شاعرکرار نوری کی یاد میں
ابھی میں اس انکشاف کے دھماکے سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ کرار بھائی نے دوسرا گولا داغ دیا جس پر میں کرسی سے اچھل پڑا
ISLAMABAD:
اگست کا مہینہ ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس ماہ کے دوران ہمارا پیارا وطن پاکستان معرضِ وجود میں آیا، جس کے لیے ہم اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہوگا۔ یہ پاک وطن ہم سب کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے اور وہی اس کا محافظ اور رکھوالا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے الحمدللہ ہماری مسلح افواج ہر آن اور ہرگھڑی اس کی حفاظت کے لیے چوکس اور تیار ہیں۔ ماہِ اگست کے دوسرے اہم واقعہ کا تعلق ہمارے ایک جگری دوست اور پاکستان کے نامور عظیم شاعرکرار نوری(مرحوم) کے سانحہ انتقال سے ہے ، جس کی تاریخ آٹھ اگست 1990 ہے۔
درویش صفت کرار نوری سے ہماری پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی اور پھر یہ ملاقات ایک اٹوٹ سمبندھ میں تبدیل ہوگئی ، جسے پہلی نظر کی محبت Love at first sight))کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو۔ خود داری اور انکساری کرار بھائی کے نمایاں جواہر تھے ، وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ سر تا پا عجز و انکسار اور محبت وخلوص کا پیکر تھے۔ ایسی شانِ بے نیازی ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ اْن سے مل کر ایک عجیب سی فرحت اور خوشی محسوس ہوتی تھی جسے الفاظ کی صورت میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بس صرف یہی کہا جاسکتا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھیں ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وجیہہ ، بلند قامت اور انتہائی سادہ مزاج کرار نوری کا پیکر میں اس وقت چشمہ تصور سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ پان چبا رہے ہیں اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں زیادہ تر سفید کرتا اور پاجامہ میں ملبوس دیکھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے صحن میں لگا ہوا برگد کا درخت بڑے بڑے لوگوں کے لیے ملاقاتوں کا مرکز تھا۔ اتنے عظیم لوگ کہ جو شاید کبھی پیدا نہ ہونگے۔ کرار نوری (مرحوم) سے ہماری پہلی ملاقات کا عینی شاہد بھی یہی درخت ہے۔
کرار نوری عمر میں ہم سے بڑے تھے لیکن ہمارا تعلق بلا تکلف تھا ، تاہم اْن کی بزرگی کا خیال ہمیں ہمیشہ رہتا تھا اور وہ اس حوالہ سے کبھی مسکراتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ :
اتنے شائستہِ آداب و تکلف نہ بنو
شکوہ آتا ہے اگر لب پہ تو شکوہ بھی کرو
ہمارا حلقہِ احباب بہت بڑا تھا جس میں کرار نوری نمایاں طور پر شامل تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ہمارا کمرہ وہ گوشہ عافیت تھا جہاں یارانِ محفل اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کے شریکِ حالات ہوا کرتے تھے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ بقولِ انشاء:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
ایک چل چلاؤ کی کیفیت ہے اور رخصت ہونے والوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ خود اپنا بھی یہی حال ہے:
زندگانی کی شام ہونے کو ہے
اب یہ قصہ تمام ہونے کو ہے
شہرِ قائد کی سب سے مشہور سڑک بندر روڈ جو اب ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے پر واقع ریڈیو پاکستان کی عمارت میں صبح سے شام تک فنکاروں، گلوکاروں، شاعروں اور ادیبوں کا میلا سا لگا رہتا تھا۔ کرار نوری نہ صرف اپنی شاعری کے حوالہ سے بلکہ بول چال اور چال ڈھال سے بھی دوسروں سے منفرد نظر آتے تھے۔ اْن کے لب و لہجہ میں ایک عظیم مٹھاس تھی اور اْن کی باتوں میں گْلوں کی خوشبو مہکتی تھی۔ میر نے کیا خوب کہا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اردو زبان پر کرار نوری کو غیر معمولی عبور حاصل تھا اور صحتِ تلفظ کے معاملہ میں تو اْن جیسے بہت کم لوگ ہوں گے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ دلی والے تھے۔ وہ داغ دہلوی ، شاہد احمد دہلوی اور اخلاق احمد دہلوی کی صف میں شامل تھے۔ کرار نوری 30 جون، 1916 میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ اسد اللہ خان غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پڑپوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے پہلے راولپنڈی اور پھرکراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کرار نوری کا شعری مجموعہ ''میری غزل '' کے نام سے شایع ہوچکا ہے ، اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ '' میزان حق '' کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔کرار نوری محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی بھی تھے۔
