آئینی ابہام
حالیہ عدالتی فیصلوں سے جو ابہام پیدا ہوگیا ہے، اسے دور کرنے کا واحد طریقہ فل کورٹ کی تشکیل ہے
پنجاب میں کئی ماہ تک سیاسی بحران رہا اور فریقین کے مابین آئینی لڑائی ہوتی رہی، گو اب وزارت اعلیٰ کا فیصلہ ہوگیا ہے، چوہدری پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں لیکن سیاسی بحران ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے اور نہ ہی آئینی جنگ کا سیز فائز ہوا ہے۔ حمزہ شہباز پنجاب ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعلیٰ ہیں۔
جنھوں نے دو بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، ایک گورنر نے ان سے حلف لینے سے انکار کردیا، جبکہ پرویز الہی سے بھی گورنر نے حلف نہیں لیا اور ان سے صدر مملکت نے حلف لیا۔آگے کیا ہوگا، اس کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بہرحال تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الہی کو عدالت عظمیٰ سے بروقت ریلیف ملا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے دس ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئی اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ قرار دیا گیا تو تحریک انصاف والے اور پرویز الہی فوراً سپریم کورٹ پہنچے 'ادھر ڈپٹی رجسٹرار بھی فوراً حاضر ہوئے حالانکہ درخواست ابھی تیار نہیں ہوئی تھی ' تین گھنٹے بعد درخواست دائر ہوئی 'اگلے دن تین رکنی بینچ کی تشکیل ہوئی اور کیس سماعت کے لیے منظور ہوگیا ۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دے دی اور چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے۔
اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کے نام خط سامنے آگیا، پھر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چار کے مقابلے میں پانچ ممبران کی اکثریت سے چیف جسٹس کے نامزد جج صاحبان کے نام مسترد کردیے گئے ۔
ایک ڈیفیکشن کیس میں آئین کے آرٹیکل 63-Aکے بارے میں کیے گئے فیصلے نے کئی مسائل پیدا کیے ہیں'قانونی ماہرین اور متعدد ریٹائرڈ جج صاحبان کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو کالعدم قرار دینے کا حکم آئین کی شق کی تشریح سے بالاتر ہے اور در حقیقت آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔پانچ رکنی بنچ کے17مئی کو سنائے گئے اکثریتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63-Aکی اس طرح تشریح کی گئی تھی کہ بنچ کے دو ججوں نے اسے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا کیونکہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں کہ منحرف رکن کے ووٹ کو بھی شمار نہیں کیا جائے گا'جب کہ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے حالیہ فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا ہے، مسلم لیگ ق کے دس ارکان کے ووٹ کو بھی شمار کیا گیا ہے اور ان کی رکنیت بھی قائم ہے۔
اس معاملے میں مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت کے فیصلے کے بجائے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا ہے، یوں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ غیرآئینی قرار پائی اور پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب قرار پا گئے۔
پنجاب کے وزیر اعلی کے انتخاب پر تنازع کی بڑی وجہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے پیدا ہونے والا ابہام ہے۔ بلاشبہ آئینی بحران پیدا کرنے میں سیاستدانوں اور ان کے سہولت کار زیادہ قصور وار ہیں۔ یہ لوگ اقتدار کی رسی کشی میں عدلیہ کو ملوث کرنے کے ذمے دار ہیں۔ محلاتی جوڑ توڑ اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے سیاستدانوں نے ملک اور پنجاب کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بہرحال اس تشریح کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی ہیں'اب سب متعلقہ فریقوں کا مطالبہ ہے کہ اس کیس کو اور نظر ثانی کی درخواستوں کو فل کورٹ سنے 'یہ مطالبہ کوئی غیرقانونی یا غیرآئینی نہیں ہے ' قانون دان حلقوں نے فل کورٹ کی حمایت کی ہے جبکہ کچھ ریٹائر جج صاحبان نے اس مطالبے کی تائید کی ہے۔
