آیندہ نسل کا بہترین مستقبل
جو بات دارالحکومت اسلام آباد کی ہے وہ شاید ملک کے کسی شہر میں نہیں۔یہ شہر ایک منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے
ویسے تو پاکستان میں کئی شہر آباد ہیں، ہر شہر کسی نہ کسی وجہ سے شہرت کا حامل ہے مگر جو بات دارالحکومت اسلام آباد کی ہے وہ شاید ملک کے کسی شہر میں نہیں۔یہ شہر ایک منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ایک ایسی منصوبہ بندی جس میں اسٹریٹجک ،معاشی اور تعمیراتی تجزیات کے نچوڑ سے ایک بہترین محل وقوع پر مبنی شہر کا خاکہ سامنے لایا گیا تھا۔آج بھی یہ شہر بین الاقوامی شہروں کی فہرست میں شامل ہے۔ اس کی یہ حیثیت اس وقت تک رہے گی جب تک یہاں کی آبادی کو کنٹرول میں رکھا جائے گا۔ایک کنٹرولڈ آبادی ایک کامیاب شہری انتظامیہ کی ضمانت ہے۔کراچی ،اور اس جیسے ہر اس شہر جہاں کی آبادی اُبلی پڑ رہی ہے وہاں کی انتظامی سہولیات اور اس کے اداروں کا حال ہمارے سامنے ہے۔کراچی کی مثال ایک ایسے خاندان کی ہے، جس کے کنبے میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور ناکافی وسائل کی وجہ سے یہ کنبہ مفلوک الحال ہے۔اس کے پاس نہ تعلیم ہے، نہ ترقی، صحت و صفائی کا فقدان ہے اور کوئی نظام درست حالت میں نہیں۔
یہ قدرت کا نظام ہے،اللہ نے انسان کو عقل دی ہے اورتوکل کو عقل کے بعد استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے۔ہر ایک روح جسے دنیا میں آنا ہے وہ آکر رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں۔اور ہر صاحب عقل شخص جس نے اپنے آج اور کل کو دنیا اور آخرت کے لیے کامیاب بنانا ہے، اسے عمل کرنا ہے اور کوئی بھی عمل کرنے سے قبل لامحالہ اس کی پوری منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔آپ اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔۔۔آپ کو ہر زاویئے سے اور ہر نقطہ نگاہ سے منصوبہ بندی کا طریقہ کار جابجا دیکھائی دے گا۔مصروفیات زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں منصوبہ بندی کار فرما نہ ہو۔انسانی پیدائش سے قبل کے عرصے سے لے کر موت تک زندگی ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت چلتی ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں ایک متعین وقت گزار کر دنیا میں آتا ہے۔یہ اور اس جیسے دیگر مظاہرے قانون قدرت میں موجود ہیں۔قدرت کے عطاء کر دہ نظاموں میں منصوبہ بندی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ان نظاموں کو کائناتی آفرینش سے قبل ایک منصوبے کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔بنی نوع انسان اور ہر ذی روح کی زندگیوں کا دارومدار کائنات کے آغاز سے لے کر آج تک جاری رہنے والے ان نظاموں کی مرہون منت ہے جو ایک خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔
نکاح انسانی معاشرے کی اٹل حقیقت بھی ہے اور ضرورت بھی۔اس بندھن کے ذریعے دو افراد یعنی مردو و عورت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا سفر شروع کر تے ہیں۔ نکاح کا مقصد نیک اور صالح اولاد پیدا کرنا ہے۔نیک اور صالح اولاداللہ کا عطا کردہ تحفہ ہوتا ہے۔یہ ایک خام ہیرے کی طرح ہوتا ہے اور خام ہیرے کو تراشنا انسان کا کام ہوتا ہے۔یہ جوہری پر منحصر ہے کہ وہ ہیرے کو چھ کونوں پر تراشے یا بارہ کونوں والا۔بالکل اسی طرح نیک اور صالح اولاد کی صلاحیتوں کے نکھار اور اسے معاشرے کے لیے کارآمد اور فعال رکن بنانے کے لیے اچھی پرورش اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اور بہترین پرداخت اور تربیت سازی مکمل توجہ کے بغیر ممکن نہیں۔باپ اور ماں اپنے بچوں پر انفرادی توجہ اسی وقت دے سکتے ہیں جب وہ ان کی نگہداشت پر قادر ہوں، اور صحیح نگہداشت مناسب وسائل کا تقاضا کرتی ہے۔خدا مسبب الاسباب ہے مگر انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کم عقلی سے ایسے اسباب کو تباہ نہ کرے، جو قدرت نے اس کے لیے فراہم کیے ہیں۔
