سوال زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں
ملک اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں،جب اس کے عوام ملکی اور قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی اور حصہ لے رہے ہوں
سوال زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں ،ایک سوال جس میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی جارہی ہے کہ آخر پاکستان کے عوام ملک کے سیاسی، سماجی ، معاشرتی کے ساتھ ساتھ اپنے تمام معاملات سے اتنے لا تعلق کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ آہ و فریاد کے علاوہ ان کی آوازیں کیوں سنائی نہیں دیتی ہیں یہ بائیس کروڑ انسان بے آواز کیوں ہوگئے ہیں ؟یہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت کیوں نہیں دیتے ہیں۔آخر ایسا اور کونسا ظلم اور ستم ان پر ہوگا کہ جب ان کی آواز یں لوٹ آئیں گی۔
خلیل جبران نے کہا تھا '' قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سواکبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کو شش کرے جب اس کا سرتن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اورلکڑی کے درمیان رکھا جاچکا ہو '' کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب کے سب اپنے آپ سے ناراض ہیں یا اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیںیا اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں، اگرایسا کچھ نہیں ہے تو پھرآئیں مل کر اپنی آوازیں تلاش کرتے ہیںجو کہیں گم ہوگئی ہیں لیکن اس سے پہلے ، پہلے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آج جو لوگ اختیا رات کے مالک بنے ہوئے ہیںجو ملک اور قوم کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں یا جواب تک فیصلے کرتے آئے ہیںوہ انسانی فطرت کی مکمل اور درست ترین تفہیم ہی نہیں رکھتے و ہ لوگوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں، جیسے چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے ، تفہیم اور ادراک کا یہ فقدان انھیں اعلیٰ تر ترغیبات ، جوہر اور ذہانت کو بروئے کار لانے سے روکے رکھتا ہے۔ آج جب آپ انسانوں کو چیزوں کی طرح برتتے ہیںتو کیا ہوتا ہے ؟ وہ توہین محسوس کرتے ہیںاور الگ تھلگ ہوجاتے ہیںکام میں ذاتی دلچسپی نہیں لیتے وہ اعتمادسے محروم ہوجاتے ہیں۔
آپ سے اجنبی ہوجاتے ہیںاور ملکی اور قومی معاملات میںسے اپنی ذات کو نفی کردیتے ہیںیہاں تک کہ اپنے طورپر قدم اٹھانے کے لیے تیا ر نہیں ہوتے پھر سماج میںبے بسی ، بے حسی اور انتشار کے بھوت جنم لینا شروع کردیتے ہیںاور تھوڑے ہی عرصے بعد بھوتوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیںپھر ایسے سماج میں انسان کم اور چاروں طرف بھوت ہی بھوت نظر آنے لگتے ہیں پھر شخصیا ت مضبوط تر ہونا شروع ہوجاتی ہے قوم اورادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں۔
یہ صورتحال ان شخصیا ت کے لیے آئیڈیل ہوجاتی ہے جو جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو ہمیشہ ملک اور قوم پر مسلط رکھنا چاہتے ہیںجو اپنے آپ کو ناگزیر اور ہر مسئلے کا حل ثابت کرنا چاہتے ہیں ،وہ سمجھتے ہیںکہ لوگوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنے کے لیے یہ صورتحال پیدا کرنا ضروری ہے ۔
