75سال… ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں
ہم ابھی تک صدیوں پرانے انتظامی اور عدالتی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں
کراچی:
آزادی کے پچھتر سالوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ہے؟ اس کا جواب تو بہت طویل ہے مگر چند باتیں شیئر کر رہا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے وقت جتنے مسلمان پاکستان میں بستے تھے اتنے ہی بھارت میں رہ گئے تھے، آج بھارت اور کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کی ناقابلِ بیان حالت دیکھ کر ہر روز بانیانِ پاکستان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے ہمیں آزادی جیسی بے مثال نعمت سے ہم کنار کیا۔
آج بیس کروڑ مسلمان بھارت میں غلاموں کی سی زندگی کا عذاب جھیل رہے ہیں، اب ان کا مسئلہ معاشی، تعلیمی یا سماجی پسماندگی نہیں بلکہ صرف بقاء اور جان کا تحفظ ہے، وہ اپنے اسلامی نام تبدیل کر کے صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آزادی نے نہ صرف ہمیں جان، مال اور آبرو کا تحفظ دیاہے بلکہ ہمیں عزت اور شناخت دی ہے اور ہمارا تہذیبی تشخص محفوظ بنا دیا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی وجہ سے ہر شخص کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے، آج سے پچاس سال پہلے ہمارے گاؤں میں نوے فیصد مکان کچے تھے اور کسی کے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی، آج سب مکان پختہ ہیں اور اسّی فیصد گھروں میں موٹرسائیکل ہیں۔ آج پاکستان میں آئین اور آئینی ادارے ہیں، ملک میں منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ ہے، ہر سطح پر عدلیہ ہے، بڑی مضبوط اور ڈسپلنڈ فوج ہے، دنیا کی بہترین ایئرفورس ہے، ملٹری کے بہت معیاری تربیتی ادارے ہیں، چند بہت اچھے اسپتال ہیں۔
ساؤتھ ایشیاکی سب سے معیاری موٹرویز ہیں، ہم موٹروے پولیس جیسے عالمی معیار کے چند قابلِ رشک ادارے بھی قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کا بہترین چاول، آم اور کنّو پیدا کرتے ہیں، ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ آج بھی ہمارا (سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کا) تیار کردہ فٹ بال ورلڈ کپ میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عدلیہ دنیا کے 95 فیصد ملکوں سے زیادہ بااختیار ہے اور ہمارامیڈیا تمام مسلم ممالک سے زیادہ آزاد ہے، اور پھر یہ کہ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں۔
مگر ہم نے کھویا بھی بہت کچھ ہے اور آج ہماری ناکامیابیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔ قائدؒ کی وفات کے بعد ہم کئی سالوں تک نہ آئین بنا سکے نہ آئینی ادارے قائم کرسکے، بابائے قوم کی رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کے فوراً بعد پہلے ملٹری اور سول بیوروکریسی نے الحاق کیا پھر اس ناپاک الحاق (unholy alliance) میں جسٹس منیر نے عدلیہ کو بھی شامل کر دیا۔
عدلیہ نے ہر ملٹری ڈکٹیٹر کے شبخون کو جائز قرار دیا۔ کچھ سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی اور کچھ اپنی ہوسِ اِقتدار کے باعث حکومتی اور سیاسی معاملات میں غیرسیاسی اداروں کی مداخلت بڑھ گئی جس سے جمہوری ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ معاشی میدان میں ہمارا آغاز قابلِ رشک تھا۔ پچاس کی دہائی کے سول سرونٹس دیانتدار اور محبِّ وطن تھے۔ کہیں بھی حرام خوری کا چلن نہیں تھا۔ آزادی کے پہلے اٹھارہ سال تک پاکستان ایشیا کا معاشی ٹائیگر رہا۔ ہم بھارت سے بہت آگے اور آج کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے لیے رول ماڈل تھے۔
