تحریک انصاف اور شہباز گل
اگر غلط بات کی ہے تو ضمیر کے قیدی اور سیاسی قیدی کیسے ہوئے
شہباز گل کی گرفتاری اور ریمانڈ نے تحریک انصاف کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پہلی گرفتاری نے تحریک انصاف کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ ایک عجیب منظر نامہ بن گیا ہے۔ عمران خان سے لے کر سینیٹر فیصل جاوید تک کوئی بھی شہباز گل کے موقف کی تائید کر نے کے لیے تیار نہیں ہے، یہ بھی تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل نے جو کہا غلط کہا لیکن ساتھ ساتھ شہباز گل کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔ ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔
دوسری طرف انھیں ضمیر کا قیدی اور سیاسی قیدی بنا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر غلط بات کی ہے تو ضمیر کے قیدی اور سیاسی قیدی کیسے ہوئے، اگر موقف غلط ہے تو پھر ریمانڈ اور گرفتاری میں غلط کیا ہے۔ سب کچھ تو قانون کے تحت ہو رہا ہے۔
جیل سے ریمانڈ پر لے جانے پر جس قدر شور مچایا گیا ہے، وہ بھی ناقابل فہم ہے۔ کل جب آپ کی حکومت تھی اور اس وقت نیب اور پولیس لوگوں کے ریمانڈ لیتے تھے تو آپ کہتے تھے قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے۔ آج جب قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے تو تکلیف کس بات کی۔
کیا عمران خان کی حکومت میں کوئی صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے ملزم کے ساتھ ایسے کر سکتی تھی جیسے اب عمران خان کی پنجاب حکومت نے کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ڈنڈے کی بات ہی سمجھتے ہیں، انھیں پیار کی بات سمجھ نہیں آتی۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی قانون کی بات اتنی سمجھ نہیں آرہی تھی جتنی رینجرز اور ایف سی کی آگئی۔ تحریک عدم اعتماد کی رات بھی قیدیوں کی ایک وین کی خبر نے ساری بہادری نکال دی تھی اور آج بھی رینجرز اور ایف سی کی گونج نے پنجاب حکومت کی ساری ہٹ دھرمی نکال دی، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس قسم کا تنازعہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
بہر حال تحریک انصاف اگر واقعی شہباز گل کی حمایت کرنا چاہتی ہے تو قانون کا راستہ کھلا ہے، جو قانونی کارروائی ہو رہی ہے، اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ قانونی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل شہباز گل اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سے انھیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔
جب الطاف حسین نے ریڈ لائن کراس کی تھی تو پوری ایم کیو ایم نے ان سے اعلان لاتعلقی کر لیا تھا۔ تحریک انصاف بھی اگر یہ کہتی ہے کہ انھوں نے غلط بات کی ہے، ان کا موقف غلط ہے تو بہتر یہی ہوتا کہ تحریک انصاف بھی ان سے اعلان لاتعلقی کر لیتی۔ تحریک انصاف کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ شہباز گل کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ شہباز گل کو قانون سے بچانا ہے تو قانونی راستے ہی اختیار کرکے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شہباز گل کی بیماری پر جب شکوک وشبہات اٹھائے گئے ہیں تو تحریک انصاف نے دلیل دی ہے کہ جب میاں نواز شریف بیمار تھے تو سارے صحافی ان سے ہمدردی کر رہے تھے۔ جب کہ شہباز گل کی بیماری پر شکوک شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی بات نواز شریف کی بیماری پر مہر تصدیق تحریک انصاف کی حکومت نے لگائی تھی۔ جب وہ بیمار ہوئے تو نیب کی حراست میں تھے۔ نیب کی حوالات میں تھے۔ نیب نے ان کی بیماری پر مہر تصدیق لگائی۔ لوگ شاید بھول جاتے ہیں نواز شریف نیب کی حوالات سے اسپتال جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