آئیں! ایک ہالی ووڈ فلم Max & Max کا تذکرہ کرتے ہیں جو اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ہے یہ ایک فکشن اسٹوری ہے جس میں ایک میکس شکاری کتا اور دوسرا میکس نیا ملازم کسٹمرز سروس کا نمایندہ ہے ۔اس کہانی میں ایک باس مسٹرہیرالڈ ہے جو اپنے ملازمین کے امور دیکھتا ہے ہیرالڈ کاطرز عمل اپنے ملازمین کے ساتھ جن میں نیا ملازم میکس بھی شامل ہے ویسا ہی ہے جیسا وہ اپنے کتے میکس کے ساتھ روا رکھتا ہے۔
اس فلم کا سیٹ '' کام کی جگہ '' ہے۔ یاد رہے کہ ہر ایک کی کام کی اپنی جگہ ہوتی ہے طالب علموں ، اساتذہ اورایڈمنسٹریٹرزکے لیے یہ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ہوتی ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ ان کا کاروباری مقام ہوتا ہے، سرکاری ملازمین کے لیے ان کے آفس کام کی جگہ ہوتے ہیں خاندانوں کے لیے ان کا گھر،کسانوں کے لیے ان کھیت ،مزدوروں کے لیے ان کی ملین، ان کے علاوہ بھی کچھ مقامات کا م کی جگہیں ہوتی ہیںمثلاً مسجد، مندر، چرچ ، چنانچہ یہ بات کام کے متعلق نہیں بلکہ انسانی تعلقات اوران افراد کے باہمی افعال کے متعلق ہے جو ایک مشترکہ مقصد میں بندھے ہوتے ہیں۔
اس فلم کی کہانی کو ہراس ماحول میںتلاش کیاجاسکتا ہے جہاں آپ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ فلم کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ میکس ہم میں سے بہت سوں کی طرح جو ایک نئی ملازمت شروع کرتے ہیں جوش و جذبہ سے لبریز ہے جب وہ گاہکوں کو اپنی فرم سے متعارف اور مربوط کرنے کے لیے ازخود پیش قدمی کرتا ہے تو مسٹرہیرالڈ اس سے کچھ باتیں چھپالیتا ہے۔
میکس کو اس انداز میں کنٹرول اور بے اختیارکیاجاتا ہے کہ و ہ اپنے مقصد کی بصیرت اپنی صلاحیتوں اور انتخاب کی آزادی سے محروم ہوجاتا ہے، وہ اپنی آواز کھو بیٹھتا ہے وہ قسم کھالیتا ہے کہ اب اپنے طورپر کوئی قدم نہیں اٹھائے گا چنانچہ میکس اپنے باس کا دست نگر ہوجاتا ہے اور اب وہ میکس نامی کتے کی طرح ہر اگلے قدم کے لیے باس کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔
ہیرالڈ کا رویہ مسٹرمیکس کے ساتھ بھی وہی ہے جو اپنے کتے میکس کے ساتھ ہے اور اس طرح کا توہین آمیز انتظام و باکی طرح پوری کمپنی میں پھیلا ہواہے، کمپنی کا ہر ملازم باس کا دست نگر ہے۔'' بنیا دی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز نہیں جسے ہانکا اور قابو کیاجائے ۔
قدیم دور میں انسانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے انھیں ہانکا اورقابو میں رکھا جاتا تھا پھر جیسے جیسے شعور ترقی کرتا چلا گیا توانسان آزاد اور خود مختیا ر ہوتا چلا گیااور آج پوری دنیا میں انسان آزاد اور خود مختار ہے ۔اسی لیے انسان خو شحال اور خو ش و خروم بھی ہے ا ب وہاں کوئی بھی ہیرالڈ کسی دوسرے انسان سے اپنے کتے میکس کی طرح برتاؤنہیں کررہاہے اور نا ہی وہ ایسا کرنے کا سو چ بھی سکتا ہے ۔اب اسے کیاکہا جائے کہ آج ہمارے ملک کے ہیرالڈ ملک کے بائیس کروڑ انسانوں کو میکس سمجھتے ہوئے۔
اسی طرح کا برتاؤ ان سے کررہے ہیںی،ہ سو چے سمجھے بغیر کہ آج کے دور میں یہ رویہ اوربرتاؤ برداشت کرنا نا ممکن ہے انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتا ، اگر ہمارے ہیرالڈ وں کا یہ ہی رویہ اور برتاؤ اسی طرح سے اور جاری رہا تو پھر وہ ہی سب کچھ ہوگا جو فرانس، روس اور دیگر ممالک میں ہوچکاہے۔