سپریم کورٹ میں بارکونسلز کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں کافی عرصہ سے زیر غور ہیں'ان کا مطالبہ ہے کہ نظرثانی درخواستوں کو فل کورٹ سنے 'سپریم کورٹ میں 52ہزار کیس زیر التواء ہیں'یوسف رضا گیلانی کی درخواست 500دن سے انتظار میں ہے 'قاسم سوری 4سال سے stay orderپر مراعات حاصل کر رہے ہیں' فارن فنڈنگ کیس 8سال سے لٹکا رہا ، جبکہ کئی فیصلے انتہائی مختصر مدت میں سنا دیئے گئے۔ حالیہ فیصلوں کے بعد عوامی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ حساس سیاسی اور آئینی معاملات کے مقدمات میں چند کے سوا دیگر سینئر ججوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یہ تاثر ملک کے نظام انصاف کے لیے اچھا نہیں ہے۔ماحول میں زیادہ ابہام اور تنازعہ 'آئین کے آرٹیکل (63-A) کی ذیلی شق (2)کی تشریح کی وجہ سے ہو رہا ہے ' اس تشریح کی وجہ سے اب سیاسی پارٹیوں کے سربراہ یا چیئرمین کمتر پوزیشن پر چلے گئے ہیں جبکہ پارلیمانی لیڈر اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے کے خلاف کوئی اقدام کرسکتا ہے۔ یوں سیاسی جماعت کا سربراہ جنھیں الیکشن میں حصہ لینے کی منظوری اور اجازت دیتا ہے۔
وہ الیکشن جیت کر اپنی جماعت کے سربراہ کے فیصلوں کے پابند نہیں رہتے اور سب کچھ پارلیمانی سربراہ کرنے کا مجاز ہے۔ عدلیہ کی اس تشریح کے بعد پارٹی سربراہ بظاہر بے اثر اور غیر فعال ہوکر رہ گیا ہے بلکہ سیاسی جماعت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحریک انصاف اگرچہ جشن منا رہی ہے' مگران کو ادراک ہونا چائیے کہ عمران خان اگر کہیں پارلیمانی بحران کی زد میں آگئے 'تو ان کے ارکان صوبائی اسمبلی ان کی ہدایات کو نظر انداز کر کے کسی کے اشارے پر ان کے خلاف بھی جا سکتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ ان کو محفوظ راستہ فراہم کرے گا'کیونکہ اس تشریح کے مطابق پارلیمانی امور میں پارٹی سربراہ غیر فعال ہیں۔
قیام پاکستان کے75برس کے بعد بھی پاکستان میں ریاستی ادارے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ ریاستی اداروں نے سیاست میں ملوث ہوکر خود کو ہر قسم کی بحث و تکرار کا موضوع بنا دیا ہے' یہاں تک کہ اب تو شہید فوجی افسروں اور سپاہیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا'عدلیہ ملک کے باوقار اداروں میں سے ایک ہے 'ماضی میں جج صاحبان ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے جو ان کے فیصلوں میں واضح ہوتا تھا لیکن انھوں نے اپنے ساتھی ججوں کے طرز عمل اور نیت پر کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
حالیہ عدالتی فیصلوں سے جو ابہام پیدا ہوگیا ہے، اسے دور کرنے کا واحد طریقہ فل کورٹ کی تشکیل ہے' ورنہ ایک ابہام سے دوسرا ابہام پیدا ہوتاجائے گا۔ دنیا میں نظام انصاف کے حوالے سے پاکستان کا نمبر130سے بھی نیچے ہے۔ چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات اور سوموٹو لینے کے اختیار کا دائرہ کار غیرمبہم انداز میں ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے ' سوموٹو اختیار کو مختلف چیف جسٹس صاحبان مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں'ایک چیف جسٹس آتے ہیں اور روزانہ کئی کئی سوموٹو لیتے ہیں' جب کہ دوسرا چیف جسٹس اہم مسئلوں کو بھی نظر انداز کردیتا ہے۔