اْن کی شخصیت کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ اْن کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جس کا ذکر وہ اپنی زبان سے کم ہی کیا کرتے تھے۔ یہ انکشاف اْس وقت ہوا جب وہ اپنے شعری مجموعہ'' میری غزل '' کی تقریبِ رونمائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ میں اْن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن سے انھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں مشورہ کیا تھا۔ برسبیلِ تذکرہ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اِس تقریب کا انعقاد کراچی آرٹس کونسل کے وسیع و عریض اور سرسبز وشاداب لان پر کریں گے۔
مجھے اْن کی اس بات پر بڑا تعجب ہوا اور میں نے پلٹ کر کہا ''کیا فرمایا آپ نے!'' انھوں نے اپنی بات کو دہرایا لیکن میری حیرت پھر بھی برقرار رہی۔ انھوں نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ '' جی ہاں آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر'' میری حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ اْس وقت تک کوئی تقریب آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر منعقد نہیں ہوئی تھی کیونکہ ایسا کرنا قواعد کے خلاف تھا۔
ابھی میں اس انکشاف کے دھماکے سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ کرار بھائی نے دوسرا گولا داغ دیا جس پر میں کرسی سے اچھل پڑا۔ کرار صاحب نے یہ فرمایا کہ ''اس تقریب کی صدارت فیض احمد فیض کریں گے '' میری بوکھلاہٹ ناقابلِ بیان تھی۔ میں نے کرار بھائی کی طرف دیکھا اور انتہائی حیرت ناک انداز میں کہا '' مگر کرار بھائی! فیض صاحب تو آج کل لندن میں ہیں اور جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ بھلا یہاں کیسے آئیں گے؟''انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
'' شکیل بھائی اس کی آپ قطعی فکر نہ کریں۔ یہ کام میرے کرنے کا ہے۔''میری تسلی نہ ہوئی جسے انھوں نے بھانپ لیا اور بولے'' فیض صاحب جہاں کہیں بھی ہوں وہ ہر حالت میں آئیں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ممکن نہ ہو۔'' اْن کے لب و لہجہ میں ایک بھروسہ اور یقینِ محکم تھا۔ ذرا توقف کے بعد وہ بولے '' ایک کام اور ہے جو آپ کو کرنا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئے۔'' وہ کام کیا ہے؟ فرمائیے!'' میں نے سوال کیا۔''کوئی مشکل کام نہیں''مسکراتے ہوئے بولے۔ '' اس تقریب میں آپ کو بھی اظہارِ خیال کرنا ہوگا۔'' اْن کا لب و لہجہ تحکمانہ تھا جس میں اْن کی محبت کا عکس نمایاں تھا۔
قصہ کوتاہ کہ یہ تاریخی تقریبِ رونمائی بڑی شان سے منعقد ہوئی ، جس کی یادیں ہمیشہ ذہن میں تازہ رہیں گی۔ یہ قصہ بیان کرتے ہوئے مجھے فیض صاحب کی وہ داد یاد آرہی ہے جو انھوں نے میری پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے دی تھی۔ ممتاز شاعر کرار نوری (مرحوم) کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت پیش ہیں۔
اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا
بابِ گلشن جسے سمجھے درِ زنداں نکلا
......
شہر میں تنہا تھا لیکن کرب تنہائی نہ تھا
گھر سے باہر رہ کے میں اتنا تو سودائی نہ تھا
......
ہر چند اپنا حال نہ ہم سے بیاں ہوا
یہ حرف بے وجود مگر داستاں ہوا
مانا کہ ہم پہ آج کوئی مہرباں ہوا
دل کانپتا ہے یہ بھی اگر امتحاں ہوا
......
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہوگئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہوگئے
......
فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی
......
اک بار توجہ سے کوئی بات تو سن لو
پھر چاہے کبھی ہم سے ملاقات نہ کرنا
آسان ہے جاں دینا کسی بات پہ نوری
دشوار ہے اظہارِ خیالات نہ کرنا
......
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا ، میرے بعد
......
مانا کہ ہم اس دور کا حاصل تو نہیں تھے
ناقدری دنیا کے بھی قابل تو نہیں تھے
......