ملک اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں،جب اس کے عوام ملکی اور قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی اور حصہ لے رہے ہوں اور جب عوام ملکی اور قومی معاملات سے لا تعلق ہوجاتے ہیںتو پھر وہ ملک انتہائی کمزور ہوجاتے ہیںی،ہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتناہی ہمارے حق میںبہتر ہے ورنہ آسمان پر لکھا صاف نظر آرہاہے ۔
خلیل جبران نے کہا تھا '' قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سواکبھی سنائی نہ دے جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلنے اور ابھرنے کی کو شش کرے جب اس کا سرتن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اورلکڑی کے درمیان رکھا جاچکا ہو '' کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب کے سب اپنے آپ سے ناراض ہیں یا اپنے آپ سے انتقام لے رہے ہیںیا اپنے آپ کو سزا دے رہے ہیں، اگرایسا کچھ نہیں ہے تو پھرآئیں مل کر اپنی آوازیں تلاش کرتے ہیںجو کہیں گم ہوگئی ہیں لیکن اس سے پہلے ، پہلے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آج جو لوگ اختیا رات کے مالک بنے ہوئے ہیںجو ملک اور قوم کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں یا جواب تک فیصلے کرتے آئے ہیںوہ انسانی فطرت کی مکمل اور درست ترین تفہیم ہی نہیں رکھتے و ہ لوگوں کو اس طرح استعمال کرتے ہیں، جیسے چیزوں کو استعمال کیا جاتا ہے ، تفہیم اور ادراک کا یہ فقدان انھیں اعلیٰ تر ترغیبات ، جوہر اور ذہانت کو بروئے کار لانے سے روکے رکھتا ہے۔ آج جب آپ انسانوں کو چیزوں کی طرح برتتے ہیںتو کیا ہوتا ہے ؟ وہ توہین محسوس کرتے ہیںاور الگ تھلگ ہوجاتے ہیںکام میں ذاتی دلچسپی نہیں لیتے وہ اعتمادسے محروم ہوجاتے ہیں۔
آپ سے اجنبی ہوجاتے ہیںاور ملکی اور قومی معاملات میںسے اپنی ذات کو نفی کردیتے ہیںیہاں تک کہ اپنے طورپر قدم اٹھانے کے لیے تیا ر نہیں ہوتے پھر سماج میںبے بسی ، بے حسی اور انتشار کے بھوت جنم لینا شروع کردیتے ہیںاور تھوڑے ہی عرصے بعد بھوتوں کے بچے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیںپھر ایسے سماج میں انسان کم اور چاروں طرف بھوت ہی بھوت نظر آنے لگتے ہیں پھر شخصیا ت مضبوط تر ہونا شروع ہوجاتی ہے قوم اورادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے جاتے ہیں۔
یہ صورتحال ان شخصیا ت کے لیے آئیڈیل ہوجاتی ہے جو جمہوریت کے نام پر اپنے آپ کو ہمیشہ ملک اور قوم پر مسلط رکھنا چاہتے ہیںجو اپنے آپ کو ناگزیر اور ہر مسئلے کا حل ثابت کرنا چاہتے ہیں ،وہ سمجھتے ہیںکہ لوگوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنے کے لیے یہ صورتحال پیدا کرنا ضروری ہے ۔
آئیں! ایک ہالی ووڈ فلم Max & Max کا تذکرہ کرتے ہیں جو اسی مسئلے کی وضاحت کرتی ہے یہ ایک فکشن اسٹوری ہے جس میں ایک میکس شکاری کتا اور دوسرا میکس نیا ملازم کسٹمرز سروس کا نمایندہ ہے ۔اس کہانی میں ایک باس مسٹرہیرالڈ ہے جو اپنے ملازمین کے امور دیکھتا ہے ہیرالڈ کاطرز عمل اپنے ملازمین کے ساتھ جن میں نیا ملازم میکس بھی شامل ہے ویسا ہی ہے جیسا وہ اپنے کتے میکس کے ساتھ روا رکھتا ہے۔
