شہباز شریف کا Come Back
مجھے مسلم لیگ (ن) کے اندر ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو اس قدر نا امید ہو چکی تھیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس واحد آپشن اس وقت شہباز شریف کے ساتھ کھڑے ہونا ہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شہباز شریف کے ناقدین کے پاس بھی ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ یہ بحث ہی فضول ہے کہ حکومت لینی چاہیے تھی کہ نہیں۔ بلکہ فوکس یہ ہونا ہے کہ جو حکومت لے لی ہے اس کو چلانا کیسے ہے۔ملک کے حالات کو کیسے بدلنا ہے۔
مجھے مسلم لیگ (ن) کے اندر ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو اس قدر نا امید ہو چکی تھیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن دوسری طرف میاں شہباز شریف مجھے پر امید نظر آتے تھے کہ وہ حالات بدل دیں گے اور عوام کی توقعات پوری ہونگی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو کہہ رہے تھے کہ کام کو عزت دو ناکام ہو گیا ہے اور واپس ووٹ کو عزت دو پر جانا ہوگا۔
میاں جاوید لطیف جیسے ہمارے دوست ضمنی انتخابات میں ہار کے بعد یہ کہتے نظر آئے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نہیں ہاری یہ حکومت ہاری ہے جس کا مطلب تھا کہ شہباز شریف ہارے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر اس اختلاف کا سیاسی مخالفین بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے اور ووٹر بھی کنفیوژ ہو رہا تھا۔ اس لیے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ حکومت مدت پوری کرے گی لوگ یقین نہیں کر رہے تھے کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
گزشتہ ہفتے جب روپے کی قدر گر رہی تھی تو نا امیدی بڑھ رہی تھی لیکن شہباز شریف ثابت قدم تھے وہ حالات کو بدلنے کے لیے پر امید تھے۔ لیکن گزشتہ تین دن جب سے روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے ڈالر گر رہا ہے۔ شہباز شریف کے ناقدین خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ حیران بھی ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ شہباز شریف پھر کام کر گیا۔ جنھیں یقین تھا کہ اس بار شہباز شریف کی سیاست ختم ہو جائے گی وہ مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ اگر اس بار شہباز شریف نے کارکرد گی دکھا دی تو پھر ان کو راستے سے ہٹانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ شہباز شریف کی کارکردگی کا ان کے پاس ماضی میں بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ اور اس بار تو جواب دینا واقعی نا ممکن ہو جائے گا۔
سونے پر سہاگہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ او پیک ممالک نے تیل کی سپلائی بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے ہفتے تیل کی قیمتیں مزید کم ہو جائیں گی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے یقینا پاکستان کو فائدہ ہوگا۔پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں کم ہونگی۔ جس مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا ووٹر ان سے ناراض ہوا تھا اس کی واپسی بھی ہوگی۔ اس لیے تیل کی قیمتیں کم ہونے اور روپے کی قدر میں اضافہ جہاں پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر کرے گا وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست بھی بہتر ہو جائے گی۔ شہباز شریف حالات بدل رہے ہیں۔
اس لیے ان کے ناقدین کے دوبارہ چپ ہونے کا وقت آیاجاتا ہے۔آئی ایم ایف سے خراب معاملات شہباز شریف کی حکومت کے گلے کا طوق بن گئے تھے۔ اس کی وجہ سے شہباز شریف کی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مفتاح اسماعیل یہ بات تو بار بار کہہ رہے تھے ریاست بچانے کے لیے مشکل فیصلے کر رہے ہیں۔ مشکل فیصلے مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو نقصان پہنچا رہے تھے۔آئی ایم ایف سے ڈیل نے بھی پاکستانی معیشت کو ا ستحکام بخشا ہے۔ صرف اس ڈیل کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کی حکومت کھو دی ہے۔
