غبار خاطر

تھر کا درد ایک طویل تاریخ رکھتا ہے ایک تاریک سیاہ رات ہے جس کی گھنگھور گھٹائیں اس پر چھائی ہیں۔

Jvqazi@gmail.com

ہم اپنے میڈیا کو کتنا بھی برا بھلا کہیں مگر وہ اپنے کردار سے باخوبی آشنا ہے، اس کی ایک جھلک ہمیں تھر میں حالیہ قحط سالی سے ہونے والی اموات کی نشاندہی کرنے سے ملی، یوں لگا جیسے جنگل میں آگ لگ گئی ہو ، اور پھر سب کے سب کود پڑے۔ بلاول بھٹو نے اس میں پہل کی۔ قائم علی شاہ کو نیند سے اٹھایا۔ شرمیلا فاروقی کے ثقافتی شعبے نے فیض احمد فیض پر مبنی ایک شاندار ثقافتی پروگرام رکھا تھا، وہ منسوخ کرنا پڑگیا۔ پھر سندھ ہائی کورٹ نے سوموٹو نوٹس لیا۔ نواز شریف صاحب کا بھی بیان آگیا۔ پھر چیف جسٹس آف پاکستان نے سوموٹو نوٹس لیا۔ ادھر متحدہ بولی ادھر ملک ریاض سامنے آئے ۔ یوں لگا جیسے ''جاگ اٹھا ہو پاکستان'' ادھر آفریدی کے چھکے تھے، ادھر اسلام آباد میں ہماری رفیق خاتون وکیل فضا کی زندگی کا چراغ گل ہوا، بیچ میں دبی تھر کی ماؤں کی آہیں تھیں ، بھوک میں بلکتے بچوں کی پکاریں تھیں پھر ڈاکٹروں کی ٹیمیں پہنچ گئیں، ایسے لگا تھر کے نصیب بدل گئے ہوں جیسے، مگر یہ سب شاید لمحاتی ہے، دیرپا نہیں۔

تھر کا درد ایک طویل تاریخ رکھتا ہے ایک تاریک سیاہ رات ہے جس کی گھنگھور گھٹائیں اس پر چھائی ہیں۔ ایک ماتم کدے کی شب ہے اور شمعیں بے نور ہیں۔ یہ وہ واحد علاقہ ہے پاکستان کا، جہاں کی 70 فیصد آبادی ہندو ہے۔ اور ان ہندوؤں میں وہ نچلی ذاتیں بھی ہیں جن کو خود ہندو اچھوت کہتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بارے میں بھوروبھیل کے حوالے سے میں نے اس صفحے پر کچھ مہینے قبل لکھا تھا اور ایک پروگرام ترتیب دیا تھا۔ جسٹس (ریٹائرڈ) صلاح الدین مرزا کی قیادت میں ہم پہنچے تھے بھورو بھیل کی اس قبر پر جاکے دیے جلائے تھے اور وہ اب کہاں رہے خورشید قائم خانی جس کے خاندان کے کئی لوگ تو فوج میں جرنیل بنے مگر اس نے فوج چھوڑ کے اپنی ساری زندگی ان دلیت و اچھوت لوگوں کے لیے وقف کردی۔ عجیب ہیں یہ تھر کے دلیت لوگ، صحرا میں صدیوں سے آباد ہیں، مرجائیں گے مگر تھر نہیں چھوڑیں گے۔ وہ ٹھیٹھ سندھی زبان نہیں بلکہ ڈایڈکی بولتے ہیں۔ بالکل اسی انداز میں وہ سرحد کے اس پار بھی رہتے ہیں مگر وہاں ٹھاکر ان پر اتنے ستم نہیں برساتے۔