شہباز شریف کو حکام نے درخواست کی کہ آپ نیب آئیں اور نواز شریف کو اسپتال جانے کے لیے منائیں۔ پھر جب انھیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں تحریک انصا ف کی حکومت نے ان کی بیماری کا جائزہ لینے کے لیے بورڈ بنایا۔ تحریک انصاف کی وزیر صحت دن میں تین تین بار نواز شریف کی صحت کے بارے میں اسپتال کے باہر میڈیا سے بات کرتی تھیں۔ اور ان کی خراب صحت کے بارے میں عوام کو اور میڈیا کو بتاتی تھیں۔ نواز شریف اپنے علاج میں تعاون نہیں کر رہے اس لیے ان کی بیٹی کو ان کے ساتھ جیل سے منتقل کیا جائے ، یہ تحریک انصاف کا موقف تھا۔ نواز شریف کا نہیں۔ جیل سے حکومت نے مریم نواز کو اسپتال منتقل کیا۔ اس لیے نواز شریف کی صحت خراب ہے، یہ نواز شریف یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نہیں تحریک انصاف کا موقف تھا۔ غلط تھا یا درست لیکن اس کی ذمے داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔
دوسری طرف شہباز گل قانون کے دائرے میں ابھی بیمار قرار نہیں پائے۔ شہباز گل پر قید کے چار دن اتنے بھاری رہے کہ وہ اسٹریچر پر پہنچ گئے ہیں حالانکہ آصف زرداری کئی برس جیل میں رہے، حمزہ اور شہباز شریف لمبا عرصہ جیل میں رہے، نواز شریف شدید بیماری کی حالت میں جیل میں رہے، مریم نواز جیل میں رہیں، رانا ثنااﷲ جیل میں بند رہے، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خواجہ سعد اور خواجہ سلمان اور خورشید شاہ نے مہینوں جیل کاٹی ہے۔ شہباز گل کو گرفتار ہوئے تو ہفتہ بھی نہیں ہوا، اور وہ اسٹریچر پر آگئے۔ ابھی تو جیل ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کے دائرہ اختیار میں تھی۔ اڈیالہ جیل پنجاب حکومت کے ماتحت ہے۔ جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت انھیں جیل میں وی آئی پی طریقہ سے مل رہی تھی۔ اسد عمر ملے۔ عثمان ڈار ملے۔ شنید ہے کہ عمران خان بھی ملنا چاہتے تھے، لیکن ان کے مشیران نے انھیں منع کر دیا کہ آپ شہباز گل سے دور ہی رہیں۔ شہبازگل کی خاطر جیل کا سپریٹنڈنٹ تبدیل کر دیا گیا۔
تحریک انصاف شہباز گل کو قانون سے بچانے کے لیے ان کی باتوں کا موازنہ نواز شریف اور دیگر سیاسی قیادت کی فوجی قیادت کے بارے میں مختلف مواقعے پر دیے گئے بیانات سے کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے۔
پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جا ئے۔ یہ غلط موازنہ ہے۔ نواز شریف اور دیگر نے سیاسی بات کی ہے۔ ادارے کے سیاسی کردار کے بارے میں بات کی ہے۔ نام لے کر ان کے بارے میں بات کی تھی جن کا سیاسی کردار ان کی نظر میں درست نہیں تھا۔ویسے نواز شریف کی تمام باتوں کی آج عمران خان خود تصدیق کر رہے ہیں کہ کیسے ان کی حکومت کو چلانے اور بچانے میں مدد کی جاتی رہی۔ وہ اسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