شہباز شریف نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے پنجاب حکومت کی قربانی دی ہے۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ جب اس ڈیل کے ثمرات آئیں گے تو بڑا فائدہ ہوگا۔ جیسے معیشت سنبھلے گی مسلم لیگ (ن) کی سیاست بھی سنبھلے گی۔ اس لیے شہباز شریف کی ٹیم اب حوصلے میں دکھائی دے رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل پر تنقید کے نشتر چلانے والے بھی اب خاموش نظرا ٓرہے ہیں۔ سیلاب میں شہباز شریف جس طرح سیلاب زدہ علاقوں میں گئے ہیں۔ اس نے ان کے سیاسی مخالفین کے اس بیانیہ کو بھی زمین بوس کر دیا ہے کہ شہباز شریف صرف اسلام آباد کے وزیر اعظم رہ گئے ہیں۔
جس طرح شہباز شریف بلوچستان پنجاب اور کے پی کے سیلاب زدہ علاقوں میں نظر آئے ہیں اس سے نظر آیا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں نہ بھی ہوں تب بھی وزیر اعظم پورے ملک کا وزیر اعظم ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کی حکومت نہ ہونے کے باوجود وہ روجھان گئے ہیں۔ کے پی کی مخالف حکومت ہونے کے باوجود وہ ڈیرہ اسماعیل خان گئے ہیں۔ بتایا ہے کہ اگر وزیر اعظم کام کرنا چاہے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔
جو لوگ شہباز شریف کو جانتے ہیں کہ انھیں علم ہے کہ شہباز شریف بد زبانی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ مخالفین کے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کرتے جو مخالفین کرتے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کے ٖفیصلے کے بعد حکومت کے فیصلے بتا رہے ہیں کہ شہباز شریف موقع آنے پر کوئی رعایت نہیں کرتے۔ شہباز شریف فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد جس طرح عمران خان کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں وہ ایک بہترین سیاسی حکمت عملی ہے۔
عمران خان اب دفاعی موڈ میں نظر آرہے ہیں، وہ قانونی معاملات میں الجھتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کی نا اہلی کے ریفرنس نے عمران خان کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ کھیل ابھی باقی ہے۔ شہباز شریف ایک اچھی اننگ کھیلنے کی تیاری میں ہیں۔ جس کے ابتدائی دن مشکل تھے۔ لیکن آگے وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کم بیک کر رہے ہیں۔
مجھے مسلم لیگ (ن) کے اندر ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو اس قدر نا امید ہو چکی تھیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن دوسری طرف میاں شہباز شریف مجھے پر امید نظر آتے تھے کہ وہ حالات بدل دیں گے اور عوام کی توقعات پوری ہونگی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو کہہ رہے تھے کہ کام کو عزت دو ناکام ہو گیا ہے اور واپس ووٹ کو عزت دو پر جانا ہوگا۔
میاں جاوید لطیف جیسے ہمارے دوست ضمنی انتخابات میں ہار کے بعد یہ کہتے نظر آئے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نہیں ہاری یہ حکومت ہاری ہے جس کا مطلب تھا کہ شہباز شریف ہارے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر اس اختلاف کا سیاسی مخالفین بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے اور ووٹر بھی کنفیوژ ہو رہا تھا۔ اس لیے بار بار یہ کہنے کے باوجود کہ حکومت مدت پوری کرے گی لوگ یقین نہیں کر رہے تھے کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
گزشتہ ہفتے جب روپے کی قدر گر رہی تھی تو نا امیدی بڑھ رہی تھی لیکن شہباز شریف ثابت قدم تھے وہ حالات کو بدلنے کے لیے پر امید تھے۔ لیکن گزشتہ تین دن جب سے روپے کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے ڈالر گر رہا ہے۔ شہباز شریف کے ناقدین خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ حیران بھی ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ شہباز شریف پھر کام کر گیا۔ جنھیں یقین تھا کہ اس بار شہباز شریف کی سیاست ختم ہو جائے گی وہ مایوس ہو گئے ہیں کیونکہ انھیں اندازہ ہے کہ اگر اس بار شہباز شریف نے کارکرد گی دکھا دی تو پھر ان کو راستے سے ہٹانے کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔ شہباز شریف کی کارکردگی کا ان کے پاس ماضی میں بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ اور اس بار تو جواب دینا واقعی نا ممکن ہو جائے گا۔
