وہ خالی ہاتھ گئے
کہا جا رہا ہے کہ اب اسرائیل سعودی عرب کی پوری فضائی حدود کو اپنی پروازوں کے لیے استعمال کر رہا ہے
امریکا پہلے سپر پاور تھا اور لوگ بھی مانتے تھے مگر اب وہ خود کو سپرپاور منوانے کے لیے بے چین ہے مگر دنیا کا کوئی ملک اب اسے سپرپاور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں امریکی قیادت کو خود اپنے ملک کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر وہ ایک بڑے رتبے سے محروم ہوکر کیوں دنیا کی نظروں میں گر چکا ہے۔
جنگ عظیم دوم میں مغربی ممالک نے ہٹلر کے خلاف فتح کیا حاصل کی کہ امریکا خود کو اس جنگ کا ہیرو اور دنیا کا سب سے طاقتور ملک سمجھنے لگا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے جنگی ساز و سامان فراہم کرنے میں یورپی ممالک کی مدد کی تھی مگر وہ جس وجہ سے دنیا پر چھا گیا اور خود کو عظیم ملک سمجھنے لگا دراصل اس کا انسانیت کے خلاف وہ وحشیانہ اقدام تھا جس سے جاپان کے دو شہروں میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
اس گھٹیا حرکت پر امریکا خود پر فخر کرتا ہے مگر پوری دنیا اسے انسانیت کا قاتل قرار دیتی ہے۔ امریکا نے خود کو سپر پاور سمجھتے ہوئے کئی ممالک پر چڑھائی کی اور وہاں کے عوام کی خواہشات کے خلاف اپنا ایجنڈا نافذ کرنے اور عوام کو اپنے طریقے پر چلانے کی کوشش کی مگر اسے وہاں کے عوام نے شکست دی گوکہ اس نے ویتنام، کوریا، افغانستان وغیرہ میں اپنی پوری طاقت جھونکی مگر وہاں کے عوام کے آگے اس کی نہ چلی اور بالآخر اسے وہاں سے ناکام و نامراد اپنی فوجوں کا بھاری جانی نقصان اور اپنے خزانے کو لٹانے کے بعد واپس آنا پڑا۔
اس وقت امریکا کے وقار کا یہ حال ہے کہ اس کے اتحادی یورپی ممالک بھی اس سے بدظن ہوگئے ہیں اور وہ اس کی نہیں سن رہے ہیں۔ امریکا اس وقت روس اور چین کے خلاف مہم چلا رہا ہے، مگر اس مہم میں بھی اس کے اتحادی اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اب اس کا پہلے جیسا دبدبہ نہیں رہا ہے۔
بائیڈن کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ ناکام ثابت ہوا ہے وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کے خلاف ایک محاذ میں شامل کرنا چاہتا تھا مگر انھوں نے ایران ہی نہیں روس اور چین کے خلاف بھی کسی محاذ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم ہو چکا ہے مگر وہ خالی ہاتھ امریکا لوٹے ہیں۔ ان کے دورے کے بیشتر مقاصد پورے نہیں ہو پائے ہیں جن میں علاقائی ممالک پر ایران کے آگے بند باندھنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور روس کی آمدنی کو کم کرنے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانا شامل تھے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ دراصل خطے کے ممالک کو اب یہ احساس ہو گیا ہے کہ انھیں امریکا سے پہلے سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔ جس وقت بائیڈن اپنے دورے کے دوران چین اور روس کے خلاف بیانات دے رہے تھے اسی وقت سعودی وزیر خارجہ امریکی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ'' ہم لوگوں کے ساتھ تعلقات جوڑتے ہیں پل بناتے ہیں ہم روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے سلسلے کو جاری رکھیں گے۔''
ایک چینی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکا کو ایشیا پیسفک میں اتحادی تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اسی طرح اسے مشرق وسطیٰ میں بھی اتحادی نہیں مل رہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی ملک چین کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایران کے خلاف کارروائی کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