آتا تو سہی بادِ سحر کا کوئی جھونکا
ہم خاص کسی پھول پہ مائل تو نہیں تھے
اللہ تعالیٰ کرار نوری کو بہشت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین)
اگست کا مہینہ ہمارے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس ماہ کے دوران ہمارا پیارا وطن پاکستان معرضِ وجود میں آیا، جس کے لیے ہم اپنے رب کا جتنا بھی شکر ادا کریں وہ کم ہوگا۔ یہ پاک وطن ہم سب کے لیے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت اور رحمت ہے اور وہی اس کا محافظ اور رکھوالا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے الحمدللہ ہماری مسلح افواج ہر آن اور ہرگھڑی اس کی حفاظت کے لیے چوکس اور تیار ہیں۔ ماہِ اگست کے دوسرے اہم واقعہ کا تعلق ہمارے ایک جگری دوست اور پاکستان کے نامور عظیم شاعرکرار نوری(مرحوم) کے سانحہ انتقال سے ہے ، جس کی تاریخ آٹھ اگست 1990 ہے۔
درویش صفت کرار نوری سے ہماری پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی اور پھر یہ ملاقات ایک اٹوٹ سمبندھ میں تبدیل ہوگئی ، جسے پہلی نظر کی محبت Love at first sight))کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہو۔ خود داری اور انکساری کرار بھائی کے نمایاں جواہر تھے ، وہ نہ صرف ایک عظیم شاعر تھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ وہ سر تا پا عجز و انکسار اور محبت وخلوص کا پیکر تھے۔ ایسی شانِ بے نیازی ہم نے بہت کم لوگوں میں دیکھی ہے۔ اْن سے مل کر ایک عجیب سی فرحت اور خوشی محسوس ہوتی تھی جسے الفاظ کی صورت میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بس صرف یہی کہا جاسکتا ہے۔
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھیں ہوں مگر ایسے بھی ہیں
وجیہہ ، بلند قامت اور انتہائی سادہ مزاج کرار نوری کا پیکر میں اس وقت چشمہ تصور سے دیکھ رہا ہوں۔ وہ پان چبا رہے ہیں اور مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں زیادہ تر سفید کرتا اور پاجامہ میں ملبوس دیکھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی کے صحن میں لگا ہوا برگد کا درخت بڑے بڑے لوگوں کے لیے ملاقاتوں کا مرکز تھا۔ اتنے عظیم لوگ کہ جو شاید کبھی پیدا نہ ہونگے۔ کرار نوری (مرحوم) سے ہماری پہلی ملاقات کا عینی شاہد بھی یہی درخت ہے۔
کرار نوری عمر میں ہم سے بڑے تھے لیکن ہمارا تعلق بلا تکلف تھا ، تاہم اْن کی بزرگی کا خیال ہمیں ہمیشہ رہتا تھا اور وہ اس حوالہ سے کبھی مسکراتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ :
اتنے شائستہِ آداب و تکلف نہ بنو
شکوہ آتا ہے اگر لب پہ تو شکوہ بھی کرو
ہمارا حلقہِ احباب بہت بڑا تھا جس میں کرار نوری نمایاں طور پر شامل تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ہمارا کمرہ وہ گوشہ عافیت تھا جہاں یارانِ محفل اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کے شریکِ حالات ہوا کرتے تھے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ بقولِ انشاء:
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
ایک چل چلاؤ کی کیفیت ہے اور رخصت ہونے والوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔ خود اپنا بھی یہی حال ہے:
زندگانی کی شام ہونے کو ہے
اب یہ قصہ تمام ہونے کو ہے
شہرِ قائد کی سب سے مشہور سڑک بندر روڈ جو اب ایم اے جناح روڈ کہلاتی ہے پر واقع ریڈیو پاکستان کی عمارت میں صبح سے شام تک فنکاروں، گلوکاروں، شاعروں اور ادیبوں کا میلا سا لگا رہتا تھا۔ کرار نوری نہ صرف اپنی شاعری کے حوالہ سے بلکہ بول چال اور چال ڈھال سے بھی دوسروں سے منفرد نظر آتے تھے۔ اْن کے لب و لہجہ میں ایک عظیم مٹھاس تھی اور اْن کی باتوں میں گْلوں کی خوشبو مہکتی تھی۔ میر نے کیا خوب کہا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اردو زبان پر کرار نوری کو غیر معمولی عبور حاصل تھا اور صحتِ تلفظ کے معاملہ میں تو اْن جیسے بہت کم لوگ ہوں گے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ دلی والے تھے۔ وہ داغ دہلوی ، شاہد احمد دہلوی اور اخلاق احمد دہلوی کی صف میں شامل تھے۔ کرار نوری 30 جون، 1916 میں دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔
ان کا اصل نام سید کرار میرزا تھا۔ وہ اسد اللہ خان غالب کے شاگرد آگاہ دہلوی کے پڑپوتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد انھوں نے پہلے راولپنڈی اور پھرکراچی میں اقامت اختیار کی جہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ کرار نوری کا شعری مجموعہ ''میری غزل '' کے نام سے شایع ہوچکا ہے ، اس کے علاوہ ان کی نعتوں کا مجموعہ '' میزان حق '' کے نام سے ان کی وفات کے بعد اشاعت پذیر ہوا۔کرار نوری محض شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے حامل تھے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی بھی تھے۔
اْن کی شخصیت کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ اْن کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا جس کا ذکر وہ اپنی زبان سے کم ہی کیا کرتے تھے۔ یہ انکشاف اْس وقت ہوا جب وہ اپنے شعری مجموعہ'' میری غزل '' کی تقریبِ رونمائی کی تیاریاں کر رہے تھے۔ میں اْن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن سے انھوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں مشورہ کیا تھا۔ برسبیلِ تذکرہ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ وہ اِس تقریب کا انعقاد کراچی آرٹس کونسل کے وسیع و عریض اور سرسبز وشاداب لان پر کریں گے۔
مجھے اْن کی اس بات پر بڑا تعجب ہوا اور میں نے پلٹ کر کہا ''کیا فرمایا آپ نے!'' انھوں نے اپنی بات کو دہرایا لیکن میری حیرت پھر بھی برقرار رہی۔ انھوں نے ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ '' جی ہاں آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر'' میری حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ اْس وقت تک کوئی تقریب آرٹس کونسل کے سبزہ زار پر منعقد نہیں ہوئی تھی کیونکہ ایسا کرنا قواعد کے خلاف تھا۔
ابھی میں اس انکشاف کے دھماکے سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ کرار بھائی نے دوسرا گولا داغ دیا جس پر میں کرسی سے اچھل پڑا۔ کرار صاحب نے یہ فرمایا کہ ''اس تقریب کی صدارت فیض احمد فیض کریں گے '' میری بوکھلاہٹ ناقابلِ بیان تھی۔ میں نے کرار بھائی کی طرف دیکھا اور انتہائی حیرت ناک انداز میں کہا '' مگر کرار بھائی! فیض صاحب تو آج کل لندن میں ہیں اور جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہ بھلا یہاں کیسے آئیں گے؟''انھوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
'' شکیل بھائی اس کی آپ قطعی فکر نہ کریں۔ یہ کام میرے کرنے کا ہے۔''میری تسلی نہ ہوئی جسے انھوں نے بھانپ لیا اور بولے'' فیض صاحب جہاں کہیں بھی ہوں وہ ہر حالت میں آئیں گے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ممکن نہ ہو۔'' اْن کے لب و لہجہ میں ایک بھروسہ اور یقینِ محکم تھا۔ ذرا توقف کے بعد وہ بولے '' ایک کام اور ہے جو آپ کو کرنا ہے۔'' یہ کہہ کر وہ چپ ہوگئے۔'' وہ کام کیا ہے؟ فرمائیے!'' میں نے سوال کیا۔''کوئی مشکل کام نہیں''مسکراتے ہوئے بولے۔ '' اس تقریب میں آپ کو بھی اظہارِ خیال کرنا ہوگا۔'' اْن کا لب و لہجہ تحکمانہ تھا جس میں اْن کی محبت کا عکس نمایاں تھا۔
قصہ کوتاہ کہ یہ تاریخی تقریبِ رونمائی بڑی شان سے منعقد ہوئی ، جس کی یادیں ہمیشہ ذہن میں تازہ رہیں گی۔ یہ قصہ بیان کرتے ہوئے مجھے فیض صاحب کی وہ داد یاد آرہی ہے جو انھوں نے میری پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے دی تھی۔ ممتاز شاعر کرار نوری (مرحوم) کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت پیش ہیں۔
اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا
بابِ گلشن جسے سمجھے درِ زنداں نکلا
......
شہر میں تنہا تھا لیکن کرب تنہائی نہ تھا
گھر سے باہر رہ کے میں اتنا تو سودائی نہ تھا
......
ہر چند اپنا حال نہ ہم سے بیاں ہوا
یہ حرف بے وجود مگر داستاں ہوا
مانا کہ ہم پہ آج کوئی مہرباں ہوا
دل کانپتا ہے یہ بھی اگر امتحاں ہوا
......
تاریکیوں میں ہم جو گرفتار ہوگئے
شاید سحر سے پہلے ہی بیدار ہوگئے
......
فکر و اظہار میں خود آنے لگی پا مردی
بھوک کی آگ نے لہجے میں تمازت بھر دی
......
اک بار توجہ سے کوئی بات تو سن لو
پھر چاہے کبھی ہم سے ملاقات نہ کرنا
آسان ہے جاں دینا کسی بات پہ نوری
دشوار ہے اظہارِ خیالات نہ کرنا
......
اعتراف اپنی خطاؤں کا میں کرتا ہی چلوں
جانے کس کس کو ملے میری سزا ، میرے بعد
......
مانا کہ ہم اس دور کا حاصل تو نہیں تھے
ناقدری دنیا کے بھی قابل تو نہیں تھے
......
آتا تو سہی بادِ سحر کا کوئی جھونکا
ہم خاص کسی پھول پہ مائل تو نہیں تھے
اللہ تعالیٰ کرار نوری کو بہشت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔( آمین)