سندھ توانائی ضروریات کا ضامن
ملک میں پیدا ہونے والی گیس کا لگ بھگ 67 فیصد ہے
قدرت نے پاکستان کو بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے۔ بلند و بالا پہاڑ ، موجیں مارتے سمندر ، لہریں اٹھاتے ہوئے دریا ، سرسبز و شاداب مرغزار ، تہہ در تہہ معدنیات کے خزانوں سے لبریز سرزمین۔ غرض کونسی نعمت ہے ، جس سے اس پاک سرزمین کو سرفراز نہیں کیا گیا۔
ان نعمتوں اور ان وسائل کو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال میں لانا ظاہر ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے۔ اس ضمن میں مختلف منصوبوں پر وسائل کی کمی جیسی دشواریوں کے باوجود مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ کو بھی قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔
یہ صوبہ 2 ہزار ایم ایم سی ایف ڈی سے زائد گیس پیدا کرتا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی گیس کا لگ بھگ 67 فیصد ہے۔ کون جانتا تھا کہ تھر جیسے لق و دق صحرا کی ریت کے نیچے 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور اس کوئلے سے برسہا برس ہزاروں میگاواٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے اور اندھیروں کو اجالوں میں بدلا جاسکتا ہے۔
یہ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور و بہادر بیٹی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت کی بصیرت تھی کہ انھوں نے تھر کے کوئلے کو پاکستان کے توانائی مسائل کا حل قرار دیا اور تھر کول پاور پراجیکٹ کے تصور کی بنیاد رکھی۔ محترمہ بینظیر شہید کی حکومت کے بدلنے اور پھر ان کی شہادت کے بعد تھر پاور پراجیکٹ تعطل کا شکار رہا ، لیکن 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حکومت میں آنے سے تھر کول پاور پراجیکٹ کو نئی زندگی ملی۔ اس بار صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے تھر کول پاور پراجیکٹ کی اہمیت سے ملک کی دیگر جماعتوں کے قائدین اور منتخب نمایندوں کو موثر طور پر آگاہ کیا۔
چنانچہ سب کی تائید و تعاون سے تھرکول پاور پراجیکٹ پر کام شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی ریت تلے دفن کوئلے سے بجلی بنانے کا ایک عظیم الشان پلانٹ کھڑا کردیا گیا۔ اس وقت تھر کے کوئلے سے اینگرو پاور تھر کمپنی لمیٹڈ ، اسلام کوٹ میں 330 میگاواٹ کے 2 پاور پلانٹ سے 660 میگا واٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو سپلائی کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی تھر انرجی لمیٹڈ کا ایک پلانٹ 330 میگاواٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو مہیا کر رہا ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے زیرِ تکمیل منصوبوں میں تھل نووا پاور تھر انرجی لمیٹڈ کا ایک پلانٹ 330 میگاواٹ بجلی اس سال کے اختتام تک نیشنل گرڈ کو دینا شروع کر دے گا۔ اس کے علاوہ تھر کول بلاک 1 پاور کے 660 میگا واٹ کے 2 نئے پاور پلانٹ جن پر تیزی سے کام جاری ہے جون 2023 تک مجموعی طور پر 1320 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو سپلائی کر رہے ہوں گے۔
تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے ان قابلِ تقلید منصوبوں کو روبہ عمل لے آنا دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے پاکستان کی سب سے موثر ہوائی راہداری ( ونڈ کوریڈور) میں چلنے والی تیز ہواؤں کی طاقت کو بجلی میں بدلنے کے لیے ونڈ انرجی منصوبوں پر بھی بہت تیزی سے کام کیا ہے۔
اس وقت تک سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 24 منصوبے فعال ہوچکے ہیں اور 1235 میگا واٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو دے رہے ہیں ، جب کہ 2485 میگاواٹ کے 35 ونڈ انرجی منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں سے 610 میگاواٹ کے 12 منصوبے اس سال کے آخر تک یہ بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کریں گے جب کہ باقی 23 منصوبوں پر کام مختلف مراحل میں ہے۔ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے کل 24 منصوبوں پر اس وقت کام جاری ہے جن سے مجموعی طور پر 1500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ان 24 میں سے 150 میگاواٹ سولر انرجی کے 3 منصوبے صالح پٹ، سکھر میں تکمیل کے قریب ہیں اور اس سال کے آخر تک بجلی پیدا کرنا شروع کر دیں گے جب کہ باقی 21 منصوبوں پر بھی تیزی سے کام کیا جارہا ہے۔
