اسرائیل کی جارحیت اور امت مسلمہ کی غفلت

اسرائیلی بمباری میں مارے جانے والے لوگ مسلمان ہیں جن کی دنیا کو کوئی پرواہ نہیں ہے

حالیہ حملوں میں اب تک 35 فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ایک بار پھر اسرائیلی درندوں کے سر پر خون سوار ہوگیا اور انہوں نے غزہ کے نہتے مسلمانوں پر بمباری کرکے اب تک 35 افراد کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کردیا ہے۔ ننھے منے بچے اور خواتین بھی ان کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔

تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھیں تو بچے کیسے خون میں لت پت چلا رہے ہیں اور اسی زخمی حالت میں ہی جان بچانے کےلیے بھاگ بھی رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسپتالوں کی حالت نہایت خستہ، اوپر سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی کی بندش نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق عارضی جنگ بندی تو ہوچکی ہے لیکن یہ پہلے بھی کئی بار ہوتا رہا ہے کہ جنگ بندی کے دوران ہی اسرائیل دوبارہ حملے کردیتا ہے اور چونکہ اسے امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے لہٰذا اسے کوئی کیسے پوچھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کا جی چاہتا ہے فلسطین پر حملہ کرکے کسی نہ کسی بہانے فلسطینیوں کی نسل کشی کا شوق پورا کرنے لگتا ہے اور اقوام عالم خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔

اسلامی ممالک کا تو یہ حال ہے کہ زبانی مذمت کا بھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتے۔ اب تک دو یا تین اسلامی ممالک نے ہی اس کی رسمی سی مذمت کی ہے، جبکہ باقی اسلامی ممالک مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم نے بھی صرف ایک ٹویٹ کے ذریعے مذمت کرکے اپنا فرض ادا کر دیا، باقی ممالک کے حکمرانوں نے ابھی تک ٹوٹی زبان سے حرف مذمت بھی نہیں ادا کیا۔ شاید انہیں معلوم ہے کہ اگر ہم زبانی مذمت کر بھی لیں تو اسرائیل کو کیا فرق پڑنا ہے۔ وہ براہ راست شہری آبادیوں پر بمباری کرتے ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ کئی عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں، جن کی وجہ سے فلسطینیوں کے ہنستے بستے گھر لمحوں میں اجڑ جاتے ہیں، خاندان تباہ ہوجاتے ہیں، کتنے ہی بچے یتیم ہوجاتے ہیں جو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ برس جب اسرائیل نے اسی طرح جارحیت کی تھی تو اس دوران ایک خاتون کے بارے میں سنا تھا کہ وہ اپنے تمام بچوں کو اپنے ساتھ سلاتی تھیں تاکہ اگر اسرائیلی بمباری ہو تو سب اکھٹے ہی مرجائیں، کوئی کسی کا دکھ دیکھنے یا ٹھوکریں کھانے کےلیے زندہ نہ بچے۔ چھوٹے چھوٹے بچے میڈیا پر کہتے تھے کہ ہمارے سارے خواب چکنا چور ہوگئے، ہمیں تو پڑھنا لکھنا تھا، کچھ بننا تھا لیکن ہمارے تو گھر ہی تباہ ہوگئے، خاندان ختم ہوگئے، اب ہمارے یہ خواب کیسے پورے ہوں گے۔

اسرائیلی بمباری میں مارے جانے والے لوگ مسلمان ہیں اور یہ بچے بھی مسلمان بچے ہیں جن کی دنیا کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یورپ کے ہوتے بلکہ یورپ کا کوئی کتا بھی ایسے مار دیا جائے تو اس کے حقوق کےلیے بھی تنظیمیں سرگرم ہوجاتی ہیں اور جانوروں کو بھی حقوق دلائے جاتے ہیں لیکن یہاں تو انسانوں کو بھی حقوق حاصل نہیں، انہیں تو زندہ رہنے کا بھی حق نہیں دیا جاتا، باقی حقوق تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے حقوق کا تو مسلمانوں کو بھی خیال نہیں ہے۔ ان بچوں کی پرواہ تو مسلم حکمرانوں کو بھی نہیں ہے تو غیر مسلموں سے کیا شکوہ کریں۔ مسلم حکمرانوں نے بھی تو ان کےلیے کبھی کچھ نہیں کیا۔ ہاں اتنا ضرور کیا ہے کہ ان کے قاتلوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھائے ہیں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والوں کو گلے لگایا ہے، ان درندوں کے ساتھ خوشی خوشی معاہدات کیے ہیں۔ ان کی زمینیں ہتھیا کر بننے والی ناجائز ریاست کو تسلیم کرلیا ہے۔ یہ احسان امت مسلمہ کے حکمرانوں کا ان نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کے سر ضرور ہے۔


عرب حکمرانوں کی یہود و نصاریٰ سے دوستی بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس دوستی کا لازمی نتیجہ امت مسلمہ سے دوری ہے۔ امت مسلمہ کےلیے ان کے دلوں میں حقارت پیدا ہوگی یا ہوچکی ہے اور امت مسلمہ کے دلوں میں ان کےلیے نفرت کے جذبات ابھریں گے۔ وہ امت مسلمہ کے مسائل اور پریشانیوں کو نظر انداز کرکے یہود و نصاریٰ سے دوستیاں بڑھا رہے ہیں جس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس بات کا ادراک ان حکمرانوں کو بھی ہے کہ یہودی خاص طور پر مسلمانوں کےلیے نہایت خطرناک ہیں لیکن اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کےلیے وہ اس زہر کو بھی نگلنے کےلیے تیار ہیں لیکن امت مسلمہ سے رشتہ مضبوط کرنے سے کتراتے ہیں۔

آج مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھا کر فلسطینیوں پر ان کے ناجائز قبضے کو تسلیم کر رہے ہیں تو پھر ان کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ یہودیوں کے پروگرام میں صرف فلسطین پر قبضہ ہی نہیں بلکہ پوری عرب دنیا پر قبضہ شامل ہے۔ آج فلسطین تو کل دیگر ممالک کا بھی نمبر آجائے گا۔

مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ انہیں عرب دنیا کی حفاظت کےلیے امریکا و اسرائیل نہیں مسلم ممالک سے مدد طلب کرنی چاہیے جو اخلاص کے ساتھ ان کی مدد کریں گے۔ امریکا تو ان کے تحفظ کے نام پر انہیں بلیک میل کرتا ہے اور ان کا تیل مفت میں بٹور رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر مضبوط دفاع رکھنے والے اسلامی ممالک کو اپنی دولت کا تھوڑا سا حصہ دے کر ان سے یہ خدمات لی جائیں تو وہ دل و جان سے ان کی حفاظت کریں گے۔ اس طرح امت مسلمہ کا آپس میں رشتہ بھی گہرا ہوگا، ان کے اتحادات قائم ہوں گے اور وہ یہود و نصاریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یوں تمام مظلوم مسلمانوں کو کفار کے نرغے سے باآسانی نکالنے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن جب تک ان کے آپس کے تعلقات اسی طرح رہیں گے تو کفار بھی ان پر غالب رہیں گے اور (خدانخواستہ) ایک کے بعد ایک ریاست پر قابض ہوتے چلے جائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

 
Load Next Story