بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ذمے دار کون
شہر کراچی میں جتنی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی تیزی سے ٹریفک بھی سڑکوں پر بے حد بڑھ چکا ہے
شہر کراچی میں جتنی تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے اتنی تیزی سے ٹریفک بھی سڑکوں پر بے حد بڑھ چکا ہے۔ اس وقت ٹریفک قوانین کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی عدم دل چسپی کی وجہ سے ٹریفک کے ہجوم کو کنٹرول کرنا مشکل نظر آرہا ہوتا ہے نہ پولیس والے قوانین کے مطابق چل رہے ہیں اور نہ ہی عوام۔ جس کی وجہ سے روز اب حادثات کی بھیانک خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔
شہر میں غلط سمت ڈرائیونگ اور دیگر ٹریفک لا قانونیت سے جان لیوا حادثات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، غلط سمت پرجانے سے حادثات میں گزشتہ ایک سال کے دوران 21 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ کراچی میں سالانہ ٹریفک حادثات میں 1200 ہلاکتیں ہوتی ہیں جس میں 100 سے زائد کم عمر بچے بھی جان لیوا حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر 30 ہزار سے زائد افراد سالانہ ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں۔ 4دن سی این جی کی بندش کے باعث پٹرول پر چلنے والے رکشا، ٹیکسی، کار اپنا پٹرول بچانے کے لیے غلط سمت اختیار کرتے ہیں اور حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ شہری روز کی سی این جی بند ہونے کی وجہ سے مشکلات کا تو شکار ہیں ہی مگر اس قدر مہنگائی کی وجہ سے پٹرول بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر کراچی کے شہریوں کو سی این جی ہر روز یا پھر ہر دوسرے دن فراہم کی جائے تو کئی جانیں ضایع ہونے سے بچ سکتی ہیں۔ سندھ میں 72 فی صد گیس کی پیداوار موجود ہے پھر بھی کراچی والے سی این جی سے چار چار دن محروم ہیں۔ پاکستان میں گیس کی کمی نہیں پھر کیوں شہریوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ سی این جی کی ہر روز بندش کی وجہ سے شہری شدید ذہنی کوفت اور دشواریوں کا ہی شکار نہیں اس کے سبب اب حادثات میں بھی تیزی آرہی ہے اگر سی این جی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تو پھر سارے سی این جی اسٹیشن کو بند کردیا جائے تاکہ عوام کوئی نہ کوئی اس کا حل ضرور نکال لیںگے اور ذہنی اذیت سے بھی بچ سکیںگے۔
کراچی میں بڑھتے ٹریفک حادثات میں جہاں سی این جی کی بندش نے اپنا بد ترین کردار ادا کیا ہے وہی ٹریفک پولیس کی عدم دل چسپی نے بھی ٹریفک حادثات کو ہوا دی ہے۔ کراچی میں فلائی اوورز، انڈر پاسز اور یوٹرن کی تعمیر سے شاہراہیں سگنل فری ہوگئی ہیں۔ روڈوں پر بہت کم ٹریفک پولیس نظر آتی ہے۔ ٹریفک پولیس کی غفلت، ایندھن کی بچت کے لیے شاہراہوں اور سڑکوں پر شارٹ کٹ اختیار کرنا روڈ سیفٹی کی تعلیم سے عدم آگہی ان تمام چیزوں نے حادثات کو جنم دیا ہے۔
حکومت کو تیزی سے بڑھتے ہوئے حادثات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا فرسودہ نظام بھی بہت زیادہ پریشان کن ہے، آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر آبادی کے لحاظ سے پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم ہے، پرائیویٹ گاڑیوں کی بھرمار سڑکوں پر نظر آتی ہے ، کراچی میں ایک اچھے ٹرانسپورٹ کے نظام کی اس وقت اشد ضرورت ہے، جیسے لاہور میں رائج ایک جامع ٹرانسپورٹ نظام موجود ہے اسی طرح کراچی والوں کو بھی سہولت فراہم کی جائے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے فرسودہ نظام کی وجہ سے سب سے زیادہ مسافر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں روزانہ 12 لاکھ خواتین سفر کرتی ہیں، 13 ہزار بسوں میں خواتین کے لیے 1لاکھ 30 ہزار سیٹیں ہیں۔ 1970 سے 1999 تک 100 لوکل ٹرینیں چلائی جاتی تھیں ہر لوکل ٹرین میں خواتین کے لیے 100 سیٹوں والا ڈبہ مخصوص ہوتا تھا۔ 2 سے ڈھائی لاکھ خواتین ان ٹرینوں میں روزانہ سفر کرتی تھیں۔