سونے پر سہاگہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ او پیک ممالک نے تیل کی سپلائی بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے ہفتے تیل کی قیمتیں مزید کم ہو جائیں گی۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے یقینا پاکستان کو فائدہ ہوگا۔پاکستان میں بھی تیل کی قیمتیں کم ہونگی۔ جس مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کا ووٹر ان سے ناراض ہوا تھا اس کی واپسی بھی ہوگی۔ اس لیے تیل کی قیمتیں کم ہونے اور روپے کی قدر میں اضافہ جہاں پاکستان کے معاشی حالات کو بہتر کرے گا وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاست بھی بہتر ہو جائے گی۔ شہباز شریف حالات بدل رہے ہیں۔
اس لیے ان کے ناقدین کے دوبارہ چپ ہونے کا وقت آیاجاتا ہے۔آئی ایم ایف سے خراب معاملات شہباز شریف کی حکومت کے گلے کا طوق بن گئے تھے۔ اس کی وجہ سے شہباز شریف کی حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مفتاح اسماعیل یہ بات تو بار بار کہہ رہے تھے ریاست بچانے کے لیے مشکل فیصلے کر رہے ہیں۔ مشکل فیصلے مسلم لیگ (ن) کی سیاست کو نقصان پہنچا رہے تھے۔آئی ایم ایف سے ڈیل نے بھی پاکستانی معیشت کو ا ستحکام بخشا ہے۔ صرف اس ڈیل کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کی حکومت کھو دی ہے۔
شہباز شریف نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے پنجاب حکومت کی قربانی دی ہے۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ جب اس ڈیل کے ثمرات آئیں گے تو بڑا فائدہ ہوگا۔ جیسے معیشت سنبھلے گی مسلم لیگ (ن) کی سیاست بھی سنبھلے گی۔ اس لیے شہباز شریف کی ٹیم اب حوصلے میں دکھائی دے رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل پر تنقید کے نشتر چلانے والے بھی اب خاموش نظرا ٓرہے ہیں۔ سیلاب میں شہباز شریف جس طرح سیلاب زدہ علاقوں میں گئے ہیں۔ اس نے ان کے سیاسی مخالفین کے اس بیانیہ کو بھی زمین بوس کر دیا ہے کہ شہباز شریف صرف اسلام آباد کے وزیر اعظم رہ گئے ہیں۔
جس طرح شہباز شریف بلوچستان پنجاب اور کے پی کے سیلاب زدہ علاقوں میں نظر آئے ہیں اس سے نظر آیا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں نہ بھی ہوں تب بھی وزیر اعظم پورے ملک کا وزیر اعظم ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کی حکومت نہ ہونے کے باوجود وہ روجھان گئے ہیں۔ کے پی کی مخالف حکومت ہونے کے باوجود وہ ڈیرہ اسماعیل خان گئے ہیں۔ بتایا ہے کہ اگر وزیر اعظم کام کرنا چاہے تو اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو سکتی۔
جو لوگ شہباز شریف کو جانتے ہیں کہ انھیں علم ہے کہ شہباز شریف بد زبانی کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ وہ مخالفین کے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کرتے جو مخالفین کرتے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کے ٖفیصلے کے بعد حکومت کے فیصلے بتا رہے ہیں کہ شہباز شریف موقع آنے پر کوئی رعایت نہیں کرتے۔ شہباز شریف فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کے بعد جس طرح عمران خان کو بند گلی میں لے کر جا رہے ہیں وہ ایک بہترین سیاسی حکمت عملی ہے۔
عمران خان اب دفاعی موڈ میں نظر آرہے ہیں، وہ قانونی معاملات میں الجھتے نظر آرہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان کی نا اہلی کے ریفرنس نے عمران خان کے لیے خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ کھیل ابھی باقی ہے۔ شہباز شریف ایک اچھی اننگ کھیلنے کی تیاری میں ہیں۔ جس کے ابتدائی دن مشکل تھے۔ لیکن آگے وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کم بیک کر رہے ہیں۔