اسلامی سرٹیفکیٹ

وزیر اعظم، صدر پاکستان بھی سینئر سٹیزنز میں آتے ہیں عمر رسیدہ افراد کے لیے مثبت قدم اٹھائیں

meemsheenkhay@gmail.com

قارئین ! راقم الحروف نے 2016 میں ایک آرٹیکل سینئر سٹیزن کے لیے لکھا تھا کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا جائے۔ اس وقت کے چیف جسٹس جواد احمد نے روزنامہ ایکسپریس کا نام لیتے ہوئے راقم کے آرٹیکل کا تذکرہ کیا تھا جسے بہت سے اخبارات نے پرنٹ بھی کیا۔

مزید انھوں نے کہا تھا کہ بزرگوں کے لیے واقعی قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا ہونا چاہیے مگر ہماری سیاسی شخصیات مثبت تحریر کو نظرانداز کر دیتے ہیں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے سیاسی فائدہ نہیں ہوگا ، وہ اس تحریر پر توجہ نہیں دیتے مگر ہماری سیاسی شخصیات نیک جذبوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔

یہ کسی المیے سے کم نہیں ، مگر جس بات کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا جائے تو پھر فیصلہ تو رب کرتا ہے بس جذبے نیک ہونے چاہئیں، اگر ہم صراط مستقیم کا راستہ اختیار نہ کریں تو ہمارے غلط فیصلے ہمیں نیکی کی سیڑھی سے اتار دیتے ہیں مگر ہمیں دل میں اچھی امیدوں کے چراغوں کو بجھانا نہیں ہے بلکہ رب ذوالجلال کے احکامات کی روشنی میں بحث و مباحثہ کرنا چاہیے۔

ہمیں اس بگڑے ہوئے نظام میں اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دلائل دینے چاہئیں۔خداداد میں روزنامہ ایکسپریس کے توسط سے اس اعزاز و اکرام کو روزنامہ ایکسپریس کے نام کیا کہ محکمہ قومی بچت نے سرمایہ کاری کے لیے اسلامی ٹرم ڈپازٹس اسکیمز متعارف کرا دی ہے ، دکھ تو اس بات کا ہے کہ مذہبی جماعتوں نے کبھی اس موضوع پر توجہ نہیں دی حالانکہ یہ ان کا مذہبی اور اخلاقی فرض تھا جو سیاسی مذہبی جماعتیں ہیں راقم نے تو ماضی میں ان سے بھی مودبانہ گزارش کی تھی کہ اس مسئلے پر توجہ دیں مگر افسوس کہ اس پر توجہ نہیں دی گئی۔

میں ذاتی طور پر ایسے عمر رسیدہ افراد کو جانتا ہوں جنھوں نے ساری عمر نیکی، ہمت و استقامت سے گزاری، ان میں ریٹائرڈ پنشنرز، انکم ٹیکس کمشنر، پروفیسرز، ادیب، جج، گریڈ22 کے افسران، جرنلسٹ غرض مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کی آنکھوں میں نمی دیکھی کہ ساری عمر نیکی کے ساتھ اکتاہٹ کا سفر ہیجانی کیفیت ذہنی افراتفری اور معاشرے کی کانٹوں بھری پیچیدگیاں دیکھیں مگر کبھی رشوت اور معاشی مسائل کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا بلکہ عزم و استقلال سے اس پاکستان اور اسلام کے لیے تہذیب و شائستگی سے زندگی کا سفر طے کیا۔

ماضی میں ان بزرگوں نے بہت تکلیفیں اٹھائیں ، نجی بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ نہ ہونے کے برابر دے رہے تھے۔ بینکوں نے جب نیکی کا اجرا کیا ہی تھا تو سود کے خاتمے کے لیے اچھا قدم اٹھاتے تاکہ لوگ اس پر توجہ دیتے مگر انھوں نے اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر اونٹ کے منہ میں زیرہ دے دیا جب کہ برائی کو چھوڑنے کی خوشی میں بہتر معاوضہ دیتے مگر ایک لاکھ پر 400 یا 500 روپے تک دیتے رہے راقم نے لکھا بھی اگر کوئی ایک بینک بہتر معاوضہ دے تو مقابلے کی دوڑ شروع ہوگی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟


مقابلے کی دوڑ کا تذکرہ آگے کروں گا۔ گزشتہ 30 سال میں اس پاکستان میں صرف ایک وزیر اعظم ایسے آئے کہ قوم ان کو ہمیشہ یاد رکھے گی وہ جنتی انسان تھے جو نگران حکومت کے وزیر اعظم تھے ملک معراج خالد مرحوم (میں انھیں شیخ لکھوں گا) وہ سیاسی شہید نہیں تھے حقیقی شہید تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد سے ایوان وزیر اعظم ہاؤس جا رہے تھے پولیس نے ٹریفک روک دی اس میں ان کی گاڑی بھی روک دی گئی جب کہ وہ وزیر اعظم تھے بہت بھولے اور معصوم انسان تھے انھوں نے سپاہی کو اشارے سے بلایا اور پوچھا کہ '' یہ گاڑیاں کیوں روک رکھی ہیں؟''