سوموٹو کیس میں کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی 'حقیقت یہ ہے کہ سوموٹو کی وجہ سے انتظامیہ اور حکومت مفلوج ہو جاتی ہے۔مقدمات کو سننے کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ہے 'ایک کیس سالوں میں نہیں سنا جاتا اور کئی کیس 24گھنٹے میں نبٹا دیئے جاتے ہیں، اس لیے جوڈیشل نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
جنھوں نے دو بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا، ایک گورنر نے ان سے حلف لینے سے انکار کردیا، جبکہ پرویز الہی سے بھی گورنر نے حلف نہیں لیا اور ان سے صدر مملکت نے حلف لیا۔آگے کیا ہوگا، اس کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بہرحال تحریک انصاف اور چوہدری پرویز الہی کو عدالت عظمیٰ سے بروقت ریلیف ملا ہے۔
پنجاب اسمبلی میں وزیراعلی کے الیکشن میں مسلم لیگ ق کے دس ارکان کے ووٹ شمار نہ کرنے کی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئی اور حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ قرار دیا گیا تو تحریک انصاف والے اور پرویز الہی فوراً سپریم کورٹ پہنچے 'ادھر ڈپٹی رجسٹرار بھی فوراً حاضر ہوئے حالانکہ درخواست ابھی تیار نہیں ہوئی تھی ' تین گھنٹے بعد درخواست دائر ہوئی 'اگلے دن تین رکنی بینچ کی تشکیل ہوئی اور کیس سماعت کے لیے منظور ہوگیا ۔ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ غیر آئینی قرار دے دی اور چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن گئے۔
اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا چیف جسٹس کے نام خط سامنے آگیا، پھر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چار کے مقابلے میں پانچ ممبران کی اکثریت سے چیف جسٹس کے نامزد جج صاحبان کے نام مسترد کردیے گئے ۔
ایک ڈیفیکشن کیس میں آئین کے آرٹیکل 63-Aکے بارے میں کیے گئے فیصلے نے کئی مسائل پیدا کیے ہیں'قانونی ماہرین اور متعدد ریٹائرڈ جج صاحبان کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ کو کالعدم قرار دینے کا حکم آئین کی شق کی تشریح سے بالاتر ہے اور در حقیقت آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش ہے۔پانچ رکنی بنچ کے17مئی کو سنائے گئے اکثریتی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 63-Aکی اس طرح تشریح کی گئی تھی کہ بنچ کے دو ججوں نے اسے آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا کیونکہ آئین میں ایسی کوئی شق نہیں کہ منحرف رکن کے ووٹ کو بھی شمار نہیں کیا جائے گا'جب کہ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے حالیہ فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا ہے، مسلم لیگ ق کے دس ارکان کے ووٹ کو بھی شمار کیا گیا ہے اور ان کی رکنیت بھی قائم ہے۔
اس معاملے میں مسلم لیگ کے صدر چوہدری شجاعت کے فیصلے کے بجائے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا ہے، یوں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ غیرآئینی قرار پائی اور پرویز الہیٰ وزیراعلیٰ پنجاب قرار پا گئے۔
پنجاب کے وزیر اعلی کے انتخاب پر تنازع کی بڑی وجہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح سے پیدا ہونے والا ابہام ہے۔ بلاشبہ آئینی بحران پیدا کرنے میں سیاستدانوں اور ان کے سہولت کار زیادہ قصور وار ہیں۔ یہ لوگ اقتدار کی رسی کشی میں عدلیہ کو ملوث کرنے کے ذمے دار ہیں۔ محلاتی جوڑ توڑ اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر فیصلے کرنے والے سیاستدانوں نے ملک اور پنجاب کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
بہرحال اس تشریح کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کی ہیں'اب سب متعلقہ فریقوں کا مطالبہ ہے کہ اس کیس کو اور نظر ثانی کی درخواستوں کو فل کورٹ سنے 'یہ مطالبہ کوئی غیرقانونی یا غیرآئینی نہیں ہے ' قانون دان حلقوں نے فل کورٹ کی حمایت کی ہے جبکہ کچھ ریٹائر جج صاحبان نے اس مطالبے کی تائید کی ہے۔