وزیرِ توانائی سندھ امتیاز احمد شیخ کی دانشمندانہ رہنمائی میں محکمہ توانائی سندھ نے کراچی سے روزانہ تقریباً 8 ہزار ٹن سے زائد وزن کے کچرے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کے لیے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں جس کے تحت فی کمپنی 50 میگاواٹ کے 3 منصوبوں سے کل 150 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
یہ منصوبے جام چاکرو میں لگائے جا رہے ہیں ، جن سے نہ صرف یہ کہ بجلی حاصل ہوگی بلکہ شہر سے نکلنے والا ٹنوں کچرا بھی صاف ہوسکے گا۔ توانائی منصوبوں پر قابلِ تقلید کام کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے بجلی کی ترسیل کے لیے سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بھی قائم کی ہے جو گرڈ اسٹیشن اور گرڈ بچھانے کے لیے بھی کام کرے گی۔ مختلف ملکی وسائل اور ذرایع سے بجلی بنانے کے منصوبوں سے جہاں سستی بجلی مہیا ہو رہی ہے ، وہیں درآمدی کوئلے اور تیل سے بجلی بنانے کے مہنگے منصوبوں سے بھی نجات ملنے اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت کا بھی راستہ کھل گیا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیرِ توانائی سندھ امتیاز احمد شیخ نے ایک تاریخی کام یہ بھی کیا ہے کہ تھر کے کوئلے کو ملک کے دیگر کول پاور پلانٹس تک پہنچانے کے لیے تھر کول فیلڈ سے نیشنل ریلوے ٹریک پر چھور کے مقام تک 105 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کی بھی منظوری حاصل کر لی ہے۔ یہ منصوبہ اپنے آغاز کے 14 ماہ میں مکمل ہوگا ، جس کی تکمیل سے ملک کے باقی پاور پلانٹس کو بھی تھر کے کوئلے سے چلایا جانا ممکن ہوگا اور درآمدی کوئلے اور فیول پر خرچ ہونے والے خطیر زر مبادلہ کی بچت ہو سکے گی۔
ان نعمتوں اور ان وسائل کو ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال میں لانا ظاہر ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا دائرہ اختیار ہے۔ اس ضمن میں مختلف منصوبوں پر وسائل کی کمی جیسی دشواریوں کے باوجود مسلسل کام کیا جا رہا ہے۔ ملک کے دیگر صوبوں کی طرح سندھ کو بھی قدرت نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔
یہ صوبہ 2 ہزار ایم ایم سی ایف ڈی سے زائد گیس پیدا کرتا ہے جو ملک میں پیدا ہونے والی گیس کا لگ بھگ 67 فیصد ہے۔ کون جانتا تھا کہ تھر جیسے لق و دق صحرا کی ریت کے نیچے 175 ملین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور اس کوئلے سے برسہا برس ہزاروں میگاواٹ بجلی بنائی جاسکتی ہے اور اندھیروں کو اجالوں میں بدلا جاسکتا ہے۔
یہ پاکستان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور و بہادر بیٹی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی شخصیت کی بصیرت تھی کہ انھوں نے تھر کے کوئلے کو پاکستان کے توانائی مسائل کا حل قرار دیا اور تھر کول پاور پراجیکٹ کے تصور کی بنیاد رکھی۔ محترمہ بینظیر شہید کی حکومت کے بدلنے اور پھر ان کی شہادت کے بعد تھر پاور پراجیکٹ تعطل کا شکار رہا ، لیکن 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حکومت میں آنے سے تھر کول پاور پراجیکٹ کو نئی زندگی ملی۔ اس بار صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے تھر کول پاور پراجیکٹ کی اہمیت سے ملک کی دیگر جماعتوں کے قائدین اور منتخب نمایندوں کو موثر طور پر آگاہ کیا۔
