ملک کی معاشی صورت حال اور بیرونی سرمایہ کاری

پاکستان کا سرمایہ اب آہستہ آہستہ کر کے خاصی مقدار میں بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے

ISLAMABAD:
پاکستان میں شرح سود میں زبردست اضافہ کیا جاچکا ہے، اس کے علاوہ فارن ایکسچینج کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے ، اسمگلنگ بھی زوروں پر ہے۔ پیداوار میں کمی پائی جا رہی ہے۔ مختلف اقسام کی صنعتوں کے بارے میں یہ رپورٹ بھی آ رہی ہیں کہ کارخانوں ، فیکٹریوں میں کم سے کم کام ہو رہا ہے۔

ہر ایک ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مختلف افواہوں کے بازار ہر جنس گراں سے گراں تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی کشیدگی نے معاشی استحکام کو اکھیڑ کر رکھ دیا ہے ، وہ ملک جس نے موجودہ صدی کے گزشتہ عشرے کے دوران خاصی بہتر ترقی کی جانب گامزن تھا اب ملکی سرمایہ کار ہوں یا بیرونی سرمایہ کار ملک میں اس پیمانے پر قطعاً سرمایہ کاری پر راغب نہیں ہیں جوکہ 2003 سے 2007 تک دیکھنے میں آیا تھا۔

پاکستان کا سرمایہ اب آہستہ آہستہ کر کے خاصی مقدار میں بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے خاص طور پر گلف ریاستوں کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹس کی طرف مراجعت کرچکا ہے البتہ گزشتہ مالی سال کے دوران گرتی ہوئی بیرونی سرمایہ کاری کے بیچ میں ایک ارب 87 کروڑ ڈالرزکی بیرونی سرمایہ کاری کو قدرے حوصلہ افزا کہہ سکتے ہیں۔

غیر ملکی سرمایہ کاروں نے جون 2022 کے دوران271.1 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جسکے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ سرمایہ کاری کا یہ حجم 20 ماہ میں سب سے زیادہ ہے یعنی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مئی 2022 کے مقابلے میں جون 2022 میں سرمایہ کاری 92 فیصد زائد رہی۔ مئی 2022 میں پاکستان میں 141.1 ملین ڈالرز کی بیرونی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

جہاں تک میرا خیال ہے کہ مئی میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے اور جون میں اس بات کے امکانات پیدا ہوگئے تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے بعد جلد قرض بھی مل جائے گا لہٰذا بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد قدرے بحال اور ملک میں معمولی بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔


حکومت کو گزشتہ مالی سال میں ہونے والے زبردست تجارتی خسارے کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے جوکہ 48 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ ہمارا چونکہ سارا انحصار اب آئی ایم ایف قرض پروگرام پر ہی ہو چکا ہے ، لہٰذا وقتی طور پر یعنی صرف زیادہ سے زیادہ موجودہ مالی سال کے لیے اتنی زیادہ گراوٹ کے بعد قدرے بہتر صورتحال کی جانب جاسکتے ہیں۔ کچھ اطلاعات ایسی موصول ہوئی ہیں کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی جانب سے پورے اہداف مکمل کرنے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے نمایندے کے مطابق پاکستان نے 31 جولائی کو پٹرولیم لیوی بڑھا کر آخری ایکشن بھی کردیا لیکن آئی ایم ایف نے اپنے ایکشن میں آنے کے لیے پاکستانی حکومت کے لیے یہ ماہ طویل تر کردیا ہے۔ یعنی آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس اگست کے آخری ہفتے میں ہوگا اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان بورڈ کے اجلاس کو اپنے حق میں کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے گا۔ مثبت فیصلے کے بعد ایک ماہ چھوڑ کر فیٹف کی جانب سے بھی توقع کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں مثبت فیصلے برآمد ہوں گے۔

لیکن پاکستان کو جن اہم باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں سے ایک تجارتی خسارے کو کنٹرول کرنے کے لیے درآمدات پر کڑی نظر کے ساتھ برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافے کا ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ہی درآمدی بل پر نظر ڈالی جائے۔ خوردنی تیل کا درآمدی بل اور درآمدی مقدار میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس درآمدی بل کی کمی کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چاول کے چوکر کا تیل درآمدی بل میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ ملک میں دراصل بہت بڑی مقدار میں چوکر ضایع ہو رہا ہے۔

بعض مقامات پر یہ دیکھا گیا ہے کہ چوکر کو کچرا سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں چوکر کی پیداوار 8 لاکھ ٹن سے زائد ہے اس سے حاصل کردہ رائس یارن آئل غذائیت سے بھرپور کولیسٹرول کی سطح کو بہتر کرنے اور قوت مدافعت بڑھانے کے لیے انتہائی مفید ہے۔ دیلتھ پاک نے اس سلسلے میں جو رپورٹ شایع کی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان دنیا میں چاول پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک ہے جو سالانہ بھاری مقدار میں چوکر ضایع کر تا ہے جسے تیل کی پیداوار کے لیے استعمال کرکے درآمدی بل کو کم کیا جاسکتا ہے۔

چین، تھائی لینڈ، جاپان اور ہندوستان رائس یارن آئل کے بڑے پروڈیوسر ملک ہیں۔ اس کے بارے میں مزید بتایا گیا کہ چاول کے چوکر میں پایا جانے والا وٹامن ای اتنا بہترین ہوتا ہے کہ کسی اور خوردنی تیل میں نہیں پایا جاتا اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسے مویشیوں کو کھلا دیا جاتا ہے یا کچھ مقدار یوں ہی ضایع ہو جاتی ہے کیونکہ کوئی اور مصرف نظر نہیں آتا لہٰذا اسے پھینک دیا جاتا ہے۔

سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ اس تیل کو نکالنے کے لیے کاٹیج انڈسٹری کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔ حکومت اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک فوری ایکشن پلان ترتیب دے اور چاول کے بڑے پیداواری علاقوں میں رائس یارن آئل سے متعلق کاٹیج انڈسٹری کو بلاسود قرضے اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ جلدازجلد ملکی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے۔
Load Next Story