کسی نے بھی پاک فوج میں بغاوت کی بات نہیں کی۔ کسی نے بھی فوج کے کمانڈ سسٹم کو نقصان پہنچانے کی بات نہیں کی۔ میری رائے میں کسی ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنا معمول کی قانونی کارروائی ہوتی ہے ، شہباز گل کے ریمانڈ اس طرح ایشو نہیں بننا چاہیے تھا۔ اگر ملزم صاف ہے تو ریمانڈ میں بھی صاف رہے گا، پولیس ریمانڈ اس لیے مانگتی ہے تاکہ کسی معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکے ۔سیدھی سے بات ہے کہ اگر ثبوت نہیں ہوگا تو جرم بھی ثابت نہیں ہوگا، اس لیے ریمانڈ سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
دوسری طرف انھیں ضمیر کا قیدی اور سیاسی قیدی بنا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر غلط بات کی ہے تو ضمیر کے قیدی اور سیاسی قیدی کیسے ہوئے، اگر موقف غلط ہے تو پھر ریمانڈ اور گرفتاری میں غلط کیا ہے۔ سب کچھ تو قانون کے تحت ہو رہا ہے۔
جیل سے ریمانڈ پر لے جانے پر جس قدر شور مچایا گیا ہے، وہ بھی ناقابل فہم ہے۔ کل جب آپ کی حکومت تھی اور اس وقت نیب اور پولیس لوگوں کے ریمانڈ لیتے تھے تو آپ کہتے تھے قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے۔ آج جب قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے تو تکلیف کس بات کی۔
کیا عمران خان کی حکومت میں کوئی صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے ملزم کے ساتھ ایسے کر سکتی تھی جیسے اب عمران خان کی پنجاب حکومت نے کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ڈنڈے کی بات ہی سمجھتے ہیں، انھیں پیار کی بات سمجھ نہیں آتی۔ اسی طرح تحریک انصاف کو بھی قانون کی بات اتنی سمجھ نہیں آرہی تھی جتنی رینجرز اور ایف سی کی آگئی۔ تحریک عدم اعتماد کی رات بھی قیدیوں کی ایک وین کی خبر نے ساری بہادری نکال دی تھی اور آج بھی رینجرز اور ایف سی کی گونج نے پنجاب حکومت کی ساری ہٹ دھرمی نکال دی، کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس قسم کا تنازعہ پیدا ہی نہ ہوتا۔
بہر حال تحریک انصاف اگر واقعی شہباز گل کی حمایت کرنا چاہتی ہے تو قانون کا راستہ کھلا ہے، جو قانونی کارروائی ہو رہی ہے، اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ قانونی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل شہباز گل اور تحریک انصاف کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سے انھیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو رہا ہے۔
جب الطاف حسین نے ریڈ لائن کراس کی تھی تو پوری ایم کیو ایم نے ان سے اعلان لاتعلقی کر لیا تھا۔ تحریک انصاف بھی اگر یہ کہتی ہے کہ انھوں نے غلط بات کی ہے، ان کا موقف غلط ہے تو بہتر یہی ہوتا کہ تحریک انصاف بھی ان سے اعلان لاتعلقی کر لیتی۔ تحریک انصاف کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ وہ شہباز گل کا مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ شہباز گل کو قانون سے بچانا ہے تو قانونی راستے ہی اختیار کرکے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
شہباز گل کی بیماری پر جب شکوک وشبہات اٹھائے گئے ہیں تو تحریک انصاف نے دلیل دی ہے کہ جب میاں نواز شریف بیمار تھے تو سارے صحافی ان سے ہمدردی کر رہے تھے۔ جب کہ شہباز گل کی بیماری پر شکوک شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی بات نواز شریف کی بیماری پر مہر تصدیق تحریک انصاف کی حکومت نے لگائی تھی۔ جب وہ بیمار ہوئے تو نیب کی حراست میں تھے۔ نیب کی حوالات میں تھے۔ نیب نے ان کی بیماری پر مہر تصدیق لگائی۔ لوگ شاید بھول جاتے ہیں نواز شریف نیب کی حوالات سے اسپتال جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