ٹھاکر تو یہاں پر بھی تھے رانا چندر سنگھ کے روپ میں ،مگر اب یہ راجپوت بھی یہاں سے آہستہ آہستہ ہجرت کرگئے۔ ان کہ ہجرت کا عمل اب بھی جاری ہے۔ میں جب کچھ سال قبل تھر کے اس مقام جس کو ''اچھڑوتھر'' کہتے ہیں جہاں یہ قحط اس مرتبہ واقعہ ہوا ہے اور ان کے مال مویشی مرنے لگے پھر ان کے بچوں میں بھی بیماریاں پھیلنے لگیں اور وہ رو رو کے ہجرت پر مجبور ہوئے ۔میں نے ننگرپارکر کے شہر میں کسی سے پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے یہاں موروں کی نسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ تو کسی نے کہا ''سائیں یہاں سے راجپوت ہجرت جو کر رہے ہیں'' مجھے یہ ماجرا سمجھ نہیں آیا تو میں نے پوچھا کہ راجپوتوں کا موروں کی اموات سے کیا تعلق؟ تو بولے کہ جتنا موروں کا خیال یہ راجپوت لوگ کرتے تھے اتنا کوئی نہیں کرتا۔

صبح سویرے موروں کے آگے آنگن میں ان کے لیے تازہ کھانا رکھتے، تازہ پانی رکھتے اور پھر یہ مور کھا پی کے صحراؤں کی طرف سیر سپاٹے کے لیے نکل پڑتے اور پھر جب شام ہوتی تو واپس ان ہی راجپوتوں کے آگے آکر بیٹھ جاتے۔ یہ راجپوت لوگ پھر ان کے لیے وہی اہتمام وغیرہ کرتے۔ نہ کوئی موروں کو چھیڑتا نہ پکڑتا۔ اکثر مور مندروں کے پاس رہتے کیونکہ مندر میں آتے ہوئے لوگ کچھ نہ کچھ ان موروں کے لیے بھی لے کر آتے۔دلیتوں اور ٹھاکروں کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔ اب یہ ٹھاکر

چلے گئے۔ ارباب رحیم کے یہ ٹھاکر ننھیال والے تھے اور اب بھی ان میں آپس میں رشتے ہوتے ہیں۔ لیکن ارباب رحیم کوئی ٹھاکر نہیں آپ کے پردادا پٹواری تھے ۔ یہ دلیت لوگ ان کے اس کام کی شکارگاہیں تھیں۔ ان کی لڑکیوں کا اغوا ہونا شروع ہوا ۔ اب تک سیکڑوں لڑکیاں ان کی اغوا ہوچکی ہیں۔ یہ لوگ ووٹ بھی پیپلز پارٹی کو دیتے ہیں اور کستوری کولہن کے کیس میں جو کھوسو قبیلے کے لوگ ملوث تھے وہ بھی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔


یہ دلیت لوگ سندھ کے اتنے پرانے لوگ ہیں جتنا کوئی اور نہ ہوگا۔ اتنے پرانے جتنے موئن جو دڑو کے لوگ ہوں گے۔ اس انداز میں بانہوں میں یہ کڑے پہنتے ہیں جس طرح موئن جو دڑو کی سنبھارا پہنتی تھی۔ کبھی اگر غصہ آجائے کوئی ان کا دل توڑدے تو یہ خودکشیاں بھی کرلیتے ہیں اور وہ خودکشی بھی ایک ہی انداز کی کہ کنوئیں میں کود کر جان دے دیتے ہیں۔ میرے بھائی جام ساقی کی بیوی ''سکھیاں'' نے بھی اسی انداز میں اپنی جان لی تھی۔ جب ''جام'' سلاخوں کے پیچھے ضیا کی آمریت میں زندگی دشت تنہائی میں بسر کر رہا تھا۔ وہ رات مجھے یاد ہے جب یہ خبر میرے کانوں میں پڑی تھی کہ کامریڈ ''سکھیاں'' نے خودکشی کرلی۔ اس طرح بھی ہے کہ غریب کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، غریب تو غریب ہوتا ہے وہ چاہے ہندو ہو یا مسلمان۔ اور یہ تھر میں آئی خشک سالی کیا جانے کہ کون مسلمان ہے اور کون ہندو۔ اور کون ان ہندوؤں میں اچھوت ہے اور کون نہیں۔ ہاں مگر یہ خشک سالی تھی کہ ان خوشحال گھرانوں کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکتی۔ خشک سالی صرف غریب کا گھر چھانتی ہے۔ سندھ میں ایک شکیل پٹھان بھی تھے آپ HRCP سے تعلق رکھتے تھے۔ خورشید قائم خانی کی طرح راجپوت تھے اور راجستھان سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے۔ شکیل ان دلیت لوگوں پر Bounded Labour بنے ہوئے پرائیویٹ جیلوں کو منظر عام پر لائے۔ اور ایک تہلکا مچا دیا۔ سندھ میں اب بھی اس طرح چھوٹے یا بڑے Bounded Labour والے حوالے بہت بڑی صنعت بن چکے ہیں۔ اور ان میں سب کے سب جن پر یہ ستم ڈھایا جاتا ہے یہ وہی ہیں جو تھر سے ان قحط سالیوں کی وجہ سے ہجرت کرکے ان وڈیروں کے پاس پھنس جاتے ہیں۔ یہ سب دلیت ہیں۔

