اپنا وزن خود نہ اٹھانے والے

عمران کے بیگ کے بوجھ سے رائے ریاض پر کیا بیتی، ان کے احساسات کیا تھے، انھوں نے کیسے اس بوجھ سے نجات پائی

farooq.adilbhuta@gmail.com

''عمران خان اپنا وزن دوسروں پر ڈالنے کے عادی ہیں۔''

یہ جملہ رائے ریاض حسین نے لکھا نہیں لیکن جو کچھ لکھا ہے، اس کا مطلب یہی ہے۔ رائے صاحب کی کتاب ایک چھوٹی سی الف لیلہ ہے جس کا تذکرہ طویل تر ہو سکتا ہے لیکن پہلے دوسروں پر وزن ڈالنے کی حکایت سن لیجیے۔

یہ قصہ ان دنوں کا ہے جب رائے ریاض بھارت میں ہمارے سفارت کار تھے۔ قسمت سے ان ہی دنوں عمران خان بھی دلی جا پہنچے۔ اب اسے حسن اتفاق کہیے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ان دونوں ستاروں کا ملن دلی کے اندرا گاندھی ایئر پورٹ پر ہو گیا۔

عمران خان نے ایک دن پہلے کسی کانفرنس میں خطاب کیا تھا اور اس میں کچھ اچھی باتیں بھی انھوں نے کہہ ڈالی تھیں۔ بس،اسی بات پر ہمارے رائے صاحب کا دل پسیجا اور وہ خان صاحب کو ایک پیش کش کر بیٹھے۔ انھوں نے سوچا کہ یہ شخص ایک کھلاڑی کے ناتے ہمارا ہیرو ہے، گزشتہ روز ایک اچھی تقریر بھی اس نے کی ہے ۔ اِس موقع پر اِس سے دعا سلام بھی ہوچکی ہے، اب دیار غیر میں ایسا آدمی کٹی پتنگ کی طرح ڈھلکتا پھرے، کچھ اچھا نہیں، اسے دوسراہٹ تو ملنی چاہیے۔

اب یہ ہم آپ، سب کے تجربے میں ہے کہ بات کاآغاز کسی اچھے طریقے سے کیا جاتا ہے۔ خوش اخلاقی کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھایا جاتا ہے، ایسے مواقعے پر جسے کوئی پیش کش کی جاتی ہے، وہ مسکرا کر شکریہ ادا کرتا ہے پھر تکلم کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ رائے صاحب کا خیال بھی یہی رہا ہوگا۔ اس لیے انھوں نے اپنے بیگ کے بوجھ تلے دبے ہوئے عمران خان سے کہا کہ ''لائیے، آپ کا یہ بیگ میں اٹھا لیتا یوں۔ ''عمران خان نے ایک نگاہ دست تعاون بڑھانے والے کی طرف ڈالی، شناسائی کا کوئی احساس ان کے ذہن میں اٹھا کہ نہیں،اِن کے چہرے سے اندازہ نہ ہو سکا۔

البتہ یہ طے ہے کہ کپتان کے چہرے پر گرم جوشی بالکل نہیں تھی۔ ادھر عمران کو پیش کش ہوئی،ادھر انھوں نے بے تکلفی بلکہ لاپروائی سے اپنا بیگ رائے صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ اب پیش کش کرنے والے کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ کسی معاون یا پرستار کی طرح خوشی خوشی اپنے ہیرو کا بوجھ اٹھا لے۔ کرنا تو رائے ریاض کو بھی یہی پڑا لیکن وہ لکھتے ہیں کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت ان پر طاری ہو گئی۔

دلی کے ایئرپورٹ پر ایک پاکستانی سفارت کار ایسی کیفیت سے دوچار کیوں ہوا، اس کی وجہ بڑی سیدھی سی ہے۔ زمینداروں کے خاندان کا راجپوت بچہ تو کبھی ناک پہ مکھی بیٹھنے نہیں دیتا، یہ تو رائے ریاض تھے۔ راجپوت بھی، زمیندار بھی اور سفارت کار بھی۔ ان کی سرگزشت 'رائے عامہ'کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت جیسے ملک میں بھی انھوں نے سر تو کبھی نیچے کیا ہی نہیں، مونچھ بھی نیچی نہیں ہونے دی۔ وہ تو غنیمت ہوئی کہ ایئر پورٹ کا کوئی پورٹر رائے صاحب کو پہچان کر ان کی طرف لپکا اور اس نے انھیں عمران خان کے بیگ کے بوجھ سے نجات دلا کر ہلکا پھلکا کیا۔