سپاہی نے کہا''جناب وزیر داخلہ گزرنے والے ہیں'' جب کہ ان کی گاڑی پر فلیگ تھا اور ایک موبائل تھی۔ یہ حال تھا ان کی وزارت کا یہ واقعہ مجھے ایک اعلیٰ آفیسر نے سنایا تھا جو اب دنیا میں نہیں رہے۔ اسلام آباد کے علاقے آب پارہ میں بحیثیت وزیر اعظم ہونے کے باوجود گاڑی سے اترے اور ایک مارکیٹ میں چلے گئے ٹوپی خریدنے کے لیے ، سادگی کا یہ عالم تھا کہ پی ٹی وی پر آنا پسند نہیں کرتے تھے، اس مارکیٹ میں ایک عورت نے انھیں پہچان لیا جو کسی کالج کی ریٹائرڈ پروفیسر تھیں ، انھوں نے معراج خالد سے کہا کہ '' آپ وزیر اعظم ہیں ہم عمر رسیدہ لوگ ہیں جو پنشن ملتی ہے اس سے گزارا نہیں ہوتا بقایا جات جو ملے تھے وہ قومی بچت میں ڈال دیے وہاں پرافٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔''

انھوں نے جیب سے ڈائری نکالی تحریری طور پر نوٹ کیا اور '' کہا بہن! آپ فکر نہ کریں اگلے ماہ سے بہتر پرافٹ آپ عمر رسیدہ لوگوں کو ملے گا غالباً اس زمانے میں 880 روپے ملتے تھے انھوں نے اگلے ماہ ہی سے سینئر سٹیزن کے ماہانہ 1500کر دیے۔'' اب تو سیاست میں ایسے لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے چراغ بجھ چکے ہیں، ماضی میں کئی وزیر خزانہ اور بیشتر علما سے درخواست کرتا رہا کہ قومی بچت میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیجیے مگر افسوس کہ اس پر کسی نے توجہ نہیں دی ایک ماہ قبل بھی روزنامہ ایکسپریس میں راقم کے آرٹیکل جو عمر رسیدہ افراد کے لیے تھا پرنٹ ہوا اور پھر 6 اگست کے اخبارات میں یہ خبر شایع ہوئی کہ عمر رسیدہ افراد کے لیے محکمہ قومی بچت نے سرمایہ کاری کے لیے اسلامی ٹرم ڈپازٹس اسکیمز متعارف کرادی ہے۔

یہ روزنامہ ایکسپریس کا اعزاز ہے کہ اس نے عمر رسیدہ افراد کی دل جوئی کے لیے راقم کے ہر آرٹیکل جو خصوصی طور پر عمر رسیدہ افراد کے لیے تھا کو نمایاں جگہ دی۔ ان سرٹیفکیٹ کے اعلان کے بعد بہت سے قارئین گرامی نے روزنامہ ایکسپریس کو مبارک باد دی بزرگوں میں جو تشویش کی لہر پائی جا رہی تھی اس کا خاتمہ ہوا، اسلامی سرٹیفکیٹ قومی بچت میں 3 سالہ اسلامک ٹرمز اکاؤنٹ کے تحت شرح منافع 13.28 فیصد ایک لاکھ پر ملے گا اور 5 سالہ شرح منافع پر 12.60 فیصد ملے گا۔ 13.28 فیصد پر ماہانہ 1106 روپے ملیں گے۔

ابھی صرف اعلان ہوا ہے اور بہت جلد عمل ہونے والا ہے وہ نجی بینک جو ایک لاکھ پر 500 یا 490 روپے دے رہے تھے مقابلے کی دوڑ کو دیکھتے ہوئے اب نجی بینک حرکت میں آچکے ہیں اور یہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جب مقابلے کی دوڑ ہوگی تو نجی بینک بھی توجہ دیں گے ماضی میں عمر رسیدہ افراد اپنے مقدس دامن کو سود سے صرف اس لیے رنگ رہے تھے کہ ان کے پاس اس بانجھ سفر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

اب بھی اسلامی ٹرم ڈپازٹس اسکیمز میں پرافٹ بہت کم ہے یہ عام پبلک کے لیے ہے قومی بچت کو چاہیے کہ سینئر سٹیزن کے لیے علیحدہ سے ان سرٹیفکیٹ کا اچھے معاوضے پر اجرا کریں تاکہ ان عمر رسیدہ افراد کی زندگی پرسکون گزرے کیونکہ اس قلیل آمدنی میں یہ عمر رسیدہ افراد جس میں کینسر، ہارٹ سرجری اور دیگر بیماریوں کے علاج کیسے کراسکیں گے اگر وہ اس میں مبتلا ہوں کیونکہ مہنگائی نے جان عذاب کردی ہے جو عمر رسیدہ افراد ریٹائرڈ ہوئے ان میں بیشتر افراد اپنی بیٹیوں کی شادی کے منتظر ہیں حکومت وقت کو چاہیے کہ سرکاری نوکری سے جو لوگ ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔ ان کے لیے شادی فنڈ کا اجرا کریں اور کم معاوضے پر انھیں 8 لاکھ تک قرض دیا جائے تاکہ وہ اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوسکیں۔

ساری اسمبلیاں سینئر سٹیزن سے بھری ہوئی ہیں، وزیر اعظم، صدر پاکستان بھی سینئر سٹیزنز میں آتے ہیں عمر رسیدہ افراد کے لیے مثبت قدم اٹھائیں میں نے پہلے بھی لکھا تھا اب پھر لکھ رہا ہوں کہ ای او بی آئی میں 15000روپے دیں، کیونکہ ان عمر رسیدہ افراد کو پنشن نہیں ملتی ہے عمران خان نے 5250روپے جو سالوں دیے گئے انھیں 8500 میں تبدیل کیا اور آج عمر رسیدہ افراد ان کے اس اقدام سے خوش ہیں۔
Load Next Story