تھر میں بچوں کی اموات

تھرکی اس حالت سے حکومت، این جی اوز اور علاقے کے زمیندار بہ خوبی واقف ہیں مگر وہ اس پر توجہ نہیں دیتے

تھر ایک ریگستانی علاقہ ہے جہاں پر کئی حصوں میں صرف بارش کے پانی پر گزارہ ہوتا ہے اور جب بارش پڑتی ہے تو وہاں کا ہر حصہ ہری گھاس، پھولوں اور فصلوں سے سرسبز بن جاتا ہے جس سے وہاں پر رہنے والوں کو پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ فصلوں اور مویشیوں کے لیے پانی اور چارہ ملتا ہے اور لوگ بارش پر خوشیاں مناتے ہیں۔ لیکن یہ منظر کبھی کبھی ہوتا ہے ورنہ خشک سالی پیدا ہوجاتی ہے پھر بھی ان لوگوں کو اپنے علاقے سے اتنی شدید محبت ہوتی ہے کہ وہ وہاں سے جانا نہیں چاہتے مگر مجبوراً انھیں وہاں سے کچھ عرصے کے لیے نقل مکانی کرنی پڑتی ہے کیونکہ وہ زیادہ دیر بھوک، پیاس اور بیماری سے نہیں لڑسکتے ہیں۔

تھرکی اس حالت سے حکومت، این جی اوز اور علاقے کے زمیندار بہ خوبی واقف ہیں مگر وہ اس پر توجہ نہیں دیتے اور جب کچھ جانیں ضایع ہوتی ہیں اور میڈیا حرکت میں آتا ہے تب حکمران، سیاستدان اور این جی اوز والے گہری نیند سے جاگتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا ہے کیونکہ خشک سالی والی حالت دو تین مہینے سے چل رہی تھی جس میں صرف مویشی مر رہے تھے اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری سے اپنے طور پر لڑرہے تھے۔ نئے پیدا ہونے والے بچے جنھیں اپنی ماں کا دودھ بھی نہیں مل رہا تھا کیونکہ جب ماں کو ہی کھانا نہیں ملے گا تو اس کے پاس بچے کے لیے دودھ کہاں سے پیدا ہوگا۔ ماں خود بھی خون کی کمی کا شکار ہے اور جو 6 سے 7 سال تک کے بچے ہیں انھیں بھی ایک وقت کی روٹی میسر نہیں ہوتی، پینے کو پانی نہیں ملا اور جب بیماریوں نے حملہ کیا تو اسپتال گاؤں سے دور، اگر وہاں پہنچ بھی گئے تو ڈاکٹر نہیں، اگر ڈاکٹر ملا تو دوائی نہیں۔ تھوڑے بہت جو چھوٹے تعلقہ اسپتال بنائے ہیں وہاں پر جانے کے لیے ڈاکٹرز تیار نہیں ہیں ۔ گائناکالوجسٹ بھی وہاں پر نوکری نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ ڈاکٹر بننے سے پہلے انھیں انسانیت اور انسانوں سے بڑا پیار ہوتا ہے اور وہ غریبوں کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں جو ڈاکٹر بننے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ اس علاقے کے ڈاکٹرز بھی کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں رہنا چاہتے ہیں اور سفارش لگواکر وہاں سے شہروں میں تبادلہ کروا لیتے ہیں۔