ابھی کچھ مہینے پہلے میرپورخاص میں کسی ''شر'' ذات کے وڈیرے نے دو کولہی لڑکیوں کو اغوا کیا تھا یہ وہ واقعہ ہے جس کو ککھو کولہن کے حوالے سے میڈیا پر پہچان ملی۔ جب یہ دولڑکیاں اغوا ہوئیں اور ان کا ریپ ہوا تو خاندان والوں نے شاہراہ بلاک کردی، جس پر پولیس نے مجبور ہوکر پرچہ کاٹ دیا تو اس ''شر'' وڈیرے کے لوگوں نے ان کے گھروں پر گولیاں چلائیں جس میں ککھو کولہن ہلاک ہوگئی۔

اور وہ منو بھیل والا واقعہ تو سب کو یاد ہوگا۔ جس پر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے سوموٹو نوٹس لیا تھا۔ جس کا پورا خاندان وڈیروں نے غائب کردیا تھا۔ اور ابھی تک اس کے بچھڑے لوگوں کا کچھ پتا نہیں۔

روایت ہے کہ بھٹائی ہر سال کھنبات جوکہ گجرات میں واقعہ ہے ننگرپارکر ''اچھڑوتھر'' سے گزر کے جاتے تھے۔ ''ماروی'' اس اچھڑوتھر کی باسی تھی۔ خود دلیت تھی اور بہت خوبصورت تھی، جس کی خوبصورتی بادشاہ کو بھاگئی، اسے اغوا کروایا، شادی کرنا چاہی، مگر ''ماروی'' نے انکار کردیا۔ بادشاہ ٹھاکر تھا راجپوت تھا۔ ''عمر'' اس کا نام تھا۔ جس کے نام پر بنا ہوا ہے ''عمرکوٹ'' جہاں ہمایوں بادشاہ کو ''اکبر'' نام کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ جو آگے جاکر دلی کا عظیم بادشاہ بنا اور دنیا اسے Akber the Great کے نام سے پہچانتی تھی۔ شاہ بھٹائی کو ''مارئی'' کے کردار نے بڑا نبھایا اور یہ وہ ماروی ہے جس کو شاہ بھٹائی نے دریافت کیا۔ اس ماروی کی معرفت وہ بتاتے ہیں ''حب الوطنی'' کیا چیز ہوتی ہے۔ اسے دلیت لوگوں کی نفسیات سمجھ آئی کہ کس طرح یہ لوگ بادشاہوں کے آگے نہیں جھکتے اور اپنے رہن سہن، اپنے صحراؤں سے بکریوں سے، موروں سے پیار کرتے ہیں۔ وہ زمین نہیں چھوڑسکتے۔

تھر کے لوگوں کا پانی سے گہرا تعلق رہا ہے۔ پانی ان کے لیے زندگی کی علامت ہے، پانی آئے تو ان کے چہرے پر رونقیں آجاتی ہیں اور پانی جائے تو ان کی آنکھوں میں آنسو ابھر آتے ہیں۔

انھیں کچھ بھی نہیں چاہیے، جو یہ ہیں اسی طرح کوئی ان کو رہنے دے۔ یہ نہ چوریاں کرتے ہیں نہ اپنی عورت پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ بس کھیتوں کھلیانوں میں، صحراؤں میں مور پپیہے کی طرح یہ فطرت کے باسی ہیں۔
Load Next Story