معیشت کی ترقی کا راز

دنیا بھر کی حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافہ یقینی بناتی ہے

دنیا بھر کی حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافہ یقینی بناتی ہے (فوٹو : فائل)

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے لگژری اور غیر ضروری اشیا کی درآمدت پر عائد پابندی ہٹا رہے ہیں ، تاہم لگژری آئٹمزکی درآمد پر تین گنا یعنی چار سو سے چھ سو فی صد ڈیوٹی عائد کی جائے گی۔

روپے پر دبائو میں کمی آرہی ہے ، ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا اور اپنے وسائل میں رہ کر خرچ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے رہیں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ درآمدات کا حجم ہماری برآمدات اور ترسیلات زر سے زیادہ نہ ہو۔

موجودہ حکومت معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کررہی ہے ، کچھ نتائج تو فوری طور پر ظاہر ہوئے ہیں ، جب کہ کچھ اقدامات کے دور رس نتائج ہونگے ، ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ملک کو اس وقت معاشی بحران کا سامنا ہے۔ ذرایع آمدن محدود اور اخراجات میں اضافے کی وجہ سے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں، ایسے میں اگر پاکستان پر کوئی مشکل آتی ہے تو اس سے صرف حکومت نہیں بلکہ عوام بھی شدید متاثر ہوں گے۔ پاکستان کی ترقی کے امکانات تسلی بخش رہنے کی توقع ہے لیکن ممکنہ خطرات کی تعداد سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔

معیشت کے عدم استحکام کے بارے میں تو بہت کچھ کہا جاتا ہے، مگر اس کا حل آج تک کوئی نہ نکال سکا۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کو ملک چلانے کا فارمولا ملا اور انھوں نے گزشتہ 35 سے 40 سال سے اُسی فارمولے کو اپلائی کر رکھا ہے وہ ہے آئی ایم ایف سے قرض ، مگر افسوس اس بات پہ ہے کہ ہمارے ملک کو بہتر اکانومی پلانر نہ مل سکے تاکہ وہ ملک کی معیشت کو صحیح ڈگر پہ چلانے کے لیے پلاننگ کر سکیں اور اگر پاکستان میں کوئی اس قابل ہے تو اُسے بالکل آگے نہیں آنے دیا جاتا کیونکہ کرسی اور اقتدار چند خاندانوں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

ہمارے ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو دکھائوے کے لیے برانڈڈ اشیا کا استعمال ضرور کیا جاتا ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان اشیاء کے لیے حکومت کو بھاری زرمبادلہ بیرون ممالک کو ادا کرنا پڑتا ہے ، جس کے اثرات ہماری روزمرہ زندگیوں پر بھی ہوتے ہیں ، اگر ہم برانڈڈ اشیاء کے بجائے نسبتاً سستی اور مقامی اشیاء کو ترجیح دیں تو ہماری معاشی مشکلات کافی حد تک کم ہوسکتی ہیں۔

یہاں موضوع سخن لگژری آئٹمز کی درآمدات ہے ، پاکستان میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی اگر آج سے کوشش کرنا شروع کریں تو اپنے ملک کو مشکل صورتحال سے بچاسکتے ہیں۔ پاکستان کو پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر سالانہ 17 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے لیکن ہم تھوڑی سی کوشش سے گاڑی کا استعمال کم کر کے حکومت کو سالانہ 300 ڈالر تک یعنی گاڑی استعمال کرنے والا ہر شہری تقریباً 60 ہزار روپے کا فائدہ پہنچا سکتا ہے، جس سے ہمارا امپورٹ بل کم ہوگا اور پاکستان کو ادائیگی کے لیے درپیش مشکلات میں بھی کمی ہوگی۔

