تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیےچیف جسٹس

سیاسی و سماجی تناظر میں عدالتی فیصلوں میں تضاد پایا گیا،آئینی انحراف قصہ پارینہ بن چکا

سیاسی و سماجی تناظر میں عدالتی فیصلوں میں تضاد پایا گیا،آئینی انحراف قصہ پارینہ بن چکا۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا ہے کہ ملک کا آئین ہی سپریم ہے۔

آئین نے سپریم کورٹ کو ملکی اداروں کے درمیان ہم اہنگی اور توازن برقرار رکھنے کی منفرد ذمے داری سونپی ہے، سپریم کورٹ نے ہر بار آئین توڑنے والوں کے اقدامات کو غلط قرار دیا۔ جمعرات کو پی اے ایف کالج کے وفد کے شرکا سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ پاکستان کا آئین اسلامی اور جمہوری سوچ کا امتزاج ہے، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف کے لیے تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، سیاسی و سماجی صورت حال کے پیش نظر عدلیہ کے فیصلوں میں تضاد پایا گیا، آئینی انحراف اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔


سیاسی عدم استحکام کا زمانہ اب پیچھے رہ گیا ہے، عدلیہ نے مشکل حالات میںآئین اور جمہوریت کی بحالی کا راستہ نکالنے کی کوشش کی، 3 نومبر2007کی ایمر جنسی کے بعد ججوں نے آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے بے مثال تحریک چلائی، انتظامیہ کے غیر قانون اقدامات کے خلاف حکم جاری کرنے میں عدلیہ کبھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئی، عصر حاضر میں قومیں بیرونی مداخلت سے نہیں غیر قانونی حکمرانی سے زوال پذیر ہوئی ہیں۔ بعد ازاں شرکا نے چیف جسٹس سے آئینی و قانونی معاملات پر سوالات کیے جن کے چیف جسٹس نے وضاحت سے جوابات بھی دیے۔

 
Load Next Story