دراصل امریکا کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا محور اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ ہے۔ اسرائیل کو ایران سے خوامخواہ اپنی سلامتی کا خوف طاری ہے جب کہ ایران بارہا کہہ چکا ہے کہ اگر اسرائیل فلسطین کے مسئلے کو حل کرلے اور فلسطینیوں کو حق خود اختیاری دے کر ان کے علیحدہ ملک کو تسلیم کرلے تو ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ عرب ممالک کو زبردستی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ کرے، اسے چاہیے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل کرا دے تاکہ پھر نہ صرف عرب ممالک بلکہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ بدقسمتی سے امریکی دباؤ میں سوڈان، بحرین، متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے مگر سعودی حکومت نے ایسا کرنے سے گریز کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اب اسرائیل سعودی عرب کی پوری فضائی حدود کو اپنی پروازوں کے لیے استعمال کر رہا ہے پہلے اس نے صرف متحدہ عرب امارات جانے کے لیے اپنی فضائی حدود کھولی تھی مگر بائیڈن کے حالیہ دورے سے اسرائیل کو اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب وہ پوری طرح سعودی فضائی حدود سے اپنے مسافر جہاز گزار رہا ہے۔
سعودی حکومت سے امریکا کے تعلقات میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ خاشقگی کا قتل بھی ہے۔ بائیڈن دراصل خاشقگی کے قتل کا ذمے دار سعودی حکومت کو قرار دے کر اسے مرعوب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے اپنے مطالبات منوا سکیں مگر سعودی حکومت نے صاف کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت امریکی دباؤ میں نہیں آئے گی اور اپنی موجودہ خارجہ پالیسی کو جاری رکھے گی۔ امریکا کی گرتی ساکھ کا اقرار خود اس کے اتحادی کر رہے ہیں۔
سابق برطانوی وزیر اعظم جو کبھی جونیئر بش کے یار غار تھے اور عراق پر مہلک ہتھیار رکھنے کے جھوٹے الزام میں شریک تھے اب کہہ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر مغربی ممالک کا غلبہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا اس لیے کہ مغرب خصوصاً امریکا نے انسانیت کو اتنے دکھ دیے ہیں کہ اب وہ اسے کبھی معاف نہیں کرسکتے۔
امریکا کو ایک اور بڑا دھچکا ایرانی صدر ابراہیمی سے پیوٹن اور اردوان کی ملاقات نے پہنچایا ہے۔ صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے فوراً بعد اس سہ فریقی ملاقات نے امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ امریکا اسرائیل کی خاطر ایران سے جس قدر دشمنی بڑھا رہا ہے، روس اس کے اثرات کو ایران کے قریب آ کر زائل کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب امریکا کو روس چین یا ایران سے اپنی مخاصمت کو ختم کرنا ہوگا، تب ہی اسرائیل کا تحفظ یقینی ہو سکے گا اور دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا۔
جنگ عظیم دوم میں مغربی ممالک نے ہٹلر کے خلاف فتح کیا حاصل کی کہ امریکا خود کو اس جنگ کا ہیرو اور دنیا کا سب سے طاقتور ملک سمجھنے لگا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے جنگی ساز و سامان فراہم کرنے میں یورپی ممالک کی مدد کی تھی مگر وہ جس وجہ سے دنیا پر چھا گیا اور خود کو عظیم ملک سمجھنے لگا دراصل اس کا انسانیت کے خلاف وہ وحشیانہ اقدام تھا جس سے جاپان کے دو شہروں میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔
اس گھٹیا حرکت پر امریکا خود پر فخر کرتا ہے مگر پوری دنیا اسے انسانیت کا قاتل قرار دیتی ہے۔ امریکا نے خود کو سپر پاور سمجھتے ہوئے کئی ممالک پر چڑھائی کی اور وہاں کے عوام کی خواہشات کے خلاف اپنا ایجنڈا نافذ کرنے اور عوام کو اپنے طریقے پر چلانے کی کوشش کی مگر اسے وہاں کے عوام نے شکست دی گوکہ اس نے ویتنام، کوریا، افغانستان وغیرہ میں اپنی پوری طاقت جھونکی مگر وہاں کے عوام کے آگے اس کی نہ چلی اور بالآخر اسے وہاں سے ناکام و نامراد اپنی فوجوں کا بھاری جانی نقصان اور اپنے خزانے کو لٹانے کے بعد واپس آنا پڑا۔
اس وقت امریکا کے وقار کا یہ حال ہے کہ اس کے اتحادی یورپی ممالک بھی اس سے بدظن ہوگئے ہیں اور وہ اس کی نہیں سن رہے ہیں۔ امریکا اس وقت روس اور چین کے خلاف مہم چلا رہا ہے، مگر اس مہم میں بھی اس کے اتحادی اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اب اس کا پہلے جیسا دبدبہ نہیں رہا ہے۔
