موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلانے والی 12 سالہ لڑکی
فاطمہ نورنے سات برس کی عمر سے موٹرسائیکل چلانا شروع کی
TOKYO:
خواتین جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں وہیں لاہورمیں ایک بارہ سالہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے،فاطمہ نورنامی بچی دن میں کئی باریہ خطرناک کھیل کھیلتی ہیں۔
موت کے اس کھیل میں اس بچی کے والد بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ لڑکیاں نوجوانوں کی نسبت ڈرپورک ہوتی ہیں اورخطرناک کھیل کھیلنے سے گھبراتی ہیں، لیکن 12 سالہ فاطمہ نور نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نوجوانوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔
یہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ وہ بھی اپنے والد کوساتھ بٹھا کریعنی موت کے کنویں کے اندر بھی ڈبل سواری کی جاتی ہے۔
فاطمہ نورکا تعلق پنجاب کے ضلع قصورسے ہے، ان کے والد موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں، یہ لوگ مختلف شہروں اوردیہات میں ڈیرے لگاتے ہیں جہاں مختلف تقریبات اورمیلوں کے موقع پر موت کا کنواں لگایاجاتا ہے جہاں یہ لوگ اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔
فاطمہ نورکہتی ہیں انہوں نے سات برس کی عمرمیں موٹرسائیکل چلاناسیکھا، پاپاسکول بھیجتے تھے مگرمیراپڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، میراکوئی بھائی نہیں ہے ، بس ایک چھوٹی بہن ہے ،اس لئے میں اپنے پاپاکا بازوبنناچاہتی ہوں، ہروہ کام کرناچاہتی ہوں جو ایک بیٹا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کوموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے دیکھتی تھیں جبکہ اب وہ خود موٹرسائیکل چلاتی ہیں، ناصرف اکیلے بلکہ اپنے والد کو ساتھ بٹھاکر یہ خطرناک کام کرتی ہیں۔
فاطمہ نورکے والد منیراحمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی سکول جائے اورپڑھ لکھ کراپنا مقام بنائے لیکن وہ پڑھائی میں کامیاب نہیں ہوسکی البتہ قرآن پاک ضرور پڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن گھرمیں بات چیت کرتے ہوئے اچانک ان کے منہ سے نکلا کہ کاش میرابھی کوئی بیٹا ہوتا جومیرا اورخاندان کاسہارابنتا،بس اس دن سے فاطمہ نور میرا بیٹا بن کرکام کررہی ہے۔
فاطمہ نور دن میں کئی بارموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہیں اب اس کے لئے یہ معمول کا کام ہے۔ تاہم یہ خطرناک کام ضرورہے کیونکہ ذراسی غلطی اوربے احتیاطی موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔ منیراحمد کوامید ہے کہ ان کی بیٹی ایک دن ناصرف اپنا اوراپنے خاندان بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرے گی، یہ پہلی کم عمرلڑکی ہوگی جو اس طرح کا خطرناک اسٹنٹ کرسکتی ہے۔
خواتین جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی مہارت اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں وہیں لاہورمیں ایک بارہ سالہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے،فاطمہ نورنامی بچی دن میں کئی باریہ خطرناک کھیل کھیلتی ہیں۔
موت کے اس کھیل میں اس بچی کے والد بھی اس کا ساتھ دیتے ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ لڑکیاں نوجوانوں کی نسبت ڈرپورک ہوتی ہیں اورخطرناک کھیل کھیلنے سے گھبراتی ہیں، لیکن 12 سالہ فاطمہ نور نے ثابت کردیا ہے کہ وہ نوجوانوں سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں ہے۔
یہ لڑکی موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہے۔ وہ بھی اپنے والد کوساتھ بٹھا کریعنی موت کے کنویں کے اندر بھی ڈبل سواری کی جاتی ہے۔
فاطمہ نورکا تعلق پنجاب کے ضلع قصورسے ہے، ان کے والد موت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے ہیں، یہ لوگ مختلف شہروں اوردیہات میں ڈیرے لگاتے ہیں جہاں مختلف تقریبات اورمیلوں کے موقع پر موت کا کنواں لگایاجاتا ہے جہاں یہ لوگ اپنی مہارت دکھاتے ہیں۔
فاطمہ نورکہتی ہیں انہوں نے سات برس کی عمرمیں موٹرسائیکل چلاناسیکھا، پاپاسکول بھیجتے تھے مگرمیراپڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا، میراکوئی بھائی نہیں ہے ، بس ایک چھوٹی بہن ہے ،اس لئے میں اپنے پاپاکا بازوبنناچاہتی ہوں، ہروہ کام کرناچاہتی ہوں جو ایک بیٹا کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کوموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتے دیکھتی تھیں جبکہ اب وہ خود موٹرسائیکل چلاتی ہیں، ناصرف اکیلے بلکہ اپنے والد کو ساتھ بٹھاکر یہ خطرناک کام کرتی ہیں۔
فاطمہ نورکے والد منیراحمد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ان کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی سکول جائے اورپڑھ لکھ کراپنا مقام بنائے لیکن وہ پڑھائی میں کامیاب نہیں ہوسکی البتہ قرآن پاک ضرور پڑھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایک دن گھرمیں بات چیت کرتے ہوئے اچانک ان کے منہ سے نکلا کہ کاش میرابھی کوئی بیٹا ہوتا جومیرا اورخاندان کاسہارابنتا،بس اس دن سے فاطمہ نور میرا بیٹا بن کرکام کررہی ہے۔
فاطمہ نور دن میں کئی بارموت کے کنویں میں موٹرسائیکل چلاتی ہیں اب اس کے لئے یہ معمول کا کام ہے۔ تاہم یہ خطرناک کام ضرورہے کیونکہ ذراسی غلطی اوربے احتیاطی موت کے منہ میں لے جاسکتی ہے۔ منیراحمد کوامید ہے کہ ان کی بیٹی ایک دن ناصرف اپنا اوراپنے خاندان بلکہ پاکستان کا نام بھی روشن کرے گی، یہ پہلی کم عمرلڑکی ہوگی جو اس طرح کا خطرناک اسٹنٹ کرسکتی ہے۔