اس بات کا کیا ماتم کریں کہ تھر سے ووٹ حاصل کرنے والے بھی اپنے لوگوں کا خیال نہیں رکھتے اور ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے بعد کراچی اور اسلام آباد میں ہی رہتے ہیں۔ ضلع انتظامیہ کے لوگ بھی صرف اپنا وقت گزارنے آتے ہیں اور ان کا رہنا مٹھی، عمر کوٹ اور دوسرے شہروں میں ہوتا ہے جہاں پر ان کے پاس ہر سہولت ہوتی ہے اور جب ان کا دل چاہتا ہے وہ کراچی اور حیدر آباد کا رخ کرتے ہیں۔ حکومت جانتی ہے کہ پورے سال میں سندھ کے مختلف علاقوں میں کیا کیا مسائل ہوتے ہیں جو موسم آنے پر نکل آتے ہیں جس میں بارش کا ہونا نہ ہونا، سیلاب کا آنا، گرمیوں اور سردیوں میں کیا کرنا ہے یہ وہ سب جانتے ہیں مگر اپنی دھن اور حکومت کو راضی رکھنے میں لگے رہتے ہیں کیونکہ ان کی پوسٹنگ میرٹ پر نہیں بلکہ سفارش پر ہوتی ہے۔


یہ تو میڈیا کی اہمیت ہے کہ اب پاکستان کے چھوٹے گاؤں سے لے کر بڑے شہروں میں پھیلی ہوئی ہے جس سے انفارمیشن ملتی ہے جو پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی اس واقعے کو میڈیا نے اٹھایا اور حکومت میں تحرک پیدا ہوا۔ اب جب کہ میڈیا سب کچھ کرتا ہے تو پھر یہ ضلعی انتظامیہ، صحت کے ادارے، اور دوسرے محکمے کس لیے بنائے گئے ہیں اور وہاں پر تعینات افسر صرف تنخواہ اٹھاتے ہیں اور گہری نیند میں ہوتے ہیں۔ تقریباً ایک سال سے اوپر کا عرصہ گزر گیا تھر میں خوبصورتی کی علامت جو ہماری ثقافت کا اہم حصہ مور پرندہ مرتا رہا ہے جس کے لیے کچھ نہیں ہوسکا، صرف باتیں، بیانات اور حکومت کا یہ کہنا کہ نوٹس لے لیا گیا ہے اور پھر بس قصہ ختم۔

تھر جس کے سینے میں کوئلہ، گرینائٹ کے علاوہ خوبصورت آرکالاجیکل مقامات ہیں اور یہ ریگستانی حصہ ایک منفرد کلچر کا مالک ہے جہاں پر کارونجھر پہاڑ ہے اور خوبصورت اور نایاب پرندے اور جانور ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے سیاح نہ صرف پاکستان سے بلکہ پوری دنیا سے آتے ہیں۔ اس حصے کی وجہ سے علاقے کے بڑے بااثر لوگوں نے عرب ممالک اور مڈل ایسٹ کے شہزادوں سے شکار کے ذریعے تعلقات بنائے ہیں اور بڑے فائدے حاصل کیے ہیں مگر وہاں کے لوگوں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ حکومت نے کبھی یہ بھی گوارہ نہیں کیا کہ جو گندم تھر کے لوگوں کے لیے بھیجی ہے وہ تقسیم کیوں نہیں ہوئی اور اگر کوئی مسئلہ تھا تو اسے Red-Tapism کے بھینٹ کیوں چڑھادیا۔ یا پھر یہ انتظار تھا کہ قحط والی صورتحال ہو تو پھر باہر سے امداد حاصل کی جائے۔ بھٹو صاحب کو لوگ آج تک اس لیے یاد کرتے ہیں کہ ان کا محور ہمیشہ عوام تھا، وہ ٹی وی پر خبر سن کر یا اسے اخبار میں پڑھ کر ایک دم افسروں اور پارٹی کے وزرا کو سرزنش کرتے تھے اور خود وہاں پہنچ کر کام کا جائزہ لیتے تھے ۔ اس کے علاوہ اپنے آپ کو لوگوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے کھلی کچہریاں کرتے تھے اور جو کچھ کہتے تھے وہ کرکے دکھاتے تھے۔ اب تو کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ نہ تو اپنے حلقے میں جاتا ہے، کھلی کچہری کرتا ہے بلکہ انھیں کراچی بلواکر گھر اور دفتر کے درمیان چکر کٹواتا ہے ۔ سندھ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ایک سیکشن ہے جس کا کام یہ ہے کہ وہ ہر روز اخباروں میں چھپنے والے مسائل اور شکایتیں سندھ چیف منسٹر، گورنر سندھ، وزرا اور محکموں کے سیکریٹریز کو ارسال کرتے ہیں۔ مگر انھیں صرف اپنی کوریج کی فکر ہوتی ہے ورنہ وہ سنجیدہ ہوکر ان اخباروں کے تراشے دیکھ کر ایکشن لے لیں تو سارے مسئلے حل ہوجائیں۔ اس کے علاوہ اب تو الیکٹرانک چینلز پر آنے والی خبروں اور ٹکرز (Tickers) کو انفارمیشن منسٹر کو بھیج دیا جاتا ہے، اور کبھی ایس ایم ایس کے ذریعے بھی ارسال کیا جاتا ہے۔ انھیں پڑھ کر اور دیکھ کر اگر وزیر اعلیٰ، وزرا اور محکموں کے انچارج Proactive ایکشن لے لیں تو مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔

