بارش کی تباہ کاریاں عملی اقدامات کا فقدان

وزیراعظم نے صوبوں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کی ہدایت کی ہے

فوٹو:فائل

پاکستان میں رواں برس کا مون سون غیر معمولی حد تک طویل اور تباہ کن رہا ہے، ملک کے شمال میں گلگت بلتستان سے لے کر جنوب میں کراچی تک ہلاکتوں اور تباہی کا سلسلہ اب تک نہیں رکا اور نہ ہی حکومت اب تک اس سے ہونے والے مالی نقصان کا درست تخمینہ لگا سکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت کافی متحرک ہیں اور سیلاب کے حالات میں دو مرتبہ بلوچستان کے متاثرہ علاقوں کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ وزیراعظم نے صوبوں کے اشتراک سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے کی ہدایت کی ہے۔

مون سون کی بارشوں اور دریاؤں پر حفاظتی بند ٹوٹنے سے ہر سال ملک میں سیلاب آتا ہے، جب کہ بھارت بھی آبی جارحیت سے باز نہیں آتا اور اپنے ڈیموں سے زائد پانی پاکستان کے دریاؤں میں چھوڑ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں مالیت کے نقصان کے ساتھ انسان اور مویشی بہہ جاتے ہیں۔ فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے، بے یار و مددگار حکومت کی امداد کے منتظر لوگ آخرکار خود ہی اپنی مدد آپ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے پیش نظر ہماری صوبائی حکومتیں کیوں بروقت حکمت عملی اختیار نہیں کرتیں کہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جائے۔ حفاظتی بندھ باندھ کر سیلاب کے ممکنہ خدشے کے پیش نظر روک تھام کی جائے۔ متاثرین کی بروقت امداد کی جائے۔ انھیں بروقت اشیاء خورونوش فراہم کی جائیں تاکہ مزید جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔

مون سون بارشوں کے سلسلے نے جہاں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تباہ کاریاں کیں، پورے پاکستان میں سیلاب نے مویشیوں، انسانوں، فصلوں، بستیوں، مکانات اور شاہراہوں کو زیر آب کر دیا۔ سیلاب نے لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور انتظامیہ کی امداد کے منتظر ہیں۔

لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ ممکنہ خطرے کے پیش نظر بروقت انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں ضروریات زندگی کا سامان پہنچ نہیں پاتا اور اگر پہنچتا بھی ہے تو وہ اتنا کم ہوتا ہے کہ لوگوں کی ضروریات پوری ہی نہیں ہو پاتیں۔ اس وقت تونسہ، ڈیرہ غازی خاں، راجن پور اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع میں اونچے درجے کا سیلاب ہے لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین سیلاب زدگان کی دلجوئی کے لیے متاثرہ علاقوں میں نہیں گئے ہیں۔ پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ تین اضلاع میں 141 اموات ہوئیں اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد مجموعی طور پر زخمی ہوئے ہیں۔

صوبے میں بارہ ہزار سے زیادہ مکانات، 33 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی متاثر ہوئیں جب کہ این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق سات پلوں کو نقصان پہنچا۔ بدقسمتی سے پنجاب حکومت بھی بلوچستان حکومت کی طرح متاثرہ علاقوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگ کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار حکومتی امداد کے منتظر ہیں مگر تاحال ریلیف کیمپ تک قائم نہ ہو سکے۔ دوسری طرف غیر سرکاری تنظیمیں اپنی بساط کے مطابق لوگوں تک پہنچ رہی ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے فی الفور ٹینٹ کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً صاف پانی کی ضرورت ہے ۔

پنجاب کے ضلع راجن پور کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں ہر سال تباہی آتی ہے۔ ماضی میں جن منصوبوں پر عملدرآمد کرانے کا اعلان ہوا تھا نہ تو ان پر عمل ہوا نہ ہی سیلاب روکنے کے لیے بند تعمیر ہوئے۔ اگر حکومت اپنے وسائل استعمال کرتی تو یہی پانی ذخیرہ کر کے بنجر زمینوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے لیکن سیاست کی طرف ہماری توجہ نے دیگر مسائل کو کھوہ کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ ہماری اولین ترجیح کیا ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب کی طرف حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے وہاں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے۔

بارہ سال پہلے جو مسائل تھے وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور قحط کی صورت میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پانے میں ناکام اس لیے نظر آتی ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے محاذ آرائی میں مصروف ہے، جب کہ حقیقی مسائل سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔قومی سطح پر این ڈی ایم اے کی جانب سے اب تک کے نقصانات کے جو اعداد و شمار جاری ہوئے ہیں، ان کے مطابق بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں کے 27 اضلاع اور تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔


بلوچستان کی صوبائی اسمبلی موجود ہے، اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ میں برابری کی بنیاد پر واضح نمایندگی موجود ہونے کے باوجود صوبے کے عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں صوبائی حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔ بارشوں کے تیسرے اسپیل اور چوتھے اسپیل نے بھی بلوچستان کے متعدد اضلاع کو متاثر کیا، چوتھے اسپیل کے باعث شمالی اضلاع قلعہ عبداللہ اور موسیٰ خیل میں تباہی مچ گئی، اوتھل کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ پر آمد و رفت دوبارہ معطل ہوگئی، مزید ڈیم ٹوٹ گئے، جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی ہے۔