ورکنگ خواتین کو آمد و رفت میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ خواتین کے لیے بسوں میں مختص کمپارٹمنٹ مردوں کے کمپارٹمنٹ سے بہت چھوٹا ہوتاہے اور ستم یہ کہ خواتین کے کمپارٹمنٹ میں مرد حضرات آکر بیٹھ جاتے ہیں بعض اوقات تو یہ مرد حضرات عورتوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلط حرکتیں کرتے ہیں۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں اصلاحات کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں عورتوں کے لیے مخصوص سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ خواتین کے لیے مختص کمپارٹمنٹ میں مرد مسافروں کے داخلے اور ان کے بیٹھنے پر پابندی عائد کی جائے، خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ نظام کے حوالے سے اسمبلی میں قانون سازی کی جائے۔ورکنگ خواتین، طالبات اور گھریلو خواتین کی بڑی تعداد اب چنگ چی رکشوں اور 6 سے 11سیٹر رکشوں میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ خواتین ان رکشوں میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں، کراچی میں 23000 چنگ چی رکشا اور 6000 سے زائد 9 اور 11 سیٹر سی این جی رکشے چل رہے ہیں۔
اس وقت شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے، حکومت پاکستان کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے درپیش مشکلات کا حل جلد سے جلد نکالنا چاہیے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور درپیش ٹریفک مشکلات کو فوری حل کرنا ضروری ہے ورنہ روزانہ کئی افراد اپنی زندگی کی بازی ہار جائیںگے اور اپنے پیچھے ایک ہی سوال چھوڑ جائیںگے کہ ٹریفک حادثات کا ذمے دار آخر کون ہے؟
شہر میں غلط سمت ڈرائیونگ اور دیگر ٹریفک لا قانونیت سے جان لیوا حادثات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، غلط سمت پرجانے سے حادثات میں گزشتہ ایک سال کے دوران 21 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ کراچی میں سالانہ ٹریفک حادثات میں 1200 ہلاکتیں ہوتی ہیں جس میں 100 سے زائد کم عمر بچے بھی جان لیوا حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر 30 ہزار سے زائد افراد سالانہ ٹریفک حادثات میں زخمی ہوتے ہیں۔ 4دن سی این جی کی بندش کے باعث پٹرول پر چلنے والے رکشا، ٹیکسی، کار اپنا پٹرول بچانے کے لیے غلط سمت اختیار کرتے ہیں اور حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ شہری روز کی سی این جی بند ہونے کی وجہ سے مشکلات کا تو شکار ہیں ہی مگر اس قدر مہنگائی کی وجہ سے پٹرول بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر کراچی کے شہریوں کو سی این جی ہر روز یا پھر ہر دوسرے دن فراہم کی جائے تو کئی جانیں ضایع ہونے سے بچ سکتی ہیں۔ سندھ میں 72 فی صد گیس کی پیداوار موجود ہے پھر بھی کراچی والے سی این جی سے چار چار دن محروم ہیں۔ پاکستان میں گیس کی کمی نہیں پھر کیوں شہریوں کو تنگ کیا جارہا ہے۔ سی این جی کی ہر روز بندش کی وجہ سے شہری شدید ذہنی کوفت اور دشواریوں کا ہی شکار نہیں اس کے سبب اب حادثات میں بھی تیزی آرہی ہے اگر سی این جی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تو پھر سارے سی این جی اسٹیشن کو بند کردیا جائے تاکہ عوام کوئی نہ کوئی اس کا حل ضرور نکال لیںگے اور ذہنی اذیت سے بھی بچ سکیںگے۔