پھر یوں ہوا کہ 1965 اور 71کی جنگوں نے ہمارے وسائل نچوڑ لیے اور اس کے بعد بھٹو صاحب کی Nationalisation کی پالیسی نے معاشی ترقی کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور میں امریکا اور یورپ سے ڈالر آتے رہے اور ایک مصنوعی خوشحالی نظر آتی رہی مگر ان دو دہائیوں میں نہ کوئی انڈسٹری لگی اور نہ ہی کوئی ڈیم تعمیر ہوا۔ ڈالروں کی بہتات کے باعث روپیہ مستحکم رہا اور مہنگائی نہیں ہوئی مگر ان بیس سالوں میں اقتصادی ترقی کا پہیہ رکا رہا۔ ہمارے فیصلہ سازوں کی غلط اور misplaced ترجیحات نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
تعلیم اور تحقیق کسی بھی حکومت کی اوّلین ترجیح نہیں رہی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی جیسی قابلِ فخر درسگاہیں برباد ہوکر رہ گئیں، کسی پر لسانی اور مذہبی گروپوں نے قبضہ کیا اور کسی پر قبائلی گروہوں نے۔ ایک وہ وقت تھا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ امتیاز علی اور عبدالعلی خان جیسے غیرمعمولی منتظم ان درسگاہوں کے سربراہ تھے اور کہاں یہ عالم ہے کہ وائس چانسلر ایسے ہیں جنھیں اساتذہ یا طلبہ اپنے دفتر میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ تعلیم فروشی عروج پر ہے مگر تعلیم کے ہر شعبے کا معیار زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے، کبھی کبھار، شاید تین سالوں میں ایک بار حکمران مشاورت بھی کرتے ہیں تو تعلیمی ماہرین کے بجائے چند بیوروکریٹوں کے ساتھ۔ جو کسی بھی وقت کسی اور محکمے میں جاسکتے ہیں۔
حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث پبلک سیکٹر کی تعلیمی درسگاہوں میں دھول اُڑ رہی ہے جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بنائے گئے ادارے، جنھیں نوجوانوں کی کردار سازی سے کوئی دلچسپی نہیں، ایک طرف والدین کو لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف بدیسی نصاب نوجوانوں کے ذہنوں میں اتار کر ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کا اس ملک سے اور اس کی تاریخی، فکری اور نظریاتی شناخت سے کوئی تعلق اور وابستگی نہیں ہے۔ ہمارے امتحانوں کااعتبار اور ہماری ڈگریوں کا وقار ختم ہوچکا۔ ہمارے ملک کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں بھی نہیں آتی۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں ریسرچ صفر ہے، ہمارا نشترِ تحقیق کئی دہائیوں سے کند ہوچکا مگر کسی حکمران یا حکومت کو کوئی ادراک نہیں ہے۔
بحیثیّتِ قوم ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہم نئی نسل کی صحیح تربیت نہیں کرسکے۔ کسی زمانے میں گھر اور اسکول دو بڑی موثر تربیت گاہیں ہوتی تھیں۔ والدین بچوں کو صحیح، غلط، اور حلال اور حرام کی تمیز سکھاتے تھے اور اسکولوں میں بچوں کی کردار سازی پر زور دیا جاتا تھا، اب یہ دونوں درسگاہیں غیر فعال ہوچکی ہیں۔ اساتذہ تعمیرِقوم کے مقدس جذبوں سے محروم ہوچکے ہیں، کمپیوٹر اور موبائل نے ہمارے قابلِ رشک خاندانی نظام اور مضبوط رشتوں پر کاری ضرب لگائی ہے، اب والدین بیچارے کھانے پر انتظار کرتے رہتے ہیں مگر بچے اپنے موبائل پر ''مصروف'' رہتے ہیں اور والدین کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔
پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے ہمارے اخلاق اور ملی اقدار کو مسمار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو لوگ مخلوط رقص کو گناہ سمجھتے تھے، وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ مل کر ڈانس کرنے لگے ہیں۔ نئی نسل، سیاسی لیڈروں سے بدزبانی اور بدکلامی سیکھ رہی ہے، اُس میں بڑوں کی عزت کرنے کی روایت ختم ہوگئی ہے اور وہ جرائم، جھوٹ، فراڈ اور Cheating کی طرف راغب ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں پاکستانی روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں وہاں جیلوں میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں، جو پوری قوم کے لیے شرم کی بات ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں ایک بڑی ٹریجیڈی یہ ہوئی ہے کہ ہماری Human Quality بڑی زوال پذیر ہوئی ہے۔ کسی فیلڈ میں بھی ایسے افراد ڈھونڈے سے نظر نہیں آتے جنکے دامن بے داغ ہوں، جو رزقِ حلال کھاتے ہوں اور جن کے دل ملک اور قوم کے لیے دھڑکتے ہوں۔ قومی قائدین جنھوں نے قوم کو راہ دکھانی تھی ان کے اپنے دامن داغدار ہیں، ان کے ہاں رزقِ حلال، اخلاص اور بے غرضی کا فقدان ہے، مسندِ قضاء پر بیٹھنے والے تو پورے معاشرے کے بہترین افراد ہونے چاہئیں مگر ہمارے ہاں ان پر انگلیاں اٹھنا اور جانبداری کا الزام لگنا معمول بن چکا ہے۔
ہمارے سابق آمر جرنیلوں کو تو سب سے زیادہ مقبول اور محبوب ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے وہ بھی محبوبیت کھوچکے ہیں۔ سول سروس کو معاشرے کی کریم کہا جاتا ہے مگر نوجوان افسر خود تسلیم کرتے ہیں کہ ایماندار افسروں کی تعداد بیس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ کھوکھلے نعروں کے باوجود ملک میں کرپشن میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، انصاف مہنگا اور ناپید ہے۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور کمزوریوں کی وجہ سے بیوروکریسی طاقتور اور بے لگام ہوگئی ہے۔
ہم ابھی تک صدیوں پرانے انتظامی اور عدالتی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں اور اسے آزاد قوم کی امنگوں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں کرسکے۔ علماء اگر کردار کے بھی غازی ہوتے تو صورتحال اتنی بھیانک نہ ہوتی۔ تاجروں کی ہوسِ زر اتنی شرمناک ہے کہ آج اس ملک میں مریض کے لیے دوائی اور بچوں کے لیے خالص دودھ ملنا ناممکن ہے۔
میڈیا میں توسیع ضرور ہوئی ہے مگر معیار پست ہوا ہے، ٹی وی اینکروں نے الگ الگ مورچے سنبھال رکھے ہیں، جہاں بیٹھ کر وہ حقائق اور سچائی اجاگر کرنے کے بجائے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے بیانیے کا دفاع کرتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں ہمارا زوال غیر معمولی ہے۔ ہمارے ایکٹر اور ایکٹرسیس بھارتی فلم انڈسٹری کی غلام بن چکی ہیں۔ کبھی یہاں معیاری فلمیں بنتی تھیں اور ٹی وی ڈرامہ تو بے مثال تھا مگر دونوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اس سے بڑی ٹریجیڈی کیا ہوگی کہ جس cultural identity کے تحفظ کے لیے یہ ملک بنا تھا ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے، آج قوم کی فکری راہنمائی کرنے والی کوئی قد آور شخصیت بھی نظر نہیں آتی۔