لہٰذا خاندان قائم کرتے وقت مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک حد تک منصوبہ بندی کرنا مرد و عورت دونوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔خاندانی یا آبادی منصوبہ بندی کی بات ہو تو یہ ایک عام تاثر ملتا ہے کہ اس سے مراد دو بچے پیدا کرنا ہیں، یا ایک بچہ یا پھر کچھ نہیں۔یہ تاثر عموماََ غلط ہے۔تاثر تو غلط ہے تاہم غلط تاثر بنانے کی ذمے داری ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے فیملی پلاننگ یا کونسلنگ جیسے انگریزی زبان کے الفاظ کو اردو میں ڈھالتے وقت ملک کی مجموعی آبادی کی علمی وسعت اور قابلیت کو مد نظر نہیں رکھا۔ خاندانی منصوبہ بندی جیسا نام ایک عام فہم آدمی کو کچھ سمجھائے نہ سمجھائے، مگر اس کا صرف ایک لفظ ''بندی''اسے ایک بات ضرور سمجھاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو بند کرنا ۔جس سے وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اولاد پیدا نہ کرے۔ جس زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر شروع کی گئی ، ان دنوں ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی انتہائی کم تر تھی۔اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے مذہبی رجحانات نے اٹھایا ، جو کہ خیر سے آج بھی اٹھائے جا رہے ہیں اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کا اصل مقصد دراصل بہبود آبادی تھا اور اس کا خیال پاکستان میں سعیدہ وحید نامی خاتون کو ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد آیا تھا۔آبادیات کے کنٹرول اور ماں بچے کی صحت کے ساتھ مرد کی معاشی ذمے داریوں میں مدد دینے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے 1948میں ایک پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔چا ر خواتین نے مل کر اس پروگرام کی آبیاری کرنا شروع کی اور ملک کے طول و عرض میں فیملی کونسلنگ یعنی خاندانی مشاورت کی روایت ڈالی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی شرح آبادی دنیا میں تیز تر نہیں بلکہ تیز ترین قرار دی جاتی ہے۔فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کا پروگرام گزشتہ دو عشروں میں سماجی شعور بیدار کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے تاہم ملک میں شرح پیدائش اب بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق سن2035تک ہمارے ملک کی آبادی کے لیے بنیادی ضروریات کے مطابق اسپتال، رہائشی گھر، روزگار جیسے وسائل موجود نہیں ہوں گے۔لندن میں ہونے والے ایف پی ٹوئنٹی ٹوئنٹی اجلاس میں پاکستان کا ذکر خاص طور پر کیا گیا تھا ۔اور پاکستان نے مستقبل میں درپیش اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے قول و اقرار کیے تھے۔مگر جو صورتحال اس ملک کی ہے، اس میں کسی طرح سے یہ رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ فیملی پلاننگ یا فیملی کونسلنگ کے تصور کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جاسکے گا اور حکومت اسے اپنی ترجیحات میں شامل رکھے گی۔صوبائی حکومتوں میں سے صرف خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے فیملی پلاننگ ایسو سی ایشن کے پروگرام کے لیے فنڈز مختص کیے جانے کی خبریں ہیں تاہم باقی صوبے خاموش ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں فیملی کونسلنگ سے لوگ رجوع کرتے ہیں اور مفید مشورے حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ قدامت پسندی زیادہ اور تعلیم کا فقدان ہے ، اس لیے فیملی کونسلنگ یا خاندانی مشاورت کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کو صحیح طور سے فعال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں بلکہ عوام الناس میں پھیلے اس منفی تاثر کو ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے ان کے ذہنوں میں موجود ہیں۔اس کے لیے فیملی پلاننگ کو نئی اصطلاحات کا سہارہ لینا ہو گا جو یقینا فائدہ مند ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ فیملی پلاننگ ایسو سی ایشن آف پاکستان کو کسی تشہیری پلیٹ فارم کے ذریعے ہفتہ وار پروگرام ترتیب دینا ہو گا تاکہ ملک بھر کی خواتین تک اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پہنچے۔