اس فلم کا سیٹ '' کام کی جگہ '' ہے۔ یاد رہے کہ ہر ایک کی کام کی اپنی جگہ ہوتی ہے طالب علموں ، اساتذہ اورایڈمنسٹریٹرزکے لیے یہ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ہوتی ہے کچھ لوگوں کے لیے یہ ان کا کاروباری مقام ہوتا ہے، سرکاری ملازمین کے لیے ان کے آفس کام کی جگہ ہوتے ہیں خاندانوں کے لیے ان کا گھر،کسانوں کے لیے ان کھیت ،مزدوروں کے لیے ان کی ملین، ان کے علاوہ بھی کچھ مقامات کا م کی جگہیں ہوتی ہیںمثلاً مسجد، مندر، چرچ ، چنانچہ یہ بات کام کے متعلق نہیں بلکہ انسانی تعلقات اوران افراد کے باہمی افعال کے متعلق ہے جو ایک مشترکہ مقصد میں بندھے ہوتے ہیں۔
اس فلم کی کہانی کو ہراس ماحول میںتلاش کیاجاسکتا ہے جہاں آپ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی زندگی گذارتے ہیں۔ فلم کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ میکس ہم میں سے بہت سوں کی طرح جو ایک نئی ملازمت شروع کرتے ہیں جوش و جذبہ سے لبریز ہے جب وہ گاہکوں کو اپنی فرم سے متعارف اور مربوط کرنے کے لیے ازخود پیش قدمی کرتا ہے تو مسٹرہیرالڈ اس سے کچھ باتیں چھپالیتا ہے۔
میکس کو اس انداز میں کنٹرول اور بے اختیارکیاجاتا ہے کہ و ہ اپنے مقصد کی بصیرت اپنی صلاحیتوں اور انتخاب کی آزادی سے محروم ہوجاتا ہے، وہ اپنی آواز کھو بیٹھتا ہے وہ قسم کھالیتا ہے کہ اب اپنے طورپر کوئی قدم نہیں اٹھائے گا چنانچہ میکس اپنے باس کا دست نگر ہوجاتا ہے اور اب وہ میکس نامی کتے کی طرح ہر اگلے قدم کے لیے باس کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔
ہیرالڈ کا رویہ مسٹرمیکس کے ساتھ بھی وہی ہے جو اپنے کتے میکس کے ساتھ ہے اور اس طرح کا توہین آمیز انتظام و باکی طرح پوری کمپنی میں پھیلا ہواہے، کمپنی کا ہر ملازم باس کا دست نگر ہے۔'' بنیا دی حقیقت یہ ہے کہ انسان ایسی چیز نہیں جسے ہانکا اور قابو کیاجائے ۔
قدیم دور میں انسانوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے انھیں ہانکا اورقابو میں رکھا جاتا تھا پھر جیسے جیسے شعور ترقی کرتا چلا گیا توانسان آزاد اور خود مختیا ر ہوتا چلا گیااور آج پوری دنیا میں انسان آزاد اور خود مختار ہے ۔اسی لیے انسان خو شحال اور خو ش و خروم بھی ہے ا ب وہاں کوئی بھی ہیرالڈ کسی دوسرے انسان سے اپنے کتے میکس کی طرح برتاؤنہیں کررہاہے اور نا ہی وہ ایسا کرنے کا سو چ بھی سکتا ہے ۔اب اسے کیاکہا جائے کہ آج ہمارے ملک کے ہیرالڈ ملک کے بائیس کروڑ انسانوں کو میکس سمجھتے ہوئے۔
اسی طرح کا برتاؤ ان سے کررہے ہیںی،ہ سو چے سمجھے بغیر کہ آج کے دور میں یہ رویہ اوربرتاؤ برداشت کرنا نا ممکن ہے انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں کرسکتا ، اگر ہمارے ہیرالڈ وں کا یہ ہی رویہ اور برتاؤ اسی طرح سے اور جاری رہا تو پھر وہ ہی سب کچھ ہوگا جو فرانس، روس اور دیگر ممالک میں ہوچکاہے۔
ملک اس وقت مضبوط اور مستحکم ہوتے ہیں،جب اس کے عوام ملکی اور قومی معاملات میں بھرپور دلچسپی اور حصہ لے رہے ہوں اور جب عوام ملکی اور قومی معاملات سے لا تعلق ہوجاتے ہیںتو پھر وہ ملک انتہائی کمزور ہوجاتے ہیںی،ہ بات ہم جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتناہی ہمارے حق میںبہتر ہے ورنہ آسمان پر لکھا صاف نظر آرہاہے ۔