پاکستان میں مہنگے موبائل فونز رکھنا ایک فیشن بن چکا ہے اور لوگ نئے نئے ماڈلز کے موبائل فونز خریدنا پسند کرتے ہیں لیکن یہ جان لیں کہ بیرون ممالک سے موبائل فونز امپورٹ کرنا بھی پاکستان کی معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ ملک میں گزشتہ سال تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر کے موبائل فونز درآمد کیے گئے۔ عوام مہنگے فونز کی خریداری کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے روک کر پاکستان کو بھاری بلز کی ادائیگی سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک طرف کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہیں تو دوسری طرف پٹرول کی قیمت بھی قابو میں آنا مشکل ہے ایسے میں ملک میں مہنگی گاڑیاں منگوانا کسی بھی طرح دانشمندانہ اقدام نہیں ہوسکتا۔

پاکستان نے گزشتہ سال ڈھائی ارب ڈالر سے زائد کی گاڑیاں امپورٹ کیں، اگر پاکستانی عوام بحران کے دوران غیرضروری گاڑیاں منگوانا بند کردیں تو ملک پر معاشی دبائو کم ہوسکتا ہے۔ پاکستانی عوام چائے کے بہت زیادہ شوقین ہیں اور یہاں چائے کے بغیر ہر محفل ادھوری سمجھی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پوری دنیا میں چائے کی پتی درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے اور پاکستانیوں کے چائے کے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے حکومت کو سالانہ تقریباً 600 ملین ڈالر تک خرچ کرنا پڑتے ہیں جو کہ پاکستانی کرنسی میں120ارب روپے سے زائد بنتے ہیں لیکن اگر عوام چائے کا استعمال کم کردیتے ہیں تو پاکستان کا درد سر کم ہوسکتا ہے۔

پاکستان میں خوردنی تیل بھی پٹرول کی طرح معیشت پر بہت بھاری پڑتا ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ملکی ضرورت کا صرف10فیصد مقامی جب کہ 90 فیصد خوردنی تیل بیرون ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے حکومت کو تقریباً 4ارب ڈالر تک ادا کرنا پڑتے ہیں، لیکن مہنگے اور امپورٹڈ تیل کا استعمال کم کرکے ڈالرز کو ملک سے باہر جانے سے روکا جاسکتا ہے۔


پاکستان میں بجلی کی پیداوار کے لیے بھی تیل اور گیس کا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور بدقسمتی سے پاکستان تیل اور گیس دونوں چیزوں کے لیے خود کفیل نہیں ہے بلکہ تیل اور گیس درآمد کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بہت بڑھ جاتا ہے لیکن اگر عوام بتدریج بجلی کا استعمال کم کرکے سولر سسٹم کی طرف جاتے ہیں تو بجلی کی پیداوار کے لیے تیل اور گیس کا استعمال کم ہوسکتا ہے جو معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔

پاکستان میں معاشی بحران کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ایسے میں اگر شہری بڑی تعداد میں بیرون ممالک کا سفر کرتے ہیں تو اس کے لیے بھی ڈالرز میں ادائیگی کرنا پڑتی ہے جس سے ملک کو مزید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، خصوصاً سیر و تفریح کے لیے جانے والے باہر سے زیادہ پاکستان میں سیر و تفریح کو ترجیح دیں تو اس سے نا صرف ملک میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ ڈالرز کو بیرون ملک جانے سے روکا سکتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں آن لائن کام کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور بھارت آن لائن خدمات کی فراہمی کے عوض کروڑوں ڈالرز کما رہا ہے جب کہ ہمارے نوجوان بھی درست رہنمائی نہ ہونے کے باوجود ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی بہت زیادہ ضرورت ہے، اگر ہم آن لائن کام کرنے کی کوشش کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈالرز پاکستان کے سسٹم میں شامل ہوں اور ہمارا ملک معاشی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔

ہمیں غیر ضروری سرمایہ کاری درآمدی اشیاء پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کرنے کے بجائے ملکی صنعتوں کو ترقی دینی چاہیے مگر اس طرف بھی ہمارے سیاسی رہنمائوں کی توجہ نہیں ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی کا راز زیادہ تر اُس ملک کی صنعتوں پہ ہوتا ہے، ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ تمام سیاسی رہنمائوں نے سیاسی رسہ کشی میں اس قدر الجھا لیا ہے کہ ہمارے تمام ادارے سیاسی ہو چکے ہیں جس کا سب سے بڑا نقصان ملکی معیشت اور عام عوام کو پہنچ رہا ہے۔

وطن عزیز میں بائیس کروڑ سے زائد صارفین کی ایک بڑی منڈی ہے، مگر ہمارے ملک میں کام کرنے والی متعدد غیر ملکی کمپنیاں بھی ملک کے اندر پراڈکٹ تیار کرنے کے بجائے درآمدی مصنوعات بیچتی ہیں۔ حیران کن طور پہ بہت سی اشیاء جو پاکستان میں بہتر طور پہ تیار کی جا سکتی ہیں ان اشیاء کی تیاری کی جانب توجہ دینے کے بجائے درآمدات کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں روپے کی صورتحال میں مستقل طور پہ نمایاں بہتری کا امکان کم ہی رہ جاتا ہے۔

دنیا بھر کی حکومتیں اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافہ یقینی بناتی ہے ، اور اس میں صف اول کی ترقی یافتہ دنیا کی تخصیص نہیں ہمارے خطے کے اکثر ممالک اسی راستے پہ چل رہے ہیں وہ ممالک اپنی افرادی قوت اور مہارتوں سے لے کر مصنوعات اور خام مال کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کے لیے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ، مگر ہمارے ملک میں توانائی کے وسائل یا مشینری وغیرہ تو رہی ایک طرف ، خوراک پہ بھی سالانہ 10ارب ڈالر خرچ کر دیے جاتے ہیں، جب کہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔

بجائے اس کے کہ اُس پہ توجہ دی جائے پلاننگ کی جائے یہ سیکٹر بھی عدم توجہی کا شکار ہے۔ روپے کی قدر کا تعلق اگر درآمدی ادائیگیوں کے ساتھ ہے تو درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کے ذریعے روپے کو مضبوط کرنا چاہیے اور یہ مختصر مدتی یا طویل مدتی نہیں بلکہ مستقل پالیسی ہونی چاہیے۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ کی وجہ سے اس سے منسلک روز مرہ استعمال کی 400 سے زائد اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے مافیا نے مہنگائی کا جو نیا طوفان برپا کیا ہے اس سے عوام کی نیندیں اُڑ گئی ہیں، جب کہ اشرافیہ مزے میں ہے۔ ایک عام آدمی اکانومی کے اتار چڑھائو کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا وہ صرف یہ علم رکھتا ہے کہ اس کی گزر اوقات با آسانی ہو رہی ہے یا نہیں؟

حکومت کی پہلی آئینی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھے اور ان کو اس حد تک نہ بڑھنے دے کہ وہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے لگیں۔ افسوس کہ آج تک معاشی پالیسی بنانے والوں میں شاذ ہی کوئی فرد ایسا ہوگا جس کو معلوم ہو کہ بھوک اور مہنگائی کیا ہوتی ہے ؟ آج تک جتنی بھی معاشی پالیسیاں بنیں ، وہ عام آدمی کے پیٹ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر مرتب نہیں کی گئیں۔ 75 سالوں کی بجٹ دستاویزات اُٹھا کر پڑھ لیں۔ الفاظ خوشنما ، وعدے انتہائی دلفریب اور بجٹ کی زبان دل لبھانے والی۔ اصل میں ہماری ترجیحات بدل گئیں اس لیے معاش سکڑ گیا، اگر حکمران عوام کی تکلیف کو دل سے دور کرنے کا ارادہ کر لیں نیت باندھ لیں تو کچھ بھی نا ممکن نہیں۔
Load Next Story