الیکٹرانک میڈیا بہر حال ہر لحاظ سے سریع الاثر ذریعہ بن سکتا ہے۔صحت اور سماجی بہبود کو اپنے ٹی وی پروگرامز کا حصہ بنانے والے پلیٹ فارمز اس حوالے سے ایف پی اے پی کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتو زیادہ بہتر ہوگا۔دوسری جانب حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کی خواتین کی صحت اور آیندہ نسل کے بہترین مستقبل کے لیے خاندانی مشاورت کی کوششوں اور تحریکوں کو مہمیز دے۔حکومت پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کی تعلیم، صحت اور حقوق کی آگہی کے لیے خاندانی مشاورت کو ترجیحات میں اول درجے پر رکھے تاکہ عام آدمی تک یہ وضاحت پہنچے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے مشاورت کرنا ہے۔
یہ قدرت کا نظام ہے،اللہ نے انسان کو عقل دی ہے اورتوکل کو عقل کے بعد استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے۔ہر ایک روح جسے دنیا میں آنا ہے وہ آکر رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں۔اور ہر صاحب عقل شخص جس نے اپنے آج اور کل کو دنیا اور آخرت کے لیے کامیاب بنانا ہے، اسے عمل کرنا ہے اور کوئی بھی عمل کرنے سے قبل لامحالہ اس کی پوری منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔آپ اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔۔۔آپ کو ہر زاویئے سے اور ہر نقطہ نگاہ سے منصوبہ بندی کا طریقہ کار جابجا دیکھائی دے گا۔مصروفیات زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس میں منصوبہ بندی کار فرما نہ ہو۔انسانی پیدائش سے قبل کے عرصے سے لے کر موت تک زندگی ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت چلتی ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ میں ایک متعین وقت گزار کر دنیا میں آتا ہے۔یہ اور اس جیسے دیگر مظاہرے قانون قدرت میں موجود ہیں۔قدرت کے عطاء کر دہ نظاموں میں منصوبہ بندی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ان نظاموں کو کائناتی آفرینش سے قبل ایک منصوبے کے تحت تشکیل دیا گیا تھا۔بنی نوع انسان اور ہر ذی روح کی زندگیوں کا دارومدار کائنات کے آغاز سے لے کر آج تک جاری رہنے والے ان نظاموں کی مرہون منت ہے جو ایک خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔
نکاح انسانی معاشرے کی اٹل حقیقت بھی ہے اور ضرورت بھی۔اس بندھن کے ذریعے دو افراد یعنی مردو و عورت ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا سفر شروع کر تے ہیں۔ نکاح کا مقصد نیک اور صالح اولاد پیدا کرنا ہے۔نیک اور صالح اولاداللہ کا عطا کردہ تحفہ ہوتا ہے۔یہ ایک خام ہیرے کی طرح ہوتا ہے اور خام ہیرے کو تراشنا انسان کا کام ہوتا ہے۔یہ جوہری پر منحصر ہے کہ وہ ہیرے کو چھ کونوں پر تراشے یا بارہ کونوں والا۔بالکل اسی طرح نیک اور صالح اولاد کی صلاحیتوں کے نکھار اور اسے معاشرے کے لیے کارآمد اور فعال رکن بنانے کے لیے اچھی پرورش اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اور بہترین پرداخت اور تربیت سازی مکمل توجہ کے بغیر ممکن نہیں۔باپ اور ماں اپنے بچوں پر انفرادی توجہ اسی وقت دے سکتے ہیں جب وہ ان کی نگہداشت پر قادر ہوں، اور صحیح نگہداشت مناسب وسائل کا تقاضا کرتی ہے۔خدا مسبب الاسباب ہے مگر انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی کم عقلی سے ایسے اسباب کو تباہ نہ کرے، جو قدرت نے اس کے لیے فراہم کیے ہیں۔
لہٰذا خاندان قائم کرتے وقت مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک حد تک منصوبہ بندی کرنا مرد و عورت دونوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔خاندانی یا آبادی منصوبہ بندی کی بات ہو تو یہ ایک عام تاثر ملتا ہے کہ اس سے مراد دو بچے پیدا کرنا ہیں، یا ایک بچہ یا پھر کچھ نہیں۔یہ تاثر عموماََ غلط ہے۔تاثر تو غلط ہے تاہم غلط تاثر بنانے کی ذمے داری ان لوگوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے فیملی پلاننگ یا کونسلنگ جیسے انگریزی زبان کے الفاظ کو اردو میں ڈھالتے وقت ملک کی مجموعی آبادی کی علمی وسعت اور قابلیت کو مد نظر نہیں رکھا۔ خاندانی منصوبہ بندی جیسا نام ایک عام فہم آدمی کو کچھ سمجھائے نہ سمجھائے، مگر اس کا صرف ایک لفظ ''بندی''اسے ایک بات ضرور سمجھاتا ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو بند کرنا ۔