن اور طلباء کی معطلی تقسیم برصغیر سے پہلے کے منظرنامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ہندو انڈیا اور مسلم پاکستان۔ جس میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ گہرائی میں دیکھیں تو یہ وہی سوچ ہے کہ قوموں کی شناخت مذہب سے ہی ہوتی ہے۔

آزادی کے 67 سال کے بعد بھی بھارت سیکولر ازم کو اس انداز سے نافذ نہیں کر سکا جس طرح اس نے جمہوریت کے نفاذ کی کوشش کی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے مسائل بہت تھوڑے ہیں کیونکہ وہاں نسلی صفائی خاصی بھرپور تھی لہذا وہاں صرف بعض فرقوں میں مناقشت موجود ہے۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے۔ انھیں زیادہ خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔

جہاں تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا معاملہ ہے' اب دشمنی کا زور بہت حد تک ٹوٹ چکا ہے اور دوستی کی خواہش جاگ اٹھی ہے۔ اگر ویزے میں نرمی کر دی جائے تو پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سیاحت کے لیے بھارت میں آئیں گے۔ اس سے بھارت کا بھی بہت فائدہ ہو گا۔ لیکن اس معاملے میں انتہا پسند عناصر رکاوٹ ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story