کراچی میں بڑھتے ٹریفک حادثات میں جہاں سی این جی کی بندش نے اپنا بد ترین کردار ادا کیا ہے وہی ٹریفک پولیس کی عدم دل چسپی نے بھی ٹریفک حادثات کو ہوا دی ہے۔ کراچی میں فلائی اوورز، انڈر پاسز اور یوٹرن کی تعمیر سے شاہراہیں سگنل فری ہوگئی ہیں۔ روڈوں پر بہت کم ٹریفک پولیس نظر آتی ہے۔ ٹریفک پولیس کی غفلت، ایندھن کی بچت کے لیے شاہراہوں اور سڑکوں پر شارٹ کٹ اختیار کرنا روڈ سیفٹی کی تعلیم سے عدم آگہی ان تمام چیزوں نے حادثات کو جنم دیا ہے۔
حکومت کو تیزی سے بڑھتے ہوئے حادثات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا فرسودہ نظام بھی بہت زیادہ پریشان کن ہے، آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر آبادی کے لحاظ سے پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم ہے، پرائیویٹ گاڑیوں کی بھرمار سڑکوں پر نظر آتی ہے ، کراچی میں ایک اچھے ٹرانسپورٹ کے نظام کی اس وقت اشد ضرورت ہے، جیسے لاہور میں رائج ایک جامع ٹرانسپورٹ نظام موجود ہے اسی طرح کراچی والوں کو بھی سہولت فراہم کی جائے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کے فرسودہ نظام کی وجہ سے سب سے زیادہ مسافر خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں روزانہ 12 لاکھ خواتین سفر کرتی ہیں، 13 ہزار بسوں میں خواتین کے لیے 1لاکھ 30 ہزار سیٹیں ہیں۔ 1970 سے 1999 تک 100 لوکل ٹرینیں چلائی جاتی تھیں ہر لوکل ٹرین میں خواتین کے لیے 100 سیٹوں والا ڈبہ مخصوص ہوتا تھا۔ 2 سے ڈھائی لاکھ خواتین ان ٹرینوں میں روزانہ سفر کرتی تھیں۔
ورکنگ خواتین کو آمد و رفت میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ خواتین کے لیے بسوں میں مختص کمپارٹمنٹ مردوں کے کمپارٹمنٹ سے بہت چھوٹا ہوتاہے اور ستم یہ کہ خواتین کے کمپارٹمنٹ میں مرد حضرات آکر بیٹھ جاتے ہیں بعض اوقات تو یہ مرد حضرات عورتوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غلط حرکتیں کرتے ہیں۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں اصلاحات کی جائے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں عورتوں کے لیے مخصوص سیٹوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ خواتین کے لیے مختص کمپارٹمنٹ میں مرد مسافروں کے داخلے اور ان کے بیٹھنے پر پابندی عائد کی جائے، خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ نظام کے حوالے سے اسمبلی میں قانون سازی کی جائے۔ورکنگ خواتین، طالبات اور گھریلو خواتین کی بڑی تعداد اب چنگ چی رکشوں اور 6 سے 11سیٹر رکشوں میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ خواتین ان رکشوں میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں، کراچی میں 23000 چنگ چی رکشا اور 6000 سے زائد 9 اور 11 سیٹر سی این جی رکشے چل رہے ہیں۔
اس وقت شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا ہے، حکومت پاکستان کو ٹرانسپورٹ کے حوالے سے درپیش مشکلات کا حل جلد سے جلد نکالنا چاہیے۔ بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور درپیش ٹریفک مشکلات کو فوری حل کرنا ضروری ہے ورنہ روزانہ کئی افراد اپنی زندگی کی بازی ہار جائیںگے اور اپنے پیچھے ایک ہی سوال چھوڑ جائیںگے کہ ٹریفک حادثات کا ذمے دار آخر کون ہے؟