عمران کے بیگ کے بوجھ سے رائے ریاض پر کیا بیتی، ان کے احساسات کیا تھے، انھوں نے کیسے اس بوجھ سے نجات پائی، اس کی کچھ خبر خان کو نہ ہوئی اور نہ یہ جاننے کی انھیں کوئی خواہش تھی۔ حال ہی میں شایع ہونے والی رائے ریاض کی اس چٹ پٹی لیکن فکر انگیز کتاب ' رائے عامہ' میں شامل اس واقعے کی یاد ایک حالیہ واقعے سے تازہ ہوئی۔عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل نے ٹیلی ویژن پر مسلح افواج کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک تاریک باب ہے۔ فوج کا سیاسی کردار ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ اس کے حق اور مخالفت میں بات کرنے والوں کی بھی کبھی کوئی کمی نہیں رہی لیکن اس موضوع پر بات کرنا تنی ہوئی رسی پر چلنا ہے۔

ہمارے بزرگ دوست نصرت مرزا کہا کرتے ہیں کہ پاکستانی قوم بڑی دانش مند ہے۔ جمہوریت اور آمریت کی کشمکش میں اس کا جھکاؤ ہمیشہ جمہوریت کی طرف رہا لیکن قوم یہ بھی جانتی ہے کہ ہم جس خطے میں بستے ہیں اور جس قسم کے دشمن ہماری قسمت میں آئے ہیں، ان کے ہوتے ہوئے ایک مضبوط فوج بھی ہماری ضرورت ہے۔ اس لیے فوج کے ساتھ اختلاف کبھی اپنی حدود سے نہیں بڑھا۔ یہ ایک ایسا ہی اختلاف ہے جیسا قبیل داری میں ہوتا ہے۔ یعنی خاندان کے اندر بھرپور کشمکش رہتی ہے لیکن خاندان سے باہر سب ایک ہوتے ہیں۔ زمانے میں پنپنے کا اسلوب بھی یہی ہے لیکن شہباز گل نے تو حد ہی کر دی۔

ویسے شہباز گل جس لب و لہجے کے آدمی ہیں، ان سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ گرم دماغی اور منتقم مزاجی انسان سے غور و فکر کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔ ایسی کیفیت میں شہباز گل جیسا کوئی انسان وہی کچھ کہہ سکتا ہے جو انھوں نے کہا۔ یہ معاملہ تو شہباز گل کا ہے اور قانون یہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے چکا ہے، آج نہیں تو کل سارا کچا چٹھا کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اصل بات ان خبروں کی ہے جو اس شخص کی گرفتاری کے بعد سامنے آ رہی ہیں۔

لاہور جلسے سے قبل عمران خان کو بھی یہی کہتے بنی کہ اس نے درست نہیں کہا۔ کچھ باخبر لوگوں کا خیال ہے کہ حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اب شہباز گل کے پاس راون کی لنکا ڈھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس طرح کی صورت حال میں بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اڑنے والی کہانیاں تھوڑا متوجہ کرتی ہیں پھر غائب ہو جاتی ہیں لیکن اس بار کچھ مختلف ہو گیا ہے۔ ایڈوکیٹ حامد خان بول پڑے ہیں ۔

حامد خان نے ٹویٹ کیا ہے کہ شہباز گل عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے جا رہے ہیں۔ اس خبر کو میں ذرا بھی اہمیت نہ دیتا اگر حامد خان جیسی معتبر شخصیت یہ بات نہ کہتی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جب کوئی کسی پر ناروا وزن ڈالتا ہے تو اس سے جان چھڑانے کا ہر ایک کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ۔ رائے ریاض ہوں تو زمیندارانہ غرور کے ساتھ اپنا سراونچا رکھتے ہیں۔ مختلف پس منظر رکھنے والا کوئی شہباز گل ہو تو اس کا طریقہ اپنا ہوتا ہے۔

نتیجہ اس عبرت ناک کہانی کا یہ ہے کہ بڑا بننے کے لیے اپنا وزن خود اٹھانا پڑتا ہے ورنہ بیچ میں کوئی نہ کوئی امریکا پلٹ آ جاتا ہے۔ شہباز گل اور عمران خان کے قضیے میں رائے ریاض کی خود نوشت 'رائے عامہ' کہیں پیچھے رہ گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پیچھے رہ جانے والی کتاب نہیں۔

پاکستان کی تاریخ اور سیاست کے پوشیدہ پہلوؤں سے آگاہی رکھنے کی خواہش ہر سنجیدہ قاری کو اس کتاب تک پہنچائے گی اور وہ جان کر رہے گا کہ آمریت جب شب خون مارتی ہے تو ایوان اقتدار میں حراست کے پندرہ بیس روز کیسے گزرتے ہیں کہ یہ سنسنی خیز تجربہ خود رائے صاحب کو حاصل ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے نام بڑے کیسے بنتے ہیں اور بڑے ناموں کے کلبوت میں چھوٹے چھوٹے لوگ کیسے پناہ پاتے ہیں۔ پھر وہ کون ہے جو الطاف حسین کی جیب میں پرچیاں ڈال کر دلی جیسے شہر میںایسی باتیں کہلوا دیتا ہے جنھیں سن کر خود دلی والے بھی حیران پریشان رہ جاتے ہیں۔
Load Next Story