بائیڈن کا حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ ناکام ثابت ہوا ہے وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کے خلاف ایک محاذ میں شامل کرنا چاہتا تھا مگر انھوں نے ایران ہی نہیں روس اور چین کے خلاف بھی کسی محاذ کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم ہو چکا ہے مگر وہ خالی ہاتھ امریکا لوٹے ہیں۔ ان کے دورے کے بیشتر مقاصد پورے نہیں ہو پائے ہیں جن میں علاقائی ممالک پر ایران کے آگے بند باندھنے کے لیے دباؤ ڈالنا اور روس کی آمدنی کو کم کرنے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانا شامل تھے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ تیزی سے کم ہو رہا ہے۔ دراصل خطے کے ممالک کو اب یہ احساس ہو گیا ہے کہ انھیں امریکا سے پہلے سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔ جس وقت بائیڈن اپنے دورے کے دوران چین اور روس کے خلاف بیانات دے رہے تھے اسی وقت سعودی وزیر خارجہ امریکی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ'' ہم لوگوں کے ساتھ تعلقات جوڑتے ہیں پل بناتے ہیں ہم روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے سلسلے کو جاری رکھیں گے۔''
ایک چینی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ جس طرح امریکا کو ایشیا پیسفک میں اتحادی تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اسی طرح اسے مشرق وسطیٰ میں بھی اتحادی نہیں مل رہے کیونکہ مشرق وسطیٰ میں کوئی بھی ملک چین کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایران کے خلاف کارروائی کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
دراصل امریکا کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کا محور اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ ہے۔ اسرائیل کو ایران سے خوامخواہ اپنی سلامتی کا خوف طاری ہے جب کہ ایران بارہا کہہ چکا ہے کہ اگر اسرائیل فلسطین کے مسئلے کو حل کرلے اور فلسطینیوں کو حق خود اختیاری دے کر ان کے علیحدہ ملک کو تسلیم کرلے تو ایران اور اسرائیل کے درمیان کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ عرب ممالک کو زبردستی اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور نہ کرے، اسے چاہیے کہ وہ فلسطین کا مسئلہ حل کرا دے تاکہ پھر نہ صرف عرب ممالک بلکہ تمام مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے۔ بدقسمتی سے امریکی دباؤ میں سوڈان، بحرین، متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے مگر سعودی حکومت نے ایسا کرنے سے گریز کیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اب اسرائیل سعودی عرب کی پوری فضائی حدود کو اپنی پروازوں کے لیے استعمال کر رہا ہے پہلے اس نے صرف متحدہ عرب امارات جانے کے لیے اپنی فضائی حدود کھولی تھی مگر بائیڈن کے حالیہ دورے سے اسرائیل کو اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب وہ پوری طرح سعودی فضائی حدود سے اپنے مسافر جہاز گزار رہا ہے۔
سعودی حکومت سے امریکا کے تعلقات میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ خاشقگی کا قتل بھی ہے۔ بائیڈن دراصل خاشقگی کے قتل کا ذمے دار سعودی حکومت کو قرار دے کر اسے مرعوب کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے اپنے مطالبات منوا سکیں مگر سعودی حکومت نے صاف کہا ہے کہ وہ کسی بھی صورت امریکی دباؤ میں نہیں آئے گی اور اپنی موجودہ خارجہ پالیسی کو جاری رکھے گی۔ امریکا کی گرتی ساکھ کا اقرار خود اس کے اتحادی کر رہے ہیں۔
سابق برطانوی وزیر اعظم جو کبھی جونیئر بش کے یار غار تھے اور عراق پر مہلک ہتھیار رکھنے کے جھوٹے الزام میں شریک تھے اب کہہ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر مغربی ممالک کا غلبہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا اس لیے کہ مغرب خصوصاً امریکا نے انسانیت کو اتنے دکھ دیے ہیں کہ اب وہ اسے کبھی معاف نہیں کرسکتے۔
امریکا کو ایک اور بڑا دھچکا ایرانی صدر ابراہیمی سے پیوٹن اور اردوان کی ملاقات نے پہنچایا ہے۔ صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے فوراً بعد اس سہ فریقی ملاقات نے امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ امریکا اسرائیل کی خاطر ایران سے جس قدر دشمنی بڑھا رہا ہے، روس اس کے اثرات کو ایران کے قریب آ کر زائل کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب امریکا کو روس چین یا ایران سے اپنی مخاصمت کو ختم کرنا ہوگا، تب ہی اسرائیل کا تحفظ یقینی ہو سکے گا اور دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکے گا۔