بابائے قومؒ نے اپنی سیکڑوں تقریروں میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ ''ہم نئے ملک کا نظام، اسلام کے سماجی انصاف کی بنیاد پر تشکیل دینگے'' مگر ٹی وی چینلوں پر قائدؒ کی ایسی تقریروں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ نئی نسل مغربی تہذیب اور بھارت کے فلمی کلچر سے مغلوب بلکہ بدترین احساس کمتری کا شکار ہے۔ دین بیزار لکھاریوں نے اتنی دھول اُڑائی ہے کہ قوم کی نظریاتی سمت کھوگئی ہے اور ہم پھر ایک بے سمت ہجوم بن چکے ہیں۔
آزادی کے پچھتر سالوں میں ہم نے کیا پایا اور کیا کھویا ہے؟ اس کا جواب تو بہت طویل ہے مگر چند باتیں شیئر کر رہا ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آزادی کے وقت جتنے مسلمان پاکستان میں بستے تھے اتنے ہی بھارت میں رہ گئے تھے، آج بھارت اور کشمیر میں رہنے والے مسلمانوں کی ناقابلِ بیان حالت دیکھ کر ہر روز بانیانِ پاکستان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جنھوں نے ہمیں آزادی جیسی بے مثال نعمت سے ہم کنار کیا۔
آج بیس کروڑ مسلمان بھارت میں غلاموں کی سی زندگی کا عذاب جھیل رہے ہیں، اب ان کا مسئلہ معاشی، تعلیمی یا سماجی پسماندگی نہیں بلکہ صرف بقاء اور جان کا تحفظ ہے، وہ اپنے اسلامی نام تبدیل کر کے صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آزادی نے نہ صرف ہمیں جان، مال اور آبرو کا تحفظ دیاہے بلکہ ہمیں عزت اور شناخت دی ہے اور ہمارا تہذیبی تشخص محفوظ بنا دیا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی وجہ سے ہر شخص کا معیارِ زندگی بہتر ہوا ہے، آج سے پچاس سال پہلے ہمارے گاؤں میں نوے فیصد مکان کچے تھے اور کسی کے پاس موٹر سائیکل نہیں تھی، آج سب مکان پختہ ہیں اور اسّی فیصد گھروں میں موٹرسائیکل ہیں۔ آج پاکستان میں آئین اور آئینی ادارے ہیں، ملک میں منتخب ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ ہے، ہر سطح پر عدلیہ ہے، بڑی مضبوط اور ڈسپلنڈ فوج ہے، دنیا کی بہترین ایئرفورس ہے، ملٹری کے بہت معیاری تربیتی ادارے ہیں، چند بہت اچھے اسپتال ہیں۔
ساؤتھ ایشیاکی سب سے معیاری موٹرویز ہیں، ہم موٹروے پولیس جیسے عالمی معیار کے چند قابلِ رشک ادارے بھی قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم دنیا کا بہترین چاول، آم اور کنّو پیدا کرتے ہیں، ہمارے لیے باعث فخر ہے کہ آج بھی ہمارا (سیالکوٹ کی ایک فیکٹری کا) تیار کردہ فٹ بال ورلڈ کپ میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری عدلیہ دنیا کے 95 فیصد ملکوں سے زیادہ بااختیار ہے اور ہمارامیڈیا تمام مسلم ممالک سے زیادہ آزاد ہے، اور پھر یہ کہ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہیں۔
مگر ہم نے کھویا بھی بہت کچھ ہے اور آج ہماری ناکامیابیاں سر چڑھ کر بول رہی ہیں۔ قائدؒ کی وفات کے بعد ہم کئی سالوں تک نہ آئین بنا سکے نہ آئینی ادارے قائم کرسکے، بابائے قوم کی رحلت اور لیاقت علی خان کے قتل کے فوراً بعد پہلے ملٹری اور سول بیوروکریسی نے الحاق کیا پھر اس ناپاک الحاق (unholy alliance) میں جسٹس منیر نے عدلیہ کو بھی شامل کر دیا۔
عدلیہ نے ہر ملٹری ڈکٹیٹر کے شبخون کو جائز قرار دیا۔ کچھ سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی اور کچھ اپنی ہوسِ اِقتدار کے باعث حکومتی اور سیاسی معاملات میں غیرسیاسی اداروں کی مداخلت بڑھ گئی جس سے جمہوری ادارے کمزور ہوگئے ہیں۔ معاشی میدان میں ہمارا آغاز قابلِ رشک تھا۔ پچاس کی دہائی کے سول سرونٹس دیانتدار اور محبِّ وطن تھے۔ کہیں بھی حرام خوری کا چلن نہیں تھا۔ آزادی کے پہلے اٹھارہ سال تک پاکستان ایشیا کا معاشی ٹائیگر رہا۔ ہم بھارت سے بہت آگے اور آج کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے لیے رول ماڈل تھے۔