جس سے وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اولاد پیدا نہ کرے۔ جس زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی کی تشہیر شروع کی گئی ، ان دنوں ہمارے معاشرے میں شرح خواندگی انتہائی کم تر تھی۔اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے مذہبی رجحانات نے اٹھایا ، جو کہ خیر سے آج بھی اٹھائے جا رہے ہیں اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کا اصل مقصد دراصل بہبود آبادی تھا اور اس کا خیال پاکستان میں سعیدہ وحید نامی خاتون کو ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے بعد آیا تھا۔آبادیات کے کنٹرول اور ماں بچے کی صحت کے ساتھ مرد کی معاشی ذمے داریوں میں مدد دینے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے 1948میں ایک پروگرام کی بنیاد رکھی گئی تھی۔چا ر خواتین نے مل کر اس پروگرام کی آبیاری کرنا شروع کی اور ملک کے طول و عرض میں فیملی کونسلنگ یعنی خاندانی مشاورت کی روایت ڈالی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی شرح آبادی دنیا میں تیز تر نہیں بلکہ تیز ترین قرار دی جاتی ہے۔فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان کا پروگرام گزشتہ دو عشروں میں سماجی شعور بیدار کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہا ہے تاہم ملک میں شرح پیدائش اب بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق سن2035تک ہمارے ملک کی آبادی کے لیے بنیادی ضروریات کے مطابق اسپتال، رہائشی گھر، روزگار جیسے وسائل موجود نہیں ہوں گے۔لندن میں ہونے والے ایف پی ٹوئنٹی ٹوئنٹی اجلاس میں پاکستان کا ذکر خاص طور پر کیا گیا تھا ۔اور پاکستان نے مستقبل میں درپیش اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے قول و اقرار کیے تھے۔مگر جو صورتحال اس ملک کی ہے، اس میں کسی طرح سے یہ رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ فیملی پلاننگ یا فیملی کونسلنگ کے تصور کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جاسکے گا اور حکومت اسے اپنی ترجیحات میں شامل رکھے گی۔صوبائی حکومتوں میں سے صرف خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے فیملی پلاننگ ایسو سی ایشن کے پروگرام کے لیے فنڈز مختص کیے جانے کی خبریں ہیں تاہم باقی صوبے خاموش ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں فیملی کونسلنگ سے لوگ رجوع کرتے ہیں اور مفید مشورے حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ قدامت پسندی زیادہ اور تعلیم کا فقدان ہے ، اس لیے فیملی کونسلنگ یا خاندانی مشاورت کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کو صحیح طور سے فعال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں بلکہ عوام الناس میں پھیلے اس منفی تاثر کو ختم کرنے کی کوششیں کی جائیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے ان کے ذہنوں میں موجود ہیں۔اس کے لیے فیملی پلاننگ کو نئی اصطلاحات کا سہارہ لینا ہو گا جو یقینا فائدہ مند ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ فیملی پلاننگ ایسو سی ایشن آف پاکستان کو کسی تشہیری پلیٹ فارم کے ذریعے ہفتہ وار پروگرام ترتیب دینا ہو گا تاکہ ملک بھر کی خواتین تک اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پہنچے۔
الیکٹرانک میڈیا بہر حال ہر لحاظ سے سریع الاثر ذریعہ بن سکتا ہے۔صحت اور سماجی بہبود کو اپنے ٹی وی پروگرامز کا حصہ بنانے والے پلیٹ فارمز اس حوالے سے ایف پی اے پی کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتو زیادہ بہتر ہوگا۔دوسری جانب حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کی خواتین کی صحت اور آیندہ نسل کے بہترین مستقبل کے لیے خاندانی مشاورت کی کوششوں اور تحریکوں کو مہمیز دے۔حکومت پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ خواتین کی تعلیم، صحت اور حقوق کی آگہی کے لیے خاندانی مشاورت کو ترجیحات میں اول درجے پر رکھے تاکہ عام آدمی تک یہ وضاحت پہنچے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب خاندان کے بہتر مستقبل کے لیے مشاورت کرنا ہے۔