سپریم کورٹ میں بارکونسلز کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں کافی عرصہ سے زیر غور ہیں'ان کا مطالبہ ہے کہ نظرثانی درخواستوں کو فل کورٹ سنے 'سپریم کورٹ میں 52ہزار کیس زیر التواء ہیں'یوسف رضا گیلانی کی درخواست 500دن سے انتظار میں ہے 'قاسم سوری 4سال سے stay orderپر مراعات حاصل کر رہے ہیں' فارن فنڈنگ کیس 8سال سے لٹکا رہا ، جبکہ کئی فیصلے انتہائی مختصر مدت میں سنا دیئے گئے۔ حالیہ فیصلوں کے بعد عوامی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ حساس سیاسی اور آئینی معاملات کے مقدمات میں چند کے سوا دیگر سینئر ججوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یہ تاثر ملک کے نظام انصاف کے لیے اچھا نہیں ہے۔ماحول میں زیادہ ابہام اور تنازعہ 'آئین کے آرٹیکل (63-A) کی ذیلی شق (2)کی تشریح کی وجہ سے ہو رہا ہے ' اس تشریح کی وجہ سے اب سیاسی پارٹیوں کے سربراہ یا چیئرمین کمتر پوزیشن پر چلے گئے ہیں جبکہ پارلیمانی لیڈر اپنی ہی پارٹی کے سربراہ کے فیصلے کے خلاف کوئی اقدام کرسکتا ہے۔ یوں سیاسی جماعت کا سربراہ جنھیں الیکشن میں حصہ لینے کی منظوری اور اجازت دیتا ہے۔
وہ الیکشن جیت کر اپنی جماعت کے سربراہ کے فیصلوں کے پابند نہیں رہتے اور سب کچھ پارلیمانی سربراہ کرنے کا مجاز ہے۔ عدلیہ کی اس تشریح کے بعد پارٹی سربراہ بظاہر بے اثر اور غیر فعال ہوکر رہ گیا ہے بلکہ سیاسی جماعت کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحریک انصاف اگرچہ جشن منا رہی ہے' مگران کو ادراک ہونا چائیے کہ عمران خان اگر کہیں پارلیمانی بحران کی زد میں آگئے 'تو ان کے ارکان صوبائی اسمبلی ان کی ہدایات کو نظر انداز کر کے کسی کے اشارے پر ان کے خلاف بھی جا سکتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ ان کو محفوظ راستہ فراہم کرے گا'کیونکہ اس تشریح کے مطابق پارلیمانی امور میں پارٹی سربراہ غیر فعال ہیں۔
قیام پاکستان کے75برس کے بعد بھی پاکستان میں ریاستی ادارے شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ ریاستی اداروں نے سیاست میں ملوث ہوکر خود کو ہر قسم کی بحث و تکرار کا موضوع بنا دیا ہے' یہاں تک کہ اب تو شہید فوجی افسروں اور سپاہیوں کو بھی نہیں بخشا جاتا'عدلیہ ملک کے باوقار اداروں میں سے ایک ہے 'ماضی میں جج صاحبان ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے جو ان کے فیصلوں میں واضح ہوتا تھا لیکن انھوں نے اپنے ساتھی ججوں کے طرز عمل اور نیت پر کبھی سوال نہیں اٹھایا تھا لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔
حالیہ عدالتی فیصلوں سے جو ابہام پیدا ہوگیا ہے، اسے دور کرنے کا واحد طریقہ فل کورٹ کی تشکیل ہے' ورنہ ایک ابہام سے دوسرا ابہام پیدا ہوتاجائے گا۔ دنیا میں نظام انصاف کے حوالے سے پاکستان کا نمبر130سے بھی نیچے ہے۔ چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات اور سوموٹو لینے کے اختیار کا دائرہ کار غیرمبہم انداز میں ہمیشہ کے لیے طے ہوجانا چاہیے ' سوموٹو اختیار کو مختلف چیف جسٹس صاحبان مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں'ایک چیف جسٹس آتے ہیں اور روزانہ کئی کئی سوموٹو لیتے ہیں' جب کہ دوسرا چیف جسٹس اہم مسئلوں کو بھی نظر انداز کردیتا ہے۔
سوموٹو کیس میں کیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل بھی نہیں کی جا سکتی 'حقیقت یہ ہے کہ سوموٹو کی وجہ سے انتظامیہ اور حکومت مفلوج ہو جاتی ہے۔مقدمات کو سننے کا بھی کوئی پیمانہ نہیں ہے 'ایک کیس سالوں میں نہیں سنا جاتا اور کئی کیس 24گھنٹے میں نبٹا دیئے جاتے ہیں، اس لیے جوڈیشل نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