ماہ محرم کی فضیلت اور اہمیت

اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا

shabbirarman@yahoo.com

ماہ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے اسے محرم الحرام بھی کہتے ہیں، اسلام سے پہلے بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا ،اسلام نے یہ احترام جاری رکھا ،اس مہینے میں جنگ و جدل ممنوع ہے ۔ محرم الحرام ایثار ،قربانی ،اتحاد امت ،باہمی رواداری بقائے باہمی کادرس دیتا ہے ۔

مدینہ طیبہ سے میدان کربلا تک اسلام کے لیے عظیم قربانیوں کی تاریخ اس ماہ سے وابستہ ہے اور اس ماہ مبارک نے ان قربانیوں کی عظمت و فضیلت کو چار چاند لگادیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ماہ محرم کو اس دن سے عزت و احترام اور حرمت و فضیلت کا مہینہ قرار دیا ہے جب سے قرآن مجید کے الفاظ میں (جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور سال کے 12مہینوں میں سے جن 4کو محترم قرار دیا ان میں سر فہرست ہے )قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں بھی ان مہینوں کا احترام کیا جاتا تھا ۔

اسلام نے قرآن مجید کی تصدیق اور شہادت سے ا س ازلی حرمت کو ابدی حرمت بنا دیا ۔اسلامی تقویم کا پہلا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ کے لیے فیصلوں اورتیاریوں کے لیے اہم مہینہ ہونے کی وجہ سے محرم الحرام ممتاز ہے اور پھر جس طرح قبل از اسلام تاریخ کے ایسے عظیم واقعات اس ماہ مبارک میں پیش آئے جنھوں نے انسانیت کو اپنی طرف متوجہ کیا اسی طرح دور نبوت اور اسلام کے صدر اول میں ایسے واقعات پیش آئے کہ امت مسلمہ انھیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی خاص طور پر یکم محرم الحرام کو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی تعالیٰ عنہ اور10محرم الحرام کو نواسہ رسول سیدنا حضرت امام حسین رضی تعالیٰ عنہ کی اپنے قافلہ اور خاندان نبوت کے افراد کے ساتھ شہادت کے واقعات سے مسلمان بلکہ انسانیت اور تاریخ انسانیت متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

ان واقعات کی وجہ سے امت نے اسلام کی سربلندی کے لیے جد وجہد کے سفر کو مدینہ و کربلا سے وابستہ کرلیا کہ خون شہادت سے اسلامی تاریخ سرخرو ہے اور مسلمان کا ایمانی جذبہ اپنے اندر مسلسل حرارت محسوس کرتا ہے ۔ایک طرف اسلام کی ایک بنیاد عدل اجتماعی ہے اور اس کے لیے حضرت فاروق اعظم رضی تعالیٰ عنہ کی ذات قابل تقلید ہے تو دوسری طرف ایک بنیاد اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہے اور اس کے لیے خاندان نبوت اور سیدنا حضرت امام حسین رضی تعالیٰ عنہ کا صبر و رضا، اعلائے کلمۃاللہ، جرأت و استقامت اور جس موقف کو حق سمجھتے تھے، اس کے لیے ہر مخالف کے ساتھ ٹکر ا جانا ایک ایسا کردار ہے جس نے تاریخ کو ،کربلا کو ،امت مسلمہ کو امت مسلمہ کو زندہ و جاوید کردیا ۔

ان قربانیوں کا سب سے بڑا سبق ذاتی جذبات و خواہشات اور مفادات کی قربانی کسی عظیم مقصد کے لیے دینا ہے ۔اس ماہ کی دسویں تاریخ کو جوجانیں اللہ کی راہ میں کرب و بلا کے تپتے صحرا میں قربان کی گئیں تاریخ عالم ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔

جس نے حق کربلا میں ادا کردیا

اپنے ناناکا وعدہ وفا کردیا

گھر کاگھر سب سپرد خدا کردیا


کرلیا نوش جس نے شہادت کا جام

اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام

محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے اس دن اطاعت خدا وندی بجا لانے والوں کو حق تعالیٰ بہت بلند مقام سے نوازتا ہے ۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ دسویں محرم کو عاشورہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس روز اللہ تعالیٰ نے 10انبیاء کرام علیہم السلام کو 10اعزاز عطا فرمائے جس کی بنا ء پر اسے عاشورہ کہا جاتا ہے ۔

اسی روز حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ،اسی دن حضرت ادریس کو مقام رفیع پر اٹھایا گیا ،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی روز کوہ جودی پر ٹھہری ۔اسی روز حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی روز اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خلیل بنایا اسی دن حضرت ابراہیم کو آگ نمرود سے بچایا ،اسی روز حضرت داؤد کی توبہ قبول فرمائی ،اسی روز حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی واپس لوٹا دی گئی ،اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کا زمانہ ختم ہوا، اسی دن حضرت موسیٰ کو دریا ئے نیل سے نجات دی اور فرعون کو غرق کردیا۔

اسی روز حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی ،اسی روز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا گیا ،اسی روز محبوب خدا ،سرور انبیاء احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی کا نور تخلیق ہوا ۔( غنیہ الطالبین ) عاشورہ کے دن کیے جانے والے 10اعمال ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث ہیں ۔1۔روزہ رکھنا۔ 2۔یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا ۔3۔دسترخوان کشادہ کرنا۔ 4۔صدقہ خیرات کرنا ۔5۔غسل کرنا۔ 6۔سرمہ لگانا۔ 7۔بیمارکی عیادت کرنا ۔8۔پیاسے کو پانی پلانا ۔9۔نفلی عبادت کرنا ۔10۔توبہ استغفار کرنا ،قبرستان جانا۔ (غنیۃ الطالبین )۔

ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا اور اس کا بہت اہتمام کیا جاتا تھا بچوں کو تاکید کرکے یہ روزہ رکھوایا جاتا پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو اس کی فرضیت ختم ہوگئی اور مستجب یعنی نفلی روزہ رہ گیا اس لیے جن روایات سے بہت زیادہ تاکید معلوم ہوتی ہے وہ اسی دور کی ہیں تاہم اس کا اجر و ثواب اب بھی باقی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا یہودی عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہیں۔

آپ نے ان سے پوچھا تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ تو انھوں نے کہا ''یہ بڑا اچھا دن ہے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوںسے نجات دی ،فرعون کے لشکر کو غرق کیا ۔اس موقع پر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا، پس اس لیے ہم اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم سے زیادہ ہم موسیٰ علیہا السلام کی سنت پر عمل کرنے کے حقدار ہیں ۔پس آپ نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی تعالیٰ عنہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔

حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے عاشورہ کے روزے کا پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ گزشتہ برسوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ، (صحیح مسلم )یہود کی مشابہت سے بچنے اور ان کی مخالفت کرنے کے لیے عاشورہ کے ساتھ 9محرم کا بھی روزہ رکھنا چاہیے اگر 9تاریخ کا روزہ نہ رکھ سکیں تو عاشورہ کے ساتھ 11محرم الحرام کا روزہ رکھ لینا چاہیے ۔

آج کے حالات میں جب اسلامی جمہوریہ پاکستان اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے اور چاروں طرف سے دشمن طاقتوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے ان حالات میں داخلی طور پر رواداری اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر عمل کیا جائے اور داخلی انتشار کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے ۔یہ وقت کی ضرورت اور محرم الحرام کا پیغام ہے اور امت کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی سب سے بڑی تدبیر ہے اس سلسلے میں علماء کرام کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کی بھی ذمے داری بڑھ جاتی ہے ۔
Load Next Story