ڈپٹی کمشنر، کمشنر یا پھر صحت کے افسران کو معطل کرنے سے اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ کچھ عرصے کے بعد سفارش سے پھر کسی اچھی پوسٹنگ پر آجائیں گے۔ اگر ان پر شروع ہی سے نظر رکھی جائے، ان سے کام کی پوچھ گچھ کی جائے، متعلقہ وزرا اپنے اپنے علاقوں کا دورہ کریں، لوگوں سے ملیں تو پھر افسران اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے کریں، ادویات کی فراہمی مکمل اور صحیح لوگوں تک جائے گی۔ چاہے وہ انسانوں کا ڈاکٹر ہو یا پھر جانوروں کا ان کو اس بات پر پابند کیا جائے کہ وہ سروس میں تھر، کاچھو اور کوہستان جیسے علاقوں میں لازماً دو سال رہنا ہوگا۔ اس میں خاص طور پر گائناکالوجسٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت ان ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی تنخواہ میں الاؤنس میں اضافہ کرنا چاہیے اور انھیں یہ یاد دلایا جائے کہ ضمیر کے مطابق انھیں غریب لوگوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ چیف منسٹر سندھ نے اس بات کا پتا لگالیا ہے کہ افسران اور صحت کے ادارے کی غفلت کی وجہ سے تھر میں نقصان ہوا ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ان کے جانے سے اصلی بات کا پتا لگتا ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کے درمیان رہنا چاہیے اور درباری قسم کے لوگوں سے دور رہا جائے کیونکہ وہ اپنے مفادات کی خاطر حکومت اور اس کی پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس میں اب جو امداد اعلان کی گئی ہے اسے وہ لوگ بانٹیں جن کا کردار اچھا ہو، وہ ایماندار ہوں ورنہ پھر امداد ایسے لوگوں کی جیب میں چلی جائے گی جو اسے کسی اور طرح پھونک دیں گے۔ آپ کو سیلاب میں ملنے والی امداد کا حشر تو یاد ہے کہ جب بارش ہوئی تو افسران کے گھر میں اور سیاستدانوں کے گھر میں رکھی ہوئی امداد پانی میں بہہ گئی۔

اس کے علاوہ تھر اور دوسرے علاقوں میں مویشیوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے Animal Husbandry کو فعال کیا جائے اور اس پر خاص توجہ دی جائے کیونکہ گاؤں میں لوگوں کے پاس فصل کے علاوہ مویشی ان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خدارا ! انسانوں کو کیڑے مکوڑے نہیں سمجھو، ان کی حفاظت کرو، خدمت کرو، انسانیت سے پیار کرو اور اس کے لیے ایماندار لوگوں کو آگے لے آؤ تاکہ مرنے کے بعد بھی لوگ تمہیں اچھے لفظوں سے یاد کریں کیونکہ ہم لوگ جو کچھ بھی جمع کرتے ہیں وہ سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے مگر اپنے ساتھ عذاب لے جاتے ہیں۔
Load Next Story