چنانچہ سب کی تائید و تعاون سے تھرکول پاور پراجیکٹ پر کام شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے صحرا کی ریت تلے دفن کوئلے سے بجلی بنانے کا ایک عظیم الشان پلانٹ کھڑا کردیا گیا۔ اس وقت تھر کے کوئلے سے اینگرو پاور تھر کمپنی لمیٹڈ ، اسلام کوٹ میں 330 میگاواٹ کے 2 پاور پلانٹ سے 660 میگا واٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو سپلائی کر رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی تھر انرجی لمیٹڈ کا ایک پلانٹ 330 میگاواٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو مہیا کر رہا ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے زیرِ تکمیل منصوبوں میں تھل نووا پاور تھر انرجی لمیٹڈ کا ایک پلانٹ 330 میگاواٹ بجلی اس سال کے اختتام تک نیشنل گرڈ کو دینا شروع کر دے گا۔ اس کے علاوہ تھر کول بلاک 1 پاور کے 660 میگا واٹ کے 2 نئے پاور پلانٹ جن پر تیزی سے کام جاری ہے جون 2023 تک مجموعی طور پر 1320 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ کو سپلائی کر رہے ہوں گے۔
تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے ان قابلِ تقلید منصوبوں کو روبہ عمل لے آنا دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری، وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے پاکستان کی سب سے موثر ہوائی راہداری ( ونڈ کوریڈور) میں چلنے والی تیز ہواؤں کی طاقت کو بجلی میں بدلنے کے لیے ونڈ انرجی منصوبوں پر بھی بہت تیزی سے کام کیا ہے۔
اس وقت تک سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے 24 منصوبے فعال ہوچکے ہیں اور 1235 میگا واٹ بجلی روزانہ نیشنل گرڈ کو دے رہے ہیں ، جب کہ 2485 میگاواٹ کے 35 ونڈ انرجی منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں سے 610 میگاواٹ کے 12 منصوبے اس سال کے آخر تک یہ بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کریں گے جب کہ باقی 23 منصوبوں پر کام مختلف مراحل میں ہے۔ سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے کے کل 24 منصوبوں پر اس وقت کام جاری ہے جن سے مجموعی طور پر 1500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ ان 24 میں سے 150 میگاواٹ سولر انرجی کے 3 منصوبے صالح پٹ، سکھر میں تکمیل کے قریب ہیں اور اس سال کے آخر تک بجلی پیدا کرنا شروع کر دیں گے جب کہ باقی 21 منصوبوں پر بھی تیزی سے کام کیا جارہا ہے۔
وزیرِ توانائی سندھ امتیاز احمد شیخ کی دانشمندانہ رہنمائی میں محکمہ توانائی سندھ نے کراچی سے روزانہ تقریباً 8 ہزار ٹن سے زائد وزن کے کچرے سے بجلی بنانے کے منصوبوں کے لیے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں جس کے تحت فی کمپنی 50 میگاواٹ کے 3 منصوبوں سے کل 150 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔
یہ منصوبے جام چاکرو میں لگائے جا رہے ہیں ، جن سے نہ صرف یہ کہ بجلی حاصل ہوگی بلکہ شہر سے نکلنے والا ٹنوں کچرا بھی صاف ہوسکے گا۔ توانائی منصوبوں پر قابلِ تقلید کام کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت نے بجلی کی ترسیل کے لیے سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی بھی قائم کی ہے جو گرڈ اسٹیشن اور گرڈ بچھانے کے لیے بھی کام کرے گی۔ مختلف ملکی وسائل اور ذرایع سے بجلی بنانے کے منصوبوں سے جہاں سستی بجلی مہیا ہو رہی ہے ، وہیں درآمدی کوئلے اور تیل سے بجلی بنانے کے مہنگے منصوبوں سے بھی نجات ملنے اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت کا بھی راستہ کھل گیا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وزیرِ توانائی سندھ امتیاز احمد شیخ نے ایک تاریخی کام یہ بھی کیا ہے کہ تھر کے کوئلے کو ملک کے دیگر کول پاور پلانٹس تک پہنچانے کے لیے تھر کول فیلڈ سے نیشنل ریلوے ٹریک پر چھور کے مقام تک 105 کلومیٹر طویل ریلوے لائن بچھانے کی بھی منظوری حاصل کر لی ہے۔ یہ منصوبہ اپنے آغاز کے 14 ماہ میں مکمل ہوگا ، جس کی تکمیل سے ملک کے باقی پاور پلانٹس کو بھی تھر کے کوئلے سے چلایا جانا ممکن ہوگا اور درآمدی کوئلے اور فیول پر خرچ ہونے والے خطیر زر مبادلہ کی بچت ہو سکے گی۔