شہباز شریف کو حکام نے درخواست کی کہ آپ نیب آئیں اور نواز شریف کو اسپتال جانے کے لیے منائیں۔ پھر جب انھیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا۔ وہاں تحریک انصا ف کی حکومت نے ان کی بیماری کا جائزہ لینے کے لیے بورڈ بنایا۔ تحریک انصاف کی وزیر صحت دن میں تین تین بار نواز شریف کی صحت کے بارے میں اسپتال کے باہر میڈیا سے بات کرتی تھیں۔ اور ان کی خراب صحت کے بارے میں عوام کو اور میڈیا کو بتاتی تھیں۔ نواز شریف اپنے علاج میں تعاون نہیں کر رہے اس لیے ان کی بیٹی کو ان کے ساتھ جیل سے منتقل کیا جائے ، یہ تحریک انصاف کا موقف تھا۔ نواز شریف کا نہیں۔ جیل سے حکومت نے مریم نواز کو اسپتال منتقل کیا۔ اس لیے نواز شریف کی صحت خراب ہے، یہ نواز شریف یا پاکستان مسلم لیگ (ن) کا نہیں تحریک انصاف کا موقف تھا۔ غلط تھا یا درست لیکن اس کی ذمے داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے۔
دوسری طرف شہباز گل قانون کے دائرے میں ابھی بیمار قرار نہیں پائے۔ شہباز گل پر قید کے چار دن اتنے بھاری رہے کہ وہ اسٹریچر پر پہنچ گئے ہیں حالانکہ آصف زرداری کئی برس جیل میں رہے، حمزہ اور شہباز شریف لمبا عرصہ جیل میں رہے، نواز شریف شدید بیماری کی حالت میں جیل میں رہے، مریم نواز جیل میں رہیں، رانا ثنااﷲ جیل میں بند رہے، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خواجہ سعد اور خواجہ سلمان اور خورشید شاہ نے مہینوں جیل کاٹی ہے۔ شہباز گل کو گرفتار ہوئے تو ہفتہ بھی نہیں ہوا، اور وہ اسٹریچر پر آگئے۔ ابھی تو جیل ان کی اپنی پارٹی کی حکومت کے دائرہ اختیار میں تھی۔ اڈیالہ جیل پنجاب حکومت کے ماتحت ہے۔ جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت انھیں جیل میں وی آئی پی طریقہ سے مل رہی تھی۔ اسد عمر ملے۔ عثمان ڈار ملے۔ شنید ہے کہ عمران خان بھی ملنا چاہتے تھے، لیکن ان کے مشیران نے انھیں منع کر دیا کہ آپ شہباز گل سے دور ہی رہیں۔ شہبازگل کی خاطر جیل کا سپریٹنڈنٹ تبدیل کر دیا گیا۔
تحریک انصاف شہباز گل کو قانون سے بچانے کے لیے ان کی باتوں کا موازنہ نواز شریف اور دیگر سیاسی قیادت کی فوجی قیادت کے بارے میں مختلف مواقعے پر دیے گئے بیانات سے کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اب کیوں کی جا رہی ہے۔
پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جا ئے۔ یہ غلط موازنہ ہے۔ نواز شریف اور دیگر نے سیاسی بات کی ہے۔ ادارے کے سیاسی کردار کے بارے میں بات کی ہے۔ نام لے کر ان کے بارے میں بات کی تھی جن کا سیاسی کردار ان کی نظر میں درست نہیں تھا۔ویسے نواز شریف کی تمام باتوں کی آج عمران خان خود تصدیق کر رہے ہیں کہ کیسے ان کی حکومت کو چلانے اور بچانے میں مدد کی جاتی رہی۔ وہ اسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔
کسی نے بھی پاک فوج میں بغاوت کی بات نہیں کی۔ کسی نے بھی فوج کے کمانڈ سسٹم کو نقصان پہنچانے کی بات نہیں کی۔ میری رائے میں کسی ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنا معمول کی قانونی کارروائی ہوتی ہے ، شہباز گل کے ریمانڈ اس طرح ایشو نہیں بننا چاہیے تھا۔ اگر ملزم صاف ہے تو ریمانڈ میں بھی صاف رہے گا، پولیس ریمانڈ اس لیے مانگتی ہے تاکہ کسی معاملے کی تہہ تک پہنچا جاسکے ۔سیدھی سے بات ہے کہ اگر ثبوت نہیں ہوگا تو جرم بھی ثابت نہیں ہوگا، اس لیے ریمانڈ سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