پھر یوں ہوا کہ 1965 اور 71کی جنگوں نے ہمارے وسائل نچوڑ لیے اور اس کے بعد بھٹو صاحب کی Nationalisation کی پالیسی نے معاشی ترقی کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور میں امریکا اور یورپ سے ڈالر آتے رہے اور ایک مصنوعی خوشحالی نظر آتی رہی مگر ان دو دہائیوں میں نہ کوئی انڈسٹری لگی اور نہ ہی کوئی ڈیم تعمیر ہوا۔ ڈالروں کی بہتات کے باعث روپیہ مستحکم رہا اور مہنگائی نہیں ہوئی مگر ان بیس سالوں میں اقتصادی ترقی کا پہیہ رکا رہا۔ ہمارے فیصلہ سازوں کی غلط اور misplaced ترجیحات نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
تعلیم اور تحقیق کسی بھی حکومت کی اوّلین ترجیح نہیں رہی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی جیسی قابلِ فخر درسگاہیں برباد ہوکر رہ گئیں، کسی پر لسانی اور مذہبی گروپوں نے قبضہ کیا اور کسی پر قبائلی گروہوں نے۔ ایک وہ وقت تھا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ امتیاز علی اور عبدالعلی خان جیسے غیرمعمولی منتظم ان درسگاہوں کے سربراہ تھے اور کہاں یہ عالم ہے کہ وائس چانسلر ایسے ہیں جنھیں اساتذہ یا طلبہ اپنے دفتر میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ تعلیم فروشی عروج پر ہے مگر تعلیم کے ہر شعبے کا معیار زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکا ہے، کبھی کبھار، شاید تین سالوں میں ایک بار حکمران مشاورت بھی کرتے ہیں تو تعلیمی ماہرین کے بجائے چند بیوروکریٹوں کے ساتھ۔ جو کسی بھی وقت کسی اور محکمے میں جاسکتے ہیں۔
حکمرانوں کی عدم دلچسپی کے باعث پبلک سیکٹر کی تعلیمی درسگاہوں میں دھول اُڑ رہی ہے جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں بنائے گئے ادارے، جنھیں نوجوانوں کی کردار سازی سے کوئی دلچسپی نہیں، ایک طرف والدین کو لوٹ رہے ہیں اور دوسری طرف بدیسی نصاب نوجوانوں کے ذہنوں میں اتار کر ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جس کا اس ملک سے اور اس کی تاریخی، فکری اور نظریاتی شناخت سے کوئی تعلق اور وابستگی نہیں ہے۔ ہمارے امتحانوں کااعتبار اور ہماری ڈگریوں کا وقار ختم ہوچکا۔ ہمارے ملک کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں بھی نہیں آتی۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں ریسرچ صفر ہے، ہمارا نشترِ تحقیق کئی دہائیوں سے کند ہوچکا مگر کسی حکمران یا حکومت کو کوئی ادراک نہیں ہے۔
بحیثیّتِ قوم ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہم نئی نسل کی صحیح تربیت نہیں کرسکے۔ کسی زمانے میں گھر اور اسکول دو بڑی موثر تربیت گاہیں ہوتی تھیں۔ والدین بچوں کو صحیح، غلط، اور حلال اور حرام کی تمیز سکھاتے تھے اور اسکولوں میں بچوں کی کردار سازی پر زور دیا جاتا تھا، اب یہ دونوں درسگاہیں غیر فعال ہوچکی ہیں۔ اساتذہ تعمیرِقوم کے مقدس جذبوں سے محروم ہوچکے ہیں، کمپیوٹر اور موبائل نے ہمارے قابلِ رشک خاندانی نظام اور مضبوط رشتوں پر کاری ضرب لگائی ہے، اب والدین بیچارے کھانے پر انتظار کرتے رہتے ہیں مگر بچے اپنے موبائل پر ''مصروف'' رہتے ہیں اور والدین کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتے۔
پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے ہمارے اخلاق اور ملی اقدار کو مسمار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جو لوگ مخلوط رقص کو گناہ سمجھتے تھے، وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ مل کر ڈانس کرنے لگے ہیں۔ نئی نسل، سیاسی لیڈروں سے بدزبانی اور بدکلامی سیکھ رہی ہے، اُس میں بڑوں کی عزت کرنے کی روایت ختم ہوگئی ہے اور وہ جرائم، جھوٹ، فراڈ اور Cheating کی طرف راغب ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں پاکستانی روزگار کے لیے گئے ہوئے ہیں وہاں جیلوں میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں، جو پوری قوم کے لیے شرم کی بات ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں ایک بڑی ٹریجیڈی یہ ہوئی ہے کہ ہماری Human Quality بڑی زوال پذیر ہوئی ہے۔ کسی فیلڈ میں بھی ایسے افراد ڈھونڈے سے نظر نہیں آتے جنکے دامن بے داغ ہوں، جو رزقِ حلال کھاتے ہوں اور جن کے دل ملک اور قوم کے لیے دھڑکتے ہوں۔ قومی قائدین جنھوں نے قوم کو راہ دکھانی تھی ان کے اپنے دامن داغدار ہیں، ان کے ہاں رزقِ حلال، اخلاص اور بے غرضی کا فقدان ہے، مسندِ قضاء پر بیٹھنے والے تو پورے معاشرے کے بہترین افراد ہونے چاہئیں مگر ہمارے ہاں ان پر انگلیاں اٹھنا اور جانبداری کا الزام لگنا معمول بن چکا ہے۔
ہمارے سابق آمر جرنیلوں کو تو سب سے زیادہ مقبول اور محبوب ہونا چاہیے تھا مگر بدقسمتی سے وہ بھی محبوبیت کھوچکے ہیں۔ سول سروس کو معاشرے کی کریم کہا جاتا ہے مگر نوجوان افسر خود تسلیم کرتے ہیں کہ ایماندار افسروں کی تعداد بیس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ کھوکھلے نعروں کے باوجود ملک میں کرپشن میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے، انصاف مہنگا اور ناپید ہے۔ سیاستدانوں کی نااہلی اور کمزوریوں کی وجہ سے بیوروکریسی طاقتور اور بے لگام ہوگئی ہے۔
ہم ابھی تک صدیوں پرانے انتظامی اور عدالتی نظام سے چمٹے ہوئے ہیں اور اسے آزاد قوم کی امنگوں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیل نہیں کرسکے۔ علماء اگر کردار کے بھی غازی ہوتے تو صورتحال اتنی بھیانک نہ ہوتی۔ تاجروں کی ہوسِ زر اتنی شرمناک ہے کہ آج اس ملک میں مریض کے لیے دوائی اور بچوں کے لیے خالص دودھ ملنا ناممکن ہے۔
میڈیا میں توسیع ضرور ہوئی ہے مگر معیار پست ہوا ہے، ٹی وی اینکروں نے الگ الگ مورچے سنبھال رکھے ہیں، جہاں بیٹھ کر وہ حقائق اور سچائی اجاگر کرنے کے بجائے اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے بیانیے کا دفاع کرتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں ہمارا زوال غیر معمولی ہے۔ ہمارے ایکٹر اور ایکٹرسیس بھارتی فلم انڈسٹری کی غلام بن چکی ہیں۔ کبھی یہاں معیاری فلمیں بنتی تھیں اور ٹی وی ڈرامہ تو بے مثال تھا مگر دونوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اس سے بڑی ٹریجیڈی کیا ہوگی کہ جس cultural identity کے تحفظ کے لیے یہ ملک بنا تھا ہم اس کی حفاظت نہ کرسکے، آج قوم کی فکری راہنمائی کرنے والی کوئی قد آور شخصیت بھی نظر نہیں آتی۔
بابائے قومؒ نے اپنی سیکڑوں تقریروں میں اس بات کا عہد کیا تھا کہ ''ہم نئے ملک کا نظام، اسلام کے سماجی انصاف کی بنیاد پر تشکیل دینگے'' مگر ٹی وی چینلوں پر قائدؒ کی ایسی تقریروں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ نئی نسل مغربی تہذیب اور بھارت کے فلمی کلچر سے مغلوب بلکہ بدترین احساس کمتری کا شکار ہے۔ دین بیزار لکھاریوں نے اتنی دھول اُڑائی ہے کہ قوم کی نظریاتی سمت کھوگئی ہے اور ہم پھر ایک بے سمت ہجوم بن چکے ہیں۔