صوبے کے 5لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، 2100 کلو میٹر سڑکیں اور 25 پل بہہ گئے، بلاشبہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے لیے بھاری فنڈز درکار ہوں گے، گویا آنے والے دنوں میں بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کے نتیجے میں صوبے کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔ خیبر پختونخوا میں مسلسل دوسری بار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے، لیکن یہاں بھی صوبائی انتظامیہ بارش کے نتیجے میں ہونے والے تباہ کاریوں اور سیلابی صورتحال پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ صوبے میں مجموعی طور پر پچاس ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔

ساڑھے چھ کلومیٹر کی سڑکیں اور سات پل متاثر ہوئے جب کہ پانچ ہزار گھر جزوی یا مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ سندھ میں 17 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، 66 بچوں سمیت 141 اموات ہوئی ہیں اور تقریباً پانچ سو افراد زخمی ہوئے۔ صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد اور 32 ہزار سے زیادہ مکانات متاثر ہوئے۔ انفرا اسٹرکچر کے نقصان کی بات کریں تو 33048 مکانات، اکیس سو کلومیٹر طویل سڑکیں متاثر ہوئی ہیں، 45 پل اور 32 دکانیں بھی متاثر ہوئیں جب کہ صوبے کا میگا سٹی کراچی تباہی و بربادی کا منظر پیش کر رہا ہے، صوبائی حکومت نے ایک روز کے لیے صوبے کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں۔

کیا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے مسائل حل ہوسکتے ہیں، یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ صوبے پر مسلسل تیسری بار پاکستان پیپلز پارٹی بلاشرکت غیرے حکومت کر رہی ہے، سندھ میں ہونے والی تباہی تمام حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مجموعی طور پر 38 اموات ہوئیں جہاں بالترتیب چھ اور دس اضلاع کے تقریباً دس ہزار افراد متاثر ہوئے اور آٹھ سو کے قریب مکانات متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سب حادثات اب مزید تواتر اور شدت کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں۔

حالیہ سیلاب کے نتیجے میں گزشتہ کئی دہائیوں کے ترقیاتی کاموں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس نقصان کی اصل وجہ غیر معمولی بارشیں نہیں بلکہ یہ تھی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ترقیاتی کاموں کا 'ریزیلینس آڈٹ ' نہیں کیا گیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصوبے سخت موسمی حالات کو برداشت کرسکتے ہیں یا نہیں۔ دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی تعمیراتی معیارات بہت پرانے ہیں۔ یہ ان موسمی تغیرات کے مطابق نہیں ہیں جو اب معمول بن چکے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً تمام اہم انفرا اسٹرکچر نیس پاک (نیشنل انجینئرنگ سروسز)، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے ڈیزائن اور تعمیر کیے جاتے ہیں۔

ان اداروں نے اب تک تعمیرات میں موسمی تغیرات کے مطابق معیارات متعارف نہیں کروائے ہیں۔ یہ ادارے پاکستان آرمی کور آف انجینئرز اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے ساتھ مل کر تعمیراتی معیارات پر نظرثانی اور ان میں بہتری لاسکتے ہیں۔ ان معیارات پر نہ صرف بڑے سرکاری ٹھیکے داروں کو عمل کرنا ہوگا بلکہ میونسپل کارپوریشنز، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے ساتھ ساتھ شدید موسمی خطرات سے دوچار مختلف آمدنی والے گروپ بھی ان پر عمل کریں گے۔ لوگوں کو رہنمائی کی ضرورت ہے اور غریبوں کو اس کی اشد ضرورت ہے۔

بار بار انھی آفات کا سامنا کرنے کے لیے تنہا نہ چھوڑیں۔ پہلے سے تعمیر شدہ منصوبوں کی مرمت بھی انتہائی اہم کام ہے۔ درحقیقت اگر ہم گزشتہ 7 دہائیوں میں ہونے والی تعمیرات کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر نئے تعمیراتی منصوبوں پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ یہ پابندی اس وقت تک رہنی چاہیے جب تک صوبائی حکومتیں موسمی تغیرات کے مطابق تعمیراتی اصول وضح کرکے انھیں اختیار نہ کرلیں۔

حکومت کی بنیادی ذمے داریوں میں بند کی تعمیر بروقت سیلاب کی اطلاع خوراک کی ترسیل مقامی اور ضلع انتظامیہ کا فعال کردار ریلیف کیمپ کا قیام کارکردگی اور متاثرین کی امداد کے بروقت انتظامات شامل ہیں۔ ہم اس وقت ہی کوئی حکمت عملی بناتے ہیں جب پانی سر پر آن پہنچتا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے پاس نہ کوئی پلان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ اگر ہم تھوڑی سی توجہ سیلاب جیسے گھمبیر مسئلہ کی طرف مبذول کر لیں تو نقصانات اور جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکتا ہے۔

ہم معجزے کے منتظر رہتے ہیں چاہے سیاست ہو معیشت ہو یا سیلاب۔ ہمارے پاس عملی اقدامات کے فقدان کے باعث مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سیاسی جذبات کے سیلاب میں ہماری توجہ سیاسی ریلے میں بہہ جاتی ہے۔ جہاں ہم عوام کے دکھ کو سمجھ نہیں پاتے یا سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کی ضرورت ہے لیکن افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ترجیحات پر نظرثانی کر بھی لیں تو عوام کی فلاح و بہبود کا اس میں باب شامل ہی نہیں ہوتا۔
Load Next Story